Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی ذات مقدسہ کے لئے تسبیح وتحمید ہے، جس سے مقصد اپنے بندوں کی رہنمائی ہے کہ ان اوقات میں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور جو اس کے کمال قدرت و عظمت پر دلالت کرتے ہیں، اس کی تسبیح وتحمید کیا کرو۔ شام کا وقت رات کی تاریکی کا پیش خیمہ اور سپیدہ سحر دن کی روشنی کا پیامبر ہوتا ہے۔ عشاء شدت تاریکی کا اور ظہر خوب روشن ہوجانے کا وقت ہے۔ پس وہ ذات پاک ہے جو ان سب کی خالق اور جس نے ان تمام اوقات میں الگ الگ فوائد رکھے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تسبیح سے مراد، نماز ہے اور دونوں آیات میں مذکور اوقات پانچ نمازوں کے اوقت ہیں۔ تمسون میں مغرب و عشاء، تصبحون میں نماز فجر، عشیا (سہ پہر) میں عصر اور تظہرون میں نماز ظہر آجاتی ہے۔ ایک ضعیف حدیث میں ان دونوں آیات کو صبح وشام پڑھنے کی یہ فضیلت بیان ہوئی ہے کہ اس سے شب و روز کی کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔ : اس آیت میں ” وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ “ کا تعلق ” فسبحن اللہ “ کے ساتھ ہے۔ مسلسل عبارت یوں ہے : ” فَسُبْحَان اللّٰہِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ وَ عَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْھِرُوْنَ ۔ “ ” وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ “ کا جملہ درمیان میں معترضہ ہے، یعنی صرف یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، بلکہ یہ بھی ہے کہ ہر خوبی کا مالک بھی وہی ہے، آسمانوں میں اور زمین میں جہاں بھی خوبی کی کوئی بات ہے اس خوبی کا مالک اور اس پر حمد کا حق دار اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ سو تسبیح کے ساتھ تحمید کا فریضہ بھی ادا کرو۔- 3 نمازوں کے یہ پانچوں اوقات نظام عالم میں روزانہ برپا ہونے والی پانچ تبدیلیوں کے مطابق رکھے گئے ہیں۔ شام کو آفتاب عالم تاب غروب ہوتا ہے، دن کی حکومت ختم ہوتی ہے، اس وقت نماز مغرب کا حکم ہے، پھر عشاء تک شفق کا راج ہوتا ہے۔ شفق غروب ہونے کے ساتھ سورج کا بقیہ اثر بھی ختم ہو کر رات کا اندھیرا مکمل ہوجاتا ہے، جس پر عشاء کی نماز کا حکم ہے۔ طلوع فجر کے ساتھ رات اپنا دامن سمیٹتی ہے، اس وقت فجر کی نماز کا حکم ہے۔ پھر سورج کی روشنی اور گرمی جب اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو ظہر کا حکم ہے اور آفتاب کی حرارت اور روشنی کمال کے بعد زردی میں بدلنا شروع ہوتی ہے تو عصر کی نماز کا حکم ہے۔ گویا ہر انقلاب عالم پر انقلاب لانے والے کے حضور سجدہ ریز ہونے کا حکم ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَہُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْہِرُوْنَ۝ ١٨- حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - عشا - العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، - ( ع ش ی ) العشی - زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔- العشاء - ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔- ظَاهَرَ- وظَهَرَ الشّيءُ أصله : أن يحصل شيء علی ظَهْرِ الأرضِ فلا يخفی، وبَطَنَ إذا حصل في بطنان الأرض فيخفی، ثمّ صار مستعملا في كلّ بارز مبصر بالبصر والبصیرة . قال تعالی: أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر 26] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف 33] ، إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] ، يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم 7] ، أي : يعلمون الأمور الدّنيويّة دون الأخرويّة، والعلمُ الظَّاهِرُ والباطن تارة يشار بهما إلى المعارف الجليّة والمعارف الخفيّة، وتارة إلى العلوم الدّنيوية، والعلوم الأخرويّة، وقوله : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] ، وقوله : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] ، أي : كثر وشاع، وقوله : نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان 20] ، يعني بالظَّاهِرَةِ : ما نقف عليها، وبالباطنة : ما لا نعرفها، وإليه أشار بقوله : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل 18] ، وقوله : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ 18] ، فقد حمل ذلک علی ظَاهِرِهِ ، وقیل : هو مثل لأحوال تختصّ بما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، وقوله : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن 26] ، أي : لا يطلع عليه، وقوله : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة 33] ، يصحّ أن يكون من البروز، وأن يكون من المعاونة والغلبة، أي : ليغلّبه علی الدّين كلّه . وعلی هذا قوله : إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ- [ الكهف 20] ، وقوله تعالی: يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر 29] ، فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف 97] ، وصلاة الظُّهْرِ معروفةٌ ، والظَّهِيرَةُ : وقتُ الظُّهْرِ ، وأَظْهَرَ فلانٌ: حصل في ذلک الوقت، علی بناء أصبح وأمسی «4» . قال تعالی:- وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم 18]- ظھر الشئی کسی چیز کا زمین کے اوپر اس طرح ظاہر ہونا کہ نمایاں طور پر نظر آئے اس کے بالمقابل بطن کے معنی ہیں کسی چیز کا زمین کے اندر غائب ہوجانا پھر ہر وہ چیز اس طرح پر نمایاں ہو کہ آنکھ یابصیرت سے اس کا ادراک ہوسکتا ہو اسے ظاھر کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر 26] یا ملک میں فساد ( نہ ) پیدا کردے ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف 33] ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] مگر سرسری سی گفتگو ۔ اور آیت کریمہ : يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم 7] یہ دنیا کی ظاہری زندگی ہی کو جانتے ہیں کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ صرف دنیو یامور سے واقفیت رکھتے ہیں اخروی امور سے بلکل بےبہر ہ ہیں اور العلم اظاہر اور الباطن سے کبھی جلی اور خفی علوم مراد ہوتے ہیں اور کبھی دنیوی اور اخروی ۔ قرآن پاک میں ہے : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] جو اس کی جانب اندورنی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب ۔ اور آیت کریمہ : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ۔ میں ظھر کے معنی ہیں زیادہ ہوگیا اور پھیل گیا اور آیت نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان 20] اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں ۔ میں ظاہرۃ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکتی ہیں اور باطنۃ سے وہ جو ہمارے علم سے بلا تر ہیں چناچہ اسی معنی کی طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ اور آیت کریمہ : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ 18] کے عام معنی تو یہی ہیں کہ وہ بستیاں سامنے نظر آتی تھیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بطور مثال کے انسانی احوال کیطرف اشارہ ہو جس کی تصریح اس کتاب کے بعد دوسری کتاب ہیں ) بیان کریں گے انشاء اللہ ۔ اظھرہ علیہ اسے اس پر مطلع کردیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن 26] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اپنے غائب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا اور آیت کریمہ : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة 33] میں یظھر کے معنی نمایاں کرنا بھی ہوسکتے ہیں اور معاونت اور غلبہ کے بھی یعنی تمام ادیان پر اسے غالب کرے چناچہ اس دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر 29] اے قوم آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو ۔ فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف 97] پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس کے اوپر چڑھ سکیں ۔ صلاۃ ظھر ظہر کی نماز ظھیرۃ ظہر کا وقت ۔ اظھر فلان فلاں ظہر کے وقت میں داخل ہوگیا جیسا کہ اصبح وامسیٰ : صبح اور شام میں داخل ہونا ۔ قرآن پاک میں ہے : وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم 18] اور آسمان اور زمین میں اسی کیلئے تعریف ہے اور سہ پہر کے وقت بھی اور جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

تمام آسمان اور زمین والوں پر اسی کا شکر و اطاعت واجب ہے اور اسی طرح نماز ظہر اور عصر کی نماز کے ذریعے سے بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کیا کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (وَلَہُ الْحَمْدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِیًّا وَّحِیْنَ تُظْہِرُوْنَ ) ” - ان دونوں آیات میں صبح ‘ شام ‘ رات اور دن ڈھلنے کے اوقات کا ذکر کر کے پانچوں نمازوں کے اوقات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 24 اس آیت میں نماز کے چار اوقات کی طرف صاف اشارہ ہے ۔ فجر ، مغرب ، عصر اور ظہر ۔ اس کے علاوہ مزید اشارات جو قرآن مجید میں اوقات نماز کی طرف کیے گئے ہیں ، حسب ذیل ہیں: اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ ( نبی اسرائیل ، آیت 78 ) نماز قائم کرو آفتاب ڈھلنے کے بعد سے رات کی تاریکی تک ، اور فجر کے وقت قرآن پڑھنے کا اہتمام کرو ۔ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ( ہود ، آیت 114 ) اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا ۚ وَمِنْ اٰنَاۗئِ الَّيْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّهَارِ ( طہ ، آیت 130 ) اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اور رات کی کچھ گھڑیوں میں پھر تسبیح کرو ، اور دن کے کناروں پر ۔ ان میں سے پہلی آیت بتاتی ہے کہ نماز کے اوقات زوال آفتاب کے بعد سے عشا تک ہیں ، اور اس کے بعد پھر فجر کا وقت ہے ۔ دوسری آیت میں دن کے دونوں سروں سے مراد صبح اور مغرب کے اوقات ہیں اور کچھ رات گزرنے پر سے مراد عشا کا وقت ۔ تیسری آیت میں قبل طلوع آفتاب سے مراد فجر اور قبل غروب سے مراد عصر ۔ رات کی گھڑیوں میں مغرب اور عشا دونوں شامل ہیں ۔ اور دن کے کنارے تین ہیں ، ایک صبح ، دوسرے زوال آفتاب ، تیسرے مغرب ۔ اس طرح قرآن مجید مختلف مقامات پر نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف اشارہ کرتا ہے جن پر آج دنیا بھر کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں ۔ لیکن ظاہر ہے کہ محض ان آیات کو پڑھ کر کوئی شخص بھی اوقات نماز متعین نہ کرسکتا تھا جب تک کہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے معلم قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے قول اور عمل سے ان کی طرف رہنمائی نہ فرماتے ۔ یہاں ذرا تھوڑی دیر ٹھہر کر منکرین حدیث کی اس جسارت پر غور کیجیے کہ وہ نماز پڑھنے کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نماز جو آج مسلمان پڑھ رہے ہیں یہ سرے سے وہ چیز ہی نہیں ہے جس کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے ۔ ان کا ارشاد ہے کہ قرآن تو اقامت صلوۃ کا حکم دیتا ہے اور اس سے مراد نماز پڑھنا نہیں بلکہ نظام ربوبیت قائم کرنا ہے ۔ اب ذرا ان سے پوچھیے کہ وہ کون سا نرالا نظام ربوبیت ہے جسے یا تو طلوع آفتاب سے پہلے قائم کیا جاسکتا ہے یا پھر زوال آفتاب کے بعد سے کچھ رات گزرنے تک؟ اور وہ کون سا نظام ربوبیت ہے جو خاص جمعہ کے دن قائم کیا جانا مطلوب ہے؟ اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ ( الجمعہ ، آیت 9 ) اور نظام ربوبیت کی آخر وہ کون سی خاص قسم ہے کہ اسے قائم کرنے کے لیے جب آدمی کھڑا ہو تو پہلے منہ اور کہنیوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لے اور سر پر مسح کرلے ورنہ وہ اسے قائم نہیں کرسکتا ؟ اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ ( المائدہ ، آیت 6 ) اور نظام ربوبیت کے اندر آخر یہ کیا خصوصیت ہے کہ اگر آدمی حالت جناب میں ہو تو جب تک وہ غسل نہ کرلے اسے قائم نہیں کرسکتا ؟ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ( النساء ، آیت 43 ) اور یہ کیا معاملہ ہے کہ اگر آدمی عورت کو چھو بیٹھا ہو اور پانی نہ ملے تو اس عجیب و غریب نظام ربوبیت کو قائم کرنے کے لیے اسے پاک مٹی پر ہاتھ مار کر اپنے چہرے اور منہ پر ملنا ہوگا ؟ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ ( المائدہ ، آیت 6 ) اور یہ کیسا عجیب نظام ربوبیت ہے کہ اگر سفر پیش آجائے تو آدمی اسے پورا قائم کرنے کے بجائے آدھا ہی قائم کرلے؟ وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ( النساء ، آیت 101 ) پھر یہ کیا لطیفہ ہے کہ اگر جنگ کی حالت ہو تو فوج کے آدھے سپاہی ہتھیار لیے ہوئے امام کے پیچھے نظام ربوبیت قائم کرتے رہیں اور آدھے دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہیں ، اس کے بعد جب پہلا گروہ امام کے پیچھے نظام ربوبیت قائم کرتے ہوئے ایک سجدہ کر لے تو وہ اٹھ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے چلا جائے اور دوسرا گروہ اس کی جگہ آکر امام کے پیچھے اس نظام ربوبیت کو قائم کرنا شروع کردے وَاِذَا كُنْتَ فِيْهِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَاۗىِٕفَةٌ مِّنْھُمْ مَّعَكَ وَلْيَاْخُذُوْٓا اَسْلِحَتَھُمْ ۣفَاِذَا سَجَدُوْا فَلْيَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَاۗىِٕكُمْ ۠ وَلْتَاْتِ طَاۗىِٕفَةٌ اُخْرٰى لَمْ يُصَلُّوْا فَلْيُصَلُّوْا مَعَكَ ( النساء ، آیت 102 ) قرآن مجید کی یہ ساری آیات صاف بتا رہی ہیں کہ اقامت صلوۃ سے مراد وہی نماز قائم کرنا ہے جو مسلمان دنیا بھر میں پڑھ رہے ہیں ، لیکن منکرین حدیث ہیں کہ خود بدلنے کے بجائے قرآن کو بدلنے پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص اللہ تعالی کے مقابلے میں بالکل ہی بے باک نہ ہوجائے وہ اس کے کلام کے ساتھ یہ مذاق نہیں کرسکتا جو یہ حضرات کر رہے ہیں ۔ یا پھر قرآن کے ساتھ یہ کھیل وہ شخص کھیل سکتا ہے جو اپنے دل میں اسے اللہ کا کلام نہ سمجھتا ہو اور محض دھوکا دینے کے لیے قرآن قرآن پکار کر مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہو ۔ ( اس سلسلہ میں آگے حاشیہ 50 بھی ملاحظۃ ہو )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani