فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَيَغْلِبُوْنَ ٣ۙ- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] ،- دنا - اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔
فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَہُمْ مِّنْم بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوْنَ ) ” ۔ “- نقشے میں دیکھیں تو جزیرہ نمائے عرب کے اوپر شمال کی سمت میں شام ہے جبکہ شام کے ساتھ ہی نیچے عراق اور پھر عراق کے ساتھ مشرق کی سمت میں ایران واقع ہے۔ چناچہ جزیرہ نمائے عرب کی سرحد پر واقع ان علاقوں کو قریب کی سرزمین کہا گیا ہے جہاں ایرانیوں اور رومیوں کے درمیان مذکورہ جنگ جاری تھی۔
سورة الروم حاشیہ نمبر :1 ابن عباس رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ و تابعین کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ روم و ایران کی اس لڑائی میں مسلمانوں کی ہمدردیاں روم کے ساتھ اور کفار مکہ کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں ۔ اس کے کئی وجوہ تھے ۔ ایک یہ کہ ایرانیوں نے اس لڑائی کو مجوسیت اور مسیحیت کی لڑائی کا رنگ دے دیا تھا اور وہ ملک گیری کے مقصد سے تجاوز کر کے اسے مجوسیت پھیلانے کا ذریعہ بنا رہے تھے ۔ بیت المقدس کی فتح کے بعد خسرو پرویز نے جو خط قیصر روم کو لکھا تھا اس میں صاف طور پر وہ اپنی فتح کو مجوسیت کے برحق ہونے کی دلیل قرار دیتا ہے اصولی اعتبار سے مجوسیں کا مذہب مشرکین مکہ کے مذہب سے ملتا جلتا تھا ، کیونکہ وہ بھی توحید کے منکر تھے ، دو خداؤں کا مانتے تھے اور آگ کی پرستش کرتے تھے ۔ اس لیے مشرکین کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں ۔ ان کے مقابلہ میں مسیحی خواہ کتنے ہی مبتلائے شرک ہوگئے ہوں ، مگر وہ خدا کی توحید کو اصل دین مانتے تھے ، آخرت کے قائل تھے ، اور وحی و رسالت کو سرچشمہ ہدایت تسلیم کرتے تھے ۔ اس بنا پر ان کا دین اپنی اصل کے اعتبار سے مسلمانوں کے دین سے مشابہت رکھتا تھا ، اور اسی لیے مسلمان قدرتی طور پر ان سے ہمدردی رکھتے تھے اور ان پر مشرک قوم کا غلبہ انہیں ناگوار تھا ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ایک نبی کی آمد سے پہلے جو لوگ سابق نبی کو مانتے ہوں وہ اصولا مسلمان ہی کی تعریف میں آتے ہیں اور جب تک بعد کے آنے والے نبی کی دعوت انہیں نہ پہنچے اور وہ اس اک انکار نہ کردیں ، ان کا شمار مسلمانوں ہی میں رہتا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ قصص ، حاشیہ 73 ) اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر صرف پانچ چھ برس ہی گزرے تھے ، اور حضور کی دعوت ابھی تک باہر نہیں پہنچی تھی ، اس لیے مسلمان عیسائیوں کا شمار کافروں میں نہیں کرتے تھے ۔ البتہ یہودی ان کی نگاہ میں کافر تھے ، کیونکہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت کا انکار کرچکے تھے ، تیسری وجہ یہ تھی کہ آغاز اسلام میں عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی ہی کا برتاؤ ہوا تھا جیسا کہ سورہ قصص آیات 52 تا 55 اور سورہ مائدہ آیات 82 تا 85 میں بیان ہوا ہے ۔ بلکہ ان میں سے بہت سے لوگ کھلے دل سے دعوت حق قبول کر رہے تھے ۔ پھر ہجرت حبشہ کے موقع پر جس طرح حبش کے عیسائی بادشاہ نے مسلمانوں کو پناہ دی اور ان کی واپسی کے لیے کفار مکہ کے مطالبے کو ٹھکرا دیا اس کا بھی یہ تقاضا تھا کہ مسلمان مجوسیوں کے مقابلہ میں عیسائیوں کے خیر خواہ ہوں ۔
1: اِس پیشینگوئی کی تفصیل اُوپر سورت کے تعارف میں آچکی ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ’’چند سالوں‘‘ کے لئے قرآنِ کریم نے ’’بضع‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا ترجمہ اردو میں ’’چند‘‘ کیا جاتا ہے، لیکن عربی زبان میں ’’بضع‘‘ کا لفظ تین سے لے کر نو تک کیلئے بولا جاتا ہے۔ چنانچہ شروع میں ابیّ بن خلف نے حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ سے جو شرط لگائی تھی، وہ یہ تھی کہ اگر تین سال کے اندر اندر رومی فتح پا گئے تو وہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو دس اونٹ دے گا، ورنہ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ اس کو دس اونٹ دیں گے۔ جب حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس شرط کا ذکر کیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآنِ کریم میں ’’بضع‘‘ کا لفظ آیا ہے، اور اس میں تین سے لے کر نو سال تک کا اِحتمال ہے، اِس لئے تم ابیّ بن خلف سے دس کے بجائے سو اونٹوں کی شرط لگا لو، البتہ مدّت کو تین سال سے بڑھا کر نو سال کردو۔ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے ایسا ہی کیا۔ چونکہ رومیوں کے فتح پانے کا دور دور بھی کوئی اِحتمال نظر نہیں آتا تھا، اس لئے ابیّ بن خلف بھی اِس پر راضی ہوگیا، اور اب شرط یہ قرار پائی کہ اگر نو سال کے اندر اندر رومی غالب آگئے تو ابیّ بن خلف سو اونٹ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کو دے گا، ورنہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ اس کو سو اونٹ دیں گے۔ اور یہ بات اُوپر عرض کی جا چکی ہے کہ اُس وقت ایسی شرط لگانا حرام نہیں ہوا تھا، لیکن جب یہ پیشینگوئی پوری ہوگئی اور ابیّ بن خلف کے بیٹے نے سو اونٹ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو ادا کئے تو اُس وقت ایسی شرط لگانا جائز نہیں رہا تھا اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُنہیں حکم دیا کہ ان اونٹوں کو صدقہ کر دیں۔