Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] سورة روم کی ان ابتدائی آیات میں دو ایسی پیشین گوئیاں کی گئی ہیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی رسالت کی حقانیت پر زبردست دلیل ہیں۔ ان میں پہلی پیشین گوئی یہ ہے کہ اگر آج روم شکست کھا گیا ہے تو چند ہی سالوں میں روم پھر ایران پر غالب آجائے گا۔ اور دوسری پیشین گوئی یہ تھا کہ اگر آج مسلمان مشرکین مکہ کے ہاتھوں مظلوم و متہور ہیں۔ تو ان کو بھی اسی دن مشرکین مکہ پر غلبہ حاصل ہوگا جس دن روم ایران پر غالب آئے گا اور قرآن نے یہ دونوں پیشین گوئیاں ایسے وقت میں بیان کیں جبکہ ان پیشین گوئیوں کے پورا ہونے کے دور دور تک کہیں آثار نظر نہیں آرہے تھے۔- تفصیل اس اجال کی یہ ہے کہ جس زمانہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا ہوئی (٦١٠ ء میں) اس وقت عرب کے اطراف میں دو بڑی طاقتیں موجود تھیں۔ ایک روم کی عیسائی حکومت جو دو باتوں میں مسلمانوں سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ دونوں اہل کتاب تھے، دوسرے دونوں آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔ لہذا مسلمانوں کی ہمدردیاں انھیں کے ساتھ تھیں۔ مسلمانوں کی عیسائی حکومت سے ہمدردی کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی اسی زمانہ میں مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور قریشیوں نے مسلمانوں کو واپس لانے کی کوشش کے باوجود حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور قریش کی سفارت کو بری طرح ناکام ہو کر وہاں سے واپس آنا پڑا تھا۔- اور دوسری ایران کی حکومت جو دو وجوہ سے مشرکین مکہ سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ دونوں مشرک تھے۔ ایرانی دو خداؤں کے قائل اور آتش پرست تھے اور مشرکین بت پرست تھے اور دوسرے یہ کہ دونوں آخرت کے منکر تھے۔ انہی وجوہ کی بنا پر مشرکین مکہ کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں۔- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش ٥٧٠ ء میں ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت ٦١٠ ء میں عطا ہوئی تھی۔ روم اور ایران میں جنگ ٦٠٢ ء سے شروع ہو کر ٦١٤ ء تک جاری رہی اور یہ جنگی خبریں مکہ بھی پہنچتی رہتی تھیں۔ جب ایران کی فتح کی کوئی خبر آتی تو مشرکین مکہ بغلیں بجاتے اور اس خبر کو اپنے حق میں نیک فال قرار دیتے تھے اور کہے کہ جس طرح اطراف نے روم کا سر کچلا ہے ایسے ہی ہم بھی کسی وقت مسلمانوں کا سر کچل دیں گے۔ اور واقعہ بھی یہ تھا کہ ٦١٠ ء کے بعد یہ جنگ دو ملکوں کی جنگ نہ رہی تھی بلکہ اب یہ مجوسیت اور عیسائیت کی جنگ بن چکی تھی۔ ٦١٤ ء میں خسرو پرویز نے روج کو ایک مہلک اور فیصلہ کن شکست دی۔ شام ، مصر اور ایشائے کوچک کے سب علاقے رومیوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ہرقل قیصر روم کو ایرانی فوجوں نے قسطنطنیہ میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور کردیا اور رومیوں کا دارالسلطنت بھی خطرہ میں پڑگیا۔ بڑے بڑے پادری قتل یا قید ہوگئے۔ بیت المقدس عیسائیوں کی سب سے زیادہ مقدس صلیب بھی ایرانی فاتحین اٹھا لے گئے اور قیصر روم کا اقتدار بالکل فنا ہوگیا۔ یہ خبر مشرکین مکہ کے لئے بڑی خوش کن تھی انہوں نے مسلمانوں کو چھیرنا شروع کردیا اور حضرت ابوبکر (رض) سے کہنے لگے کہ جس طرح ایران نے روم کو ختم کر ڈالا ہے ایسے ہی ہم بھی تمہیں مٹا ڈالیں گے۔ یہ آپ کی نبوت کا پانچواں سال تھا۔ مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے۔ ایسے ہی حالات میں سورة روم کی یہ آیات نازل ہوئیں۔ اگرچہ بظاہر اہل روم کی فتح کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے اور مشرکین مکہ ان آیات کا بھی تمسخر اڑا رہے تھے، تاہم حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اسی پیشین گوئی کی بنا پر مشرکین سے شرط باندھ لی کہ اگر لضیع کی زیادہ سے زیادہ مدت (لضیع تین سے نو تک کے لئے آتا ہے) یعنی ٩ سال تک رومی غالب نہ آئے تو میں سو اونٹ تم کو دوں گا ورنہ اتنے ہی اونٹ تم مجھے دو گے۔ اس وقت تک شرط حرام نہیں ہوئی تھی۔- اب حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ قیصر روم نے اندر ہی اندر یہ تہیہ کرلیا کہ وہ اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کو ضرور واپس لے گا۔ ایک طرف تو اس نے اللہ کے حضور منت مانی کہ اگر اللہ نے اسے ایران پر فتح دی تو حمص سے پیدل چل کر ایلیا (بیت المقدس) سے پہنچوں گا۔ دوسری طرف نہایت خاموشی کے ساتھ ایک زبردست حملہ کی تیاریاں شروع کردیں۔ ٦٢٣ ء میں اس نے اپنی مہم کا آغاز آرمینیا سے کیا اور آذربائیجان میں گھس کر زرتشت کے مقام پیدائش ارمیاہ کو تباہ کردیا اور ایرانیوں کے سب سے بڑے آتش کدے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٦٢٢ ء میں ہجرت کرکے مدینہ آئے اور ٦٢٣ ء میں مسلمانوں نے مشرکین مکہ کو بدر کے مقام پر شکست فاش دی۔ اسی دن مسلمانوں کو یہ خبر مل گئی کہ روم نے ایران کو شکست فاش دے کر اپنا علاقہ آزاد کر الیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو تو دوہری خوشیاں نصیب ہوگئیں ان مشرکین مکہ کو دوہری ذلت سے دوچار ہونا پڑا۔- قرآن کی اس عظیم الشان اور محیرالعقول پیشین گوئی کی صداقت کا مشاہدہ کرکے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مشرکین مکہ سے سو اونٹ وصول کئے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق صدقہ کردیئے گئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

يَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ ، بِنَصْرِ اللّٰهِ ، یعنی اس روز (جبکہ روم فارس پر غالب آئیں گے) مسلمان خوش ہوں گے اللہ کی مدد سے۔ نظم عبارت کے اعتبار سے ظاہر یہ ہے کہ یہاں نصر اور مدد سے رومیوں کی نصرت و امداد ہے، وہ اگرچہ کافر تھے مگر دوسرے کے مقابل کافروں کے اعتبار سے کفر میں ہلکے تھے، اس لئے ان کی نصرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا کوئی امر مستبعد نہیں، خصوصاً جبکہ ان کی نفرت سے مسلمانوں کو بھی خوشی حاصل ہو اور کفار کے مقابلہ میں ان کی جیت بھی ہو۔ - اور یہ بھی احتمال ہے کہ نصرت سے مراد یہاں مسلمانوں کی نصرت ہو جو دو وجہ سے ہو سکتی ہے۔ اول تو یہی کہ مسلمانوں نے رومیوں کے غلبہ کو قرآن کی سچائی اور اسلام کی حقانیت کی دلیل بنا کر پیش کیا تھا، اس لئے رومیوں کا غلبہ درحقیقت مسلمانوں کی نفرت تھی، دوسری وجہ نصرت مسلمین کی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس زمانے میں کفار کی بڑی طاقتیں بھی دو فارس اور روم تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو باہم بھڑا کر دونوں کو کمزور کردیا۔ جو آئندہ مسلمانوں کی فتوحات کا پیش خیمہ بنی۔ (کذا فی الروح)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ۝ ٠ۥۭ لِلہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْۢ بَعْدُ۝ ٠ۭ وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ۝ ٤ۙ- بِضع - بالکسر : المنقطع من العشرة، ويقال ذلک لما بين الثلاث إلى العشرة، وقیل : بل هو فوق الخمس ودون العشرة، قال تعالی: بِضْعَ سِنِينَ [ الروم 4] . - بِضع - البضع ( بکسرالبا ) عدد جو دس الگ کئے گئے ہیں یہ لفظ تین سے لے کر نو نک بولا جاتا ہے نعیض کہتے ہیں کہ پانچ سے اوپر اور دس سے کم پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ بِضْعَ سِنِينَ ( سورة يوسف 42) چند سال ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔- فرح - الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] ،- ( ف ر ح ) ا لفرح - کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ ط) ” - عربی میں لفظ ” بِضْع “ کا اطلاق گنتی کے اعتبار سے تین سے نو تک کے اعداد پر ہوتا ہے۔ اسی لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو نو سال کی مدت تک شرط طے کرنے کا فرمایا تھا۔ واضح رہے کہ ان آیات کے نزول کے وقت تک شرط یا جوئے کی حرمت کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔- (لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْم بَعْدُ ط) ” - اللہ ہی کے حکم سے ہوا جو پہلے ہوا اور اللہ ہی کے حکم سے ہوگا جو بعد میں ہوگا۔ فرماں روائی تو ہر حال میں اللہ ہی کی ہے۔ پہلے جسے فتح نصیب ہوئی اسے بھی اللہ نے فتح دی اور بعد میں جو فتح پائے گا وہ بھی اللہ ہی کے حکم سے پائے گا۔- (وَیَوْمَءِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ ) ” - اس وقت اہل ایمان کو ایک خوشی تو آتش پرستوں پر اہل کتاب (عیسائیوں) کی فتح پر ہوگی اور اس کے علاوہ :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 2 یعنی پہلے جب ایرانی غالب آئے تو اس بنا پر نہیں کہ معاذ اللہ خداوند عالم ان کے مقابلے میں شکست کھا گیا ، اور بعد میں جب رومی فتح یاب ہوں گے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ تعالی کو اس کا کھویا ہوا ملک مل جائے گا ۔ فرمانروائی تو ہر حال میں اللہ ہی کی ہے ۔ پہلے جسے فتح نصیب ہوئی اسے بھی اللہ ہی نے فتح دی اور بعد میں جو فتح پائے گا وہ بھی اللہ ہی کے حکم سے پائے گا ۔ اس کی خدائی میں کوئی اپنے زور سے غلبہ حاصل نہیں کرسکتا ۔ جسے وہ اٹھاتا ہے وہی اٹھتا ہے اور جسے وہ گراتا ہے وہی گرتا ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 3 ابن عباس ، ابو سعید خدری ، سفیان ثوری ، سدی ( رضی اللہ عنہم ) وغیرہ حضرات کا بیان ہے کہ ایرانیوں پر رومیوں کی فتح اور جنگ بدر میں مشرکین پر مسلمانوں کی فتح کا زمانہ ایک ہی تھا ، اس لیے مسلمانوں کو دوہری خوشی حاصل ہوئی ۔ یہی بات ایران اور روم کی تاریخوں سے بھی ثابت ہے ۔ 624ء ہی وہ سال ہے جس میں جنگ بدر ہوئی اور یہی وہ سال ہے جس میں قیصر روم نے زرتشت کا مولد تباہ کیا اور ایران کے سب سے بڑے آتشکدے کو مسمار کردیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: جیسا کہ اوپر تعارف میں عرض کیا گیا، اس سے مراد غزوہ بدر کی فتح ہے۔