Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بچہ اور ماں باپ ملت ابراہیم حنیف پر جم جاؤ جس دین کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقرر کردیا ہے اور جسے اے نبی آپ کے ہاتھ پر اللہ نے کمال کو پہنچایا ہے رب کی فطرت سلیمہ پر وہی قائم ہے جو اس دین اسلام کا پابند ہے ۔ اسی پر یعنی توحید پر رب نے تمام انسانوں کو بنایا ہے ۔ روز اول میں اسی کا سب سے اقرار کرالیا گیا تھا کہ کیا میں سب کا رب نہیں ہوں؟ تو سب نے اقرار کیا کہ بیشک تو ہی ہمارا رب ہے ۔ وہ حدیثیں عنقریب ان شاء اللہ بیان ہونگی جن سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جملہ مخلوق کو اپنے سچے دین پر پیدا کیا ہے گو اس کے بعد لوگ یہودیت نصرانیت وغیرہ پر چلے گئے ۔ لوگو اللہ کی اس فطرت کو نہ بدلو ۔ لوگوں کو اس راہ راست سے نہ ہٹاؤ ۔ تو یہ خبر معنی میں امر ہوگی جیسے آیت ( وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا 97؀ ) 3-آل عمران:97 ) میں یہ معنی نہایت عمدہ اور صحیح ہیں ۔ دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو فطرت سلیمہ پر یعنی دین اسلام پر پیدا کیا ۔ رب کے اس دین میں کوئی تبدل تغیر نہیں ۔ امام بخاری نے یہی معنی کئے ہیں کہ یہاں خلق اللہ سے مراد دین اور فطرت اسلام ہے بخاری شریف میں بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمان رسول ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنادیتے ہیں ۔ جیسے بکری کا صحیح سالم بچہ ہوتا ہے جس کے کان لوگ کتر دیتے ہیں ۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی ( فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 30؀ڎ ) 30- الروم:30 ) مسند احمد میں ہے حضرت اسود بن سریع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کیا وہاں ہم بفضل اللہ غالب آگئے اس دن لوگوں نے بہت سے کفار کو قتل کیا یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کو بھی قتل کرڈالا حضور کو پتہ چلا تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے لوگ حد سے آگے نکل جاتے ہیں آج بچوں کو بھی قتل کردیا ہے ۔ کسی نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر وہ بھی تو مشرکین کی ہی اولاد تھی آپ نے فرمایا نہیں نہیں ۔ یاد رکھو تم میں سے بہترین لوگ مشرکین کے بچے ہیں ۔ خبردار بچوں کو کبھی قتل نہ کرنا نابالغوں کے قتل سے رک جانا ۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اپنی زبان سے کچھ کہے پھر اسکے ماں باپ اسے یہود نصرانی بنالیتے ہیں ۔ جابر بن عبداللہ کی روایت سے مسند شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اسے زبان آجائے ۔ اب یا تو شاکر بنتا ہے یا کافر ۔ مسند میں بروایت حضرت ابن عباس مروی ہے کہ حضور علیہ السلام سے مشرکوں کی اولاد کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا وہ خوب جانتا تھا کہ وہ کیا اعمال کرنے والے ہیں ۔ آپ سے مروی ہے کہ ایک زمانہ میں میں کہتا تھا مسلمانوں کی اولاد مسلمانوں کیساتھ ہے اور مشرکوں کی اولاد مشرکوں کے ساتھ ہے یہاں تک کہ فلاں شخص نے فلاں سے روایت کرکے مجھے سنایا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا اللہ خوب عالم ہے اس چیز سے جو وہ کرتے ۔ اس حدیث کو سن کر میں نے اپنا فتویٰ چھوڑ دیا حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ مجھے جناب باری عزوجل نے حکم دیا کہ جو اس نے مجھے آج سکھایا ہے اور اس سے تم جاہل ہو وہ میں تمہیں سکھا دوں ۔ فرمایا کہ جو میں نے اپنے بندوں کو دیا ہے میں نے ان کے لئے حلال کیا ہے میں نے اپنے سب بندوں کو یک طرفہ خالص دین والا بنایا ہے ان کے پاس شیطان پہنچتا ہے اور انہیں دین سے گمراہ کرتا ہے اور حلال کو ان پر حرام کرتا ہے اور انہیں میرے ساتھ شریک کرنے کو کہتا ہے جس کی کوئی دلیل نہیں اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف نگاہ ڈالی اور عرب وعجم سب کو ناپسند فرمایا سوائے چند اہل کتاب کے کچھ لوگوں کے ۔ وہ فرماتا ہے کہ میں نے تجھے صرف آزمائش کے لئے بھیجا ہے تیری اپنی بھی آزمائش ہوگی اور تیری وجہ سے اور سب کی بھی میں تو تجھ پر وہ کتاب اتارونگا جسے پانی دھو نہ سکے تو اسے سوتے جاگتے پڑھتا رہے گا ۔ پھر مجھ سے جناب باری عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ میں قریش کو ہوشیار کردوں میں نے اپنا اندیشہ ظاہر کیا کہ کہیں وہ میرا سر کچل کر روٹی جیسا نہ بنادیں؟ تو فرمایا سن جیسے یہ تجھے نکالیں گے میں انہیں نکالونگا تو ان سے جہاد کر میں تیرا ساتھ دونگا تو خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا ۔ تو لشکر بھیج میں اس سے پانچ حصے زیادہ لشکر بھیجوں گا فرمانبرداروں کے لے اپنے نافرمانوں ۔ اہل جنت تین قسم کے ہیں عادل بادشاہ توفیق خیر والا سخی ۔ نرم دل ہر مسلمان کے ساتھ سلوک احسان کرنے والا پاک دامن سوال اور حرام سے بچنے والا عیالدار آدمی ۔ اہل جہنم پانچ قسم کے لوگ ہیں وہ بےوقعت کمینے لوگ جو بےزر اور بےگھر ہیں جو تمہارے دامنوں میں لپٹے رہتے ہیں ۔ وہ خائن جو حقیر چیزوں میں بھی خیانت کئے بغیر نہیں رہتا ۔ وہ لوگ جو ہر وقت لوگوں کو ان کی جان مال اور اہل وعیال میں دھوکے میں رہتے ہیں صبح شام چالبازیوں اور مکروفریب میں لگے رہتے ہیں ۔ پھر آپ نے بخیلی یا کذاب کا ذکر کیا اور فرمایا پانچوں قسم کے لوگ بد زبان بدگو ہیں ( مسلم وغیرہ ) یہی فطرت سلیمہ یہی شریعت کو مضبوطی سے تھامے رہنا ہی سچے اور سیدھا دین ہے ۔ لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں ۔ اور اپنی اسی جہالت کی وجہ سے اللہ کے ایسے پاک دین سے دور بلکہ محروم رہ جاتے ہیں ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے گو تیری حرص ہو لیکن ان میں سے اکثر لوگ بے ایمان ہی رہیں گے ۔ ایک اور آیت میں ہے اگر تو اکثریت کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے راہ اللہ سے بہکا دیں گے ۔ تم سب اللہ کی طرف راغب رہو اسی کی جانب جھکے رہو اسی کا ڈر خوف رکھو اور اسی کا لحاظ رکھو ۔ نمازوں کی پابندی کرو جو سب سے بڑی عبادت اور اطاعت ہے ۔ تم مشرک نہ بنو بلکہ موحد اور خالص بن جاؤ اس کے سوا کسی اور سے کوئی مراد وابستہ نہ رکھو ۔ حضرت معاذ سے حضرت عمر نے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا یہ تین چیزیں ہیں اور یہی نجات کی جڑیں ہیں اول اخلاص جو فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے دوسرے نماز جو دراصل دین ہے تیسرے اطاعت جو عصمت اور بچاؤ ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا آپ نے سچ کہا ۔ تمہیں مشرکوں میں نہ ملنا چاہیے تمہیں ان کا ساتھ نہ دینا چاہیے اور نہ ان جیسے فعل کرنا چاہیے جنہوں نے دین اللہ کو بدل دیا بعض باتوں کو مان لیا اور بعض سے انکار کر گئے فرقوا کی دوسری قرأت فارقوا ہے یعنی انہوں نے اپنے دین کو چھوڑ دیا ۔ جیسے یہود ، نصاری ، مجوسی ، بت پرست سے اور دوسرے باطل مذاہب والے ۔ جیسے ارشاد ہے جن لوگوں نے اپنے دین میں تفریق کی اور گروہ بندی کر لی تو ان میں شامل ہی نہیں ان کا انجام سپرد اللہ ہے تم سے پہلے والی قومیں گروہ گروہ ہوگئیں تھی ۔ اس امت میں بھی تفرقہ پڑا لیکن ان میں ایک حق پر ہے ہاں باقی سب گمراہی پر ہیں ۔ یہ حق والی جماعت اہل سنت والجماعت ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو مضبوط تھامنے والی ہے ۔ جس پر سابقہ زمانے کے صحابہ تابعین اور ائمہ مسلمین تھے گذشتہ زمانے میں بھی اور اب بھی ۔ جیسے مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ان سب میں نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے؟ تو آپ نے فرمایا ( من کان علی ما انا علیہ واصحابی ) یعنی وہ لوگ جو اس پر ہوں جس پر آج میں اور میرے اصحاب ہیں ( برادران غور فرمائیے کہ وہ چیز جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کے زمانے میں تھے وہ وحی اللہ یعنی قرآن وحدیث ہی تھی یا کسی امام کی تقلید؟ )

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

301یعنی اللہ کی توحید اور اس کی عبادت پر قائم رہیں اور جھوٹے مذاہب کی طرف دھیان ہی نہ کریں 302فطرت کے اصل معنی خلقت پیدائش کے ہیں یہاں مراد ملت اسلام ہے مطلب یہ ہے کہ سب کی پیدائش بغیر مسلم و کافر کی تفریق کے اسلام اور توحید پر ہوتی ہے اس لیے توحید ان کی فطرت یعنی جبلت میں شامل ہے جس طرح کہ عہد الست سے واضح ہے بعد میں بہت سوں کو ماحول یا دیگر عوارض فطرت کی اس آواز کی طرف نہیں آنے دیتے، جس کی وجہ سے وہ کفر پر ہی باقی رہتے ہیں جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں۔ 303یعنی اللہ کی خلقت کو تبدیل نہ کرو بلکہ صحیح تربیت کے ذریعے سے اس کی نشوونما کرو تاکہ ایمان و توحید بچوں کے دل ودماغ میں راسخ ہوجائے یہ خبر بمعنی انشا ہے یعنی نفی نہی کے معنی میں ہے۔ 304یعنی وہ دین جس کی طرف یکسو اور متوجہ ہونے کا حکم ہے یا جو فطرت کا تقاضا ہے وہ یہ دین قیم ہے۔ 305اسی لیے وہ اسلام اور توحید سے ناآشنا رہتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٠] یعنی جب یہ بات واضح ہوچکی کہ مشرک اپنے حق میں ایسی تقسیم بات گوارا نہیں کرتے، پھر بھی اگر اللہ کی مخلوق کو اس کا شریک بنا ڈالیں تو اس سے بڑی دھاندلی کوئی نہیں ہوسکتی۔ تو آپ کو چاہئے کہ ان مشرکوں کی لغویات پر ہرگز توجہ نہ دو اور دوسرے تمام مذاہب سے اپنی توجہ ہٹا کر صرف دین اسلام یا خالص اللہ ہی کی عبادت کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔- [ ٣١] یعنی یہ بات ہر انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے کہ اس کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اور وہ اس کا بندہ اور غلام ہے۔ لہذا اسے صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرنا چاہئے۔ چناچہ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین خواہ اسے یہودی بنالیں یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور ایک روایت میں ہے کہ کسی غزوہ میں صحابہ کرام (رض) نے مشرکوں کے بچوں کو بھی مار ڈالا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا۔ تم نے بچوں کو کیوں مار ڈالا۔ انہوں نے جواب دیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مشرکوں کی اولاد تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اب جو تم میں عمدہ مسلمان ہیں کیا وہ مشرکوں کی اولاد نہیں ہیں ؟ - ان احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت اصلی پر اس کے والدین یا ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے اور غلط ماحول میں وہ فطرت اصلیہ دب جاتی ہے۔ اسی دبی ہوئی فطرت سے ماحول کے دباؤ کو زائل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ انبیاء کو بھیجتا اور کتابیں نازل فرماتا ہے۔ بالفاظ دیگر ہر انسان کی فطرت میں قبول حق کی استعداد رکھ دی گئی ہے اور اسی لئے اسے قبول حق کا مکلف بھی بنایا گیا ہے۔ مثلاً اگر فرعون یا ابو جہل کی فطرت میں یہ استعداد اور صلاحیت ہی موجود نہ ہوتی تو انھیں حق کی طرف دعوت دینا ہی بےمعنی ہوتا۔- [ ٣٢] اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے انسان کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ معبود صرف اللہ تعالیٰ ہے اس کے ساتھ دوسروں کو بھی معبود نہیں بنایا جاسکتا۔ اور انسان عبد اور غلام ہے۔ اسے کسی طرح یہ سزاوار نہیں وہ اللہ کا نافرمان اور سرکش ہوجائے یا خود ہی معبود بن بیٹھے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جس جاندار کو جس حال میں پیدا کیا ہے اسے اسی حال میں رہنے دینا چاہئے۔ یعنی جانوروں کے بچے تندرست اور صحیح شکل و صورت پر پیدا ہوتے تھے تو مشرکین جن جانوروں کو بتوں کے نام پر وقف کرتے ان کے کان چیر دیتے تھے۔ علاوہ ازیں بچوں کے سر پر کسی کے نام کی چوٹی رکھنا، داڑھی منڈانا، خوبصورتی کی خاطر جسم کو گودنا یا گدوانا اور اس میں نیلا داغ دینا یا دانتوں میں مصنوعی طریقوں سے خلا پیدا کرنا سب اسی ضمن میں آتا ہے۔- [ ٣٣] یہ سیدھا دین کیا ہے ؟ چند موٹی موٹی اور سیدھی سادی باتیں جنہیں سب مذاہب والے یکساں تسلیم کرتے ہیں اور وہ باتیں یہ ہیں۔ اللہ ہی سب کا خالق ہے مالک ہے اور حاکم ہے۔ وہ اپنی ذات میں یکتا ہے اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ اس کا سب پر زور رہتا ہے۔ اس پر کسی کا زور نہیں چلتا۔ لہذا اسی کی تسبیح کرنا یا نام جپنا بچاہئے۔ اسی طرح کسی کے جان ومال کو نقصان پہنچانا، کسی کی عزت پر حملہ کرنا یا تہمت لگانا، دوسروں سے دغا فریب کرنا سب برا سمجھتے ہیں۔ اور سچ بولنا، غریب پر ترس کھانا، حقدار کو اس کا حق پورا ادا کرنا سب ہی اسے بہتر سمجھتے ہیں اور اس کی تلقین کرتے ہیں۔ یہی سچا دین ہے جسے ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے۔ اور انہی فطرت امور کو پیغمبر یاد دلاتے رہے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاَقِمْ وَجْهَكَ للدِّيْنِ حَنِيْفًا : ” لِلدِّيْنِ “ میں ” الف لام “ عہد کا ہے، یعنی یہ دین جس میں خالق ومالک اور معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ کو مانا گیا ہے، جس میں اس کی ذات یا صفات یا افعال میں کسی کو شریک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ” حَنِيْفًا “ ” حَنَفَ “ (حاء کے ساتھ) کا لفظی معنی مائل ہونا ہے، اکثر استعمال تمام راستوں سے ہٹ کر ایک سیدھے راستے کی طرف آنے کے معنی میں ہوتا ہے، جب کہ ” جَنَفَ “ (جیم کے ساتھ) کا مطلب سیدھے راستے سے ہٹ کر ادھر یا ادھر ہوجانا ہوتا ہے۔ ” فَاَقِمْ “ میں ” فاء “ (پس) کا مطلب یہ ہے کہ جب اتنے سارے دلائل سے ثابت ہوگیا کہ اس کائنات کا خالق ومالک اور عبادت و اطاعت کا مستحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں، تو لازم ہے کہ تم اپنا چہرہ اس دین کی طرف سیدھا رکھو، نہ ذرہ برابر ادھر ادھر دیکھو اور نہ اس ایک سیدھی راہ سے ادھر ادھر ہٹو۔- فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا : ” فِطْرَتَ “ کا معنی پیدائش ہے، ” اللہ تعالیٰ کی فطرت “ سے مراد وہ حالت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے اور وہ اللہ کی توحید اور دین اسلام ہے، جو ہر آدمی کے دل میں پیدائش کے ساتھ ہی رکھ دی گئی ہے کہ تیرا خالق ومالک اللہ ہے اور تو اس کا بندہ اور غلام ہے، لہٰذا تیرے لیے اس پر قائم رہنا لازم ہے۔ اگر انسان کو اس کی طبعی حالت پر چھوڑ دیا جائے اور بیرونی اثرات سے اس کے دل و دماغ کو محفوظ رکھا جائے تو وہ توحید اور دین فطرت ہی اختیار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ’ اَلَست بربکم “ کے ساتھ آدم (علیہ السلام) کی اولاد کے ہر فرد سے اپنے رب ہونے کا عہد لیا ہے اور اسی عہد کے متعلق باز پرس ہوگی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٧٢، ١٧٣) کی تفسیر۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ إِلاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ ، کَمَا تُنْتَجُ الْبَہِیْمَۃُ بَہِیْمَۃً جَمْعَاءَ ، ہَلْ تُحِسُّوْنَ فِیْہَا مِنْ جَدْعَاءَ ؟ ثُمَّ یَقُوْلُ : (ۭ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ) [ بخاري، التفسیر، باب : ( لا تبدیل لخلق اللہ ) : ٤٧٧٥ ] ” کوئی بچہ نہیں جو پیدا ہو مگر وہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی بنا دیتے ہیں یا مجوسی بنا دیتے ہیں، جیسے جانور پیدا ہوتا ہے تو صحیح سالم جانور پیدا ہوتا ہے۔ کیا تم نے ان میں سے کوئی کان یا ناک کٹا ہوا دیکھا ہے ؟ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : (ۭ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ) [ الروم : ٣٠ ]“ اسود بن سریع (رض) بیان کرتے ہیں : ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِیَّۃً یَوْمَ خَیْبَرَ فَقَاتَلُوا الْمُشْرِکِیْنَ ، فَأَمْضٰی بِہِمُ الْقَتْلُ إِلَی الذُّرِّیَّۃِ ، فَلَمَّا جَاؤُوْا قَال النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا حَمَلَکُمْ عَلٰی قَتْلِ الذُّرِّیَّۃِ ؟ فَقَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّمَا کَانُوْا أَوْلاَدَ الْمُشْرِکِیْنَ ، قَالَ وَہَلْ خِیَارُکُمْ إِلاَّ أَوْلاَدُ الْمُشْرِکِیْنَ ، وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ مَا مِنْ نَسَمَۃٍ تُوْلَدُ إِلاَّ عَلَی الْفِطْرَۃِ ، حَتّٰی یُعْرِبَ عَنْہَا لِسَانُہَا ) [ مستدرک حاکم : ٢؍١٢٣، ح ٢٥٦٦، وصححہ الحاکم و وافقہ الذھبي و صححہ الألباني في سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٤٠٢ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے دن ایک دستہ بھیجا، انھوں نے مشرکین سے جنگ کی، یہاں تک کہ قتل کرتے کرتے وہ بچوں تک جا پہنچے۔ جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمہیں بچے قتل کرنے پر کس چیز نے آمادہ کردیا ؟ “ انھوں نے کہا : ” یا رسول اللہ وہ مشرکین کی اولاد ہی تو تھے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم میں سے بہترین لوگ مشرکین کی اولاد ہی تو ہیں، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے کوئی جان پیدا نہیں ہوتی مگر فطرت پر، یہاں تک کہ اس کی زبان اس کے مطالب کا اظہار کرنے لگتی ہے۔ “ مشرکین کے فوت شدہ بچوں کے حکم کے لیے دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١٥) اور اعراف (١٧٢، ١٧٣) کی تفسیر۔ عیاض بن حمار مجاشعی (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا : ( أَلَا إِنَّ رَبِّيْ أَمَرَنِيْ أَنْ أُعَلِّمَکُمْ مَا جَہِلْتُمْ مِمَّا عَلَّمَنِيْ یَوْمِيْ ہٰذَا کُلُّ مَالٍ نَحَلْتُہُ عَبْدًا حَلَالٌ وَإِنِّيْ خَلَقْتُ عِبَادِيْ حُنَفَاءَ کُلَّہُمْ وَ إِنَّہُمْ أَتَتْہُمُ الشَّیَاطِیْنُ فَاجْتَالَتْہُمْ عَنْ دینِْہِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَیْہِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَہُمْ وَ أَمَرَتْہُمْ أَنْ یُّشْرِکُوْا بِيْ مَا لَمْ أُنْزِلْ بِہِ سُلْطَانًا ) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعمیہا، باب الصفات التي یعرف بھا۔۔ : ٢٨٦٥ ] ” سنو میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس نے مجھے میرے آج کے دن میں جو کچھ سکھایا ہے تمہیں اس میں سے چند وہ باتیں سکھاؤں جن سے تم واقف نہیں ہو۔ (وہ فرماتا ہے کہ) ہر وہ مال جو میں نے کسی بندے کو عطا کیا ہے وہ حلال ہے اور میں نے اپنے تمام بندوں کو ” حنفاء “ (ایک اللہ کے ہوجانے والے) پیدا کیا ہے اور ہوا یہ کہ ان کے پاس شیاطین آئے اور انھوں نے ان کو ان کے دین سے پھیر دیا اور ان کے لیے وہ چیزیں حرام کردیں جو میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں اور انھوں نے ان کو حکم دیا کہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک بنائیں جن کی میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ “- لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ : یعنی اللہ کا دین (اسلام) جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اسے بدلنا، توحید کے بجائے شرک کرنا یا اس کے حلال و حرام کے احکام کو تبدیل کرنا جائز نہیں۔ الفاظ کے عموم میں یہ بھی آتا ہے کہ جس شکل پر اللہ تعالیٰ نے کسی کو پیدا کیا ہے اسے بدلنا اور اس کے کان یا ناک وغیرہ کو کاٹنا جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نساء کی آیت (١١٩) کی تفسیر۔ - ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ : یعنی شریعت اسلام اور فطرت سلیمہ پر مضبوطی سے قائم رہنا ہی بالکل سیدھا اور مضبوط دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے، بلکہ باپ دادا کے رسم و رواج اور شیطان کے پیچھے چل کر فطرت کے خلاف کفر و شرک کو اختیار کیے جاتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - آیات مذکورہ میں مضمون توحید کو مختلف شواہد اور دلائل اور مختلف عنوانات میں بتلایا گیا ہے جو ہر انسان کے دل میں اتر جائے۔ پہلے ایک مثال سے سمجھایا کہ تمہارے غلام نوکر جو تمہارے ہی جیسے انسان ہیں شکل و صورت، ہاتھ پاؤں مقتضیات طبعیہ سب چیزوں میں تمہارے شریک ہیں، مگر تم ان کو اپنے اقتدار و اختیار میں اپنی برابر نہیں بناتے کہ وہ بھی تمہاری طرح جو چاہیں کیا کریں جو چاہیں خرچ کریں، بالکل اپنی برابر تو کیا بناتے ان کو اپنے مال و اختیار میں ادنی سی شرکت کا بھی حق نہیں دیتے جیسے کسی جزوی اور معمولی شریک سے آپ ڈرتے ہیں کہ اس کی مرضی کے بغیر کوئی تصرف کرلیا تو وہ اعتراض کرے گا۔ غلاموں نوکروں کو یہ درجہ بھی نہیں دیتے، تو غور کرو کہ تمام مخلوقات جن میں فرشتے، انسان اور دوسری کائنات سبھی داخل ہیں، یہ سب کے سب اللہ کی مخلوق اور اسی کے بندے اور غلام ہیں ان کو تم اللہ کے برابر یا اس کا شریک کیسے یقین کرتے ہو۔ - دوسری آیت میں اس پر تنبیہ ہے کہ یہ بات تو سیدھی اور صاف ہے مگر مخالف لوگ اپنی اہواء نفسانی کے تابع ہو کر کوئی علم و حکمت کی بات نہیں مانتے۔- تیسری آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یا عام مخاطب کو حکم دیا ہے کہ جب شرک کا نامعقول اور ظلم عظیم ہونا ثابت ہوگیا تو آپ سب خیالات مشرکانہ کو چھوڑ کر اپنا رخ صرف دین اسلام کی طرف پھیر لیجئے۔ فَاَقِمْ وَجْهَكَ للدِّيْنِ حَنِيْفًا - اس کے بعد اس دین اسلام کا مطابق اور مقتضائے فطرت ہونا اس طرح بیان فرمایا فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ، فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا یہ جملہ پہلے جملے فَاَقِمْ وَجْهَكَ للدِّيْنِ حَنِيْفًا کی توضیح اور دین حنیف جس کے اتباع کا حکم پہلے جملے میں دیا گیا ہے اس کی ایک مخصوص صفت کا بیان ہے کہ وہ دین فطرت ہے اور فطرة اللہ کی ترکیب نحوی میں منصوب ہونے کی وجہ مفسرین نے مختلف لکھی ہیں کہ لفظ اتبع یہاں سے محذوف ہے، یا لفظ اعنِی، بہرحال یہ متعین ہے کہ دین حنیف جس کا اتباع کا پہلے جملے میں حکم دیا گیا ہے اس کو اس جملے میں فطرة اللہ قرار دیا ہے اور معنی اس کے خود اگلے جملے میں یہ بتلائے کہ اللہ کی فطرت سے مراد یہ ہے کہ جس فطرت پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔- فطرت سے کیا مراد ہے ؟:- اس معاملہ میں مفسرین کے متعدد اقوال منقول ہیں ان میں دو زیادہ مشہور ہیں۔ - اول : یہ کہ فطرت سے مراد اسلام ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان اپنی فطرت اور جبلت کے اعتبار سے مسلمان پیدا کیا ہے۔ اگر اس کو گرد و پیش اور ماحول میں کوئی خراب کرنے والا خراب نہ کردے تو ہر پیدا ہونے والا بچہ مسلمان ہی ہوگا۔ مگر عادةً ہوتا یہ ہے کہ ماں باپ اس کو بعض اوقات اسلام کے خلاف چیزیں سکھا دیتے ہیں، جس کے سبب وہ اسلام پر قائم نہیں رہتا۔ جیسا کہ صحیحین کی ایک حدیث میں مذکور ہے۔ قرطبی نے اسی قول کو جمہور سلف کا قول قرار دیا ہے۔- دوسرا قول یہ ہے کہ فطرت سے مراد استعداد ہے۔ یعنی تخلیق انسانی میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ ہر انسان میں اپنے خالق کو پہچاننے اور اس کو ماننے کی صلاحیت و استعداد موجود ہے جس کا اثر اسلام کا قبول کرنا ہوتا ہے، بشرطیکہ اس استعداد سے کام لے۔- مگر پہلے قول پر متعدد اشکالات ہیں، اول یہ کہ خود اسی آیت میں یہ بھی آگے مذکور ہے لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ اور یہاں خلق اللہ سے مراد وہی فطرة اللہ ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے اس لئے معنی اس جملے کے یہ ہیں کہ اللہ کی اس فطرت کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا، حالانکہ حدیث صحیحین میں خود یہ آیا ہے کہ پھر ماں باپ بعض اوقات پچے کو یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔ اگر فطرت کے معنی خود اسلام کے لئے جائیں جس میں تبدیلی نہ ہونا خود اسی آیت میں مذکور ہے تو حدیث مذکور میں یہودی، نصرانی بنانے کی تبدیلی کیسے صحیح ہوگی اور یہ تبدیلی تو عام مشاہدہ ہے کہ ہر جگہ مسلمانوں سے زیادہ کافر ملتے ہیں، اگر اسلام ایسی فطرت ہے جس میں تبدیلی نہ ہو سکے تو پھر یہ تبدیلی کیسے اور کیوں ؟- دوسرے حضرت خضر (علیہ السلام) نے جس لڑکے کو قتل کیا تھا اس کے متعلق صحیح حدیث میں ہے کہ اس لڑکے کی فطرت میں کفر تھا، اس لئے خضر (علیہ السلام) نے اس کو قتل کیا، یہ حدیث بھی اس کے منافی ہے کہ ہر انسان اسلام پر پیدا ہوتا ہو۔ - تیسرا شبہ یہ ہے کہ اگر اسلام کوئی ایسی چیز ہے جو انسان کی فطرت میں اس طرح رکھ دیا گیا ہے جس کی تبدیلی پر بھی اس کو قدرت نہیں تو وہ کوئی اختیاری فعل نہ ہوا پھر اس پر آخرت کا ثواب کیسا ؟ کیونکہ ثواب تو اختیاری عمل پر ملتا ہے۔- چوتھا شبہ یہ ہے کہ احادیث صحیحہ کے مطابق فقہاء امت کے نزدیک بچہ بالغ ہونے سے پہلے ماں باپ کے تابع سمجھا جاتا ہے، اگر ماں باپ کافر ہوں تو بچے کو بھی کافر قرار دیا جائے گا۔ اس کی تجہیز و تکفین اسلامی طرز پر نہیں کی جائے گی۔- یہ سب شبہات امام توریشتی نے شرح مصابیح میں بیان کئے ہیں اور اسی بناء پر انہوں نے دوسرے قول کو ترجیح دی ہے۔ کیونکہ اس خلقی استعداد کے متعلق یہ بھی صحیح ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی، جو شخص ماں باپ یا کسی دوسرے کے گمراہ کرنے سے کافر ہوگیا اس میں استعداد اور قابلیت حق یعنی اسلام کی حقانیت کے پہچاننے کی ختم نہیں ہوتی غلام خضر کے واقع میں اس کے کفر پر پیدا ہونے سے بھی یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں حق کو سمجھنے کی استعداد ہی نہ رہی تھی اور چونکہ اس خدا داد استعداد و قابلیت کا صحیح استعمال انسان اپنے اختیار سے کرتا ہے اس لئے اس پر ثواب عظیم کا مرتب ہونا بھی واضح ہوگیا اور حدیث صحیحین میں جو یہ مذکور ہے کہ بچے کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں اس کا مفہوم بھی اس دوسرے معنی کے اعتبار سے واضح اور صاف ہوگیا کہ اگرچہ اس میں استعداد اور قابلیت فطری ہے جو اللہ نے اس کی تخلیق میں رکھی تھی وہ اسلام ہی کی طرف لے جانے والی تھی، مگر عوارض اور موانع حائل ہوگئے اور اس طرف نہ جانے دیا اور حضرات سلف سے جو پہلا قول منقول ہے بظاہر اس کی مراد بھی اصل اسلام نہیں، بلکہ یہی استعداد اسلام اور اس کی قابلیت و صلاحیت ہے۔ محدث دھلوی نے لمعات شرح مشکوة میں جمہور کے قول کا یہی مطلب بیان فرمایا ہے۔- اور اسی کی تائید اس مضمون سے ہوتی ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) نے حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فرمایا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے بیشمار قسم کی مخلوقات مختلف طبائع اور مزاج کی بنائی ہیں، ہر مخلوق کی فطرت اور جبلت میں ایک خاص مادہ رکھ دیا ہے، جس سے وہ مخلوق اپنی تخلیق کے منشاء کو پورا کرسکے قرآن کریم میں اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے کہ جس مخلوق کو خالق کائنات نے کسی خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اس کو اس مقصد کے لئے ہدایت بھی دے دی ہے، وہ ہدایت یہی مادہ اور استعداد ہے۔ شہد کی مکھی میں یہ مادہ رکھ دیا کہ وہ درختوں اور پھولوں کو پہچانے اور انتخاب کرے پھر اس کے رس کو اپنے پیٹ میں محفوظ کر کے اپنے چھتے میں لا کر جمع کرے۔ اسی طرح انسان کی فطرت وجبلت میں ایسا مادہ اور استعداد رکھ دی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانے، اس کی شکر گزاری اور اطاعت شعاری کرے، اس کا نام اسلام ہے۔- لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ، مذکور الصدر تقریر سے اس جملے کا مطلب بھی واضح ہوگیا کہ اللہ کی دی ہوئی فطرت یعنی حق کو پہچاننے کی صلاحیت و استعداد میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا۔ اس کو غلط ماحول کافر تو بنا سکتا ہے مگر اس کی استعداد قبول حق کو بالکل فنا نہیں کرسکتا۔- اور اسی سے اس آیت کا مفہوم بھی واضح ہوجاتا ہے جس میں ارشاد ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ، یعنی ہم نے جن اور انسان کو اور کسی کام کے لئے نہیں پیدا کیا، بجز اس کے وہ ہماری عبادت کیا کریں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی فطرت میں ہم نے عبادت کی رغبت اور استعداد رکھ دی ہے۔ اگر وہ اس استعاد سے کام لیں تو بجز عبادت کے کوئی دوسرا کام اس کے خلاف ہرگز سرزد نہ ہو۔ - اہل باطل کی صحبت اور غلط ماحول سے الگ رہنا فرض ہے :- آیت مذکورہ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ کا جملہ اگرچہ بصورت خبر ہے یعنی اللہ کی اس فطرت کو کوئی بدل نہیں سکتا، لیکن اس میں ایک معنی امر کے بھی ہیں کہ بدلنا نہیں چاہئے۔ اس لئے اس جملے سے یہ حکم بھی مستفاد ہوا کہ انسان کو ایسے اسباب سے بہت پرہیز کرنا چاہئے جو اس قبول حق کی استعداد کو معطل یا کمزور کردیں اور وہ اسباب بیشتر غلط ماحول اور بری صحبت ہے، یا اہل باطل کی کتابیں دیکھنا جب کہ خود اپنے مذہب اسلام کا پورا عالم اور مبصر نہ ہو۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَقِـمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۝ ٠ ۭ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۝ ٠ ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۝ ٠ ۤۙ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٣٠ ۤۙ- اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً- [ الفرقان 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ- «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ- [هود 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔- وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- حنف - الحَنَفُ : هو ميل عن الضّلال إلى الاستقامة، والجنف : ميل عن الاستقامة إلى الضّلال، والحَنِيف هو المائل إلى ذلك، قال عزّ وجلّ : قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل 120] - ( ح ن ف ) الحنف - کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں ۔ اس کے بالمقابل حنف ہے جس کے معنی ہیں استقامت سے گمراہی کی طرف مائل ہونا ۔ الحنیف ( بروزن فعیل) جو باطل کو چھوڑ کر استقامت پر آجائے قرآن میں ہے :۔ قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل 120] اور خدا کے فرمانبردار تھے جو ایک کے ہور ہے تھے ۔- فطر - أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا،- وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر 1] - ( ف ط ر ) الفطر - ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں ۔ اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء 56] جس نے ان کو پیدا کیا - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» .- وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] - والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع :- البَئَادِل «2» ، قال الشاعر :- 41-- ولا رهل لبّاته وبآدله - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

سو تم اپنی ذات اور اپنے عمل کو دین اسلام کی طرف رکھو یعنی اپنے دین و عمل کو خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کرو اور دین اسلام پر ڈٹے رہو اور دین خداوندی کی پیروی کرو جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ان کی ماؤں کے پیٹ میں پیدا فرمایا ہے یا یہ کہ میثاق کے دن کی پیروی اللہ تعالیٰ کے دین کو بدلنا نہیں چاہیے۔ بس سیدھا راستہ یہی ہے مگر مکہ والے اس چیز کو نہیں جانتے کہ صحیح دین الہی وہ دین اسلام ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (فَاَقِمْ وَجْہَکَ للدِّیْنِ حَنِیْفًا ط) ” - تم اپنے کردار میں ایسی توحیدی شان پیدا کرو کہ تمہارا ایک ایک عمل گویا اس دعوے کی گواہی بن جائے : (قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) (الانعام) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے کہ میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے “۔ اور دنیا کے تمام جھمیلوں کو چھوڑ کر اپنی توجہ ذات باری تعالیٰ کی طرف اس انداز سے مرکوز کردو کہ تمہاری زندگی کے شب و روز میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ان الفاظ کا رنگ جھلکتا نظر آئے : (اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) (الانعام) ” میں نے تو اپنا رخ کرلیا ہے یکسو ہو کر اس ہستی کی طرف جس نے آسمان و زمین کو بنایا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ “- (فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا ط) ” - یہی فطرت سلیمہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تخلیق کی ہے۔ نسل انسانی کا ہر بچہ اسی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کی اس فطرت پر کچھ اور رنگ چڑھا دیتے ہیں یا اس کے ماحول کی وجہ سے اس کا رخ کسی اور طرف مڑ جاتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے :- (کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ ) (١)- ” ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے ‘ پھر اس کے والدین اسے یہودی ‘ نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ “- (لاَ تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط) ” - یعنی اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ یوں بھی کیا ہے : ” اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو تبدیل نہ کیا جائے “۔ یا ” اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے “۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے اس کو بگاڑنا اور مسخ کرنا جائز نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 42 یہ پس اس معنی میں ہے کہ جب حقیقت تم پر کھل چکی ، اور تم کو معلوم ہوگیا کہ اس کائنات اور خود انسان کا خالق و مالک اور حاکم ذی اختیار ایک اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے تو اس کے بعد لا محالہ تمہارا طرز عمل یہ ہونا چاہیے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 43 اس دین سے مراد وہ خاص دین ہے جسے قرآن پیش کر رہا ہے ، جس میں بندگی ، عبادت اور اطاعت کا مستحق اللہ وحدہ لا شریک کے سوا اور کوئی نہیں ہے ، جس میں الوہیت اور اس کی صفات و اختیارات اور اس کے حقوق میں قطعا کسی کو بھی اللہ تعالی کے ساتھ شریک نہیں ٹھہرایا جاتا ، جس میں انسان اپنی رضا و رغبت سے اس بات کی پابندی اختیار کرتا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی اللہ کی ہدایت اور اس کے قانون کی پیروی میں بسر کرے گا ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 44 یک سو ہوکر اپنا رخ اس طرف جما دو یعنی پھر کسی اور طرف کا رخ نہ کرو ۔ زندگی کے لیے اس راہ کو اختیار کرلینے کے بعد پھر کسی دوسرے راستے کی طرف التفات تک نہ ہونے پائے ۔ پھر تمہاری فکر اور سوچ ہو تو مسلمان کی سی اور تمہاری پسند اور ناپسند ہو تو مسلمان کی سی ۔ تمہاری قدریں اور تمہارے معیار ہوں تو وہ جو اسلام تمہیں دیتا ہے ، تمہارے اخلاق اور تمہاری سیرت و کردار کا ٹھپہ ہو تو اس طرح کا جو اسلام چاہتا ہے اور تمہاری انفرادی و اجتماعی زندگی کے معاملات چلیں تو اس طریقے پر جو اسلام نے تمہیں بتایا ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 45 یعنی تمام انسان اس فطرت پر پیدا کیے گئے ہیں کہ ان کا کوئی خالق اور کوئی رب اور کوئی معبود اور مطاع حقیقی ایک اللہ کے سوا نہیں ہے ۔ اسی فطرت پر تم کو قائم ہوجانا چاہیے ، اگر خود مختاری کا رویہ اختیار کروگے تب بھی فطرت کے خلاف چلو گے اور اگر بندگی غیر کا طوق اپنے گلے میں ڈالو گے تب بھی اپنی فطرت کے خلاف کام کرو گے ۔ اس مضمون کو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ما من مولود یولد الا علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجاسنہ کما تنتج البھیمۃ بھیمۃ جمعاء ، ھل تحسون فیھا من جدعاء ۔ یعنی ہر بچہ جو کسی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے ، اصل انسانی فطرت پر پیدا ہوتا ہے ، یہ ماں باپ ہیں جو اسے بعد میں عیسائی یا یہودی یا مجوسی وغیرہ بنا ڈالتے ہیں ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہر جانور کے پیٹ سے پورا کا پورا صحیح و سالم جانور بر آمد ہوتا ہے ، کوئی بچہ بھی کٹے ہوئے کان لے کر نہیں آتا ، بعد میں مشرکین اپنے اوہام جاہلیت کی بنا پر اس کے کان کاٹتے ہیں ۔ مسند احمد اور نسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ ایک جنگ میں مسلمانوں نے دشمنوں کے بچوں تک کو قتل کردیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا ما بال اقوام جاوزھم القتل الیوم حتی قتلوا الذریۃ ۔ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ آج وہ حد سے گزر گئے اور بچوں تک کو قتل کر ڈالا ۔ ایک شخص نے عرض کیا کیا یہ مشرکین کے بچے نہ تھے؟ فرمایا انما خیارکم ابناء المشرکین ۔ تمہارے بہترین لوگ مشرکین ہی کی تو اولاد ہیں ۔ پھر فرمایا کل نسمۃ تولد علی الفطرۃ حتی یعرب عنہ لسانھا فابواھا یھودانھا او ینصرانھا ۔ ہر متنفس فطرت پر پیدا ہوتا ہے ، یہاں تک کہ جب اس کی زبان کھلنے پر آتی ہے تو ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا لیتے ہیں ۔ ایک اور حدیث جو امام احمد نے عیاض بن حمار المجاشعی سے نقل کی ہے اس میں بیان ہوا ہے کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ کے دوران میں فرمایا: ان ربی یقول انی خلقت عبادی حنفاء کلھم وانھم اتتھم الشیاطین فاضلتھم عن دینھم وحرمت علیہم ما احللت لھم و امرتھم ان یشرکوا بی مالم انزل بہ سلطانا ۔ میرا رب فرماتا ہے کہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف پیدا کیا تھا ، پھر شیاطین نے آکر انیں ان کے دین سے گمراہ کیا ، اور جو کچھ میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا اسے حرام کیا ، اور انہیں حکم دیا کہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک ٹھہرائیں جن کے شریک ہونے پر میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 46 یعنی خدا نے انسان کو اپنا بندہ بنایا ہے اور اپنی ہی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے ۔ یہ ساخت کسی کے بدلے نہیں بدل سکتی ۔ نہ آدمی بندہ سے غیر بندہ بن سکتا ہے ، نہ کسی غیر خدا کو خدا بنا لینے سے وہ حقیقت میں اس کا خدا بن سکتا ہے ۔ انسان خواہ اپنے کتنے ہی معبود بنا بیٹھے ، لیکن یہ امر واقعہ اپنی جگہ اٹل ہے کہ وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہے ۔ انسان اپنی حماقت اور جہالت کی بنا پر جس کو بھی چاہے خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دے لے اور جسے بھی چاہے اپنی قسمت کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ بیٹھے ، مگر حقیقت نفس الامری یہی ہے کہ نہ الوہیت کی صفات اللہ تعالی کے سوا کسی کو حاصل نہیں نہ اس کے اختیارات ، اور نہ کسی دوسرے کے پاس یہ طاقت ہے کہ انسان کی قسمت بنا سکے یا بگاڑ سکے ۔ ایک دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی نہ کیا جائے یعنی اللہ نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے اس کو بگاڑنا اور مسخ کرنا درست نہیں ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 47 یعنی فطرت سلیمہ پر قائم رہنا ہی سیدھا اور صحیح طریقہ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں یہ صلاحیت رکھ دی ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کو پہچانے، اس کی توحید کا قائل ہو، اور اس کے پیغمبروں کے لائے ہوئے دین کی پیروی کرے، اسی کو آیت میں فطرت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 14: یہ فطری صلاحیت جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو عطا فرمائی ہے، اس صلاحیت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ماحول کے اثر سے انسان غلط راستے پر جاسکتا ہے، لیکن اس کی یہ صلاحیت ختم نہیں ہوسکتی، چنانچہ جب کبھی وہ ضد اور عناد کو چھوڑ کر حق پرستی کے جذبے سے غور کرے گا تو اس کی یہ صلاحیت کام دکھائے گی، اور حق تک پہنچ جائے گا، البتہ یہ اور بات ہے کہ کوئی شخص مسلسل ضد اور عناد کی روش اختیار کئے رکھے، اور حق بات سننے کے لئے تیار ہی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ خود اس کے دل پر مہر لگادے، جیسا کہ کئی آیتوں میں بعض کافروں کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمایا ہے، سورۂ بقرہ (٢۔ ٧) اور پیچھے آیت نمبر : ٢٩ میں یہی حقیقت بیان فرمائی گئی ہے۔