Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

311یعنی ایمان تقوٰی اور اقامت صلاۃ سے گریز کر کے، مشرکین میں سے نہ ہوجاؤ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤] لہذا جس کسی نے بھی اس فطری دین کے خلاف کوئی غلط طرز عمل اختیار کر رکھا ہے اسے چاہئے کہ وہ اسی فطری دین کی طرف لوٹ آئے۔ اور اللہ کی نافرمانی اور سرکشی سے ڈر جائے اور سب سے بڑی سرکشی اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کو پامال کرنا ہے۔ اور چونکہ اللہ سے ڈرنا ایک قلبی عمل ہے لہذا اس صفت کے اظہار کے لئے نماز کو ہمیشگی سے ادا کرتے رہو۔ اس سے تم میں مزید تقویٰ پیدا ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ڎمُنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ ۔۔ : یعنی آپ اور آپ کی امت اپنا چہرہ اس دین کے لیے سیدھا رکھیں، اس طرح کہ تم میں سے جس جس نے بھی اپنے مالک حقیقی سے کسی طرح کا انحراف کیا ہو، پھر اسی کی طرف پلٹ آنے والا ہو۔ ” وَاتَّقُوْهُ “ اور دل میں اس سے ڈرتے رہو۔- وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ : اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اس کا تقویٰ اور خوف دل کے اعمال ہیں۔ سب کے سامنے اس کے اظہار کے لیے لازم ہے کہ نماز قائم کرو، کیونکہ وہ دین کا عمود ہے اور اسلام کا ایسا شعار ہے جس سے کسی شخص کے مومن یا مشرک ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( بَیْنَ الرَّجُلِ وَ بَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاۃِ ) [ مسلم، الإیمان، باب بیان إطلاق اسم الکفر۔۔ : ٨٢ ] ” آدمی کے درمیان اور شرک و کفر کے درمیان ترک صلوٰۃ (کا فرق) ہے۔ “ - وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ : اور کوئی ایسا کام نہ کرو جس سے تمہارا شمار مشرکین میں ہوجائے۔ نہ شرک جلی کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک بناؤ اور اس کی عبادت کرنے لگو، خواہ کسی زندہ کی عبادت ہو یا مردہ کی، بت کی عبادت ہو یا قبر کی یا آگ وغیرہ کی۔ نہ شرک خفی کرو جو ریا ہے اور نہ مشرکین کو دلی دوست بناؤ، کیونکہ اس سے تمہارا شمار انھی میں ہوگا، فرمایا : (وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ ) [ المائدۃ : ٥١ ] ” اور جو ان (یہود و نصاریٰ ) کو دوست بنائے تو بلاشبہ وہ انھی میں سے ہے۔ “ اور نہ مشرکین کی مشابہت اختیار کرو، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ ) [ أبوداوٗد، اللباس، باب في لبس الشھرۃ : ٤٠٣١، عن ابن عمر و قال الألباني حسن صحیح ] ” جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ انھی میں سے ہے۔ “ نہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مقابلے میں کسی بھی شخص کے قول کو اپنا دین بناؤ، خواہ وہ امام ہوں یا پیر یا درویش، کیونکہ اسی وجہ سے یہود و نصاریٰ کا شمار مشرکین میں ہوا، فرمایا : (اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ) [ التوبۃ : ٣١ ] ” انھوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ، پچھلی آیت میں انسان کی فطرت کو قبول حق کے قابل اور مستعد بنانے کا ذکر تھا۔ اس آیت میں اول قبول حق کی صورت یہ بتلائی گئی کہ نماز قائم کریں کہ وہ عملی طور پر ایمان و اسلام اور اطاعت حق کا اظہار ہے اس کے بعد فرمایا وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ، یعنی شرک کرنے والوں میں شامل نہ ہوجاؤ جنہوں نے اپنی فطرت اور قبول حق کی استعداد سے کام لیا، آگے ان کی گمراہی کا ذکر ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مُنِيْبِيْنَ اِلَيْہِ وَاتَّقُوْہُ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝ ٣١ۙ- نوب - النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] - ( ن و ب ) النوب - ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً- [ الفرقان 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ- «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ- [هود 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

تم ایمان والے ہوجاؤ یا یہ کہ اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعہ اللہ کی طرف رجوع کرو اور جن چیزوں کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے ان کو اچھی طرح پورا کرو اور پانچوں نمازوں کی پابندی کرو اور مشرکین کے ساتھ ہو کر ان کے دین کو مت اپناؤ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ (مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ وَاتَّقُوْہُ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) ” - یہاں مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ کے الفاظ میں گویا پچھلی آیت کے مضمون (فَاَقِمْ وَجْہَکَ للدِّیْنِ حَنِیْفًا ط) کا ہی تسلسل ہے۔ پچھلی آیت میں صیغہ واحد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب تھا اور اب جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے اس حکم میں امت کو بھی شامل کرلیا گیا ہے۔ قرآن کے اس اسلوب کا قبل ازیں کئی بار ذکر ہوچکا ہے کہ مکی سورتوں میں اکثر مقامات پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صیغہ واحد کے پردے میں اصل خطاب امت سے ہی ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 48 اللہ کی طرف رجوع سے مراد یہ ہے کہ جس نے بھی آزادی و خود مختاری کا رویہ اختیار کرکے اپنے مالک حقیقی سے انحراف کیا ہو ، یا جس نے بھی بندگی غیر کا طریقہ اختیار کر کے اپنے اصلی و حقیقی رب سے بے وفائی کی ہو ، وہ اپنی اس روش سے باز آجائے اور اسی ایک خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے جس کا بندہ حقیقت میں وہ پیدا ہوا ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 49 یعنی تمہارے دل میں اس بات کا خوف ہونا چاہیے کہ اگر اللہ کے پیدائشی بندے ہونے کے باوجود تم نے اس کے مقابلے میں خود مختاری کا رویہ اختیار کیا ، یا اس کے بجائے کسی اور کی بندگی کی تو اس غداری و نمک حرامی کی سخت سزا تمہیں بھگتنی ہوگی ، اس لیے تمہیں ایسی ہر روش سے بچنا چاہیے جو تم کو خدا کے غضب کا مستحق بناتی ہو ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 50 اللہ تعالی کی طرف رجوع اور اس کے غضب کا خوف ، دونوں قلب کے افعال ہیں ۔ اس قلبی کیفیت کو اپنے ظہور اور اپنے استحکام کے لیے لازما کسی ایسے جسمانی فعل کی ضرورت ہے جس سے خارج میں بھی ہر شخص کو معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص واقعی اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی کی طرف پلٹ آیا ہے ، اور آدمی کے اپنے نفس میں بھی اس رجوع و تقوی کی کیفیت کو ایک عملی ممارست کے ذریعہ سے پے در پے نشو ونما نصیب ہوتا چلا جائے ۔ اسی لیے اللہ تعالی اس ذہنی تبدیلی کا حکم دینے کے بعد فورا ہی اس جسمانی عمل ، یعنی اقامت صلوۃ کا حکم دیتا ہے ۔ آدمی کے ذہن میں جب تک کوئی خیال محض خیال کی حد تک رہتا ہے ، اس میں استحکام اور پائیداری نہیں ہوتی ۔ اس خیال کے ماند پڑ جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے اور بدل جانے کا بھی امکان ہوتا ہے ۔ لیکن جب وہ اس کے مطابق کام کرنے لگتا ہے تو وہ خیال اس کے اندر جڑ پکڑ لیتا ہے ، اور جوں جوں وہ اس پر عمل کرتا جاتا ہے ، اس کا استحکام بڑھتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ اس عقیدہ و فکر کا بدل جانا یا ماند پڑ جانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے ۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو رجوع الی اللہ اور خوف خدا کو مستحکم کرنے کے لیے ہر روز پانچ وقت پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل کارگر نہیں ہے ۔ کیونکہ دوسرا جو عمل بھی ہو ، اس کی نوبت دیر دیر میں آتی ہے یا متفرق صورتوں میں مختلف مواقع پر آتی ہے ۔ لیکن نماز ایک ایسا عمل ہے جو ہر چند گھنٹوں کے بعد ایک ہی متعین صورت میں آدمی کو دائما کرنا ہوتا ہے ، اور اس میں ایمان و اسلام کا وہ پورا سبق جو قرآن نے اسے پڑھایا ہے ، آدمی کو بار بار دہرانا ہوتا ہے تاکہ وہ اسے بھولنے نہ پائے ۔ مزید برآں کفار اور اہل ایمان دونوں پر یہ ظاہر ہونا ضروری ہے کہ انسانی آبادی میں سے کس کس نے بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعت رب کی روش اختیار کرلی ہے ۔ اہل ایمان پر اس کا ظہور اس لیے درکار ہے کہ ان کی ایک جماعت اور سوسائٹی بن سکے اور وہ خدا کی راہ میں ایک دوسرے سے تعاون کرسکیں اور ایمان و اسلام سے جب بھی ان کے گروہ کے کسی شخص کا تعلق ڈھیلا پڑنا شروع ہو اسی وقت کوئی علامت فورا ہی تمام اہل ایمان کو اس کی حالت سے با خبر کردے ۔ کفار پر اس کا ظہور اس لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر کی سوئی ہوئی فطرت اپنے ہم جنس انسانوں کو خداوند حقیقی کی طرف بار بار پلٹتے دیکھ کر جاگ سکے ، اور جب تک وہ نہ جاگے ان پر خدا کے فرمانبرداروں کی عملی سرگرمی دیکھ دیکھ کر دہشت طاری ہوتی رہے ۔ ان دونوں مقاصد کے لیے بھی اقامت صلوۃ ہی سب سے زیادہ موزوں ذریعہ ہے ۔ اس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اقامت صلوۃ کا یہ حکم مکہ معظمہ کے اس دور میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک مٹھی بھر جماعت کفار قریش کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی تھی اور اس کے بعد بھی 9 برس تک پستی رہی ۔ اس وقت دور دور بھی کہیں اسلامی حکومت کا نام و نشان نہیں تھا ۔ اگر نماز اسلامی حکومت کے بغیر بے معنی ہوتی ، جیسا کہ بعض نادان سمجھتے ہیں ، یا اقامت صلوۃ سے مراد نماز قائم کرنا سرے سے ہوتا ہی نہیں بلکہ نظام ربوبیت چلانا ہوتا ، جیسا کہ منکرین سنت کا دعوی ہے ، تو اس حالت میں قرآن مجید کا یہ حکم دینا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟ اور یہ حکم آنے کے بعد 9 سال تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان اس حکم کی تعمیل آخر کس طرح کرتے رہے؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani