3 2 1یعنی اصل دین کو چھوڑ کر یا اس میں من مانی تبدیلیاں کرکے الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے، جیسے کوئی یہودی، کوئی نصرانی، کوئی مجوسی وغیرہ ہوگیا۔ 3 2 2یعنی ہر فرقہ اور گروہ سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور دوسرے باطل پر، اور جو سہارے انہوں نے تلاش کر رکھے ہیں جن کو وہ دلائل سے تعبیر کرتے ہیں، ان پر خوش اور مطمئن ہیں، بدقسمتی سے ملت اسلامیہ کا بھی یہی حال ہوا کہ وہ بھی مختلف فرقوں میں بٹ گئی اور ان کا بھی ہر فرقہ اسی زعم باطل میں مبتلا ہے کہ وہ حق پر ہے، حالانکہ حق پر صرف ایک ہی گروہ ہے جس کی پہچان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلا دی ہے کہ میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہوگا۔
[٣٥] یعنی فطری دین تو خالص توحید پر مبنی ہے۔ اب جو کوئی اس فطری دین میں کچھ بگاڑ پیدا کرے گا یا اس میں کچھ اضافے کرے گا پھر ان بگڑے ہوئے یا زائد عقائد پر لوگوں کی جتھہ بندی کرکے کوئی ایک فرقہ کھڑا کردے گا جس کا امتیاز وہی بگڑا ہوا یا زائد عقیدہ ہوسکتا ہے تو ایسے سب کام شرک میں داخل ہیں اس طرح اس فطری دین میں بگاڑ پیدا کرنے والے، ان میں اضافے کرنے والے اور ان کی اتباع کرنے والے سب کے سب مشرک ہوئے۔- اس آیت کی رو سے یہ معلوم ہوا کہ انسان ابتداًء توحید پرست تھا۔ توحید ہی اس کا فطری مذہب ہے۔ نیز ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) خود نبی تھے اور نبی فطری دین یعنی توحید کا داعی ہوتا ہے لیکن جب موجودہ دور کے محققین مذہب کی تاریخ لکھنے بیٹھتے ہیں تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان ابتداًء مظاہر پرست تھا پھر آہستہ آہستہ توحید کی طرف پلٹا ہے۔ یہ فلسفہ مذاہب سراسر وہم و قیاس پر مبنی ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ انسانوں نے فطری حقائق کو مسخ کرکے اور ان میں اضافے کرکے نئے نئے مذاہب اور فرقے ایجاد کر ڈالے ہیں (تفصیل کے لئے سورة بقرہ کے آیت نمبر ٢١٣ کا حاشیہ نمبر ٢٨١ ملاحظہ فرمائیے)- [ ٣٦] مزید بگاڑ یہ پیدا ہوگیا کہ جو فطری حقائق تھے انھیں تو لوگوں نے درخور اعتنا ہی نہ سمجھا اور اپنی اپنی اضافہ کردہ چیزوں کا ہی گرویدہ اور مقنوں ہوگیا۔ جس کی بدولت وہ دوسروں سے جدا ہو کر ایک الگ فرقہ بنا تھا۔ پھر فرقہ کے لوگوں میں اپنے ٹھہرائے ہوئے اصول و عقائد پر کچھ ایسا تعصب پیدا ہوگیا کہ اسے اپنے ان غیر فطری اور مہمل عقائد میں غلطی کا امکان تک تصور میں نہیں آتا تھا۔ اور ہر کوئی دوسرے فرقوں کو گمراہ قرار دینے لگا اور صرف اپنے آپ کو حق پر سمجھ کر اسی میں مگن ہوگیا۔
مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا : یعنی ان لوگوں سے نہ ہوجاؤ جنھوں نے اصل اور فطری دین (توحید) کو چھوڑ کر اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور کئی گروہ بن گئے۔ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کوئی کسی کی عبادت کرنے لگا اور کوئی کسی دوسرے کی۔ ان کا مختلف گروہوں میں بٹ جانا ہی ان کے باطل ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ حق ایک ہے اور باطل گروہوں کا شمار نہیں۔ ”ۙمِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة انعام (١٥٩) معلوم ہوا دنیا میں کفر و شرک کے جتنے دین پائے جاتے ہیں وہ سب اصل دین فطرت (توحید) میں بگاڑ سے پیدا ہوئے ہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢١٣) اور سورة یونس (١٩) ۔- كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ : یعنی ہر فرقہ اور گروہ سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور دوسرے باطل پر، اور جو سہارے انھوں نے تلاش کر رکھے ہیں انھیں دلائل سے تعبیر کرتے ہیں اور ان پر خوش ہیں۔
مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا، یعنی یہ مشرکین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین فطرت اور دین حق میں تفریق پیدا کردی، یا یہ کہ دین فطرت سے مفارق اور الگ ہوگئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مختلف پارٹیوں میں بٹ گئے۔ شیعاً شیعہ کی جمع ہے، ایسی جماعت جو کسی مقتداء کی پیرو ہو، اس کو شیعہ کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دین فطرت تو توحید تھا جس کا اثر یہ ہونا چاہئے تھا کہ سب انسان اس کو اختیار کر کے ایک ہی قوم ایک ہی جماعت بنتے مگر انہوں نے اس توحید کو چھوڑا اور مختلف لوگوں کے خیالات کے تابع ہوگئی اور انسانی خیالات اور رایوں میں اختلاف ایک طبعی امر ہے، اس لئے ہر ایک نے اپنا اپنا ایک مذہب بنا لیا، عوام ان کے سبب مختلف پارٹیوں میں بٹ گئے اور شیطان نے ان کو اپنے اپنے خیالات و معتقدات کو حق قرار دینے میں ایسا لگا دیا کہ كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ ، یعنی ان کی ہر پارٹی اپنے اپنے اعتقادات و خیالات پر مگن اور خوش ہے اور دوسروں کو غلطی پر بتاتی ہے حالانکہ یہ سب کے سب گمراہی کے غلط راستوں پر پڑے ہوئے ہیں۔
مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَہُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا ٠ ۭ كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَيْہِمْ فَرِحُوْنَ ٣٢- تَّفْرِيقُ ( فرقان)- أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو :- يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ- [ طه 94] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة 285] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة 136] ، إنما جاز أن يجعل التّفریق منسوبا إلى (أحد) من حيث إنّ لفظ (أحد) يفيد في النّفي، وقال : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام 159] ، وقرئ :- فَارَقُوا «1» والفِراقُ والْمُفَارَقَةُ تکون بالأبدان أكثر . قال : هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف 78] ، وقوله : وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة 28] ، أي : غلب علی قلبه أنه حين مفارقته الدّنيا بالموت، وقوله : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء 150] ، أي :- يظهرون الإيمان بالله ويکفرون بالرّسل خلاف ما أمرهم اللہ به . وقوله : وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء 152] ، أي : آمنوا برسل اللہ جمیعا، والفُرْقَانُ- أبلغ من الفرق، لأنه يستعمل في الفرق بين الحقّ والباطل، وتقدیره کتقدیر : رجل قنعان : يقنع به في الحکم، وهو اسم لا مصدر فيما قيل، والفرق يستعمل في ذلک وفي غيره، وقوله : يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، أي : الیوم الذي يفرق فيه بين الحقّ والباطل، والحجّة والشّبهة، وقوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً- [ الأنفال 29] ، أي : نورا وتوفیقا علی قلوبکم يفرق به بين الحق والباطل «1» ، فکان الفرقان هاهنا کالسّكينة والرّوح في غيره، وقوله : وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، قيل :- أريد به يوم بدر «2» ، فإنّه أوّل يوم فُرِقَ فيه بين الحقّ والباطل، والفُرْقَانُ : کلام اللہ تعالی، لفرقه بين الحقّ والباطل في الاعتقاد، والصّدق والکذب في المقال، والصالح والطّالح في الأعمال، وذلک في القرآن والتوراة والإنجیل، قال : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] ، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] ، تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] ، شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] .- والفَرَقُ : تَفَرُّقُ القلب من الخوف، واستعمال الفرق فيه کاستعمال الصّدع والشّقّ فيه . قال تعالی: وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة 56] ، ويقال : رجل فَرُوقٌ وفَرُوقَةٌ ، وامرأة كذلك، ومنه قيل للناقة التي تذهب في الأرض نادّة من وجع المخاض : فَارِقٌ وفَارِقَةٌ «3» ، وبها شبّه السّحابة المنفردة فقیل : فَارِقٌ ، والْأَفْرَقُ من الدّيك : ما عُرْفُهُ مَفْرُوقٌ ، ومن الخیل : ما أحد وركيه أرفع من الآخر، والفَرِيقَةُ : تمر يطبخ بحلبة، والفَرُوقَةُ : شحم الکليتين .- التفریق - اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ طه 94] کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ۔ اور آیت کریمہ : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة 285] ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے ۔ نیز آیت : ۔ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة 136] ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے میں احد کا لفظ چونکہ حرف نفی کے تحت واقع ہونے کی وجہ سے جمع کے معنی میں ہے لہذا تفریق کی نسبت اس کی طرف جائز ہے اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام 159] جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے رستے نکالے ۔ میں ایک قرات فارقوا ہے اور فرق ومفارقۃ کا لفظ عام طور پر اجسام کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف 78] اب مجھ میں اور تجھ میں علیحد گی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة 28] اس ( جان بلب ) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ بس اب دنیا سے مفارقت کا وقت قریب آپہنچا ہے اور آیت کریمہ : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء 150] اور خدا اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں مگر حکم الہی کی مخالفت کر کے اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء 152] اور ان میں کسی میں فرق نہ کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ - الفرقان - یہ فرق سے ابلغ ہے کیونکہ یہ حق اور باطل کو الگ الگ کردینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ رجل وقنعان ( یعنی وہ آدمی جس کے حکم پر قناعت کی جائے ) کی طرح اسم صفت ہے مصدر نہیں ہے اور - فرق کا لفظ عام ہے جو حق کو باطل سے الگ کرنے کے لئے بھی آتا ہے اور دوسری چیزوں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال 29] مومنوں اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امر فارق پیدا کر دیگا ( یعنی تم کو ممتاز کر دے گا ۔ میں فر قان سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کے اندر نور اور توفیق پیدا کر دیگا جس کے ذریعہ تم حق و باطل میں امتیاز کرسکو گے تو گویا یہاں فرقان کا لفظ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ سکینۃ اور روح کے الفاظ ہیں اور قرآن نے یوم الفرقان اس دن کو کہا ہے جس روز کہ حق و باطل اور صحیح وغلط کے مابین فرق اور امتیاز ظاہر ہوا چناچہ آیت : ۔ وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] اور اس ( نصرت ) پر ایمان رکھتے ہو جو ( حق و باطل میں ) فرق کرنے کے دن نازل فرمائی ۔ میں یوم الفرقان سے جنگ بدر کا دن مراد ہے کیونکہ وہ ( تاریخ اسلام میں ) پہلا دن ہے جس میں حق و باطل میں کھلا کھلا امتیاز ہوگیا تھا ۔ اور کلام الہی ( وحی ) بھی فرقان ہوتی ہے کیونکہ وہ حق اور باطل عقائد میں فرق کردیتی ہے سچی اور جھوٹی باتوں اور اچھے برے اعمال کو بالکل الگ الگ بیان کردیتی ہے اس لئے قرآن کریم تورات اور انجیل کو فرقان سے تعبیر فرما گیا ہے چناچہ توراۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون هْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] (علیہ السلام) کو ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی ۔ ،۔۔ عطا کی ۔ تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] وہ خدائے عزوجل بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو معجزے دیئے روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( اول اول ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور حق و باطل کو ) الگ الگ کرنے والا ہے - الفرق - کے معنی خوف کی وجہ سے دل کے پرا گندہ ہوجانے کے ہیں اور دل کے متعلق اس کا استعمال ایسے ہی ہے جس طرح کہ صدع وشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة 56] اصل یہ ہے کہ یہ ڈر پوک لوگ ہے ۔ اور فروق وفروقۃ کے معنی ڈرپوک مرد یا عورت کے ہیں اور اسی سے اس اونٹنی کو جو درندہ کی وجہ سے بدک کر دور بھاگ جائے ۔ فارق یا فارقۃ کہا جاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر اس بدلی کو بھی فارق کہا جاتا ہے جو دوسری بد لیوں سے علیحد ہ ہو ۔ وہ مرغ جس کی کلفی شاخ در شاخ ہو ( 2 ) وہ گھوڑا جس کا ایک سرین دوسرے سے اونچا ہو ۔ الفریقۃ دودھ میں پکائی ہوئی کھجور ۔ الفریقہ گردوں کی چربی ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- شيع - الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ- [ الصافات 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] .- ( ش ی ع ) الشیاع - کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم : قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب : ایندھن ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات 83] اور ان ہی یعنی نوح (علیہ السلام) کے پیرؤں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔- حزب - الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] - ( ح ز ب ) الحزب - وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے - لدی - لَدَى يقارب لدن . قال تعالی: وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] .- ( ل د ی ) لدی یہ تقریبا لدن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا - فرح - الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] ،- ( ف ر ح ) ا لفرح - کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے
جنہوں نے دین اسلام کو چھوڑ دیا اور مختلف فرقوں میں بٹ گئے کوئی یہودی ہے تو کوئی نصرانی اور کوئی مجوسی اور ہر ایک گروہ اپنے اس طریقہ پر نازاں ہے جو اس کے پاس ہے اور اپنے خیال میں اسی کو حق سمجھ رہا ہے۔
آیت ٣٢ (مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا ط) ” - فَرَقَکے معنی جدا کرنا اور پھاڑ دینا کے ہیں ‘ جبکہ فَرَّقَ میں اس بنیادی معنی پر مستزاد کسی چیز کو کاٹ دینا ‘ توڑ دینا اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیناکا مفہوم بھی شامل ہوجاتا ہے۔ سورة البقرۃ میں ارشاد ہوا : (وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ وَاَغْرَقْنَا اٰلَ فِرْعَوْنَ ) ( آیت ٥٠) ” اور یاد کرو جب کہ ہم نے تمہاری خاطر سمندر کو پھاڑ دیا پھر تمہیں بچالیا اور فرعونیوں کو غرق کردیا “۔ اس طرح فرق یا فرقہ کے معنی کسی چیز کا کٹا ہوا حصہ یا ٹکڑا کے ہیں۔ جیسا کہ سورة الشعراء کی اس آیت میں ہے : (فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ ) ” تو وہ (سمندر ) پھٹ گیا ‘ پھر ہوگیا ہر ٹکڑا ایک بہت بڑے پہاڑ کی مانند۔ “- اس اعتبار سے دین کو پھاڑنے اور ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ دین کے نام لیواؤں نے اپنی اطاعت کو اس طرح منتشر کردیا کہ زندگی کے ایک حصے میں تو اللہ کی اطاعت کرتے رہے ‘ جبکہ کسی دوسرے معاملے میں کسی اور کی بات مانتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا نظام زندگی منتشر ہو کر رہ گیا۔ اس سلسلے میں اللہ کا حکم بہت واضح ہے : (وَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ط) (الاعراف : ٢٩) ” اور اسی کو پکارو دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے “۔ یعنی اللہ کی اطاعت کے متوازی کسی دوسرے کی اطاعت قابل قبول نہیں کہ کچھ احکام اللہ کے مان لیے جائیں اور کچھ میں کسی دوسرے کی پیروی کی جائے۔ ہاں اللہ کی اطاعت کے تابع رہ کر کسی اور کی اطاعت میں کوئی حرج نہیں۔ مثلاً والدین کی اطاعت کرنا ‘ اساتذہ کا کہنا ماننا اور حکامّ کا فرمانبردار بن کر رہنا ضروری ہے ‘ مگر اس وقت تک جب تک کہ ان میں سے کوئی اللہ کی معصیت کا حکم نہ دے۔ اس سلسلے میں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت واضح اصول بیان فرما دیا ہے : (لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ ) (١) یعنی مخلوق کی ایسی اطاعت نہیں کی جائے گی جس سے خالق کی نافرمانی ہوتی ہو۔ - (کُلُّ حِزْبٍم بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ ) ” - ایک گروہ دین کے ایک حصے پر عمل کر رہا ہے ‘ دوسرے گروہ نے اپنی پسند کے کچھ اور احکام کو اپنی پیروی کے لیے منتخب کرلیا ہے اور تیسرے نے کوئی اور راستہ نکال لیا ہے۔ غرض مختلف گروہوں نے دین کے مختلف حصوں کو آپس میں بانٹ لیا ہے اور ہر گروہ اپنے طریقے میں مگن ہے اور اس پر اترا رہا ہے ‘ حالانکہ ان میں سے کوئی گروہ بھی پورے دین پر عمل پیرا نہیں ہے۔
سورة الروم حاشیہ نمبر : 51 یہ اشارہ ہے اس چیز کی طرف کہ نوع انسانی کا اصل دین وہی دین فطرت ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ دین مشرکانہ مذاہب سے بتدریج ارتقاء کرتا ہوا توحید تک نہیں پہنچا ہے ، جیسا کہ قیاس و گمان سے ایک فلسفہ مذہب گھڑ لینے والے حضرات سمجھتے ہیں ، بلکہ اس کے برعکس یہ جتنے مذاہب دنیا میں پائے جاتے ہیں یہ سب کے سب اس اصلی دین میں بگاڑ آنے سے رونما ہوئے ہیں ، اور یہ بگاڑ اس لیے آیا ہے کہ مختلف لوگوں نے فطری حقائق پر اپنی اپنی نو ایجاد باتوں کا اضافہ کر کے اپنے الگ دین بنا ڈالے ، اور ہر ایک اصل حقیقت کے بجائے اس اضافہ شدہ چیز کا گرویدہ ہوگیا جس کی بدولت وہ دوسروں سے جدا ہوکر ایک مستقل فرقہ بنا تھا ۔ اب جو شخص بھی ہدایت پاسکتا ہے وہ اسی طرح پاسکتا ہے کہ اس اصل حقیقت کی طرف پلٹ جائے جو دین حق کی بنیاد تھی ، اور بعد کے ان تمام اضافوں سے اور ان کے گرویدہ ہونے والے گروہوں سے دامن جھاڑ کر بالکل الگ ہوجائے ۔ ان کے ساتھ ربط کا جو رشتہ بھی وہ لگائے رکھے گا وہی دین میں خلل کا موجب ہوگا ۔
15: انسان جب پہلے پہل دنیا میں آیا تو اس نے فطری صلاحیت سے کام لے کر دین حق کو اختیار کیا، لیکن پھر لوگوں نے الگ الگ طریقے اختیار کرکے اپنے آپ کو مختلف مذاہب میں بانٹ لیا، اسی کو دین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور فرقوں میں بٹ جانے سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔