Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

371یعنی اپنی حکمت و مصلحت سے وہ کسی کو مال و دولت زیادہ اور کسی کو کم دیتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ عقل و شعور میں اور ظاہری اسباب و وسائل میں دو انسان ایک جیسے ہی محسوس ہوتے ہیں ایک جیسا ہی کاروبار بھی شروع کرتے ہیں لیکن ایک کے کاروبار کو خوب فروغ ملتا ہے اور اس کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں، جب کہ دوسرے شخص کا کاروبار محدود ہی رہتا ہے اور اسے وسعت نصیب نہیں ہوتی۔ آخر یہ کون ہستی ہے جس کے پاس تمام اختیارات ہیں اور وہ اس قسم کے تصرفات فرماتا ہے علاوہ ازیں وہ کبھی دولت فراواں کے مالک کو محتاج کردیتا ہے اور محتاج کو مال ودولت سے نواز دیتا ہے اور یہ سب اسی ایک اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤١] یعنی رزق کی فراخی اور تنگی تو خالصتہ اللہ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے وہ زیادہ دے اور جسے چاہے کم دے اور اس رزق کی کمی و بیشی میں بھی اس کی کئی مصلحتیں ہوتی ہیں (تفصیل کے لئے دیکھئے سورة عنکبوت کی آیت نمبر ٦٢ کا حاشیہ) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ رزق کی کمی بیشی کی بنا پر انسان اپنے اخلاق ہی بگاڑ لے۔ خوشحالی کا دور آئے تو پھولا نہ سمائے اور کسی کو حتیٰ کہ اللہ کو بھی خاطر میں نہ لائے اور تنگی کیا دور آئے تو اللہ کو ہی اپنے شکوؤں کا ہدف بنالے اور اس کی رحمت سے مایوس ہوجائے۔ بلکہ صحیح طرز عمل یہ ہے کہ رزق کی کمی بیشی سے اللہ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے اور کامیاب وہ انسان ہے جو ہر حال میں اخلاق فاضلہ کا مظاہرہ کرے۔ خوشحالی آئے تو اللہ کا شکر ادا کرے اور مزید سرنگوں ہوجائے اور تنگی کا وقت آئے تو صبر و تحمل سے کام رکھے اور اللہ کی رحمت کا امیدوار ہے۔ یہ اخلاق فاضلہ بذات خود اللہ کی ایسی نعمت ہے جو نہ کسی کافر و مشرک کو میسر آسکتی ہے اور نہ کسی دہریئے کو، یہ صرف اسے میسر آتی جو صرف اللہ پر ہی توکل رکھتا ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَقْدِر ُ : یعنی خوش حالی پر پھول جانے یا مصیبت پر ناامید ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان خوش حالی یا مصیبت کے معاملے کو دائمی سمجھ لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ہر روز پیش آنے والے مشاہدے کی طرف توجہ دلائی کہ کیا انھوں نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور تنگ کردیتا ہے۔ ایک ہی شخص کا رزق کبھی فراخ ہے کبھی تنگ اور ایک ہی وقت میں کسی کا رزق فراخ ہے اور کسی کا تنگ۔ رزق کا معاملہ اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ بعض اوقات بڑے بڑے عقل مند اور عالم غربت کا شکار ہوتے ہیں اور اَن پڑھوں اور بیوقوفوں کو ایسی روزی دیتا ہے کہ پڑھے لکھے اور دانا حیران ہوتے ہیں۔ یہ اللہ کی قدرت اور اس کی حکمت ہے جسے وہی جانتا ہے، کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ مومن نہ خوش حالی کو دائمی یا اپنی محنت کا نتیجہ سمجھتا ہے کہ پھول جائے اور نہ ہی مصیبت کو دائمی سمجھتا ہے کہ ناامید ہوجائے، بلکہ وہ ہر وقت خوف و رجا اور امید و بیم کے درمیان کی حالت میں رہتا ہے۔ جو اسے فخرو غرور سے بھی باز رکھتی ہے اور یاس و نا امیدی سے بھی۔- اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ : یعنی ایک ہی شخص کو کسی وقت غنی اور کسی وقت فقیر کردینے میں بہت سی نشانیاں ہیں اور ایک ہی وقت میں کسی کو غنی اور کسی کو فقیر کردینے میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ اسی طرح اس بات میں بھی بہت سی نشانیاں ہیں کہ کافر ہر لمحے دنیا کے قانون تغیر کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کوئی شخص ہمیشہ ایک حال پر نہیں رہتا، نہ سب لوگ ایک حال پر ہیں، رزق اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق پھیلتا اور سکڑتا رہتا ہے، اس کے باوجود وہ اس طرح خوشی پر مغرور اور مصیبت میں ناامید ہوتے ہیں جیسے یہ حالت ہمیشہ ہی رہے گی۔ ان تمام چیزوں میں ایمان والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں، کیونکہ ان سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں۔ کفار نہ ان پر غور کرتے ہیں، نہ انھیں ان سے کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللہَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَقْدِرُ۝ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝ ٣٧- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - بسط - بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] ، - ( ب س ط )- بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کیا ان کفار مکہ کو اللہ کی کتاب کے ذریعے یہ بات نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ آزمائش کے طور پر اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے کم دیتا ہے۔ اس بسط و قدر میں اہل ایمان کے لیے نشانیاں توحید موجود ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 56 یعنی اہل ایمان اس سے سبق حاصل کرسکتے ہیں کہ کفر و شرک کا انسان کے اخلاق پر کیا اثر پڑتا ہے ، اور اس کے برعکس ایمان باللہ کے اخلاقی نتائج کیا ہیں ۔ جو شخص سچے دل سے خدا پر ایمان رکھتا ہو اور اسی کو رزق کے خزانوں کا مالک سمجھتا ہو ، وہ کبھی اس کم ظرفی میں مبتلا نہیں ہوسکتا جس میں خدا کو بھولے ہوئے لوگ مبتلا ہوتے ہیں ۔ اسے کشادہ رزق ملے تو پھولے گا نہیں ، شکر کرے گا ، خلق خدا کے ساتھ تواضع اور فیاضی سے پیش آئے گا ، اور خدا کا مال خدا کی راہ میں صرف کرنے سے ہرگز دریغ نہ کرے گا ۔ تنگی کے ساتھ رزق ملے ، یا فاقے ہی پڑ جائیں ، تب بھی صبر سے کام لے گا ، دیانت و امانت اور خود داری کو ہاتھ سے نہ دے گا ، اور اخر وقت تک خدا سے فضل و کرم کی آس لگائے رہے گا ۔ یہ اخلاقی بلندی نہ کسی دہریے کو نصیب ہوسکتی ہے نہ مشرک کو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

16: یعنی تنگی کے مواقع پر مایوس ہو کر اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے کے بجائے اول تو یہ سمجھنا چاہئے کہ وسعت اور تنگی کا فیصلہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور مصلحت کے تحت فرماتا ہے جو ضروری نہیں کہ ہر ایک کی خواہشات کے مطابق ہو، یا اس کی سمجھ میں بھی آجائے، دوسرے چونکہ وسعت اور تنگی اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں، اس لیے تنگی کے مواقع پر اسی کی طرف رجوع کر کے اسی سے مدد مانگنی چاہئے۔