وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْهِمْ ۔۔ : واؤ حالیہ ہے اور ” اِنْ کَانُوا “ اصل میں ”إِنَّھُمْ کَانُوْا “ ہے۔” لَمُبْلِسِیْن “ پر آنے والے لام کی وجہ سے ”إِنَّ “ کو ” اِن “ سے بدل دیا اور ” ھُمْ “ کو حذف کردیا۔” مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّنَزَّلَ “ کے بعد ” مِنْ قَبْلِهٖ “ دوبارہ لانے کا مطلب تاکید ہے، یعنی وہ بارش اترنے سے پہلے، اس کے عین پہلے تک بالکل ناامید تھے۔ اس میں لمبی ناامیدی کا نہایت تیزی کے ساتھ فوری خوشی میں بدلنے کا بیان ہے، یعنی وہ بالکل ناامید تھے، بارش اترتے ہی خوشیاں منانے لگے۔ اس سے اللہ کی قدرت معلوم ہوتی ہے کہ لمحہ بھر میں دنیا کی حالت بدل جاتی ہے، کچھ دیر پہلے سب کے چہرے اترے ہوئے تھے اور اب بارش کے بعد ہر طرف خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔
وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْہِمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمُبْلِسِيْنَ ٤٩- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - بلس - الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] ، وقال تعالی: أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» .- ( ب ل س ) الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے ب کے ہیں ۔ بلست الناقۃ فھی مبلاس آواز نہ کرو ناقہ زغایت خواہش کش اور کلاس بمعنی ٹاٹ فارسی پل اس سے معرب ہے ۔
اور وہ بارش کے برسنے سے پہلے بارش سے بالکل ہی ناامید ہورہے تھے۔
آیت ٤٩ (وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْہِمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمُبْلِسِیْنَ ) ” - جس انسانی نفسیاتی کیفیت کا نقشہ یہاں کھینچا گیا ہے اس کا تجربہ مصنوعی آب پاشی کے علاقوں کے لوگوں کو کم ہوتا ہے جبکہ بارانی علاقوں میں اس کے مظاہر اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔ اکثر اوقات جب کسانوں کی مایوسی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو اچانک موسم کروٹ لیتا ہے ‘ ہوائیں اپنا رخ بدلتی ہیں ‘ فضا میں گھٹائیں نمودار ہوتی ہیں ‘ دیکھتے ہی دیکھتے خشک زمین سیراب ہوجاتی ہے اور کسان ‘ مزدور ‘ چرند ‘ پرند ‘ حشرات الارض وغیرہ سب نہال ہوجاتے ہیں۔