پیدائش انسان کی مرحلہ وار روداد انسان کی ترقی وتنزل اس کی اصل تو مٹی سے ہے ۔ پھر نطفے سے پھرخون بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے پھر اسے ہڈیاں پہنائی جاتی ہیں پھر ہڈیوں پر گوشت پوست پہنایا جاتا ہے پھر روح پھونکی جاتی ہے پھر ماں کے پیٹ سے ضعیف ونحیف ہو کر نکلتا ہے پھر تھوڑا تھوڑا بڑھتا ہے اور مضبوط ہوتا جاتا ہے پھر بچپن کے زمانے کی بہاریں دیکھتا ہے پھر جوانی کے قریب پہنچتا ہے پھر جوان ہوتا ہے آخر نشوونما موقوف ہوجاتی ہے ۔ اب قوی پھر مضمحل ہونے شروع ہوتے ہیں طاقتیں گھٹنے لگتی ہیں ادھیڑ عمر کر پہنچتا ہے پھر بڈھا ہوتا پھونس ہوجاتا ہے طاقت کے بعد یہ کمزوری بھی قابل عبرت ہوتی ہے ۔ کہ ہمت پست ہے ، دیکھنا سننا چلنا پھرنا اٹھنا اچکنا پکڑنا غرض ہرطاقت گھٹ جاتی ہے ۔ رفتہ رفتہ بالکل جواب دے جاتی ہے اور ساری صفتیں متغیر ہوجاتی ہے ۔ بدن پر جھریاں پڑجاتی ہیں ۔ رخسار پچک جاتے ہیں دانت ٹوٹ جاتے ہیں بال سفید ہوجاتے ہیں ۔ یہ قوت کے بعد کی ضعیفی اور بڑھاپا ۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ بنانا بگاڑنا اس کی قدرت کے ادنی کرشمے ہیں ۔ ساری مخلوق اس کی غلام وہ سب کا مالک وہ عالم وقادر نہ اس کا سا کسی کا علم نہ اس جیسی کسی کی قدرت ۔ حضرت عطیہ عوفی کہتے ہیں میں نے اس آیت کو ضعفا تک حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے پڑھا تو آپ نے بھی اسے تلاوت کی اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس آیت کو اتناہی پڑھا تھا جو آپ پڑھنے لگے جس طرح میں نے تمہاری قرأت پر قرأت شروع کردی ( ابوداؤد ترمذی مسند احمد )
5 4 1یہاں سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ایک اور کمال بیان فرما رہا ہے اور وہ ہے مختلف اطوار سے انسان کی تخلیق۔ ضعف (کمزوری کی حالت) سے مراد نطفہ یعنی قطرہ آب ہے یا عالم طفولیت۔ 5 4 2یعنی جوانی، جس میں قوائے عقلی و جسمانی کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ 5 4 3کمزوری سے مراد کہولت کی عمر ہے جس میں عقلی و جسمانی قوتوں میں نقصان کا آغاز ہوجاتا ہے اور بڑھاپے سے مراد شیخوخت کا وہ دور ہے جس میں ضعف بڑھ جاتا ہے۔ ہمت پست ہاتھ پیروں کی حرکت اور گرفت کمزور، بال سفید اور تمام ظاہری و باطنی صفات متغیر ہوجاتی ہیں۔ قرآن نے انسان کے یہ چار بڑے اطوار بیان کیے ہیں۔ بعض علماء نے دیگر چھوٹے چھوٹے اطوار بھی شمار کر کے انھیں قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے جو قرآن کے اجمال کی توضیح اور اس کے اعجاز بیان کی شرح ہے مثلا امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ انسان یکے بعد دیگرے ان حالات واطوار سے گزرتا ہے۔ اس کی اصل مٹی ہے یعنی اس کے باپ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی یا انسان جو کچھ کھاتا ہے جس سے وہ منی پیدا ہوتی ہے جو رحم مادر میں جاکر اس کے وجود و تخلیق کا باعث بنتی ہے، وہ سب مٹی ہی کی پیداوار ہے پھر وہ نطفہ، نطفہ سے علقہ پھر مضغہ پھر ہڈیاں جنہیں گوشت کا لباس پہنایا جاتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پھر ماں کے پیٹ سے اس حال میں نکلتا ہے کہ نحیف و نزار اور نہایت نرم ونازک ہوتا ہے۔ پھر بتدریج نشوونما پاتا، بچپن، بلوغت اور جوانی کو پہنچتا ہے اور پھر بتدریج رجعت قہقری کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ کہولت، شیخوخت اور پھر کبر سنی تاآنکہ موت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ 5 4 3انہی اشیاء میں ضعف و قوت بھی ہے، جس سے انسان گزرتا ہے جیسا کہ ابھی تفصیل بیان ہوئی ہے۔
[٥٩] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی وہ تدریجی حالتیں بیان فرمائی ہیں جن میں مجبور محض ہوتا ہے اور اپنے اختیار سے ان حالتوں میں خود کوئی تبدیلی لانا ممکن نہیں ہے، پیدا ہوتا ہے تو اس قدر کمزور کہ کسی بھی جاندرا کا بچہ اتنا کمزور پیدا نہیں ہوگا۔ ہر جاندار کا بچہ پیدا ہوتے ہیں چلنے پھرنے لگتا ہے مگر انسان کا بچہ چلنا تو درکنار بیٹھ بھی نہیں سکتا اور چلنے کی نوبت تو ڈیڑھ دو سال بعد آتی ہے۔ پھر اس کے بعد اس پر بلوغت اور جوانی کا دور آتا ہے تو وہ جسمانی طور پر طاقتور اور مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے فوائے عقلیہ، اس کا فہم و شعور سب جوبن پر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس پر انحطاط کا دور آتا ہے۔ قوتیں جواب دینے لگتی ہیں۔ اعضا مضحمل ہونے لگتے ہیں۔ کئی طرح کے عوارض اور بیماریاں اسے آگھیرتے ہیں حتیٰ کہ اس کی عقل بھی زائل ہونا شروع ہوجاتی ہے اور یہ سب ایسے مدارج زندگی ہیں۔ جن سے انسان کو نہ کوئی مضر ہے اور نہ ان میں تبدیلی لاسکتا ہے وہ لاکھ چاہے کہ بڑھاپے کے بعد پھر اس پر جوانی کا دور آئے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ جس تدریج کے ساتھ اللہ اسے ان مراحل سے گزارتا ہے۔ اسے بہرحال گزرنا پڑتا ہے۔- [ ٦٠] مندرجہ بالا مراحل ایسے تھے جو طبیعی تقاضے تھے جو سب کے لئے یکساں ہیں پھر کچھ ایسے امور ہیں جن میں اللہ تعالیٰ خاص انسانوں کو خاص صفات سے نوازتا ہے وہ چاہے تو کسی کو کمزور الخلقت پیدا کردے اور اس کے اعضا کو نشوونما کی رفتار بہت کم رہ جائے۔ چاہے تو کسی کو بونا بنادے۔ کسی کو مادر زادہ اندھا پیدا کر دے کسی کو بلا کا عقل و فہم عطا کردے۔ اور اسے ذہین و فطین بنا دے اور چاہے تو کسی کو بلیدالذہن پیدا کردے پھر چاہے تو کسی پر جوانی اور بڑھاپے کے مراحل آنے ہی نہ دے اور بچپن میں ہی اسے موت سے دوچار کر دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک بوڑھا کو سٹ بستر مرگ پر سال ہا سال ایڑیاں رگڑتا رہے مگر اسے موت نہ آئے۔ اور چاہے تو کسی کو لمبی عمر بھی عطا کرے اور تندرست و صحت یاب بھی رکھے۔ یہ سب امور اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے اور انسان کا ان میں کچھ بھی اختیار نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کس شخص کو کس حال میں رکھنا ہے۔
اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ۔۔ : مفسر ابن کثیر فرماتے ہیں : ” انسان کا اصل تو مٹی سے ہے، پھر نطفے سے، پھر جمے ہوئے خون کے ٹکڑے سے، پھر گوشت کے لوتھڑے سے، پھر اسے ہڈیاں پہنائی جاتی ہیں، پھر ہڈیوں پر گوشت پوست پہنایا جاتا ہے، پھر روح پھونکی جاتی ہے، پھر ماں کے پیٹ سے ضعیف و نحیف ہو کر نکلتا ہے، پھر تھوڑا تھوڑا بڑھتا ہے اور مضبوط ہوتا جاتا ہے، پھر بچپن کے زمانے کی بہاریں دیکھتا ہے، پھر جوانی کے قریب پہنچتا ہے، پھر جوان ہوتا ہے، آخر نشو و نما موقوف ہوجاتی ہے۔ اب قویٰ پھر مضمحل ہونا شروع ہوتے ہیں، طاقتیں گھٹنے لگتی ہیں، ادھیڑ عمر کو پہنچتا ہے، پھر بوڑھا ہوجاتا ہے۔ طاقت کے بعد یہ کمزوری بھی قابل عبرت ہوتی ہے کہ ہمت پست ہے۔ دیکھنا، سننا، چلنا، پھرنا، اٹھنا، اچکنا، پکڑنا غرض ہر طاقت گھٹ جاتی ہے، رفتہ رفتہ بالکل جواب دے جاتی ہے اور ساری صفتیں متغیر ہوجاتی ہیں، بدن پر جھریاں پڑجاتی ہیں، رخسار پچک جاتے ہیں، دانت ٹوٹ جاتے ہیں اور بال سفید ہوجاتے ہیں، یہ ہے قوت کے بعد کی ضعیفی اور بڑھاپا۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، بنانا بگاڑنا اس کی قدرت کے ادنیٰ کرشمے ہیں۔ ساری مخلوق اس کی غلام، وہ سب کا مالک۔ وہ عالم و قادر، نہ اس کا سا کسی کا علم، نہ اس جیسی کسی کی قدرت۔ “ (ابن کثیر)- 3 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا اثبات اور منکرین قیامت کا رد فرمایا ہے کہ جو اللہ انسان کو عدم سے نکال کر وجود میں لاسکتا ہے، پھر ضعف کی حالت سے بڑھا کر قوت اور جوانی تک پہنچاتا ہے، پھر قوت و جوانی سے ضعف اور بڑھاپے کی طرف لا کر موت تک پہنچا دیتا ہے، اس کے لیے اسے دوبارہ پیدا کرنا کچھ مشکل نہیں، خصوصاً جب وہ علیم بھی ہے، اسے کائنات کے ہر شخص اور ہر چیز کے ہر ذرّے کا علم ہے کہ کہاں ہے اور قدیر بھی ہے کہ اس کا وجود و عدم دونوں اس کی قدرت کا نتیجہ ہیں۔ وہ جب چاہے مردہ اجزا کو دوبارہ زندہ کرسکتا ہے۔- يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ : یعنی ضعف سے قوت کی طرف اور قوت سے ضعف اور بڑھاپے کی طرف انسان کا یہ سفر اندھے اور بےشعور مادے کے خود بخود ہونے والے تغیر ات نہیں، بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، کسی کو جنین ہی کی حالت میں ختم کردیتا ہے، کسی کو پیدا ہوتے ہی، کسی کو بچپن میں بلا لیتا ہے، کسی کو جوانی تک پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے بڑھاپے تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ سب کچھ اس کی مشیّت، کمال علم اور کمال قدرت کے مطابق ہوتا ہے۔- 3 ابن عاشور فرماتے ہیں : ” لفظ ” ضعف “ آیت میں ضاد کے ضمّہ کے ساتھ ہے اور یہ زیادہ فصیح اور لغت قریش ہے اور اس کے ضاد پر فتحہ بھی جائز ہے اور یہ لغت تمیم ہے۔ ابو داؤد اور ترمذی نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں : ” میں نے اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ” الَّذِيْ خَلَقَکُمْ مِنْ ضَعْفٍ “ (یعنی ضاد کے فتحہ کے ساتھ) پڑھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ” مِنْ ضُعْفٍ “ (یعنی ضاد کے ضمہ کے ساتھ) پڑھایا۔ “ [ ترمذي، القرائات، باب ومن سورة الروم : ٢٩٣٦، وقال الألباني حسن۔ أبو داوٗد، الحروف و القراء ات، باب : ٣٩٧٨ ] جمہور نے تینوں جگہ ” ضعفا “ کا لفظ ضاد کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور عاصم اور حمزہ نے اسے ضاد کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یقیناً ان کے پاس اس کا ثبوت ہے جو ابن عمر (رض) کی روایت کے خلاف ہے۔ اس قراءت اور ابن عمر (رض) کی حدیث کے درمیان تطبیق یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے ضاد کے ضمہ کے ساتھ پڑھا، کیونکہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم کی لغت ہے اور جو دوسرے قبیلے کی لغت میں پڑھے اس کے لیے فتحہ کے ساتھ پڑھنے کی رخصت ہے اور جس کی کوئی خاص لغت نہ ہو اسے دونوں طرح پڑھنے کا اختیار ہے۔ “ (التحریر والتنویر) یاد رہے کہ اگرچہ عاصم کی قراءت ضاد کے فتحہ کے ساتھ ہے مگر ان کے ایک راوی حفص نے (جن کی روایت ہمارے ہاں رائج ہے) ابن عمر (رض) کی حدیث کی وجہ سے اس کے ضاد کے ضمہ کو ترجیح دی ہے۔
خلاصہ تفسیر - اللہ ایسا ہے جس نے تم کو ناتوانی کی حالت میں بنایا (مراد اس سے ابتدائی حالت بچپن کی ہے) پھر (اس) ناتوانی کے بعد توانائی (یعنی جوانی) عطا کی پھر (اس) توانائی کے بعد ضعف اور بڑھاپا کیا (اور) وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ (ہر تصرف کو) جاننے والا (اور اس تصرف کے نافذ کرنے پر) قدرت رکھنے والا ہے (پس جو ایسا قادر ہو اس کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ یہ تو بیان تھا بعث کے امکان کا) اور (آگے اس کے وقوع کا بیان ہے یعنی) جس روز قیامت ہوگی مجرم (یعنی کافر) لوگ (وہاں کی ہول وہیبت و پریشانی کو دیکھ کر قیامت کی آمد کو غایت درجہ ناگوار سمجھ کر) قسم کھا بیٹھیں گے کہ (قیامت بہت جلدی آگئی اور) وہ لوگ (یعنی ہم لوگ عالم برزخ میں) ایک ساعت سے زیادہ نہیں رہے (یعنی جو میعاد قیامت کے آنے کی مقرر تھی وہ بھی پوری نہ ہونے پائی کہ قیامت آپہنچی جیسا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ اگر پھانسی والے کی میعاد ایک ماہ مقرر کی جائے تو جب مہینہ گذر چکے گا تو اس کو ایسا معلوم ہوگا کہ گویا مہینہ نہیں گذرا اور مصیبت جلدی آگئی، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) اسی طرح یہ لوگ (دنیا میں) الٹے چلا کرتے تھے (یعنی جس طرح یہاں آخرت میں قیامت کے قبل از وقت آجانے پر قسمیں کھانے لگے، اسی طرح دنیا میں قیامت کے وجود ہی کے منکر تھے اور نہ آنے پر قسمیں کھایا کرتے تھے)- اور جن لوگوں کو ایمان اور علم عطا ہوا ہے (مراد اہل ایمان ہیں کہ اخبار شرعیہ کا علم ان کو حاصل ہے) وہ (ان مجرمین کے جواب میں) کہیں گے کہ ( تم برزخ میں میعاد سے کم تو نہیں رہے، تمہارا یہ دعویٰ غلط ہے بلکہ) تم تو (میعاد) نوشتہ خداوندی کے موافق قیامت کے دن تک رہے، سو قیامت کا دن یہی ہے، (جو میعاد مقرر تھی برزخ میں رہنے کی) و لیکن (وجہ اس بات کی کہ قیامت کو میعاد سے پہلے آیا ہوا سمجھتے ہو یہ ہے کہ) تم (دنیا میں قیامت کے وقوع کا) یقین (اور اعتقاد) نہ کرتے تھے (بلکہ تکذیب و انکار کیا کرتے تھے اس انکار کے وبال میں آج پریشانی کا سامنا ہوا اس وجہ سے گھبرا کر یہ خیال ہوا کہ ابھی تو میعاد پوری بھی نہیں ہوئی اور اگر تصدیق کرتے اور ایمان لے آتے تو اس کے وقوع کو جلدی نہ سمجھتے بلکہ یوں چاہتے کہ اس سے بھی جلدی آجائے کیونکہ انسان جب اس سے کسی راحت و آرام کا وعدہ ہو تو طبعی طور پر اس کا جلدی آنا چاہتا ہے اور انتظار شاق اور اس کی مدت طویل معلوم ہوا کرتی ہے۔ جیسا حدیث میں بھی ہے کہ کافر قبر میں کہتا ہے رب لاتفم الساعة اور مومن کہتا ہے رب لا تقسم الساعة اور مومن کہتا ہے رب اقم الساعۃ، اور مومنین کے اس جواب سے بھی جو یہاں مذکور ہے کہ مقام برزخ کو انہوں نے بہت سمجھا ہے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ مشتاق تھے، اس لئے چاہتے تھے کہ جلد آجائے) غرض اس روز ظالموں (یعنی کافروں کی پریشانی اور مصیبت کی یہ کیفیت ہوگی کہ ان) کو ان کا (کسی قسم کا جھوٹا سچا) عذر کرنا نفع نہ دے گا اور نہ ان سے خدا کی خفگی کا تدارک چاہا جائے گا (یعنی اس کا موقع نہ دیا جائے گا کہ توبہ کرے کے خدا کو راضی کرلیں) اور ہم نے لوگوں (کی ہدایت) کے واسطے اس قرآن (کے مجموعہ یا اس کے اس خاص جزو یعنی اس سورة) میں ہر طرح کے عمدہ ( اور عجیب) مضامین (ضروریہ) بیان کئے ہیں (جو اپنی بلاغت اور کمال کی وجہ سے مقتضی اس کو ہیں کہ ان کافروں کو ہدایت ہوجاتی، مگر ان لوگوں نے غایت عناد سے اس کو قبول نہ کیا اور اس سے منتفع نہ ہوئے) اور (قرآن کی کیا تخصیص ہے ان لوگوں کا عناد اس درجہ بڑھ گیا ہے کہ) اگر (قرآن کے علاوہ ان معجزات سے جن کی یہ خود فرمائش کیا کرتے ہیں) آپ ان کے پاس کوئی نشان لے آئیں تب بھی یہ لوگ جو کہ کافر ہیں یہی کہیں گے کہ تم سب (یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین جو آیات تشریعیہ و تکوینیہ کی تصدیق کرتے ہیں) نرے اہل باطل ہو (پیغمبر کو سحر کی تہمت لگا کر صاحب باطل کہیں اور مسلمانوں کو سحر کی تصدیق کرنے سے اہل باطل کہیں اور ان لوگوں کے اس عناد کے بارے میں اصل بات یہ ہے کہ) جو لوگ (باوجود مکرر نشانیاں اور دلائل حق ظاہر ہونے کے) یقین نہیں کرتے (اور نہ اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں) اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر یوں ہی مہر کردیا کرتا ہے (جیسا کہ ان کے دلوں پر ہو رہی ہے، یعنی روزانہ استعداد قبول حق کی مضمحل و ضعیف ہوتی جاتی ہے، اس لئے انقیاد میں ضعف اور عناد میں قوت بڑھتی جاتی ہے) سو (جب یہ ایسے معاندین ہیں تو ان کی مخالفت اور ایذا رسانی اور بدکلامی وغیرہ پر آپ صبر کیجئے بیشک اللہ تعالیٰ کا وعدہ (کہ آخر میں یہ ناکام اور اہل حق کامیاب ہوں گے) سچا ہے (وہ وعدہ ضرور واقع ہوگا پس صبر و تحمل تھوڑے ہی دن کرنا پڑتا ہے) اور یہ بدیقین لوگ آپ کو بےبرداشت نہ کرنے پائیں (یعنی ان کی طرف سے خواہ کیسی ہی بات پیش آئے مگر ایسا نہ ہو کہ آپ برداشت نہ کریں۔- معارف و مسائل - اس سورت کا بڑا حصہ منکرین قیامت کے شبہات کے ازالہ سے متعلق ہے جس کے لئے حق تعال کی قدرت مطلقہ کاملہ اور حکمت بالغہ کی بہت سی آیات اور نشانیاں دکھلا کر غافل انسان کو غفلت سے بیدار کرنے کا سامان کیا گیا ہے۔ مذکور الصد پہلی آیت میں ایک نئے انداز سے اسی مضمون کا اثبات ہے وہ یہ کہ انسان اپنی طبیعت سے جلد باز واقع ہوا ہے اور سامنے کی چیزوں میں لگ کر ماضی و مستقبل کو بھلا دینے کا عادی ہے اور اس کی یہی عادت اس کو بہت سی مہلک غلطیوں میں مبتلا کرتی ہے۔ جس وقت انسان جوان ہوتا ہے اس کی قوت اپنے شباب پر ہوتی ہے، یہ اپنی قوت کے نشہ میں کسی کو کچھ نہیں سمجھتا، حدود پر قائم رہنا اس کو دو بھر معلوم ہوتا ہے۔ اس کو متنبہ کرنے کے لئے اس آیت میں قوت و ضعف کے اعتبار سے انسانی وجود کا ایک مکمل خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ جس میں دکھلایا ہے کہ انسان کی ابتداء بھی کمزور ہے اور انتہا بھی درمیان میں بہت تھوڑے دنوں کے لئے اس کو ایک قوت ملتی ہے۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اس چند روزہ قوت کے زمانہ میں اپنی پہلی کمزوری اور آنے والی کمزوری سے کبھی غافل نہ ہو، بلک اپنی اس کمزوری کے مختلف درجات کو ہمیشہ سامنے رکھے۔ جن سے گذر کر یہ قوت و شباب تک پہنچا ہے۔- خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ میں انسان کو یہی سبق دیا گیا کہ اپنی اصل بنیاد کو دیکھ کس قدر ضعیف بلکہ عین ضعف ہے کہ ایک قطرہ بےجان، بےشعور، ناپاک، گھناؤنی چیز ہے۔ اس میں غور کر کہ کس کی قدرت و حکمت نے اس گھناؤنے قطرہ کو ایک خون منجمد کی صورت میں پھر خون کو گوشت کی صورت میں پھر اس گوشت کے اندر ہڈیاں پیوست کرنے میں تبدیلیاں کیں۔ پھر اس کے اعضاء وجوارح کی نازک نازک مشینیں بنائیں کہ یہ ایک چھوٹا سا وجود ایک چلتی پھتری فیکٹری بن گیا، جس میں سینکڑوں عجیب و غریب خود کار مشینیں لگی ہوئی ہیں۔ اور زیادہ غور سے کام لو تو ایک فیکٹری نہیں بلکہ ایک عالم اصغر ہے کہ پورے جہان کے نمونے اس کے وجود میں شامل ہیں۔ اس کی تخلیق وتکوین بھی کسی بڑے ورکشاپ میں نہیں، بلکہ بطن مادر کی تین اندھیریوں میں ہوئی اور نو مہینے اسی تنگ و تاریک جگہ میں بطن مادر کے خون اور آلائشوں سے غذا پاتے ہوئے حضرت انسان کا وجود تیار ہوا۔- ثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٗ ، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ظہور کے لئے راستہ آسان فرما دیا اس عالم میں آئے تو ان کی شان یہ تھی کہ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا، یعنی تمہیں شکم مادر سے اللہ تعالیٰ نے اس حالت میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے، اب قدرت نے تعلیم و تلقین کا سلسلہ شروع کیا، سب سے پہلا ہنر رونے کا سکھلایا جس سے ماں باپ متوجہ ہو کر اس کی بھوک پیاس اور ہر تکلیف کو دور کرنے پر لگ جائیں۔ پھر ہونٹوں، مسوڑوں کو دبا کر ماں کی چھاتیوں سے دودھ نکالنے کا ہنر سکھلایا جس سے وہ اپنی غذا حاصل کرے۔ کس کی مجال تھی جو اس لایعقل بچے کو یہ دونوں ہنر سکھا دے جو اس کی موجودہ ساری ضرورتوں کی کفالت کرتے ہیں، بجز اس قدرت کے جو اس کی تخلیق کی مالک ہے اب ضعیف بچہ ہے ذرا ہوا لگ جائے تو پژمردہ ہوجائے، ذرا سردی یا گرمی لگ جائے تو بیمار ہوجائے نہ اپنی کسی ضرورت کو مانگ سکتا ہے نہ کسی تکلیف کو دور کرسکتا ہے۔ یہاں سے چلئے اور جوانی کے عالم تک اس کی تدریجی منازل تک غور کرتے جایئے تو قدرت حق جل شانہ کا ایسا عظیم شاہکار سامنے آئے گا کہ عقل حیران رہ جائے گی۔- ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّةً ، اب یہ قوت کی منزل میں پہنچے تو زمین آسمان کے قلابے ملانے لگے، چاند اور مریخ پر کمند پھینکنے لگے، بحر و بر پر اپنے قبضے جمانے لگے، اپنے ماضی و مستقبل سے غافل ہو کر مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً (ہم سے زیادہ کون قوی ہوسکتا ہے) کے نعرے لگانے لگے۔ یہاں تک کہ اسی قوت کے نشہ میں اپنے پیدا کرنے والے کو بھی بھول گئے اور اس کے احکام کی پیروی کو بھی مگر قدرت نے اس کو بیدار کرنے کے لئے فرمایا : ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ﮨـعْفًا وَّشَيْبَةً کہ غافل خوب سمجھ لے کہ یہ قوت تیری چند روزہ ہے۔ پھر اسی ضعف کے عالم کی طرف لوٹنا ہے اور اسی تدریج سے ضعف بڑھنا شروع ہوگا جس کا اثر ایک وقت کے بعد شیبہ بالوں کی سفیدی کی صورت میں ظاہر ہوگا اور پھر سب ہی اعضا وجوارح کی شکل و صورت میں تبدیلیاں لائے گا۔ دنیا کی تاریخ اور دوسری کتابیں نہیں خود اپنے وجود میں لکھی ہوئی اس مخفی تحریر کو پڑھ لو تو اس یقین کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ کہ یہ سب کار سازی اس رب العزت کی ہے جو پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، جس طرح چاہتا ہے اور علم میں بھی سب سے بڑا ہے اور قدرت میں بھی کیا اس کے بعد بھی اس میں کچھ شبہ کی گنجائش رہ گئی، کہ وہ جب چاہے مردوں کو دوبارہ بھی زندہ کرسکتا ہے۔
رکوع نمبر 9- اَللہُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُؔعْفًا وَّشَيْبَۃً ٠ ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ٠ ۚ وَہُوَالْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ ٥٤- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - ضعف - والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل :- الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66]- ( ض ع ف ) الضعف - اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔ - جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - شيب - الشَّيْبُ والْمَشِيبُ : بياض الشّعر . قال تعالی: وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] ، وباتت المرأة بلیلة شَيْبَاءَ : إذا افتضّت، وبلیلة حرّة «2» :إذا لم تفتضّ.- ( ش ی ب ) الشیب والمشیب بڑھاپا بالوں کی سفیدی ۔ قران میں ہے : ۔ وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] اور بڑھاپے سے سر شعلہ مارنے لگا ۔ عورت نے شب زفاف گزاری یعنی جس میں اسکی بکارت زائل کی گئی ہو اس کے بر عکس باتت المرءۃ بلیلۃ حرۃ وہ رات جس میں اس کی بکارت زائل نہ کی گئی ہو ۔- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔
اللہ ایسا ہے جس نے تمہیں ایک کمزور نطفہ سے بنایا پھر اس کمزوری کے بعد طاقت عطا کر کے ایک نوجوان طاقتور انسان بنا دیا اور پھر اس توانائی کے بعد ضعف اور بڑھاپا طاری کیا۔- اور وہ ان تمام امور کو جاننے والا اور ان اختیارات کے نافذ کرنے پر قادر ہے وہ اپنی مخلوق کو جس طرح چاہتا ہے ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف بدلتا رہتا ہے۔
آیت ٥٤ (اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ ) ” - یعنی انسان کا بچہ اپنی پیدائش کے وقت بہت کمزور ہوتا ہے۔- (ثُمَّ جَعَلَ مِنْم بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ) ” - پھر اللہ کی قدرت اور مشیت سے وہی ناتواں بچہ بڑا ہو کر کڑیل جوان بن جاتا ہے۔- (ثُمَّ جَعَلَ مِنْم بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَّشَیْبَۃً ط) ” - پھر رفتہ رفتہ انسان کی تمام صلاحیتیں زوال کا شکار ہوجاتی ہیں اور بڑھاپے میں ایک دفعہ پھر انسان کمزوری اور بےبسی کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔
سورة الروم حاشیہ نمبر : 79 یعنی بچپن ، جوانی اور بڑھاپا ، یہ ساری حالتیں اسی کی پیدا کردہ ہیں ۔ یہ اسی کی مشیت پر موقوف ہے کہ جسے چاہے کمزور پیدا کرے اور جس کو چاہے طاقت ور بنائے ، جسے چاہے بچپن سے جوانی تک نہ پہنچنے دے اور جس کو چاہے جوانا مرگ کردے ، جسے چاہے لمبی عمر دے کر بھی تندرست و توانا رکھے اور جس کو چاہے شاندار جوانی کے بعد بڑھاپے میں اس طرح ایڑیاں رگڑوائے کہ دنیا اسے دیکھ کر عبرت کرنے لگے ۔ انسان اپنی جگہ جس گھمنڈ میں چاہے مبتلا ہوتا رہے مگر خدا کے قبضہ قدرت میں وہ اس طرح بے بس ہے کہ جو حالت بھی خدا اس پر طاری کردے اسے وہ اپنی کسی تدبیر سے نہیں بدل سکتا ۔