Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

واپسی ناممکن ہوگی اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ کفار دنیا اور آخرت کے کاموں سے بالکل جاہل ہیں ۔ دنیا میں ان کی جہالت تو یہ ہے کہ اللہ کیساتھ اوروں کو شریک کرتے رہے اور اخرت میں یہ جہالت کریں گے کہ قسمیں کھاکر کہیں گے کہ ہم دنیا میں صرف ایک ساعت ہی رہے ۔ اس سے ان کامقصد یہ ہوگا کہ اتنے تھوڑے سے وقت میں ہم پر کوئی حجت قائم نہیں ہوئی ۔ ہمیں معذور سمجھا جائے ۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ جیسے یہاں بہکی بہکی باتیں کررے ہیں دنیا میں یہ بہکے ہوئے ہی رہے ۔ فرماتا ہے کہ علماء کرام جس طرح ان کے اس کہنے پر دنیا میں انہیں دلائل دے کر قائل معقول کرتے رہے آخرت میں بھی ان سے کہیں گے کہ تم جھوٹی قسمیں کھا رہے ہو ۔ تم کتاب اللہ یعنی کتاب اعمال میں اپنی پیدائش سے لے کر جی اٹھنے تک ٹھہرے رہے لیکن تم بےعلم اور نرے جاہل لوگ ہو ۔ پس قیامت کے دن ظالموں کو اپنے کرتوت سے معذرت کرنا محض بےسود رہے گا ۔ اور دنیا کی طرف لوٹائے نہ جائیں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِنْ يَّسْـتَعْتِبُوْا فَمَا هُمْ مِّنَ الْمُعْتَـبِيْنَ 24؀ ) 41- فصلت:24 ) یعنی اگر وہ دنیا کی طرف لوٹنا چاہیں تو لوٹ نہیں سکتے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

551ساعت کے معنی ہیں گھڑی، لمحہ، مراد قیامت ہے، اس کو ساعت اس لئے کہا گیا کہ اس واقعہ کو جب اللہ چاہے گا، ایک گھڑی میں ہوجائے گا۔ یا اس لئے کہ یہ اس گھڑی میں ہوگی جو دنیا کی آخری گھڑی ہوگی۔ 552دنیا میں یا قبروں میں یہ اپنی عادت کے مطابق جھوٹی قسم کھائیں گے اس لیے کہ دنیا میں وہ جتنا عرصہ رہے ہوں گے ان کے علم میں ہی ہوگا اور اگر مراد قبر کی زندگی ہے تو ان کا حلف جہالت پر ہوگا کیونکہ وہ قبر کی مدت نہیں جانتے ہوں گے۔ بعض کہتے کہ آخرت کے شدائد اور ہولناک احوال کے مقابلے میں دنیا کی زندگی انھیں گھڑی کی طرح ہی لگے گی۔ 553اَفَکَ الرَّجُلُ کے معنی ہیں۔ سچ سے پھر گیا، مطلب ہوگا، اسی پھرنے کے مثل وہ دنیا میں پھرتے رہے یا بہکے رہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦١] یہ مدت دنیا کی بھی ہوسکتی ہے اور عالم برزخ کی بھی اور دونوں کی بھی۔ اگرچہ مجرموں کی قبر میں بھی عذاب ہوتا ہے مگر یہ عذاب اخروی عذاب کے مقابلہ میں اتنا ہلکا ہوتا ہے کہ مجرم لوگ اس عذاب قبر کو بھی راحت کی گھڑیاں ہی تصور کریں گے۔ قیامت میں اپنا انجام اور اپنے لئے عذاب دیکھ کر قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم محض ایک گھڑی دنیا میں رہے تھے کیا اچھا ہوتا کہ اتنا تھوڑا سا وقت ہم اللہ کی فرمانبرداری میں گزار لیتے اور یہ برا دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ وہاں تو ان کا یہ اندازہ ہوگا اور دنیا میں وہ ایسے اندازے لگاتے ہیں اور ایسے کام کرتے ہیں جیسے انھیں اس دنیا میں ہمیشہ کے لئے رہنا ہے۔ اللہ سے بھی غافل ہیں اور اپنی موت سے بھی۔ دنیا میں بھی ان کے اندازے غلط اور سراسر باطل تھے۔ آخرت میں یہی غلط ہی اندازے لگائیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَةُ يُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ۔۔ : قیامت کے دن مجرم لوگ قسمیں کھائیں گے کہ وہ ایک گھڑی کے سوا نہیں ٹھہرے، یعنی دنیا میں ان کی زندگی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں تھی۔ انھیں اتنا وقت ہی نہیں ملا کہ وہ اپنے رب کو پہچانتے یا اپنے پیغمبروں کی باتوں پر عمل کرتے۔ اس سے ان کا مقصد یہ ہوگا کہ اتنے تھوڑے وقت میں ہم پر حجت قائم نہیں ہوئی، اس لیے ہم معذور ہیں۔ (ابن کثیر) یعنی جس طرح یہ لوگ دنیا میں حق کو پہچانتے تھے اور جانتے بوجھتے ہوئے اسے چھوڑ کر باطل کی طرف جاتے اور باطل کے سچا ہونے پر قسمیں اٹھاتے تھے، اسی طرح آخرت میں بھی یہ جانتے ہوئے کہ وہ دنیا میں اتنی مدت رہے ہیں کہ اگر جاننا یا ماننا چاہتے تو یہ کام کرسکتے تھے۔ (فاطر : ٣٧) جھوٹی قسمیں کھائیں گے کہ وہ دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ رہے ہی نہیں اور سمجھ رہے ہوں گے کہ دنیا کی طرح یہاں بھی قسموں کی وجہ سے ہمارا جھوٹ چل جائے گا۔ دیکھیے سورة مجادلہ (١٨) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آگے پھر منکرین قیامت کی لغو گوئی اور ان کی جہالت کا بیان ہے، وَيَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَةُ يُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ڏمَا لَبِثُوْا غَيْرَ سَاعَةٍ ۔ یعنی جس روز قیامت قائم ہوگی تو یہ منکرین قیامت اس وقت کے ہولناک مناظر سے مدہوش ہو کر یہ قسمیں کھانے لگیں گے کہ ہمارا قیام تو ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہا۔ مراد اس قیام سے ہوسکتا ہے کہ دنیا کا قیام ہو کیونکہ ان کی دنیا آرام و عیش سے گذری تھی اور اب مصائب شدیدہ سامنے آئے تو جیسے انسان کی طبعی عادت ہے کہ راحت کے زمانے کو بہت مختصر سمجھا کرتا ہے اس لئے قسمیں کھا جائیں کہ دنیا میں تو ہمارا قیام بہت ہی مختصر ایک گھڑی کا تھا۔- اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس قیام سے مراد قبر اور برزخ کا قیام ہو اور مطلب یہ ہو کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ قبر یعنی عالم برزخ میں قیام بہت طویل ہوگا اور قیامت بہت زمانہ کے بعد آئے گی، مگر معاملہ برعکس ہوگیا کہ ہم برزخ میں تھوڑے ہی دیر ٹھہرنے پائے تھے کہ قیامت آگئی اور یہ راحت کی چیز تو تھی نہیں مصیبت ہی مصیبت تھی اور انسانی فطرت یہ ہے کہ مصیبت آنے کے وقت پچھلی راحت کے زمانے کو بہت مختصر سمجھنے لگتا ہے اور کافروں کو اگرچہ قبر و برزخ میں بھی عذاب ہوگا مگر قیامت کے عذاب کے مقابلہ میں وہ بھی راحت محسوس ہونے لگے گا اور اس زمانے کو مختصر سمجھ کر قسم کھائیں گے کہ قبر میں ہمارا قیام بہت مختصر ایک گھڑی کا تھا۔- کیا محشر میں اللہ کے سامنے کوئی جھوٹ بول سکے گا ؟- اس آیت سے معلوم ہوا کہ محشر میں کفار قسم کھا کر یہ جھوٹ بولیں گے کہ ہم تو دنیا میں یا قبر میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے، اسی طرح ایک دوسری آیت میں مشرکین کا یہ قول مذکور ہے کہ وہ قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم مشرک نہیں تھے واللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ ۔ وجہ یہ ہے کہ محشر میں رب العالمین کی عدالت قائم ہوگی وہ سب کو آزادی دیں گے کہ جو چاہے بیان دے، جھوٹ بولے یا سچ بولے۔ کیونکہ رب العزت کو ذاتی علم بھی پورا پورا ہے اور عدالتی تحقیقات کے لئے وہ ان کے اقرار کرنے نہ کرنے کا محتاج نہیں جب انسان جھوٹ بولے گا تو اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے ہاتھ پاؤں اور کھال و بال سے شہادت لی جاوے گی وہ سچ مچ سارا واقعہ بیان کردیں گے، جس کے بعد اس کو کوئی حجت باقی نہ رہے گی، اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ الایتہ کا یہی مطلب ہے اور قرآن کریم کی دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ محشر میں مختلف مواقف ہوں گے، ہر موقف کے حالات الگ ہیں۔ ایک موقف وہ بھی ہوگا جس میں بغیر اذن الہی کسی کو بولنے کا اختیار نہ ہوگا اور وہ صرف سچ اور صحیح بات ہی بول سکے گا، جھوٹ پر قدرت نہ ہوگی، جیسا ارشاد ہے۔ لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا۔- قبر میں کوئی جھوٹ نہ بول سکے گا :- اس کے برخلاف قبر کے سوال و جواب میں احادیث صحیحہ میں مذکور ہے کہ جب کافر سے پوچھا جائے گا کہ تیرا رب کون ہے اور محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون ہیں ؟ تو وہ کہے گا، ھاہ ھاہ لا ادری، یعنی ہائے ہائے میں کچھ نہیں جانتا۔ اگر وہاں جھوٹ بولنے کا اختیار ہوتا تو کیا مشکل تھا، کہہ دیتا کہ میرا رب اللہ ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ تو یہ ایک عجیب بات ہے کہ کافر لوگ اللہ کے سامنے تو جھوٹ بولنے پر قادر ہوں اور فرشتوں کے سامنے جھوٹ نہ بول سکیں۔ مگر غور کیا جائے تو کچھ تعجب کی بات نہیں وجہ یہ ہے کہ فرشتے نہ تو عالم الغیب ہیں نہ ان کو یہ اختیار ہے کہ ہاتھ پاؤں کی گواہی لے کر اس پر حجت تمام کردیں، اگر ان کے سامنے جھوٹ بولنے کا اختیار ہوتا تو سب کافر فاجر عذاب قبر سے بےفکر ہوجاتے، بخلاف اللہ جل شانہ کے کہ وہ دلوں کے حال سے بھی واقف ہیں اور اعضاء وجوارح کی شہادت سے اس کا جھوٹ کھول دینے پر قادر بھی ہیں۔ اس لئے محشر میں یہ آزادی دے دینا عدالتی انصاف میں کوئی خلل پیدا نہیں کرتا۔ واللہ اعلم۔ تمت - سورة الروم بحمد اللہ فی یوم السبت 28 ذیقعدہ 1391 ھ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَۃُ يُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ۝ ٠ۥۙ مَا لَبِثُوْا غَيْرَ سَاعَۃٍ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ كَانُوْا يُؤْفَكُوْنَ۝ ٥٥- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- قْسَمَ ( حلف)- حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106]- اقسم - ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ - أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ - جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ - لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- أفك - الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور 11] ، وقال : لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية 7] ، وقوله : أَإِفْكاً آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ [ الصافات 86] فيصح أن يجعل تقدیره :- أتریدون آلهة من الإفك «2» ، ويصح أن يجعل «إفكا» مفعول «تریدون» ، ويجعل آلهة بدل منه، ويكون قد سمّاهم إفكا . ورجل مَأْفُوك : مصروف عن الحق إلى الباطل، قال الشاعر : 20-- فإن تک عن أحسن المروءة مأفو ... کا ففي آخرین قد أفكوا «1»- وأُفِكَ يُؤْفَكُ : صرف عقله، ورجل مَأْفُوكُ العقل .- ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ( سورة الجاثية 7) ہر جھوٹے گنہگار کے لئے تباہی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ ( سورة الصافات 86) کیوں جھوٹ ( بناکر ) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا مفعول لہ ہو ای الھۃ من الافک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا تریدون کا مفعول ہو اور الھۃ اس سے بدل ۔۔ ،۔ اور باطل معبودوں کو ( مبالغہ کے طور پر ) افکا کہدیا ہو ۔ اور جو شخص حق سے برگشتہ ہو اسے مافوک کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( منسرح) (20) فان تک عن احسن المووءۃ مافوکا ففی اخرین قد افکوا اگر تو حسن مروت کے راستہ سے پھر گیا ہے تو تم ان لوگوں میں ہو جو برگشتہ آچکے ہیں ۔ افک الرجل یوفک کے معنی دیوانہ اور باؤلا ہونے کے ہیں اور باؤلے آدمی کو مافوک العقل کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو مشرکین قسم کھائیں گے کہ وہ قبروں میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ٹھہرے۔ جیسا کہ یہ لوگ آخرت میں اس پختگی کے ساتھ جھوٹ بولیں گے اسی طرح یہ دنیا میں بھی جھوٹ بولا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ (وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَلا مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَۃٍ ط) ” - کہ وہ دنیا میں یا عالم برزخ میں گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے۔ - (کَذٰلِکَ کَانُوْا یُؤْفَکُوْنَ ) ” - جس طرح وہ لوگ روز قیامت اپنی زندگی کے دورانیے کے بارے میں انتہائی غیر معقول بات کریں گے بالکل ایسے ہی دنیا میں بھی ان کی سوچ اور فکر حقیقت سے بہت دور تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 80 یعنی قیامت جس کے آنے کی خبر دی جارہی ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 81 یعنی مرنے کے وقت سے قیامت کی اس گھڑی تک ۔ ان دونوں ساعتوں کے درمیان چاہے دس بیس ہزار برس ہی گزر چکے ہوں ، مگر وہ محسوس کریں گے کہ چند گھنٹے پہلے ہم سوئے تھے اور اب اچانک ایک حادثہ نے ہمیں جگا اٹھایا ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 82 یعنی ایسے ہی غلط اندازے یہ لوگ دنیا میں بھی لگاتے تھے ۔ وہاں بھی یہ حقیقت کے اداراک سے محروم تھے اسی وجہ سے یہ حکم لگایا کرتے تھے کہ کوئی قیامت ویامت نہیں آنی ، مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ، اور کسی خدا کے سامنے حاضر ہوکر ہمیں حساب نہیں دینا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani