Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

571یعنی انھیں دنیا میں بھیج کر یہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہاں توبہ و اطاعت کے ذریعے سے عتاب الٰہی کا ازالہ کرلو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٣] قیامت کا دن دنیا میں کئے ہوئے اعمال کے بدلہ کا دن ہوگا، عذر معذرت کا دن نہیں ہوگا۔ دنیا میں تو انھیں کہا جاتا تھا کہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لو۔ توبہ استغفار کرلو اور اپنے پروردگار کو راضی اور خوش کرلو۔ لیکن اس دن ان ظالموں کو یہ بات بھی کوئی نہ کہے گا۔ کیونکہ عذر معذرت اور توبہ تائب کا وقت صرف دنیا میں ہے اور موت تک ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَيَوْمَىِٕذٍ لَّا يَنْفَعُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُهُمْ ۔۔ : یعنی اس دن ان کا یہ عذر کہ ہمیں وقت ہی نہیں ملا، انھیں کچھ فائدہ نہ دے گا اور نہ ہی انھیں معافی مانگنے یا اپنے رب کو راضی کرنے کا موقع دیا جائے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَيَوْمَىِٕذٍ لَّا يَنْفَعُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُہُمْ وَلَا ہُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ۝ ٥٧- نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - عذر - العُذْرُ : تحرّي الإنسان ما يمحو به ذنوبه .- ويقال : عُذْرٌ وعُذُرٌ ، وذلک علی ثلاثة أضرب :- إمّا أن يقول : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، فيذكر ما يخرجه عن کو نه مذنبا، أو يقول : فعلت ولا أعود، ونحو ذلک من المقال . وهذا الثالث هو التّوبة، فكلّ توبة عُذْرٌ ولیس کلُّ عُذْرٍ توبةً ، واعْتذَرْتُ إليه : أتيت بِعُذْرٍ ، وعَذَرْتُهُ : قَبِلْتُ عُذْرَهُ. قال تعالی: يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة 94] ، والمُعْذِرُ : من يرى أنّ له عُذْراً ولا عُذْرَ له . قال تعالی: وَجاءَ الْمُعَذِّرُونَ [ التوبة 90] ، وقرئ ( المُعْذِرُونَ ) «2» أي : الذین يأتون بالعذْرِ. قال ابن عباس : لعن اللہ المُعَذِّرِينَ ورحم المُعَذِّرِينَ «3» ، وقوله : قالُوا مَعْذِرَةً إِلى رَبِّكُمْ [ الأعراف 164] ، فهو مصدر عَذَرْتُ ، كأنه قيل : أطلب منه أن يَعْذُرَنِي، وأَعْذَرَ : أتى بما صار به مَعْذُوراً ، وقیل : أَعْذَرَ من أنذر «4» : أتى بما صار به مَعْذُوراً ، قال بعضهم : أصل العُذْرِ من العَذِرَةِ وهو الشیء النجس «5» ، ومنه سمّي القُلْفَةُ- العُذْرَةُ ، فقیل : عَذَرْتُ الصّبيَّ : إذا طهّرته وأزلت عُذْرَتَهُ ، وکذا عَذَرْتُ فلاناً : أزلت نجاسة ذنبه بالعفو عنه، کقولک : غفرت له، أي : سترت ذنبه، وسمّي جلدة البکارة عُذْرَةً تشبيها بِعُذْرَتِهَا التي هي القُلْفَةُ ، فقیل : عَذَرْتُهَا، أي : افْتَضَضْتُهَا، وقیل للعارض في حلق الصّبيّ عُذْرَةً ، فقیل : عُذِرَ الصّبيُّ إذا أصابه ذلك، قال الشاعر :- 313-- غمز الطّبيب نغانغ المَعْذُورِ- «1» ويقال : اعْتَذَرَتِ المیاهُ : انقطعت، واعْتَذَرَتِ المنازلُ : درست، علی طریق التّشبيه بِالمُعْتَذِرِ الذي يندرس ذنبه لوضوح عُذْرِهِ ، والعَاذِرَةُ قيل :- المستحاضة «2» ، والعَذَوَّرُ : السّيّئُ الخُلُقِ اعتبارا بِالعَذِرَةِ ، أي : النّجاسة، وأصل العَذِرَةِ : فناءُ الدّارِ ، وسمّي ما يلقی فيه باسمها .- ( ع ذ ر ) العذر - ایسی کوشش جس سے انسان اپنے گناہوں کو مٹا دینا چاہئے اس میں العذر اور العذر دو لغت ہیں اور عذر کی تین صورتیں ہیں ۔ اول یہ کہ کسی جرم کے ارتکاب سے قطعا انکار کردے دوم یہ کہ ارتکاب جرم کی ایسی وجہ بیان کرے جس سے اس کی براءت ثابت ہوتی ہو ۔ سوم یہ کہ اقرار جرم کے بعد آئندہ اس جرم کا ارتکاب نہ کرنے کا وعدہ کرلے عذر کی اس تیسری صورت کا نام تو بہ ہے جس سے ثابت ہو ا کہ تو بہ عذر کی ایک قسم ہے لہذا ہر توبہ کو عذر کہ سکتے ہیں مگر ہر عذر کو توبہ نہیں کہہ سکتے اعتذرت الیہ میں نے اس کے سامنے عذر بیان کیا عذرتہ میں نے اس کا عذر قبول کرلیا ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْقُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة 94] قُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة 94] تو تم سے عذر کرینگے ان سے کہ دو کہ عذر مت کرو ۔ المعذر جو اپنے آپ کو معذور سمجھے مگر دراصل وہ معزور نہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَجاءَ الْمُعَذِّرُونَ [ التوبة 90] عذر کرتے ہوئے ( تمہارے پاس آئے ) ایک قرات میں معذرون ہے یعنی پیش کرنے والے ابن عباس رضی للہ عنہ کا قول ہے : ۔ یعنی جھوٹے عذر پیش کرنے والوں پر خدا کی لعنت ہو اور جو واقعی معذور ہیں ان پر رحم فرمائے اور آیت کریمہ : ۔ قالُوا مَعْذِرَةً إِلى رَبِّكُمْ [ الأعراف 164] تمہارے پروردگار کے سامنے معزرت کرسکیں ۔ میں معذرۃ عذرت کا مصدر ہے اور اسکے معنی یہ ہیں کہ میں اس سے در خواست کرتا ہوں کہ میرا عذر قبول فرمائے اعذ ر اس نے عذر خواہی کی اپنے آپ کو معذور ثابت کردیا ۔ کہا گیا ہے اعذر من انذر یعنی جس نے ڈر سنا دیا وہ معذور ہے بعض نے کہا ہے کہ عذر اصل میں عذرۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی نجاست اور گندگی کے ہیں اور اسی سے جو چمڑا ختنہ میں کاٹا جاتا ہے اسے عذرۃ کہا جاتا ہے اور عذرت الصبی کے معنی ہیں میں نے لڑکے کا ختنہ کردیا گو یا اسے ختنہ کی نجاست سے پاک دیا اسی طرح عذرت فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے معانی دے کر اس سے گناہ کی نجاست کو دور کردیا جیسا کہ غفرت لہ کے معنی ہیں میں نے اس کا گناہ چھپا دیا اور لڑکے کے ختنہ کے ساتھ تشبیہ دے کر لڑکی کے پردہ بکارت کو بھی عذرۃ کہا جاتا ہے اور عذر تھا کے معنی ہیں میں نے اس کے پردہ بکارت کو زائل کردیا اوبچے کے حلق کے درد کو بھی عذرۃ کہا جاتا ہے اسی سے عذرالصبی ہے جس کے معنی بچہ کے درد حلق میں مبتلا ہونے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( 305 ) غمز الطیب نعاجن المعذور جیسا کہ طبیب درد حلق میں مبتلا بچے کا گلا دبا تا ہے اور معتذر عذر خواہی کرنے والے کی مناسبت سے اعتذرت المیاۃ پانی کے سر چشمے منقطع ہوگئے اور اعتذرت المنازل ( مکانوں کے نشانات مٹ گئے ۔ وغیرہ محاورات استعمال ہوتے ہیں اور عذرۃ ( یعنی نجاست کے اعتبار ) سے کہاجاتا ہے ۔ العاذرۃ وہ عورت جسے استحاضہ کا خون آرہا ہو عذور ۔ بدخلق آدمی دراصل عذرۃ کے معنی مکانات کے سامنے کا کھلا میدان ہیں اس کے بعد اس نجاست کو عذرۃ کہنے لگے ہیں جو اس میدان میں پھینکی جاتی ہے ۔- عتب - العَتَبُ : كلّ مکان نابٍ بنازله، ومنه قيل للمرقاة ولأُسْكُفَّةِ البابِ : عَتَبَةٌ ، وكنّي بها عن المرأة فيما روي : «أنّ إبراهيم عليه السلام قال لامرأة إسماعیل : قولي لزوجک غيّر عَتَبَةَ بَابِكَ» «4» واستعیر العَتْبُ والمَعْتَبَةُ لغِلْظَةٍ يجدها الإنسان في نفسه علی غيره، وأصله من العتبِ ، وبحسبه قيل : خَشُنْتُ بصدر فلان، ووجدت في صدره غلظة، ومنه قيل : حمل فلان علی عَتَبَةٍ صعبةٍ «5» ، أي : حالة شاقّة کقول الشاعر : 308-- وحملناهم علی صعبة زو ... راءَ يعلونها بغیر وطاء - «1» وقولهم أَعْتَبْتُ فلاناً ، أي : أبرزت له الغلظة التي وُجِدَتْ له في الصّدر، وأَعْتَبْتُ فلاناً :- حملته علی العَتْبِ. ويقال : أَعْتَبْتُهُ ، أي : أزلت عَتْبَهُ عنه، نحو : أشكيته . قال تعالی: فَما هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ [ فصلت 24] ،- والاسْتِعْتَابُ :- أن يطلب من الإنسان أن يذكر عَتْبَهُ لِيُعْتَبَ ، يقال : اسْتَعْتَبَ فلانٌ. قال تعالی: وَلا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ [ النحل 84] ، يقال : «لک العُتْبَى» «2» ، وهو إزالة ما لأجله يُعْتَبُ ، وبینهم أُعْتُوبَةٌ ، أي : ما يَتَعَاتَبُونَ به، ويقال : عَتبَ عَتْباً : إذا مشی علی رجل مشي المرتقي في درجة .- ( ع ت ب ) العتب ۔- ہر اس جگہ کو کہتے ہیں جو وہاں اترنے والے کے لئے ساز گار نہ ہو نیز دروازہ کی چوکھٹ اور سیڑھی کو بھی عتبہ کہا جاتا ہے ۔ اور حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی بیوی سے جو فرمایا تھا قولی زوجک غیر عتبتہ بابک اپنے خاوند سے کہنا کہ اپنے دروازہ کی چو کھٹ تبدیل کرلے تو یہاں عتبتہ کے معنی بطور کنایہ عورت کے ہیں اور استعارہ کے طور پر عتب ومعتب کے معنی اس نارضگی یا سختی کے بھی آجاتے ہیں جو انسان کے دل میں دوسرے کے متعلق پیدا ہوجاتی ہے یہ بھی اصل میں العتب ہی سے اسی کے مطابق خشنت بصدر فلان ووجدت فی صدرہ غلظتہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اسی سے کہا گیا ہے ۔ حمل فلان علٰی عتبتہ صبعبتہ فلان کو ناگورا ھالت پر مجبور کیا گیا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) ( 300 ) وحملنا ھم علٰی صعبتہ رایعلونھا بغیر وطاء ہم نے انہیں نہایت ٹیڑھی حالت پر سوار کیا چناچہ وہ بغیر نمدہ کے اس پر سوار ہیں ۔ اعتبت فلان ( 1 ) ناراضگی ظاہر کرنا ( 2 ) ناراضگی پر ابھارنا ( 3 ) میں نے اس کی ناراضگی دو ۔ کردو یعنی راضی کرلیا جیسا کہ اشکیتہ کے معنی ہیں میں نے اس کی شکایت دور کردی ( یعنی سلب ماخذ کے معنی پائے جاتے ہیں ) قرآن میں ہے : ۔ فَما هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ [ فصلت 24] ان سے عتاب دور نہیں کیا جائے گا ۔- الاستعتاب - ( رضامندی چاہنا ) کسی سے یہ خواہش کرنا کہ وہ اپنے عتاب کو دور کردے تاکہ راضی ہوجائے کہا جاتا ہے استعتب فلان کسی سے عتاب کو دور کرنے کی کو اہش کی ۔ قرآن میں ہے ولا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ [ النحل 84] اور نہ ان کی معذرت قبول کر کے ان سے عتاب دور کیا جائیگا ۔ لک العتبی تیرے لئے رضا مندی ہے ۔ بینھم اعتوبتہ وہ باہم کشادہ ہیں ۔ عتب عتبا آدمی کا ایک پاؤں پر کود کر چلنا جیسے اوپر چڑھنے والا سیڑھی پر قدم رکھتا چلا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

غرضیکہ مشرکین کو قیامت کے دن اپنے گناہوں کی معافی مانگنا فائدہ مند نہ ہوگا اور نہ ان کو گناہوں سے رجوع کرنے اور نہ پھر ان کو دوبارہ دنیا میں واپس ہونے کی مہلت دی جائے گی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (فَیَوْمَءِذٍ لَّا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُہُمْ ) ” - جن لوگوں نے دنیا میں گناہ کی زندگی بسر کی اور ساری عمر ظلم و زیادتی کا رویہ اپنائے رکھا ‘ قیامت کے دن ان کا معذرت کرنا ‘ بہانے بنانا اور معافیاں مانگنا کام نہیں آئے گا۔- (وَلَا ہُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ ) ” - دنیا میں ہر شخص کے لیے موت کے آثار ظاہر ہونے تک (مَا لَمْ یُغَرْ غِرْ ) توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے اور جو لوگ اپنی دنیوی زندگی میں اس موقع سے فائدہ نہ اٹھائیں ‘ قیامت کے دن انہیں یہ موقع فراہم نہیں کیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 83 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے نہ ان سے یہ چاہا جائے گا کہ اپنے رب کو راضی کرو اس لیے کہ توبہ اور ایمان اور عمل صالح کی طرف رجوع کرنے کے سارے مواقع کو وہ کھو چکے ہوں گے اور امتحان کا وقت ختم ہوکر فیصلے کی گھڑی آچکی ہوگی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani