[٦٥] یعنی جب لوگوں کا بغض وعناد اور ضد اور ہٹ دھرمی اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ کوئی سچی بات قبول کرنے کو تیار نہ ہوں۔ تو عین یہی وقت ہوتا ہے جب اللہ ایسے لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب ان لوگوں میں حق کو قبول کرنے کی استعداد ختم ہوچکی ہے۔
كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ ۔۔ : یعنی جن کے دل صحیح علم سے کورے ہوتے ہیں اور وہ ہٹ دھرمی سے ہر بات کا انکار ہی کرتے چلے جاتے ہیں، بالآخر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں قبول حق کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی۔
كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ٥٩- طبع - الطَّبْعُ : أن تصوّر الشیء بصورة مّا، كَطَبْعِ السّكّةِ ، وطَبْعِ الدّراهمِ ، وهو أعمّ من الختم وأخصّ من النّقش، والطَّابَعُ والخاتم : ما يُطْبَعُ ويختم . والطَّابِعُ : فاعل ذلك، وقیل للطَّابَعِ طَابِعٌ ، وذلک کتسمية الفعل إلى الآلة، نحو : سيف قاطع . قال تعالی: فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون 3] ، - ( ط ب ع ) الطبع ( ف )- کے اصل معنی کسی چیز کو ( ڈھال کر) کوئی شکل دینا کے ہیں مثلا طبع السکۃ اوطبع الدراھم یعنی سکہ یا دراہم کو ڈھالنا یہ ختم سے زیادہ عام اور نقش سے زیادہ خاص ہے ۔ اور وہ آلہ جس سے مہر لگائی جائے اسے طابع وخاتم کہا جاتا ہے اور مہر لگانے والے کو طابع مگر کبھی یہ طابع کے معنی میں بھی آجاتا ہے اور یہ نسبۃ الفعل الی الآلۃ کے قبیل سے ہے جیسے سیف قاطع قرآن میں ہے : فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون 3] تو ان کے دلوں پر مہر لگادی ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
جو لوگ توحید خداوندی کا اقرار نہیں کرتے اور نہ اس کا یقین کیا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر اسی طرح مہر کردیا کرتا ہے۔