Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

601یعنی ان کی مخالفت وعناد پر اور ان کی تکلیف دہ باتوں پر، اس لئے کہ اللہ نے آپ سے مدد کا وعدہ کیا ہے، یقینا حق ہے جو بہر صورت پورا ہوگا۔ 602یعنی آپ کو غضب ناک کر کے صبر و حلم ترک کرنے یا خوش آمد پر مجبور نہ کردیں بلکہ آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور اس سے انحراف نہ کریں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٦] اللہ کا یہ وعدہ اس سورة کی آیت نمبر ٤٧ میں گزر چکا ہے اور وہ یہ ہے (حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ 47؀) 30 ۔ الروم :47) یعنی اللہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مومنوں کی مدد کرے۔ آپ کفار کی ایذاؤں پر صبر کیجئے خود بھی اور مسلمانوں کو بھی صبر و برداشت کی تلقین کیجئے۔ اللہ کا وعدہ اپنے وقت پر پورا ہو کے رہے گا۔- [ ٦٧] یعنی ان کافروں کی مکاریوں اور سازشوں سے، ان کے مذاق و تمسخر سے، ان اسلام دشمن کارروائیوں سے، ان کی ایذاؤں اور مظالم سے، ان کے منافقانہ سمجھوتوں کی کوششوں سے اور ان کی دھمکیوں سے آپ کے پائے ثبات میں ہرگز لغزش نہ آنی چاہئے اور ان کو اسی بات کا یقین آجانا چاہئے کہ آپ اپنے مشن میں صبر و ثبات کا ایسا عظیم پیکر ہیں جسے کسی قیمت پر اپنی جگہ سے ہلایا نہیں جاسکتا۔-

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ۔۔ : اللہ کا یہ وعدہ اس سورت کی آیت (٤٧) میں گزر چکا ہے، فرمایا : (وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ )” اور مومنوں کی مدد کرنا ہم پر لازم ہی تھا۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی مدد کرنا اپنے ذمے لے رکھا ہے، اس لیے آپ صبر کریں اور یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر یقین نہیں رکھتے آپ کو کسی موقع پر ہلکا نہ کردیں کہ آپ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں، بلکہ خوب مستحکم اور مضبوط ہو کر اپنے موقف پر ڈٹے رہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِيْنَ لَا يُوْقِنُوْنَ۝ ٦٠ۧ- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- خفیف - الخَفِيف : بإزاء الثّقيل، ويقال ذلک تارة باعتبار المضایفة بالوزن، و قیاس شيئين أحدهما بالآخر، نحو : درهم خفیف، ودرهم ثقیل .- والثاني : يقال باعتبار مضایفة الزّمان،- نحو : فرس خفیف، وفرس ثقیل : إذا عدا أحدهما أكثر من الآخر في زمان واحد .- الثالث : يقال خفیف فيما يستحليه الناس،- و ثقیل فيما يستوخمه، فيكون الخفیف مدحا، والثقیل ذمّا، ومنه قوله تعالی:- الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86]- ( خ ف ف ) الخفیف - ( ہلکا ) یہ ثقیل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) کبھی وزن میں مقابلہ کے طور یعنی دو چیزوں کے باہم مقابلہ میں ایک کو خفیف اور دوسری کو ثقیل کہہ دیا جاتا ہے جیسے درھم خفیف ودرھم ثقیل یعنی وہ درہم ہم ہلکا ہے ۔ اور یہ بھاری ہے ( 2) اور کبھی ثقابل زمانی کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں ۔ مثلا ( ایک گھوڑا جو فی گھنٹہ دس میل کی مسافت طے کرتا ہوں اور دوسرا پانچ میل فی گھنٹہ دوڑتا ہو تو پہلے کو خفیف ( سبک رفتار ) اور دوسرے کو ثقل ( سست رفتار ) کہا جاتا ہے ( 3) جس چیز کو خوش آئندہ پایا جائے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اس صورت میں خفیف کا لفظ بطور مدح اور ثقیل کا لفظ بطور ندمت استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات کریمہ ؛ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86] سو نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ اسی معنی پر محمول ہیں - يقن - اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما .- ( ی ق ن ) الیقین - کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ - إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ صبر کیجیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ وہ آپ کی مدد فرمائے گا اور ان کو ہلاک کرے گا سچا ہے اور وہ ضرور واقع ہوگا اور یہ بدیقین یعنی کفار مکہ قیامت کے قائم ہونے کے بارے میں آپ کو بےبرداشت نہ کرنے پائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ (فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ) ” - جیسا کہ قبل ازیں بار بار توجہ دلائی گئی ہے کہ قرآن میں بہت سے مقامات پر صیغہ واحد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کیا گیا ہے مگر دراصل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے تمام اہل ایمان کو مخاطب کیا گیا ہے۔ چناچہ یہاں بھی اہل ایمان کی دلجوئی کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ لوگ اللہ کے وعدے پر یقین رکھو اور ہر حال میں صبر و استقامت کا دامن تھامے رہو۔ اللہ کی مدد ضرور آئے گی اور بالآخر اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ جہاں تک تمہارے موجودہ حالات اور مصائب و مشکلات کا تعلق ہے تو یہ تمہارے امتحان کا حصہ ہیں : (اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ ) ( العنکبوت) ” کیا لوگوں نے یہ سمجھا تھا کہ وہ چھوڑ دیے جائیں گے صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے اور انہیں آزمایا نہ جائے گا ؟ “ اس سلسلے میں ہمارا قانون بہت واضح ہے : (وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط) ( البقرۃ : ١٥٥) ” اور ہم ضرور آزمائیں گے تم لوگوں کو کسی قدر خوف ‘ بھوک اور مال و جان اور پھلوں کے نقصانات سے “۔ چناچہ اے مسلمانو ہمت سے کام لو ع ” ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں “ اگر تم لوگ ان امتحانات میں سرخروہو گئے تو اللہ کے وعدے کے مطابق کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔- (وَّلَا یَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِیْنَ لَا یُوْقِنُوْنَ ) ” - اگرچہ یہ خطاب بھی صیغہ واحد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے مگر یہاں بھی اہل ایمان کی تثبیت قلبی مقصود ہے کہ اے مسلمانو ایسا نہ ہو کہ مخالفین کے دباؤ کی وجہ سے تمہارے پاؤں میں لغزش آجائے اور انہیں تمہارے بارے میں یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ یہ لوگ تو کمزور اور بودے ثابت ہوئے ہیں۔ چناچہ تم اپنے موقف پر کوہ ہمالیہ کی طرح ڈٹے رہو۔ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اس کے راستے میں اپنا تن من اور دھن کھپانے کی حکمت عملی بدستور اپنائے رکھو۔ اللہ کی مدد اس راستے میں ضرور تمہارے شامل حال رہے گی اور اللہ تمام مشکلات کو دور کر کے تمہیں لازماً کامیاب کرے گا ‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 84 اشارہ ہے اس وعدے کی طرف جو اوپر آیت نمبر 47 میں گزر چکا ہے ۔ وہاں اللہ تعالی نے اپنی یہ سنت بیان کی ہے کہ جن لوگوں نے بھی اللہ کے رسولوں کی لائی ہوئی بینات کا مقابلہ تکذیب و تضحیک اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کیا ہے اللہ نے ایسے مجرموں سے ضرور انتقام لیا ہے ( فَانْتَـقَمْنَا مِنَ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا ) اور اللہ پر یہ حق ہے کہ مومنوں کی نصرت فرمائے ( وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ ) ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 85 یعنی دشمن تم کو ایسا کمزور نہ پائیں کہ ان کے شور و غوغا سے تم دب جاؤ ، یا ان کی بہتان و افترا کی مہم سے تم مرعوب ہوجاؤ ، یا ان کی پھبتیوں اور طعنوں اور تضحیک و استہزاء سے تم پست ہمت ہوجاؤ ، یا ان کی دھمکیوں اور طاقت کے مظاہروں اور ظلم و ستم سے تم ڈر جاؤ ، یا ان کے دیے ہوئے لالچوں سے تم پھسل جاؤ ، یا قومی مفاد کے نام پر جو اپیلیں وہ تم سے کر رہے ہیں ان کی بنا پر تم ان کے ساتھ مصالحت کرلینے پر اتراؤ ۔ اس کے بجائے وہ تم کو اپنے مقصد کے شعور میں اتنا ہوشمند اور اپنے یقین و ایمان میں اتنا پختہ اور اس عزم میں اتنا راسخ اور اپنے کیر کٹر میں اتنا مضبوط پائیں کہ نہ کسی خوف سے تمہیں ڈرایا جاسکے ، نہ کسی قیمت پر تمہیں خریدا جاسکے ، نہ کسی فریب سے تم کو پھسلایا جاسکے ، نہ کوئی خطرہ یا نقصان یا تکلیف تمہیں اپنی راہ سے ہٹا سکے اور نہ دین کے معاملہ میں کسی لین دین کا سودا تم سے چکایا جاسکے ۔ یہ سارا مضمون اللہ تعالی کے کلام بلاغت نظام نے اس ذرا سے فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ یہ بے یقین لوگ تم کو ہلکا نہ پائیں ۔ اب اس بات کا ثبوت تاریخ کی بے لاگ شہادت دیتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا پر ویسے ہی بھاری ثابت ہوئے جیسا اللہ اپنے آخری نبی کو بھاری بھرکم دیکھنا چاہتا تھا ۔ آپ سے جس نے جس میدان میں بھی زور آزمائی کی اس نے اسی میدان میں مات کھائی اور آخر اس شخصیت عظمی نے وہ انقلاب برپا کر کے دکھا دیا جسے روکنے کے لیے عرب کے کفر و شرک نے اپنی ساری طاقت صرف کردی اور اپنے سارے حربے استعمال کر ڈالے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani