6 1یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ کو جو خبر دے رہے ہیں کہ عنقریب رومی، فارس پر دوبارہ غالب آجائیں گے، یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے جو مدت مقررہ کے اندر یقینا پورا ہو کر رہے گا۔
[٢] یعنی اللہ کا وعدہ پورا ہو کے رہتا ہے اور نظر آنے والی سب رکاوٹیں خود بخود مٹتی چلی جاتی ہیں۔
وَعْدَ اللّٰهِ ۭ لَا يُخْلِفُ اللّٰهُ وَعْدَهٗ : یعنی روم کا چند سالوں میں فارس پر غالب آنا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے، جس کی سنت یہ ہے کہ وہ کبھی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔- وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ : لیکن اکثر لوگ، جن میں کفار قریش بھی شامل ہیں، یہ بات نہیں جانتے، بلکہ جب اللہ تعالیٰ کوئی ایسی بات کرتا ہے جو ظاہری اسباب کے لحاظ سے ممکن نہیں ہوتی تو وہ اللہ کے وعدے کو جھوٹا کہنے لگتے ہیں۔ انھیں معلوم نہیں کہ ظاہری اسباب کے علاوہ بیشمار باطنی اسباب بھی ہوتے ہیں جو اندر ہی اندر اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں اور نہ انھیں یہ معلوم ہے کہ تمام ظاہری اور باطنی اسباب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جس کام کا ارادہ کرلے، چاہے تو اس کے اسباب پیدا کردے اور چاہے تو اسباب کے بغیر ہی اسے پورا کر دے۔
وَعْدَ اللہِ ٠ۭ لَا يُخْلِفُ اللہُ وَعْدَہٗ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ٦- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - خُلف ( عهد شكني)- والخُلْفُ : المخالفة في الوعد . يقال : وعدني فأخلفني، أي : خالف في المیعاد بما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] - ( خ ل ف ) خُلف - الخلف کے معنی وعدہ شکنی کے میں محاورہ ہے : اس نے مجھ سے وعدہ کیا مگر اسے پورا نہ کیا ۔ قرآن میں ہے ۔ بِما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] کہ انہوں نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا اسکے خلاف کیا ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] بیشک خدا خلاف وعدہ نہیں کرتا ۔ - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی مدد فرمانے کا وعدہ فرمایا اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں فرماتا مگر مکہ والے یہ نہیں جانتے۔
آیت ٦ (وَعْدَ اللّٰہِط لَا یُخْلِفُ اللّٰہُ وَعْدَہٗ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ) ” - یہ وہ چھ آیات ہیں جن میں رومیوں کے دوبارہ غلبے اور اہل ایمان کی مشرکین مکہ پر فتح کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ یہ آیات تقریباً ٦١٤ ء میں نازل ہوئیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا آغاز ٦١٠ ء میں ہوا تھا۔ چناچہ ان آیات کے نزول کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو پانچ برس کا عرصہ بیت چکا تھا۔ اس کے ٹھیک نو (٩) برس بعد اس پیشین گوئی کے عین مطابق رومی بھی ایرانیوں پر غالب آگئے اور غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو بھی اللہ کی مدد سے فتح نصیب ہوئی۔