Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71یعنی اکثر لوگوں کو دنیاوی معاملات کا خوب علم ہے۔ چناچہ وہ ان میں تو اپنی چابک دستی اور مہارت فن کا مظاہرہ کرتے ہیں جن کا فائدہ عارضی اور چند روزہ ہے لیکن آخرت کے معاملات سے یہ غافل ہیں جن کا نفع مستقل اور پائیدار ہے۔ یعنی دنیا کے امور کو خوب پہچانتے اور دین سے بیخبر ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] اس کے دو مطلب ہیں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس آیت کا یہی مطلب ہے کہ ظاہر میں لوگوں کی نظر صرف ظاہری اسباب پر ہوتی ہے۔ اور انھیں اسباب کو دیکھ کر وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں مگر اس کائنات میں ظاہری اسباب کے علاوہ بیشمار باطنی اسباب بھی موجود ہیں۔ جنہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ اور ہر کام کا انجام تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ بسا اوقات ظاہری اسباب کے بالکل الٹ نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور یہ ایسی بات ہے جو عام لوگوں کے علم میں نہیں آسکتی۔ اور اگر اس آیت کو عام معنوں پر محمول کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عام لوگوں کی نظر بس دنیا کے مال و اسباب پر ہی ہوتی ہے اور اسی پر وہ فریفتہ و منتون ہوتے ہیں۔ وہ اس انجام سے قطعاً غافل ہوتے ہیں کہ انھیں مر کر اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے جہاں ان کے اعمال کا محاسبہ بھی ہوگا پھر اس کے مطابق انھیں سزا بھی ملنے والی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۔۔ : ” ظاھراً “ پر تنوین تقلیل و تحقیر کے لیے ہے، یعنی وہ دنیا کی زندگی کے بس ظاہر کو جانتے ہیں، وہ بھی تھوڑا سا۔ ان کا علم یہیں تک محدود ہے۔ ان کی ساری تگ و دو دنیا میں کھانے پینے، پہننے اور ہر قسم کی لذتوں اور آسائش و آرائش کے زیادہ سے زیادہ حصول کے لیے ہے۔ وہ دنیا کی زندگی کے باطن، یعنی اس کی اصل حقیقت کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ یہ چند روزہ ہے اور امتحان گاہ ہے۔ رہی آخرت، تو وہ اس سے بالکل ہی غافل ہیں، یعنی انھیں اس کی فکر ہی نہیں کہ وہاں اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے پیش ہونا ہے۔- 3 یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اکثر لوگ دنیا کی زندگی کے ظاہر کے کچھ حصے کو جانتے ہیں، جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کفار حیران کن ایجادات کرچکے ہیں، مثلاً بری، بحری اور فضائی سواریاں، تیل، گیس، ہوا اور پانی سے چلنے والی بیشمار قسم کی مشینیں، بجلی اور ایٹم وغیرہ، تو یہ سب کچھ تھوڑا سا کیسے ہوا ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کی دنیوی ترقی جس طرح آج کے مقابلے میں بالکل معمولی ہے، اسی طرح ہر آنے والے دن کے مقابلے میں موجودہ ترقی بالکل معمولی ہے، مگر کافر صرف اسی ترقی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، آخرت کے امور کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔- 3 کفار کے دنیا کے ظاہر کا کچھ علم رکھنے اور آخرت سے یکسر غافل ہونے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ انھوں نے حساب اور علم ہندسہ میں اتنا کمال حاصل کیا کہ انھوں نے کیلکولیٹر اور کمپیوٹر ایجاد کرلیے، جن کے ذریعے سے وہ بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی رقموں کا بالکل صحیح حساب لگا لیتے ہیں، مگر آخرت کے معاملات سے اس قدر بیخبر ہیں کہ ان میں سے بعض پیدا کرنے والے ہی کے منکر ہیں۔ جب کہ جاہل سے جاہل شخص بھی جانتا ہے کہ کوئی چیز بنانے والے کے بغیر نہیں بنتی۔ پھر بعض اعلیٰ درجے کی مخلوق ہو کر پتھروں کو پوج رہے ہیں اور بعض ایک رب ماننے کے بجائے تین رب مانتے ہیں، مسیح خدا، مریم خدا اور روح القدس خدا، جو ایک جمع ایک، جمع ایک کے نتیجے میں تین خدا بنتے ہیں، مگر ان کا اصرار ہے کہ یہاں ایک جمع ایک، جمع ایک تین نہیں بنتے بلکہ ایک خدا بنتا ہے۔ بتائیے اس سے بڑھ کر جہالت کیا ہوسکتی ہے، کبھی ایک، ایک اور ایک بھی ایک ہوسکتے ہیں ؟ پھر ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ ہم توحید فی التثّلیث کو اس لیے مانتے ہیں کہ یہ عقل سے اونچی بات ہے، حالانکہ یہ بھی ان کی جہالت ہے۔ کوئی شخص دو جمع دو کا نتیجہ پانچ نکالے تو یہ عقل سے اونچی بات نہیں ہوگی، بلکہ صریح عقل کے خلاف ہوگی۔ یہی حال تین خداؤں کے ایک خدا ہونے کا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ ، یعنی یہ لوگ دنیا کی زندگی کے ایک پہلو کو تو خوب جانتے ہیں کہ تجارت کس طرح کریں، کس مال کی کریں، کہاں سے خریدیں، کہاں بیچیں، اور کھیتی کس طرح کریں، کب بیچ ڈالیں کب کاٹیں، تعمیرات کیسی کیسی بنائیں، سامان عیش و عشرت کیا کیا مہیا کریں۔ لیکن اسی حیات دنیا کا دوسرا پہلو جو اس کی حقیقت اور اس کے اصلی مقصد کو واضح کرتا ہے کہ دنیا کا چند روزہ قیام درحقیقت ایک مسافرانہ قیام ہے، انسان یہاں کا مقامی آدمی (نیشنل) نہیں بلکہ دوسرے ملک آخرت کا باشندہ ہے، یہاں کچھ مدت کے لئے ویزا پر آیا ہوا ہے، اس کا اصلی کام یہ ہے کہ اپنے اصلی وطن کے لئے یہاں سے سامان راحت فراہم کر کے وہاں بھیجے اور وہ سامان راحت ایمان اور عمل صالح ہے اس دوسرے رخ سے بڑے بڑے عاقل کہلانے والے بالکل غافل اور جاہل ہیں۔- قرآن کریم کے الفاظ میں غور کیجئے کہ يَعْلَمُوْنَ کے ساتھ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فرمایا ہے۔ جس میں لفظ ظاہراً کو تنوین کے ساتھ نکرہ لا کر قواعد عربیت کی رو سے اس طرف اشارہ ہے کہ درحقیقت یہ لوگ حیات ظاہر کو بھی پورا نہیں جانتے، اس کے صرف ایک رخ کو جانتے ہیں دوسرے رخ سے غافل ہیں اور آخرت سے بالکل ہی غافل و جاہل ہیں۔- دنیا کے فنون معاش اگر آخرت سے غفلت کے ساتھ حاصل ہوں تو وہ کوئی دانشمندی نہیں :- قرآن کریم اقوام دنیا کے عبرتناک قصوں سے بھرا ہوا ہے، جو مکاسب دنیا اور عیش و عشرت کے سامان جمع کرنے میں بڑے نام آور تھے، پھر ان کا انجام بد بھی دنیا ہی میں لوگوں کے سامنے آیا اور آخرت کا دائمی عذاب ان کا حصہ بنا، اس لئے ان کو کوئی سمجھدار آدمی عقلاء یا حکماء نہیں کہہ سکتا۔ افسوس ہے کہ آج کل عقل و حکمت کا سارا انحصار اسی میں سمجھ لیا گیا ہے کہ جو شخص زیادہ سے زیادہ مال جمع کرے اور اپنی عیش و عشرت کا سامان سب سے بہتر بنا لے وہ سب سے بڑا عقلمند کہلاتا ہے، اگرچہ اخلاق انسانیت سے بھی گوارا ہو۔ عقل و شرع کی رو سے اس کو عقلمند کہنا عقل کی توہین ہے۔ قرآن کریم کی زبان میں عقل والے صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ کو اور آخرت کو پہچانیں، اس کے لئے عمل کریں۔ دنیا کی ضروریات کو بقدر ضرورت رکھیں، اپنی زندگی کا مقصد نہ بنائیں۔ آیت قرآن اِنَّ فِيْ .... لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ، الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا الآیتہ کا یہی مفہوم ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝ ٠ۚۖ وَہُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ہُمْ غٰفِلُوْنَ۝ ٧- ظاهر - وظَهَرَ الشّيءُ أصله : أن يحصل شيء علی ظَهْرِ الأرضِ فلا يخفی، وبَطَنَ إذا حصل في بطنان الأرض فيخفی، ثمّ صار مستعملا في كلّ بارز مبصر بالبصر والبصیرة . قال تعالی: أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر 26] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف 33] ، إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] ، يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم 7] ، أي : يعلمون الأمور الدّنيويّة دون الأخرويّة،- ( ظ ھ ر ) الظھر - ظھر الشئی کسی چیز کا زمین کے اوپر اس طرح ظاہر ہونا کہ نمایاں طور پر نظر آئے اس کے بالمقابل بطن کے معنی ہیں کسی چیز کا زمین کے اندر غائب ہوجانا پھر ہر وہ چیز اس طرح پر نمایاں ہو کہ آنکھ یابصیرت سے اس کا ادراک ہوسکتا ہو اسے ظاھر کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآں میں ہے أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر 26] یا ملک میں فساد ( نہ ) پیدا کردے ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف 33] ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] مگر سرسری سی گفتگو ۔ اور آیت کریمہ : يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم 7] یہ دنیا کی ظاہری زندگی ہی کو جانتے ہیں کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ صرف دنیو امور سے واقفیت رکھتے ہیں اخروی امور سے بلکل بےبہر ہ ہیں - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] ،- دنا - اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

یہ مکہ والے تو صرف دنیوی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں کہ دنیا میں معاملات بیع وشراء حساب و کتاب ایک کا اور ہزار کا کس طرح ہوتا ہے اور سردیوں میں کن چیزوں کی ضرورت ہے اور گرمیوں میں کس چیز کی ضرورت ہے اور یہ لوگ آخرت کے کاموں سے اور اس کی تیاری سے بالکل بیخبر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ (یَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج) ” - یہاں سے موضوع ” التذکیر بآلاء اللّٰہ “ (اللہ کی نعمتوں کے حوالے سے نصیحت اور یاددہانی) کی طرف موڑا جا رہا ہے اور اس مضمون کے اعتبار سے سورة الروم اور سورة النحل میں بہت گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ - (وَہُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ہُمْ غٰفِلُوْنَ ) ” - یہ دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے ‘ لیکن یہ لوگ دنیا کی اس حقیقت کو بالکل فراموش کیے بیٹھے ہیں۔ انہیں یاد ہی نہیں کہ آج وہ یہاں جو بوئیں گے کل آخرت میں وہی کچھ انہیں کاٹنا ہوگا۔ ان کے سامنے دنیوی زندگی کا صرف یہی پہلو رہ گیا ہے کہ کھاؤ پیؤ اور عیش کرو ‘ جبکہ آخرت کی زندگی کا تصور ان کے ذہنوں سے بالکل ہی اوجھل ہوگیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 4 یعنی اگرچہ آخرت پر دلالت کرنے و الے آثار و شواہد کثرت سے موجود ہیں اور اس سے غفلت کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے ، لیکن یہ لوگ اس سے خود ہی غفلت برت رہے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں یہ یہ ان کی اپنی کوتاہی ہے کہ دنیوی زندگی کے اس ظاہری پردے پر نگاہ جما کر بیٹھ گئے ہیں اور اس کے پیچھے جو کچھ آنے والا ہے اس سے بالکل بے خبر ہیں ، ورنہ خدا کی طرف سے ان کو خبردار کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani