Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کائنات کا ہر ذرہ دعوت فکر دیتا ہے چونکہ کائنات کا ذرہ ذرہ حق جل وعلا کی قدرت کا نشان ہے اور اس کی توحید اور ربوبیت پر دلالت کرنے والا ہے اس لئے ارشاد ہوتا ہے کہ موجودات میں غور و فکر کیا کرو اور قدرت اللہ کی نشانیوں سے اس مالک کو پہچانو اور اس کی قدر و تعظیم کرو ۔ کبھی عالم علوی کو دیکھو کبھی عالم سفلی پر نظر ڈالو کبھی اور مخلوقات کی پیدائش کو سوچو اور سمجھو کہ یہ چیزیں عبث اور بیکار پیدا نہیں کی گئیں ۔ بلکہ رب نے انہیں کارآمد اور نشان قدرت بنایا ہے ۔ ہر ایک کا ایک وقت مقرر ہے یعنی قیامت کا دن ۔ جسے اکثر لوگ مانتے ہی نہیں ۔ اس کے بعد نبیوں کی صداقت کو اس طرح ظاہر فرماتا ہے کہ دیکھ لو ان کے مخالفین کا کس قدر عبرتناک انجام ہوا ؟ اور ان کے ماننے والوں کو کس طرح دونوں جہاں کی عزت ملی؟ تم چل پھر کر اگلے واقعات معلوم کرو کہ گذشتہ امتیں جو تم سے زیادہ زور آور تھیں تم سے زیادہ مال و زر والی تھیں تم سے زیادہ آبادیاں انہوں نے کیں تم سے زیادہ کھیتیاں اور باغات ان کے تھے اس کے باوجود جب ان کے پاس اس زمانے کے رسول آئے انہوں نے دلیلیں اور معجزے دکھائے اور پھر بھی اس زمانے کے ان بدنصیبوں نے ان کی نہ مانی اور اپنے خیالات میں مستغرق رہے اور سیاہ کاریوں میں مشغول رہے تو بالآخر عذاب اللہ ان پر برس پڑے ۔ اس وقت کوئی نہ تھا جو انہیں بچاسکے یا کسی عذاب کو ان پر سے ہٹاسکے ۔ اللہ کی ذات اس سے پاک ہے کہ وہ اپنے بندوں پر ظلم کرے ۔ یہ عذاب تو انکے اپنے کرتوتوں کا وبال تھا ۔ یہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے تھے رب کی باتوں کا مذاق اڑاتے تھے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ ان کی بے ایمانی کی وجہ سے ہم نے ان کے دلوں کو انکی نگاہوں کو پھیر دیا اور انہیں ان کی سرکشی میں حیران چھوڑ دیاہے ۔ اور آیت میں ہے ان کی کجی کی وجہ سے اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردئیے اور اس آیت میں ہے کہ اگر اب بھی منہ موڑیں تو سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض گناہوں پر ان کی پکڑ کرنے کا ارادہ کرچکاہے ۔ اس بنا پر السوای منصوب ہوگا اساوا کا مفعول ہو کر ۔ اور یہ بھی قول ہے کہ سوای یہاں پر اس طرح واقع ہے کہ برائی ان کا انجام ہوئی ۔ اس لئے کہ وہ آیات اللہ کے جھٹلانے والے اور ان کا مذاق اڑانے والے تھے ۔ تو اس معنی کی رو سے یہ لفظ منصوب ہوگا کان کی خبر ہو کر ۔ امام ابن جریر نے یہی توجیہہ بیان کی ہے اور ابن عباس اور قتادۃ سے نقل بھی کی ہے ۔ ضحاک بھی یہی فرماتے ہیں اور ظاہر بھی یہی ہے کیونکہ اس کے بعد آیت ( وَكَانُوْا بِهَا يَسْتَهْزِءُوْنَ 10۝ۧ ) 30- الروم:10 ) ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81یا ایک مقصد اور حق کے ساتھ پیدا کیا ہے بےمقصد اور بیکار نہیں۔ اور وہ مقصد ہے کہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو ان کی بدی کی سزا دی جائے۔ یعنی کیا وہ اپنے وجود پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح انھیں نیست سے ہست کیا اور پانی کے ایک حقیر قطرے سے ان کی تخلیق کی۔ پھر آسمان و زمین کا ایک خاص مقصد کے لیے وسیع و عریض سلسلہ قائم کیا نیز ان سب کے لیے ایک خاص وقت مقرر کیا یعنی قیامت کا دن۔ جس دن یہ سب کچھ فنا ہوجائے گا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان باتوں پر غور کرتے تو یقینا اللہ کے وجود اس کی ربوبیت و الوہیت اور اس کی قدرت مطلقہ کا انھیں ادراک و احساس ہوجاتا اور اس پر ایمان لے آتے۔ 82اور اس کی وجہ وہی کائنات میں غور و فکر کا فقدان ہے ورنہ قیامت کے انکار کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] انسان کے اندر بھی ایک پوری کائنات آباد ہے۔ اسی لئے انسان کے اندر کی دنیا عالم اصغر کہا جاتا ہے۔ اور بیرونی دنیا یا کائنات کو عالم اکبر۔ پھر اس اندرونی دنیا کے بھی بیشمار پہلو ہیں۔ ہم سردست انسان کے اس پہلو پر غور کریں گے جس میں وہ دوسرے جانوروں سے ممتاز ہے۔ مفاد خویش ، تحفظ خویش اور بقائے نسل وغیرہ ایسے طبعی تقاضے ہیں جو ہر جاندار اور اسی طرح انسان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اور جن باتوں میں وہ ممتاز ہے وہ یہ ہیں (١) زمین اور اس کے ماحول میں بیشمار چیزیں ایسی ہیں جو انسان کے لئے مسخر کردی گئی ہیں۔ اور وہ ان سے جیسے چاہے کام لے سکتا ہے اور یہ صفت انسان کے علاوہ دوسرے کسی جاندار میں نہیں (٢) اسے خیر اور شر کی تمیز بخشی گئی ہے۔ وہ اپنے ہی کئے ہوئے کاموں پر حکم لگا سکتا ہے کہ میں نے فلاں اچھا کام کیا ہے اور فلاں کام برا تھا۔ یہ بات کافی حد تک اس کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے۔ پھر اسے وحی کے ذریعہ متنبہ بھی کیا جاتا رہا ہے (٣) اسے قوت ارادہ و اختیار بھی بخشا ہے اور وہ اپنے لئے اچھا یا برا، کوئی بھی طرز زندگی اپنانے کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ اپنے تحفظ کے فطری داعیہ کے علی الرغم کسی جذبہ کے تحت اپنی جان تک دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا اور (٤) اسے عقل و شعور کا وافر حصہ عطا کیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ چند معلوم اور دیکھی ہوئی اشیاء سے مزید کچھ حقائق اور نتائج کا سراغ لگانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اصطلاحی زبان میں علت ( ) اور معلول ( ) سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ مشاہدات کو دیکھ کر اس کی علت بھی معلوم کرنا چاہتا ہے اور اس سے آگے معلول بھی۔ یہ وہ اللہ کے عطیات ہیں جو انسان کے علاوہ کسی جاندار کو عطا نہیں کئے گئے اور ان کے عطا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کا امتحان لیا جائے کہ آیا وہ ان امور میں بھی اللہ کا فرمانبردار بن کر رہتا ہے جس میں اسے اختیار دیا گیا ہے یا نہیں ؟ جیسا کہ وہ طبعی امور میں اللہ کے قوانین و احکام کا پابند ہے۔ گویا یہ دنیا صرف انسان کے لئے دارالامتحان ہے اور کسی جاندار کے لئے نہیں۔ اور اس امتحان کا وقت اس کی موت تک ہے۔ موت دراصل اس کے امتحان کے نتیجہ کے امکان کا دن ہے۔ اور موت کے فوراً بعد پاس ہونے والوں کو انعام و اکرام دیئے جائیں گے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور فیل ہونے کو اپنے اپنے رزلٹ کے حساب سے سخت اور سخت تر سزائیں دی جائیں گی۔ اسی حقیقت سے عالم آخرت کے یقینی طور پر واقع ہونے کی عقلی دلیل پیش کی گئی ہے۔ کیونکہ یہ تو ناممکن ہے کہ کسی شخص کا امتحان تو لیا جائے لیکن اس کے نتیجہ کا اعلان ہی نہ کیا جائے یا اعلان کے بعد ان پاس ہونے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور نہ فیل ہونے والوں کو کچھ سزا دی جائے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ امتحان کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہی کسی کو سزا دے ڈالی جائے۔ لہذا جزا و سزا کا اصل مقام دارالاخرت ہے نہ کہ یہ دنیا۔ اور اس دنیا میں جو بعض افراد یا اقوام پر عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے تو وہ محض مجرموں کی گرفتار ہوتی ہے پوری سزائے جرم نہیں ہوتی۔ تاکہ دوسرے لوگ ایسے مجرموں کے مظالم سے محفوظ رہ سکیں اور آئندہ کے لئے ان کے مظالم کا سلسلہ بند ہوجائے گویا انسان کے اندر کی دنیا کے اس پہلو پر بھی غور کرنے سے یہی نتیجہ سامنے آیا ہے۔ کہ انسان کو اس کے اچھے اور برے اعمال کی سزا ملنا ضروری ہے۔ اور نیز یہ کہ یہ سزا موت کے بعد ہی ہوسکتی ہے لہذا روز آخرت کے قیام ضروری ہوا۔ اب جو لوگ انسان کے اعمال کی جزا و سزا اور روز آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتے ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آخر تمہیں یہ زائد عطیات کیوں عطا کئے گئے تھے ؟ اگر دنیا میں رہنے کا مقصد کھانا پینا، بقائے نقل اور اس کے بعد مر کر مٹی ہوجانا ہی تھا تو یہ کام تو دوسرے جاندار بھی کر رہے ہیں۔ پھر تم میں اور ان میں کیا امتیاز باقی رہ گیا ؟ بلکہ ایک لحاظ سے ایسا انسان جانوروں سے بدتر ہوا۔ کہ اللہ نے اسے جو دوسرے جانوروں سے زائد صلاحیتیں عطا کی تھیں ان سے اس نے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا۔- [ ٥] بالحق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کی جملہ اشیاء کے ذمہ جو کام لگا دیا ہے اور اس کے لئے جو قوانین مقرر کردیئے ہیں کہ وہ ان پر سختی سے پابند ہیں۔ کہ نہ وہ ایک لمحہ آگے پیچھے ہوسکتی ہیں اور نہ ایک آدھ انچ بھی ہٹ سکتی ہیں۔ مثلاً سورج کے ایک دن طلوع ہونے سے دوسرے دن طلوع ہونے تک ٢٤ گھنٹے لگتے ہیں۔ سورج کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اس وقت میں ایک لمحہ کی بھی تقدیم و تاخیر کرے۔ پانی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی وقت نشیب کے فراز کی طرف بہنا شروع کرے یا سطح ہموار نہ رکھے یا ١٠٠ درجہ سنٹی گریڈ سے پہلے ہی کھولنا شروع ہوجائے ، نہ آگ کے لئے ممکن ہے کہ وہ اشیاء کو جلانا چھوڑ دے۔ یا گرمی سے اشیاء پھیلنا اور سردی سے سکڑنا چھوڑ دیں۔ یہی وہ قوانین ہیں جن میں نظم و ضبط کی بنا پر انسان نت نئی ایجادات کو ظہور میں لانے کے قابل ہوسکتا ہے بلکہ تھوڑا سا آگے غور و فکر کیا جائے کہ اگر اشیاء کائنات میں یہ نظم و ضبط نہ ہوتا تو انسان اس دنیا پر زندہ بھی نہ رہ سکتا تھا۔ جس سے صاف واضح ہے کہ کائنات کی ایک ایک چیز بیشمار فوائد اور مصالح کی بنا پر بنائی گئی ہے یہ محض کس بچے کا کھیل نہیں کہ جس نے اپنا دل بہلانے کے لئے ایک گھروندا بنا لیا ہو اور جب اس کا جی اکتا جائے تو اس پر ہاتھ پھیر کر اسے مٹا ڈالے۔ بلکہ یہ کسی حکیم مطلق کی ایک سوچی سمجھی تدبیر اور کارنامہ ہے۔ جس سے ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ ایسے منظم و مربوط کارخانہ کا خالق ومالک ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے اور دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کی ایجادات اور تسخیر کائنات کا راز اسی بات میں ہے۔ کائنات کی جملہ اشیاء طبعی قوانین کی پابند ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی نہ علوم سائنس کا تصور کیا جاسکتا تھا اور نہ انسانی تہذیب و تمدن کا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک طرف کائنات کی بنیاد ٹھوس حقائق پر مبنی ہے، دوسری طرف انسان کو وہ صلاحیتیں دی گئی ہیں جو کسی اور جاندار کو نہیں دی گئیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے۔ ان باتوں کے باوجود یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو۔ اور وہ جیسے چاہے اس دنیا زندگی گزار کر، عیش و عشرت کے مزے اڑا کر اور دوسروں پر ظلم کرکے اور ان کے حقوق پامال کرکے دنیا سے رخصت ہوجائے اور پھر مٹی میں مل کر مٹی بن جائے اور اس سے کوئی باز پرس تک کرنے والا نہ ہو۔ گویا اس آیت میں توحید باری پر انسان کی زندگی کے مقصد پر اور روز آخرت پر قوی دلائل اور شہادتیں پیش کی گئی ہیں۔- [ ٦] قیامت اور عالم آخرت پر یہ تیسری دلیل ہے۔ ہر چیز جو پیدا ہوئی ہے یا اصطلاحی زبان میں حارث ہے۔ وہ فنا ضرور ہوگی۔ کائنات کا یہ مربوط پائیدار نظام دیکھ کر انسان یہی سوچتا ہے کہ تا ابد یہ نظام یونہی چلتا جائے گا۔ اصل چیز مادہ ہے جو ازلی ابدی ہے۔ مادہ صرف اپنی شکلیں بدلتا ہے، فنا نہیں ہوتا یہی دہریہ حضرات کے عقیدہ کی اصل بنیاد ہے۔ لیکن موجودہ دور کی تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ماد 2 3 4 ھی فنا ہوسکتا ہے اور اسے توانائی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ایٹم کے اجزاء الیکٹرون اور پروٹون کا نظام درہم برہم کرکے اسے توانائی میں تبدیل کرلیا جاتا ہے پھر توانائی بھی مادہ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات کے سوا نہ کوئی چیز ازلی ہے اور نہ ابدی۔ اور ہر چیز فنا ہوسکتی ہے۔ جب یہ بات سائنس کے ذریعہ پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے تو اب اس کائنات کے نظام کے درہم برہم ہونے اور قیامت قائم ہونے میں کیا استحالہ باقی رہ جاتا ہے ؟ رہی یہ بات کہ اس کائنات کا یہ موجودہ نظام کب درہم برہم ہوگا اور کب قیامت قائم ہوگی اور یہ بات صرف خالق کائنات ہی جان سکتا ہے اور یہ بات معلوم کرلینا انسان کی دسترس سے باہر ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ۔۔ : اس میں دو احتمال ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ ” اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ “ ایک مستقل جملہ ہے اور ” مَا خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى“ دوسرا جملہ ہے۔ یعنی کیا ان لوگوں نے جو اللہ کے رسولوں اور اس کی ملاقات کو جھٹلاتے ہیں اپنی جانوں میں غور نہیں کیا، کیونکہ ان کی جانوں میں کئی نشانیاں ہیں، جن کے ساتھ وہ جان سکتے ہیں کہ جس ذات نے انھیں عدم سے وجود بخشا ہے وہ اس کے بعد انھیں دوبارہ بھی زندہ کرے گا اور یہ کہ وہ ذات جس نے انھیں ایک سے دوسری کئی حالتوں میں منتقل کیا، چناچہ نطفے سے علقہ میں، پھر مضغہ میں، پھر ذی روح انسان میں، پھر بچے کی صورت میں، پھر جوان، پھر بوڑھے، پھر کھوسٹ بوڑھے کی شکل میں منتقل کیا۔ آیا اس ذات کے لائق ہے کہ انھیں شتر بےمہار چھوڑ دے، نہ انھیں کوئی حکم دے، نہ کسی چیز سے منع کرے، نہ انھیں کوئی ثواب ہو نہ عقاب ہو۔ نہیں، بلکہ ہر حال میں وہ مختلف حالتوں سے منتقل ہوتے ہوئے اپنے اعمال کے محاسبے کے لیے اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ (دیکھیے سورة انشقاق : ٦ اور ١٦ تا ١٩) (عبد الرحمن سعدی)- دوسرا احتمال یہ ہے کہ ” فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ “ ” اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا “ کا ظرف ہے اور جملہ ” بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى“ پر مکمل ہو رہا ہے۔ یعنی کیا ان لوگوں نے اپنی جانوں یعنی اپنے دلوں میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور ان دونوں کے درمیان کی تمام اشیاء کو نہ عبث اور بےمقصد پیدا فرمایا ہے اور نہ ہی ہمیشہ رہنے کے لیے بنایا ہے، بلکہ انھیں اپنی کمال حکمت کے مطابق حق کے ساتھ یعنی حقیقی مقصد (آزمائش) کے لیے پیدا فرمایا ہے، جیسا کہ فرمایا : (لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا) [ ھود : ٧ ] ” تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل میں کون بہتر ہے۔ “ اور ایک مقررہ مدت کے ساتھ پیدا فرمایا ہے، جہاں پہنچ کر ہر حال میں اس سلسلے کو ختم ہونا ہے اور وہ مقررہ مدت قیام قیامت، حساب اور ثواب و عتاب کا وقت ہے۔ یہی بات اس آیت میں فرمائی ہے : (اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ) [ المؤمنون : ١١٥ ] ” تو کیا تم نے گمان کرلیا کہ ہم نے تمہیں بےمقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے ؟ “ دیکھیے یہاں اللہ تعالیٰ نے کیسے واضح فرمایا کہ اگر وہ مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد ایسے ہی چھوڑ دے اور انھیں دوبارہ زندہ کر کے اپنے پاس لے جا کر حساب نہ کرے تو اس کا انسانوں کو پیدا کرنا عبث ہوگا۔ (شنقیطی) آیت کی تفسیر کا پہلا احتمال بھی صحیح ہے مگر یہ دوسرا زیادہ واضح ہے، اس لیے ترجمہ اسی احتمال کے مطابق کیا گیا ہے۔ یہ دونوں باتیں کہ زمین و آسمان کی پیدائش بےمقصد نہیں بلکہ حق ہی کے ساتھ ہے اور یہ کہ قیامت ہر حال میں قائم ہوگی، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اکٹھی بیان ہوئی ہیں۔ دیکھیے سورة دخان (٣٨ تا ٤٠) اور سورة حجر (٨٥) ۔- وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاۗئِ رَبِّهِمْ لَكٰفِرُوْنَ : اور بہت سے لوگ آخرت کے اور دوبارہ زندہ ہو کر اپنے رب کی ملاقات کے اور حساب کتاب کے منکر ہیں، کیوں کہ انھوں نے اپنے دلوں میں غور ہی نہیں کیا۔ اگر وہ اپنے دلوں میں زمین و آسمان پر اور ان کے درمیان کی بیشمار عجیب و غریب اشیاء (دیکھیے بقرہ : ١٦٤) پر غور کرتے تو انھیں اپنے رب کی ملاقات کا یقین ہوجاتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - کیا (دلائل وقوع آخرت کے سن کر بھی ان کی نظر دنیا ہی پر مقصود رہی اور) انہوں نے اپنے دلوں میں یہ غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان کے درمیان میں ہیں کسی حکمت ہی سے اور ایک میعاد معین (تک) کے لئے پیدا کیا ہے (جیسا اس نے آیات میں خبر دی ہے کہ ان حکمتوں میں سے ایک حکمت جزاء و سزا کی ہے اور میعاد معین قیامت ہے۔ اگر اپنے دلوں میں غور کرتے تو ان واقعات کا امکان عقل سے اور ان کا وقوع نقل یعنی قرآن سے اور اس نقل کا صدق صفت اعجاز سے منکشف ہوجاتا اور آخرت کے منکر نہ ہوتے، مگر غور نہ کرنے سے منکر ہو رہے ہیں) اور (یہی کیا اور) بہت سے آدمی اپنے رب کے ملنے کے منکر ہیں کیا یہ لوگ (کبھی گھر سے نہیں نکلے اور) زمین میں چلے پھرے نہیں، جس میں دیکھتے بھالتے کہ جو (منکر) لوگ ان سے پہلے ہو گذرے ہیں ان کا (آخری) انجام کیا ہوا ( کیفیت ان کی یہ تھی کہ) وہ ان سے قوت میں بڑھے ہوئے تھے اور انہوں نے زمین کو بھی (ان سے زیادہ) بویا تھا اور جتنا انہوں نے (سامان اور مکان سے) اس کو آباد کر رکھا ہے اس سے زیادہ انہوں نے اس کو آباد کیا تھا اور ان کے پاس بھی ان کے پیغمبر معجزے لے کر آئے تھے ( جن کو انہوں نے نہیں مانا اور عذاب سے ہلاک ہوئے جن کی ہلاکت کے آثار ان کے ویران مکانات سے جو طریق شام میں ملتے ہیں نمودار ہیں) سو (اس ہلاکت میں) اللہ تعالیٰ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا وہ تو خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے (کہ انکار پیغمبروں کا کر کے مستحق ہلاکت ہوئے یہ تو ان کی حالت دنیا میں ہوئی اور) پھر (آخرت میں) ایسے لوگوں کا انجام جنہوں نے (ایسا برا کام (یعنی رسل کا انکار) کیا تھا برا ہی ہوا (محض) اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو (یعنی احکام و اخبار کو) جھٹلایا تھا اور (تکذیب سے بڑھ کر یہ کہ) ان کی ہنسی اڑاتے تھے (وہ انجام سزائے دوزخ ہے۔ )- معارف و مسائل - مذکور الصدر دونوں آیتیں مضمون سابق کا تکملہ اور اس پر بطور شہادت کے ہیں کہ یہ لوگ دنیا کی چند روزہ چمک دمک اور فانی لذتوں میں ایسے مست ہوگئے کہ اس کارخانہ کی حقیقت اور انجام سے بالکل غافل ہوگئے، اگر یہ خود بھی ذرا اپنے دل میں سوچتے اور غور کرتے تو ان پر یہ راز کائنات منکشف ہوجاتا کہ خالق کائنات نے یہ آسمان و زمین اور ان دونوں کے درمیان کی مخلوقات کو فضول اور بیکار پیدا نہیں کیا۔ ان کی تخلیق کا کوئی بڑا مقصد اور بڑی حکمت ہے اور وہ یہی ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ان بیشمار نعمتوں کے ذریعہ ان کے پیدا کرنے والے کو بھی پہچانیں، اور اس کی تلاش میں لگ جائیں کہ وہ کن کاموں سے راضی ہوتا ہے کن سے ناراض تاکہ اس کی رضا جوئی کا سامان کریں اور ناراضی کے کاموں سے بچیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان دونوں قسموں کے کاموں کی کچھ جزاء و سزا بھی ہونا ضروری ہے ورنہ نیک و بد کو ایک ہی پلے میں رکھنا عدل و انصاف کے خلاف ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ یہ دنیا دار الجزاء نہیں ہے جس میں انسان کو اس کے اچھے یا برے عمل کی پوری جزاء ضرور مل ہی جائے، بلکہ یہاں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جرائم پیشہ آدمی خوش خرم اور بامراد نظر آتا ہے اور برے کاموں سے پرہیز کرنے والا مصائب اور تنگی کا شکار دیکھا جاتا ہے۔- اس لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسا وقت آئے جب یہ سب کارخانہ ختم ہو اور اچھے برے اعمال کا حساب ہو اور ان پر جزاء و سزا مرتب ہو، جس کا نام قیامت اور آخرت ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ یہ لوگ اگر غور و فکر کرتے تو یہی آسمان و زمین اور ان کی مخلوقات اس کی شہادت دے دیتیں کہ یہ چیزیں دائمی نہیں کچھ مدت کے لئے ہیں اور ان کے بعد دوسرا عالم آنے والا ہے جو دائمی ہوگا۔ مذکورہ دو آیتوں میں سے پہلی آت کا یہی حاصل ہے اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ الآیتہ یہ مضمون تو ایک عقلی استدلال کا ہے۔ اگلی آیت میں دنیا کی محسوسات و مشاہدات اور تجربات کو اس کی شہادت میں پیش کیا گیا ہے اور اہل مکہ کو خطاب کر کے فرمایا ہے کہ :

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ۝ ٠ۣ مَا خَلَقَ اللہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۝ ٠ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاۗءِ رَبِّہِمْ لَكٰفِرُوْنَ۝ ٨- فكر - الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد 3]- ( ف ک ر ) الفکرۃ - اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔ - نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

ان کفار مکہ نے اپنے دلوں میں یہ غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق اور دیگر چیزوں کو ایک مخصوص وقت تک کے لیے کہ اس کے بعد فیصلہ فرمائے کسی حکمت کے تحت پیدا فرمایا ہے کہ لوگوں اور اوامرو ونواہی کا مکلف فرمائے مگر کفار مکہ بعث بعد الموت کا انکار کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(مَا خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّی ط) ” - اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات ایک مقصد کے تحت پیدا کی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا اقرار ہر وہ شخص کرتا ہے جو چشم بصیرت سے کائنات کا نظام دیکھتا ہے۔ چناچہ سورة آل عمران کی آیت ١٩١ میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی ایک خصوصیت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ جب وہ کائنات کی تخلیق کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں تو بےاختیار پکار اٹھتے ہیں : (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً ج) ” اے ہمارے پروردگار (ہم سمجھ گئے ہیں کہ) تو نے یہ سب کچھ عبث پیدا نہیں فرمایا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 5 یہ آخرت پر بجائے خود ایک مستقل استدلال ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر یہ لوگ باہر کسی طرف نگاہ دوڑانے سے پہلے خود اپنے وجود پر غور کرتے تو انہیں اپنے اندر ہی وہ دلائل مل جاتے جو موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کی ضرورت ثابت کرتے ہیں ۔ انسان کی تین امتیازی خصوصیات ایسی ہیں جو اس کو زمین کی دوسری موجودات سے ممیز کرتی ہیں: ایک یہ کہ زمین اور اس کے ماحول کی بے شمار چیزیں اس کے لیے مسخر کردی گئی ہیں ، اور ان پر تصرف کے وسیع اختیارات اس کو بخش دیے گئے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ اسے اپنی راہ زندگی کے انتخاب میں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے ۔ ایمان اور کفر ، طاعت اور معصیت ، نیکی اور بدی کی راہوں میں سے جس راہ پر بھی جانا چاہے جاسکتا ہے ۔ حق اور باطل ، صحیح اور غلط جس طریقے کو بھی اختیار کرنا چاہے کرسکتا ہے ۔ ہر راستے پر چلنے کے لیے اسے توفیق دے دی جاتی ہے اور اس پر چلنے میں وہ خدا کے فراہم کردہ ذرائع استعمال کرسکتا ہے ، خواہ وہ خدا کی اطاعت کا راستہ ہو یا اس کی نافرمانی کا راستہ ۔ تیسرے یہ کہ اس میں پیدائشی طور پر اخلاق کی حس رکھ دی گئی ہے جس کی بنا پر وہ اختیاری اعمال اور غیر اختیار اعمال میں فرق کرتا ہے ، اختیاری اعمال پر نیکی اور بدی کا حکم لگاتا ہے اور بداہۃ یہ رائے قائم کرتا ہے کہ اچھا عمل جزا کا اور برا عمل سزا کا مستحق ہونا چاہیے ۔ یہ تینوں خصوصیتیں جو انسان کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ کوئی وقت ایسا ہونا چاہیے جب انسان سے محاسبہ کیا جائے ۔ جب اس سے پوچھا جائے کہ جو کچھ دنیا میں اس کو دیا گیا تھا اس پر تصرف کے اختیارات کو اس نے کس طرح استعمال کیا ؟ جب یہ دیکھا جائے کہ اس نے اپنی آزادی انتخاب کو استعمال کر کے صحیح راستہ اختیار کیا یا غلط؟ جب اس کے اختیاری اعمال کی جانچ کی جائے اور نیک عمل پر جزا اور برے عمل پر سزا دی جائے ۔ یہ وقت لا محالہ انسان کا کارنامہ زندگی ختم اور اس کا دفتر عمل بند ہونے کے بعد ہی آسکتا نہ کہ اس سے پہلے ۔ اور یہ وقت لازما اسی وقت آنا چاہیے جب کہ ایک فرد یا ایک قوم کا نہیں بلکہ تمام انسانوں کا دفتر عمل بند ہو ۔ کیونکہ ایک فرد یا ایک قوم کے مرجانے پر ان اثرات کا سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا جو اس نے اپنے اعمال کی بدولت دنیا میں چھوڑے ہیں ۔ اس کے چھوڑے ہوئے اچھے یا برے اثرات بھی تو اس کے حساب میں شمار ہونے چاہیں ۔ یہ اثرات جب تک مکمل طور پر ظاہر نہ ہولیں انصاف کے مطابق پورا محاسبہ کرنا اور پوری جزا یا سزا دینا کیسے ممکن ہے ؟ اس طرح انسان کا اپنا وجود اس بات کی شہادت دیتا ہے اور زمین میں انسان کو جو حیثیت حاصل ہے وہ آپ سے آپ اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ دنیا کی موجودہ زندگی کے بعد ایک دوسرے زندگی ایسی ہو جس میں عدالت قائم ہو ، انصاف کے ساتھ انسان کے کارنامہ زندگی کا محاسبہ کیا جائے ، اور ہر شخص کو اس کے کام کے لحاظ سے جزا دی جائے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 6 اس فقرے میں آخرت کی دو مزید دلیلیں دی گئی ہیں ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر انسان اپنے وجود سے باہر کے نظام کائنات کو بنظر غور دیکھے تو اسے دو حقیقتیں نمایاں نظر آئیں گی ۔ ایک یہ کہ یہ کائنات برحق بنائی گئٰ ہے ۔ یہ کسی بچے کا کھیل نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے اس نے ایک بے ڈھنگا سا گھروندا بنا لیا ہو جس کی تعمیر اور تخریب دونوں ہی بے معنی ہوں ۔ بلکہ یہ ایک سنجیدہ نظام ہے جس کا ایک ایک ذرہ اس بات پر گواہی دے رہا ہے کہ اسے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا گیا ہے ، جس کی ہر چیز میں ایک قانون کار فرما ہے ، جس کی ہر شے با مقصد ہے ۔ انسان کا سارا تمدن اور اس کی پوری معیشت اور اس کے تمام علوم و فنون خود اس بات پر گواہ ہیں ۔ دنیا کی ہر چیز کے پیچھے کام کرنے والے قوانین کو دریافت کر کے اور ہر شے جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے اسے تلاش کر کے ہی انسان یہاں یہ سب کچھ تعمیر کرسکا ہے ۔ ورنہ ایک بے ضابطہ اور بے مقصد کھلونے میں اگر ایک پتلے کی حیثیت سے اس کو رکھ دیا گیا ہوتا تو کسی سائنس اور کسی تہذیب و تمدن کا تصور تک نہ کیا جاسکتا تھا ۔ اب آخر یہ بات تمہاری عقل میں کیسے سماتی ہے کہ جس حکیم نے اس حکمت اور مقصدیت کے ساتھ یہ دنیا بنائی ہے اور اس کے اندر تم جیسی ایک مخلوق کو اعلی درجہ کی ذہنی و جسمانی طاقتیں دے کر ، اختیارات دے کر ، آزادی انتخاب دے کر ، اخلاق کی حس دے کر اپنی دنیا کا بے شمار سروسمان تمہارے حوالہ کیا ہے ، اس نے تمہیں بے مقصد ہی پیدا کردیا ہوگا ؟ تم دنیا میں تعمیر و تخریب اور نیکی و بدی ، اور ظلم و عدل اور راستی و ناراستی کے سارے ہنگامے برپا کرنے کے بعد بس یونہی مر کر مٹی میں مل جاؤ گے گے اور تمہارے کسی اچھے یا برے کام کا کوئی نتیجہ نہ ہوگا ؟ تم اپنے ایک ایک عمل سے اپنی اور اپنے جیسے ہزاروں انسانوں کی زندگی پر اور دنیا کی بے شمار اشیاء پر بہت سے مفید یا مضر اثرات ڈال کر چلے جاؤ گے اور تمہارے مرتے ہی یہ سارا دفتر عمل بس یونہی لپیٹ کر دریا برد کردیا جائے گا ؟ دوسری حقیقت جو اس کائنات کے نظام کا مطالعہ کرنے سے صاف نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کسی چیز کے لیے بھی ہمیشگی نہیں ہے ۔ ہر شے کے لے ایک عمر مقرر ہے جسے پہنچنے کے بعد وہ ختم ہوجاتی ہے ۔ اور یہی معاملہ بحیثیت مجموعی پوری کائنات کا بھی ہے ۔ یہاں جتنی طاقتیں کام کر رہی ہیں وہ سب محدود ہیں ۔ ایک وقت وقت تک ہی وہ کام کر رہی ہیں ، اور کسی وقت پر انہیں لا محالہ خرچ ہوجانا اور اس نظام کو ختم ہوجانا ہے ۔ قدیم زمانے میں تو علم کی کمی کے باعث ان فلسفیوں اور سائنسدانوں کی بات کچھ چل بھی جاتی تھی جو دنیا کو ازلی و ابدلی قرار دیتے تھے ۔ مگر موجودہ سائنس نے عالم کے حدوث و قدم کی اس بحث میں جو ایک مدت دراز سے دہریوں اور خدا پرستوں کے درمیان چلی آرہی تھی ، قریب قریب حتمی طور پر اپنا ووٹ خدا پرستوں کے حق میں ڈال دیا ہے ، اب دہریوں کے لیے عقل اور حکمت کا نام لے کر یہ دعوی کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے کہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور قیامت کبھی نہ آئے گی ۔ پرانی مادہ پرستی کا سارا انحصار اس تخیل پر تھا کہ مادہ فنا نہیں ہوسکتا ، صرف صورت بدلی جاسکتی ہے ، مگر ہر تغیر کے بعد مادہ مادہ ہی رہتا ہے اور اس کی مقدار میں کوئی کمی و بیشی نہیں ہوتی ۔ اس بنا پر یہ نتیجہ نکالا جاتا تھا کہ اس عالم مادی کی نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا ۔ لیکن اب جوہری توانائی ( ) کے انکشاف نے اس پورے تخیل کی بساط الٹ کر رکھ دی ہے ۔ اب یہ بات کھل گئی ہے کہ قوت مادے میں تبدیل ہوتی ہے اور مادہ پھر قوت میں تبدیل ہوجاتا ہے حتی کہ نہ صورت باقی رہتی ہے نہ ہیولی ۔ اب حرکیات حرارت کے دوسرے قانون ( - ) نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ عالم مادی نہ ازلی ہوسکتا ہے نہ ابدی ۔ اس کو لازما ایک وقت شروع اور ایک وقت ختم ہونا ہی چاہیے ۔ اس لیے سائنس کی بنیاد پر اب قیامت کا انکار ممکن نہیں رہا ہے ۔ اور ظاہر بات ہے کہ جب سائنس ہتھیار ڈال دے تو فلسفہ کن ٹانگوں پر اٹھ کر قیامت کا انکار کرے گا ؟ سورة الروم حاشیہ نمبر : 7 یعنی اس بات کے منکر کہ انہیں مرنے کے بعد اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: یعنی اگر آخرت کو نہ مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات یونہی بغیر کسی مقصد کے پیدا کردی ہے جس میں نہ کسی ظالم اور بدکار سے کوئی حساب کبھی لیا جائے گا اور نہ کسی نیک انسان کو اس کی نیکی کا کوئی انعام کبھی مل سکے گا، نیز یہ کائنات غیر محدود مدت تک اسی طرح بے مقصد چلتی رہے گی۔