9 1یہ آثار کھنڈرات اور نشانات عبرت پر غور و فکر نہ کرنے پر ملامت کی جا رہی ہے۔ مطلب ہے کہ چل پھر کر وہ مشاہدہ کرچکے ہیں۔ 9 2یعنی ان کافروں کا جن کو اللہ نے ان کے کفر باللہ، حق کے انکار اور رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کیا۔ 9 3یعنی قریش اور اہل مکہ سے زیادہ۔ 9 4یعنی اہل مکہ تو کھیتی باڑی سے ناآشنا ہیں لیکن پچھلی قومیں اس وصف میں بھی ان سے بڑھ کر تھیں۔ 9 5اس لئے کہ ان کی عمریں بھی زیادہ تھیں، جسمانی قوت میں بھی زیادہ تھے اسباب معاش بھی ان کو زیادہ حاصل تھے۔ پس انہوں نے عمارتیں بھی زیادہ بنائیں، زراعت و کاشتکاری بھی کی اور وسائل رزق بھی زیادہ مہیا کئے۔ 9 6لیکن وہ ان پر ایمان نہیں لائے۔ لہذا تمام تر قوتوں، ترقیوں اور فراغت و خوش حالی کے باوجود ہلاکت ان کا مقدر بن کر رہی۔ 9 7کہ انھیں بغیر گناہ کے عذاب میں مبتلا کر دیتا 9 8یعنی اللہ کا انکار اور رسولوں کی تکذیب کر کے۔
[٧] یعنی ظلم کی عمارت ہمیشہ عقیدہ آخرت سے انکار کی بنیاد پر اٹھتی ہے۔ اور جن ظالم اقوام کو اللہ تعالیٰ نے تباہ کیا ان سب میں قدر مشترک یہی تھی کہ آخرت کے منکر تھے۔ کیونکہ جو شخص یا جو قوم آخرت میں اللہ کے حضور اپنے اعمال کی جوابدہی کی قائل ہوگی وہ ظلم کر ہی نہیں سکتی۔ ان تباہ ہونے والی قوموں میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو تم سے بہت زیادہ طاقتور تھے۔ فنون دنیا کے ماہر تھے۔ انہوں نے زرعی میدان میں بھی خوب ترقی کی تھی اور زمین کو چیر کر اس میں سے خزانے بھی نکالے تھے۔ اور تہذیب و تمدن کے لحاظ سے تم سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ لیکن جب انہوں نے ظلم اور زیادتی پر کمر باندھی تو اللہ نے انھیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا اب اگر اے کفار مکہ تم بھی وہی سرکشی اور ظلم کی راہ اختیار کرو گے تو آخر کیا وجہ ہے کہ تمہارا بھی انجام ایسا ہی نہ ہو۔ - [ ٨] یعنی ایک تو تمہارے اندر آخرت کے لازمی ہونے کے دلائل موجود تھے، دوسرے کائنات میں موجود تھے، تیسرے تم پر اللہ کی رحمت ہوئی کہ اس نے رسول بھیج کر تمہیں مابعدالموت پیش آنے والے حقائق سے خبردار کرتے رہے۔ پھر بھی اگر تم لوگ عقیدہ آخرت کے منکر بن کر اپنی عاقبت تباہ کرلو تو اس میں تمہارا اپنا ہی قصور ہے۔ اللہ تعالیٰ کبی کسی پر زیادتی اور ظلم نہیں کرتا۔
اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا ۔۔ : آخرت کے حق ہونے کے دلائل ذکر کرنے کے بعد اس کی تکذیب کرنے والی پہلی اقوام کے برے انجام سے ڈرایا ہے۔ کیونکہ ان اقوام کے آثار مکہ مکرمہ کے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں ہر طرف بکھرے پڑے تھے۔ عاد وثمود ہوں یا اصحاب مدین اور قوم لوط ہو یا قوم سبا یا قوم فرعون، مکہ مکرمہ کے لوگ تجارت کے لیے ان تمام علاقوں میں جایا کرتے تھے۔ ” الارض “ سے مراد مکہ مکرمہ اور اس کے ارد گرد کے علاقے ہیں، جن کا قرآن میں جا بجا ذکر ہے۔ یعنی یہ لوگ جو اللہ کی وحدانیت، اس کے رسولوں کی رسالت اور آخرت کو جھٹلانے والے ہیں، کیا اس زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے ان جھٹلانے والے لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے ؟ مطلب یہ ہے کہ یقیناً یہ لوگ زمین میں چلے پھرے ہیں اور انھوں نے سب کچھ دیکھا ہے، مگر عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا کہ انھیں کچھ نصیحت ہوتی کہ وہ لوگ قوت کے لحاظ سے ان سے بہت زیادہ تھے۔ ان کے قد کاٹھ اور ان کی جسمانی، مالی اور فوجی قوت ان سے کہیں زیادہ تھی اور انھوں نے زمین کو ان سے زیادہ پھاڑا تھا۔ زمین کو پھاڑنے میں زراعت، معدنیات نکالنا اور آب پاشی کا نظام قائم کرنا سبھی کچھ آجاتا ہے اور انھوں نے زمین کو اس سے کہیں زیادہ آباد کیا جو ان اہل مکہ نے آباد کیا ہے۔ انھوں نے بڑی بڑی عمارتیں، کارخانے اور پانی کے بند بنائے۔ ان کے پاس ان کے رسول واضح معجزے اور دلائل لے کر آئے، مگر انھوں نے انھیں جھٹلا دیا، تو اللہ کے عذاب کا نشانہ بنے اور اب تک ان کی بستیوں کے نشانات ان کی بربادی کی داستان سنا رہے ہیں۔- كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَّاَثَارُوا الْاَرْضَ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ پہلے لوگ ان سے قوت میں زیادہ تھے اور انھوں نے زمین کو پھاڑا اور اسے آباد کیا، اس سے زیادہ جو انھوں نے اسے آباد کیا ہے، اس میں کفار (اہل مکہ) پر چوٹ بھی ہے، کیونکہ اہل مکہ کا اہل مصر، اہل شام اور اہل یمن کے ساتھ زمین کی زراعت اور آباد کاری میں کوئی مقابلہ ہی نہ تھا۔ مکہ میں نہ قابل زراعت زمین تھی، نہ انھوں نے زمین کو پھاڑا اور نہ ہی ان کے پاس آب پاشی کا کوئی نظام تھا۔ جبکہ مصر، شام اور یمن زراعت اور دوسرے شعبوں میں کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ سو اہل مکہ کو بھی زراعت اور زمین کی آباد کاری کرنے والے قرار دینے میں اور پہلی قوموں کو ان سے زیادہ ترقی یافتہ قرار دینے میں ان کے ساتھ ایک طرح کا مذاق بھی ہے کہ ترقی کے مقابلے میں اپنی حیثیت کو پیش نظر رکھیں اور دیکھیں کہ جب اتنی زبردست ترقی یافتہ قومیں اپنے رسولوں کو جھٹلانے کی پاداش میں ہلاک کردی گئیں تو ان بےچاروں کی کیا اوقات ہے۔- فَمَا كَان اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ نے جتنی اقوام کو تباہ کیا ان سب میں قدر مشترک ظلم تھا اور ظلم کی بنیاد آخرت سے انکار ہے، کیونکہ جو قوم آخرت پر یقین رکھتی ہو اور اسے اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس ہو تو وہ ظلم کر ہی نہیں سکتی۔ سو اگر آخرت سے انکار کی وجہ سے ان پر عذاب آیا تو اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا، بلکہ یہ ان کے اپنے ظلم کا نتیجہ تھا اور اگر اہل مکہ پر اپنے رسول کو اور آخرت کو جھٹلانے کے نتیجے میں عذاب آیا تو ان کے اپنے ظلم کی وجہ ہی سے آئے گا۔
اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ، یعنی یہ اہل مکہ تو ایک ایسی زمین کے باشندے ہیں جہاں نہ زراعت ہے نہ صنعت نہ تجارت کے مواقع اور نہ بلند وبالا حسین تعمیرات، مگر ملک شام اور یمن کے سفر ان لوگوں کو اپنے تجارتی مقاصد کے لئے پیش آتے ہیں کہ ان سفروں میں ان لوگوں نے اپنے سے پہلی اقوام دنیا کے انجام کا مشاہدہ نہیں کیا جن کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں بڑے بڑے تصرفات کرنے کا سلیقہ دیا تھا کہ زمین کو کھود کر اس سے پانی نکالنا اور اس سے باغات اور کھیتوں کو سیراب کرنا اور چھپے ہوئے معادن سے سونا چاندی اور دوسری قسم کی معدنی دھاتیں نکالنا اور ان سے انسانی فوائد کے لئے مختلف قسم کی مصنوعات تیار کرنا ان کا وظیفہ زندگی تھا اور یہ اپنے زمانے کی متمدن قومیں سمجھ جاتی تھیں۔ مگر انہوں نے اسی مادی اور فانی عیش و عشرت میں مست ہو کر اللہ کو اور آخرت کو بھلا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو یاد دلانے کے لئے اپنے پیغمبر اور کتابیں بھیجیں، مگر انہوں نے کسی کی طرف التفات نہیں کیا اور بالاخر دنیا میں بھی مبتلائے عذاب ہوئے جس پر ان کی بستیوں کے ویران کھنڈرات اس وقت تک شہادت دے رہے ہیں۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ غور کرو کہ کیا اس عذاب میں ان پر اللہ کی طرف سے کوئی ظلم ہوا ہے یا انہوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے کہ اسباب عذاب جمع کر لئے۔
اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ٠ۭ كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّۃً وَّاَثَارُوا الْاَرْضَ وَعَمَــرُوْہَآ اَكْثَرَ مِمَّا عَمَــرُوْہَا وَجَاۗءَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ ٠ ۭ فَمَا كَانَ اللہُ لِيَظْلِمَہُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَ ٩ ۭ- سير - السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير - ( س ی ر ) السیر - ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا .- والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- عاقب - والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] ،- ( ع ق ب ) العاقب - اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔- شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - أثر - أَثَرُ الشیء : حصول ما يدلّ علی وجوده، يقال : أثر وأثّر، والجمع : الآثار . قال اللہ تعالی: ثُمَّ قَفَّيْنا عَلى آثارِهِمْ بِرُسُلِنا «1» [ الحدید 27] ، وَآثاراً فِي الْأَرْضِ [ غافر 21] ، وقوله : فَانْظُرْ إِلى آثارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم 50] . ومن هذا يقال للطریق المستدل به علی من تقدّم : آثار، نحو قوله تعالی: فَهُمْ عَلى آثارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات 70] ، وقوله : هُمْ أُولاءِ عَلى أَثَرِي [ طه 84] . ومنه : سمنت الإبل علی أثارةٍأي : علی أثر من شحم، وأَثَرْتُ البعیر : جعلت علی خفّه أُثْرَةً ، أي : علامة تؤثّر في الأرض ليستدل بها علی أثره، وتسمّى الحدیدة التي يعمل بها ذلک المئثرة . وأَثْرُ السیف : جو هره وأثر جودته، وهو الفرند، وسیف مأثور . وأَثَرْتُ العلم : رویته «3» ، آثُرُهُ أَثْراً وأَثَارَةً وأُثْرَةً ، وأصله : تتبعت أثره . أَوْ أَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ [ الأحقاف 4] ، وقرئ : (أثرة) «4» وهو ما يروی أو يكتب فيبقی له أثر .- والمآثر : ما يروی من مکارم الإنسان، ويستعار الأثر للفضل - ( ا ث ر ) اثرالشیئ ۔ ( بقیہ علامت ) کسی شی کا حاصل ہونا جو اصل شیئ کے وجود پر دال ہوا اس سے فعل اثر ( ض) واثر ( تفعیل ) ہے اثر کی جمع آثار آتی ہے قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا [ الحدید : 27] پھر ہم نے ان کے پیھچے اور پیغمبر بھیجے وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ [ غافر : 21] اور زمین میں نشانات بنانے کے لحاظ سے فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم : 50] تم رحمت الہی کے نشانات پر غور کرو اسی سے ان طریق کو آثار کہا جاتا ہے جس سے گذشتہ لوگوں ( کے اطوار وخصائل ) پر استدلال ہوسکے جیسے فرمایا فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات : 70] سو وہ انہیں کے نقش قدم پر دوڑتے چلے جاتے ہیں ۔ هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي [ طه : 84] وہ میرے طریقہ پر کار بند ہیں ۔ اسی سے مشہور محاورہ ہے سمنت الابل علی آثارۃ اثرمن شحم فربہ شدند شتراں پر بقیہ پیہ کہ پیش ازیں بود اثرت البعیر ۔ میں نے اونٹ کے تلوے پر نشان لگایا تاکہ ( گم ہوجانے کی صورت میں ) اس کا کھوج لگایا جا سکے ۔ اور جس لوہے سے اس قسم کا نشان بنایا جاتا ہے اسے المئثرۃ کہتے ہیں ۔ اثرالسیف ۔ تلوار کا جوہر اسکی عمدگی کا کا نشان ہوتا ہے ۔ سیف ماثور ۔ جوہر دار تلوار ۔ اثرت ( ن ) العلم آثرہ اثرا واثارۃ اثرۃ ۔ کے معنی ہیں علم کو روایت کرنا ۔ در اصل اس کے معنی نشانات علم تلاش کرنا ہوتے ہیں ۔ اور آیت ۔ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ ( سورة الأَحقاف 4) میں اثارۃ سے مراد وہ علم ہے جس کے آثار ( تاحال ) روایت یا تحریر کی وجہ سے باقی ہوں ایک قراۃ میں اثرۃ سے یعنی اپنے مخصوص علم سے المآثر انسانی مکارم جو نسلا بعد نسل روایت ہوتے چلے آتے ہیں ۔ اسی سے بطور استعارہ اثر بمعنی فضیلت بھی آجاتا ہے ۔- عمر - العِمَارَةُ : نقیض الخراب : يقال : عَمَرَ أرضَهُ :- يَعْمُرُهَا عِمَارَةً. قال تعالی: وَعِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ [ التوبة 19] . يقال : عَمَّرْتُهُ فَعَمَرَ فهو مَعْمُورٌ. قال : وَعَمَرُوها أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوها [ الروم 9] ، وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ [ الطور 4] ، وأَعْمَرْتُهُ الأرضَ واسْتَعْمَرْتُهُ : إذا فوّضت إليه العِمَارَةُ ، قال : وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيها[هود 61] .- ( ع م ر ) العمارۃ - یہ خراب کی ضد ہے عمر ارضہ یعمرھا عمارۃ اس نے اپنی زمین آباد کی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَعِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ [ التوبة 19] اور مسجد محترم ( یعنی خانہ کعبہ ) کو آباد کرنا ۔ کہا جاتا ہے ۔ عمرتہ میں نے اسے آباد کیا ۔ معمر چناچہ وہ آباد ہوگئی اور آباد کی ہوئی جگہ کو معمور کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔- وَعَمَرُوها أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوها [ الروم 9] اور اس کو اس سے زیادہ آباد کیا تھا جو انہوں نے کیا ۔ وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ [ الطور 4] اور آباد کئے ہوئے گھر کی ۔ اعمر تہ الارض واستعمرتہ میں نے اسے آباد کرنے کے لئے زمین دی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيها[هود 61] اور اس نے آباد کیا ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم :- البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة .- فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ- [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44]- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے
اور یہ مکہ والے زمین میں چلے پھرے نہیں جس میں دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کا انبیاء کرام (علیہم السلام) کی تکذیب کرنے پر کیا انجام ہوا۔- حالانکہ وہ ان سے جسمانی طاقت میں بہتر تھے اور ان سے زیادہ انہوں نے سفر و تجارت کیا تھا یا یہ کہ ان سے بڑھ کر انہوں نے زمین کو بویا جوتا تھا اور ان مکہ والوں سے زائد انہوں نے زمین کو آباد کیا تھا اور اس میں باقی رہے تھے اور ان کے پاس بھی ان کے رسول احکام و معجزات لے کر آئے تھے اور وہ بھی ایمان نہیں لائے نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا۔- اللہ تعالیٰ ہلاک کر کے ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا مگر وہ خود ہی کفر و شرک اور انبیاء کرام کی تکذیب کر کے اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔
سورة الروم حاشیہ نمبر : 8 یہ آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ آخرت کا انکار دنیا میں دو چار آدمیوں ہی نے تو نہیں کیا ہے ۔ انسانی تاریخ کے دوران میں کثیر التعداد انسان اس مرض میں مبتلا ہوتے رہے ہیں ۔ بلکہ پوری پوری قومیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے یا تو اس کا انکار کیا ہے ، اس سے غافل ہوکر رہی ہیں ، یا حیات بعد الموت کے متعلق ایسے غلط عقیدے ایجاد کرلیے ہیں جن سے آخرت کا عقیدہ بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے ۔ پھر تاریخ کا مسلسل تجربہ یہ بتاتا ہے کہ انکار آخرت جس صورت میں بھی کیا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے اخلاق بگڑے ، وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر شتر بے مہار بن گئے ، انہوں نے ظلم و فساد اور فسق و فجور کی حد کردی ، اور اسی چیز کی بدولت قوموں پر قومیں تباہ ہوتی چلی گئیں ۔ کیا ہزاروں سال کی تاریخ کا یہ تجربہ ، جو پے در پے انسانی نسلوں کو پیش آتا رہا ہے ، یہ ثابت نہیں کرتا کہ آخرت ایک حقیقت ہے جس کا انکار انسان کے لیے تباہ کن ہے؟ انسان کشش ثقل کا اسی لیے تو قائل ہوا ہے کہ تجربے اور مشاہدے سے اس نے مادی اشیاء کو ہمیشہ زمین کی طرف گرتے دیکھا ہے ۔ انسان نے زہر کو زہر اسی لیے تو مانا ہے کہ جس نے بھی زہر کھایا وہ ہلاک ہوا ۔ اسی طرح جب آخرت کا انکار ہمیشہ انسان کے لیے اخلاقی بگاڑ کا موجب ثابت ہوا ہے تو کیا یہ تجربہ یہ سبق دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ آخرت ایک حقیقت ہے اور اس کو نظر انداز کر کے دنیا میں زندگی بسر کرنا غلط ہے؟ سورة الروم حاشیہ نمبر : 9 اصل میں لفظ ّاَثَارُوا الْاَرْضَ استعمال ہوا ہے ۔ اس کا اطلاق زراعت کے لیے ہل چلانے پر بھی ہوسکتا ہے اور زمین کھود کر زمین پانی ، نہریں ، کاریزیں اور معدنیات وغیرہ نکالنے پر بھی ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 10 اس میں ان لوگوں کے استدلال کا جواب موجود ہے جو محض مادی ترقی کو کسی قسم کے صالح ہونے کی علامت سمجھتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے زمین کے ذرائع کو اتنے بڑے پیمانے پر استعمال ( ) کیا ہے ، جنہوں نے دنیا میں عظیم الشان تعمیری کام کیے ہیں اور ایک شاندار تمدن کو جنم دیا ہے ، بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالی ان کو جہنم کا ایندھن بنا دے ۔ قرآن اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ یہ تعمیری کام پہلے بھی بہت سی قوموں نے بڑے پیمانے پر کیے ہیں ، پھر کیا تمہاری آنکھوں نے نہیں دیکھا کہ وہ قومیں اپنی تہزیب اور اپنے تمدن سمیت پیوند خاک ہوگئیں اور ان کی تعمیر کا قصر فلک بوس زمین پر آرہا ؟ جس خدا کے قانون نے یہاں عقیدہ حق اور اخلاق صالحہ کے بغیر محض مادی تعمیر کی یہ قدر کی ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ اسی خدا کا قانون دوسرے جہان میں انہیں واصل جہنم نہ کرے ؟ سورة الروم حاشیہ نمبر : 11 یعنی ایسی نشانیاں لے کر آئے جو ان کے نبی صادق ہونے کا یقین دلانے کے لیے کافی تھیں ۔ اس سیاق و سباق میں انبیاء کی آمد کے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف انسان کے اپنے وجود میں ، اور اس سے باہر ساری کائنات کے نظام میں ، اور انسانی تاریخ کے مسلسل تجربے میں آخرت کی شہادتیں موجود تھیں ، اور دوسری طرف پے در پے ایسے انبیاء بھی آئے جن کے ساتھ ان کی نبوت کے برحق ہونے کی کھلی کھلی علامتیں پائی جاتی تھیں اور انہوں نے انسانوں کو خبردار کیا کہ فی الواقع آخرت آنے والی ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 12 یعنی اس کے بعد جو تباہی ان قوموں پر آئی وہ ان پر خدا کا ظلم نہ تھا بلکہ وہ ان کا اپنا طلم تھا جو انہوں نے اپنے اوپر کیا ۔ جو شخص یا گروہ نہ خود صحیح سوچے اور نہ کسی سمجھانے والے کے سمجھانے سے صحیح رویہ اختیار کرے اس پر اگر تباہی آتی ہے تو وہ آپ ہی اپنے برے انجام کا ذمہ دار ہے ۔ خدا پر اس کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا ۔ خدا نے تو اپنی کتابوں اور اپنے انبیاء کے ذریعہ سے انسان کو حقیقت کا علم دینے کا انتظام بھی کیا ہے ، اور وہ علمی و عقلی وسائل بھی عطا کیے ہیں جن سے کام لے کر وہ ہر وقت انبیاء اور کتب آسمانی کے دیے ہوئے علم کی صحت جانچ سکتا ہے ۔ اس رہنمائی اور ان ذرائع سے اگر خدا نے انسان کو محروم رکھا ہوتا اور اس حالت میں انسان کو غلط روی کے نتائج سے دو چار ہونا پڑتا تب بلا شبہ خدا پر ظلم کے الزام کی گنجائش نکل سکتی تھی ۔