پہاڑوں کی میخیں اللہ سبحان وتعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ زمین وآسمان اور ساری مخلوق کا خالق صرف وہی ہے ۔ آسمان کو اس نے بےستوں اونچا رکھا ہے ۔ واقع ہی میں کوئی ستوں نہیں ۔ گو مجاہد کا یہ قول بھی ہے کہ ستوں ہمیں نظر نہیں آتے ۔ اس مسئلہ کا پورا فیصلہ میں سورۃ رعد کی تفسیر میں لکھ چکا ہوں اس لئے یہاں دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ زمین کو مضبوط کرنے کے لئے اور ہلے جلنے سے بچانے کے لئے اس نے اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ وہ تمہیں زلزلے اور جنبش سے بچالے ۔ اس قدر قسم قسم کے بھانت بھانت کے جاندار اس خالق حقیقی نے پیدا کئے کہ آج تک ان کا کوئی حصر نہیں کرسکا ۔ اپنا خالق اور اخلق ہونا بیان فرما کر اب رازق اور رزاق ہونا بیان فرما رہا ہے کہ آسمان سے بارش اتار کر زمین میں سے طرح طرح کی پیداوار اگادی جو دیکھنے میں خوش منظر کھانے میں بےضرر ۔ نفع میں بہت بہتر ۔ شعبی کا قول ہے کہ انسان بھی زمین کی پیداوار ہے جنتی کریم ہیں اور دوزخی لئیم ہیں ۔ اللہ کی یہ ساری مخلوق تو تمہارے سامنے ہے اب جنہیں تم اس کے سوا پوجتے ہو ذرا بتاؤ تو ان کی مخلوق کہاں ہے؟ جب نہیں تو وہ خالق نہیں اور جب خالق نہیں تو معبود نہیں پھر ان کی عبادت نرا ظلم اور سخت ناانصافی ہے فی الواقع اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں سے زیادہ اندھا بہرا بےعقل بےعلم بےسمجھ بیوقوف اور کون ہوگا ؟
1 0 1تَرَوْنَھَا، اگر عَمَد کی صفت ہو تو معنی ہونگے ایسے ستونوں کے بغیر جنہیں تم دیکھ سکو۔ یعنی آسمان کے ستون ہیں لیکن ایسے کہ تم انھیں دیکھ نہیں سکتے۔ 1 0 2رواسی راسیۃ کی جمع ہے جس کے معنی ثابتۃ کے ہیں یعنی پہاڑوں کو زمین پر اس طرح بھاری بوجھ بنا کر رکھ دیا ہے کہ جن سے زمین ثابت رہے یعنی حرکت نہ کرے۔ اسی لیے آگے فرمایا ان تمید بکم یعنی کراھۃ ان تمید (تمیل) بکم او لئلا تمید یعنی اس بات کی ناپسندیدگی سے کہ زمین تمہارے ساتھ ادھر ادھر ڈولے، یا اس لیے کہ زمین ادھر ادھر نہ ڈولے۔ جس طرح ساحل پر کھڑے بحری جہازوں میں بڑے بڑے لنگر ڈال دیے جاتے ہیں تاکہ جہاز نہ ڈولے زمین کے لیے پہاڑوں کی بھی یہی حیثیت ہے۔ 1 0 3یعنی انواع و اقسام کے جانور زمین میں ہر طرف پھیلا دیئے جنہیں انسان کھاتا بھی ہے، سواری اور بار برداری کے لئے بھی استعمال کرتا ہے اور بطور زینت اور آرائش کے بھی اپنے پاس رکھتا ہے۔ 1 0 4زوج یہاں صنف کے معنی میں ہے یعنی ہر قسم کے غلے اور میوے پیدا کیے۔ ان کی صفت کریم ان کے حسن لون اور کثرت منافع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
[١٠] اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ستون ہیں تو سہی مگر تمہیں نظر نہیں آتے اور دوسرا یہ کہ تم دیکھ تو رہے ہو کہ ستون وغیرہ کچھ نہیں اور ستونوں کے سہاروں کے بغیر ہی قائم ہیں۔ اس مقام پر دو تین امور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ جس جس مقام پر اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کا اکٹھا ذکر کیا ہے وہ اس سے مراد پوری کائنات اور نظام کائنات لیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ لفظ آسمان کے لئے عربی میں دو لغت ہیں ایک فلک (ج افلاک) دوسرا سماء (ج سماوات) فلک سے مراد سیاروں کے مدارات ہیں جن پر وہ گھوم رہے ہیں۔ اور سماء مراد بلندی بھی ہے اور آسمان کا وجود بھی جسے اللہ تعالیٰ نے ایک ٹھوس حقیقت اور جسم رکھنے والی چیز کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ اور یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ موجودہ نظریہ ہیئت کے مطابق آسمان کوئی چیز نہیں بلکہ فقط حد گناہ کا نام ہے۔ جبکہ آسمانوں کا ذکر قرآن میں متعدد بار اور اس کے علاوہ احادیث میں بھی ہے۔ اور اس سورت میں آیا ہے کہ آسمانوں میں دروازے بھی ہیں۔ لہذا لفظ سماء کی تحقیق ضروری ہے۔- سماء کا لفظ بلندی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے یعنی ہر چیز جو ہمارے سر پر سیاہ فگن ہو وہ سماء ہے۔ سماء کی ضد ارض ہے جس کے معنی زمین بھی ہے اور پستی بھی۔ اور یہ دونوں الفاظ اسمائے نسبیہ میں سے ہیں۔ یعنی ایک ہی چیز اپنے سے پست چیز کے مقابلہ میں سماء بھی ہے اور وہی چیز اپنے سے بلند چیز کے مقابلہ ارض بھی۔ یعنی ہماری زمین ارض ہے تو پہلا آسمان اس کے مقابلہ میں اسماء ہے۔ اور یہی پہلا آسمان دوسرے آسمان کے مقابلہ میں ارض ہے اور تیسرے آسمان کے مقابلہ میں دوسرا آسمان ارض (نمبر ٣) ہوئی۔ گویا اس لحاظ سے سات آسمانوں کے مقابلہ سات زمینیں بھی آگئیں جیسا کہ ارشاد باری ہے۔ (اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا 12ۧ) 65 ۔ الطلاق :12) یعنی اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اور ویسی ہی زمینیں پیدا کیں۔- پھر یہ بلندی تھوڑی سی ہو تب بھی اس پر سماء کے لفط کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ جیسے ارشاد باری ہے۔ (وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً 22) 2 ۔ البقرة :22) (اور اس نے آسمان سے مینہ برسایا) یہاں سماء سے مراد بال ہیں جو میل ڈیڑھ میل کی بلندی پر اڑتے پھرتے ہیں اور اس معمولی سی بلندی کے لئے بھی سماء (آسمان) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جبکہ درج ذیل آیت : (اِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِزِيْنَةِۨ الْكَـوَاكِبِ ۙ ) 37 ۔ الصافات :6) (بیشک ہم نے ہی آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا) میں اتنی زیادہ بلندی مراد ہے جتنی دوری پر ستارے چمکتے ہیں۔ خواہ وہ دوری لاکھوں میل پر مشتمل ہو یا کروڑہا اور ارب ہا میلوں پر اور درج ذیل آیت میں سماء (آسمان) کا لفظ یعنی بہت ہی زیادہ بلندی، اتنی بلندی جو سات آسمانوں سے بھی زیادہ ہو یعنی لامحدود بلندی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے۔ (ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ۭ وَھُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ 29 ) 2 ۔ البقرة :29) (پھر اللہ تعالیٰ آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو انھیں ٹھیک سات آسمان بنادیا)- موجودہ ہیئت دان کسی آسمان کے قائل نہیں ہیں ہم ان سے گذارش کریں گے کہ ان کی تمام تر تحقیقات کی رسائی ابھی پہلے آسمانی یعنی آسمان دنیا تک بھی نہیں ہوسکی تو پھر وہ اس کی تردید کیونکر کرسکتے ہیں ؟ ان کی تحقیق خواہ کتنی طاقتور اور جدید قسم کی دوربینوں سے ہو خواہ وہ پلوٹو کی دوری ہو یا الف قنطورس کی یا قلب عقرب کی یہ سب کچھ آسمان دنیا کی زینت بنے گا۔ اور جو کچھ ابھی مزید تحقیق کے دائرہ میں آئے گا وہ بھی آسمان دنیا تک ہی محدود ہوگا۔ باقی چھ آسمان اس آسمان دنیا سے ماوراء اور ان تک دسترس انسان کی طاقت سے باہر ہے۔ ان تک رسائی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی قدرت کاملہ کی وجہ سے ہوئی۔ اور وحی کے ذریعہ ہی ہمیں سات آسمانوں، ان جسامت اور ان میں در بلندی کا علم ہوا ہے۔ آج کا ہیئت دان بھی جب کائنات کی وسعت کا خیال کرے ورطہ حیرت میں پھنس جاتا ہے تو دبی زبان سے اس کے منہ سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جن سے اس علم وحی کی تائید ہوتی ہے اور وہ برملا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اس لامحدود کائنات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ جتنی طاقتور دوربینیں وہ ایجاد کرتے ہیں۔ کائنات اس کے سامنے اور بھی زیادہ وسیع ہوتی جاتی ہے۔- [ ١١] تشریح کے لئے دیکھئے سورة نحل کی آیت نمبر ١٥ کا حاشیہ نمبر ١٥ اور سورة انبیاء کا آیت نمبر ٣١ کا حاشیہ نمبر ٢٧- [ ١٢] جدید تحقیق کے مطابق جانداروں کی دس لاکھ انواع کا علم انسان کو حاصل ہوچکا ہے۔ اور اسی طرح دو لاکھ کے لگ بھگ نباتات کی انواع کا۔ جانداروں کی طرح نباتات، پودوں اور درختوں میں نر اور مادہ موجود ہوتے ہیں۔ اور ان معاملات میں جتنی بھی تحقیق ہورہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ عجائبات قدرت یا اللہ کی نشانیاں انسان کے علم میں آرہی ہیں۔
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۔۔ : اس میں اللہ تعالیٰ کی عزت و حکمت کی چند نشانیوں کا ذکر فرما کر اس کی توحید کو اجاگر فرمایا، جو قرآن مجید کا سب سے بڑا اور اصل موضوع ہے۔ ” بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا “ کی تفسیر سورة رعد (٢) میں اور ” وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ “ کی تفسیر سورة حجر (١٩) اور سورة انبیاء (٣١) میں دیکھیے۔
خلاصہ تفسیر :۔- اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو بلا ستون بنایا (چنانچہ) تم ان کو دیکھ رہے ہو اور زمین میں (بھاری بھاری) پہاڑ ڈال رکھے ہیں کہ وہ تم کو لے کر ڈانوا ڈول نہ ہونے لگے اور اس (زمین) میں ہر قسم کے جانور پھیلا رکھے ہیں اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس زمین میں ہر طرح کے عمدہ اقسام (نباتات کے) اگائے (اور ان لوگوں سے جو کہ شرک کرتے ہیں کہئے کہ) یہ تو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں (سو اگر تم دوسروں کو شریک الوہیت قرار دیتے ہو تو) اب تم لوگ مجھ کو دکھاؤ کہ اس کے سوا جو (معبود تم نے بنا رکھے) ہیں انہوں نے کیا کیا چیزیں پیدا کی ہیں (تاکہ ان کا استحقاق الوہیت ثابت ہو اور اس دلیل کا مقتضیٰ یہ تھا کہ وہ لوگ ہدایت پر آجاتے، مگر انہوں نے ہدایت کو قبول نہیں کیا) بلکہ یہ ظالم لوگ (بدستور) صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں۔- معارف و مسائل - (آیت) خلق السموٰت بغیر عمد ترونہا، اسی مضمون کی ایک آیت سورة رعد کے شروع میں گزر چکی ہے، (آیت) اللہ الذی رفع السموٰت بغیر عمد ترونہا، ترکیب نحوی کے اعتبار سے اس عبارت کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں :- ایک یہ کہ ترونہا کو عمد کی صفت قرار دیا جائے اور اس کی ضمیر عمد کی طرف راجع کی جائے تو معنے یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو پیدا کیا اور بغیر ستونوں کے جن کو تم دیکھتے ہو، یعنی اگر ستون ہوتے تو تم ان کو دیکھتے، جب ستون نظر نہیں آتے تو معلوم ہوا کہ یہ آسمان کی عظیم الشان چھت بغیر ستونوں کے بنائی گئی ہے، یہ تفسیر حضرت حسن اور قتادہ سے منقول ہے۔ (ابن کثیر)- دوسری صورت یہ ہے کہ ترونہا کی ضمیر سموات کی طرف راجع ہو اور یہ جملہ مستقل قرار دیا جائے۔ معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو بغیر ستون کے پیدا کیا، جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ اور پہلی ترکیب کی صورت میں ایک معنی یہ بھی کئے جاسکتے ہیں کہ آسمان ستونوں پر قائم ہیں ان کو تم دیکھ نہیں سکتے وہ غیر مرئی ہیں۔ یہ تفسیر حضرت ابن عباس اور عکرمہ اور مجاہد سے منقول ہے۔ (ابن کثیر)- بہر صورت اس آیت نے حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی یہ نشانی بتلائی کہ آسمان کی اتنی وسیع و عریض اور اتنی بلند عظیم الشان چھت کو ایسا بنایا ہے کہ اس میں کوئی عمود اور ستون نہیں دیکھا جاتا ہے۔- ایک سوال و جواب :- یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آسمان جیسا کہ فلاسفہ کہتے ہیں اور عام طور پر مشہور ہے کہ ایک کرہ یعنی گول چیز ہے، اور ایسے گول کرہ میں وہ جہاں بھی ہو عادةً عمود اور ستون نہیں ہوتے، تو آسمان کی کیا خصوصیت ہے ؟ - اس کا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح قرآن کریم نے اکثر مواقع میں زمین کو فراش فرمایا، جو گول اور کرہ ہونے کے بظاہر منافی ہے۔ مگر اس کی وسعت کی وجہ سے وہ عام نظروں میں ایک سطح کی طرح دیکھی جاتی ہے، اسی طرح تخیل کی بناء پر قرآن کریم نے اس کو فراش فرمایا، اسی طرح آسمان ایک چھت کی طرح نظر آتا ہے جس کے لئے عادةً ستونوں اور عماد کی ضرورت ہوتی ہے، اس عام خیال کے مناسب اس کا بلا ستون ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔ اور درحقیقت قدرت کاملہ کے ثبوت کے لئے اتنے بڑے عظیم الشان کرہ کی تخلیق ہی کافی ہے۔ اور بعض مفسرین ابن کثیر وغیرہ کی تحقیق یہ ہے کہ آسمان اور زمین کا مکمل کرہ ہونا قرآن و سنت کی رو سے ثابت نہیں، بلکہ بعض آیات و روایات سے اس کا ایک قبہ کی شکل میں ہونا معلوم ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک صحیح حدیث میں جو ہر روز آفتاب کا تحت العرش پہنچ کر سجدہ کرنا مذکور ہے وہ اسی صورت پر ہوسکتا ہے کہ آسمان مکمل کرہ نہ ہو، اسی صورت میں اس میں فوق و تحت یعنی اوپر نیچے کی جہت متعین ہو سکتی ہے، مکمل کرہ میں کسی جہت و سمت کو اوپر یا نیچے نہیں کہہ سکتے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ ٠ ۭ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَنْۢبَتْنَا فِيْہَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ ١٠- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - عمد - العَمْدُ : قصد الشیء والاستناد إليه، والعِمَادُ : ما يُعْتَمَدُ. قال تعالی: إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ- [ الفجر 7] ، أي : الذي کانوا يَعْتَمِدُونَهُ ، يقال : عَمَّدْتُ الشیء : إذا أسندته، وعَمَّدْتُ الحائِطَ مثلُهُ. والعَمُودُ : خشب تَعْتَمِدُ عليه الخیمة، وجمعه : عُمُدٌ وعَمَدٌ. قال : فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ [ الهمزة 9] وقرئ : فِي عَمَدٍ ، وقال :- بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] ، وکذلک ما يأخذه الإنسان بيده مُعْتَمِداً عليه من حدید أو خشب .- ( ع م د ) العمد - کے معنی کسی چیز کا قصد کرنے اور اس پر ٹیک لگانا کے ہیں اور العماد وہ چیز ہے جس پر ٹیک لگائی جائے یا بھروسہ کیا جائے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ [ الفجر 7] جو ارم ( کہلاتے تھے اتنے ) دراز قد ۔ میں العماد سے وہ چیزیں مراد ہیں جن پر انہیں بڑا بھروسہ تھا محاورہ ہے ۔ عمدت الشئی کسی چیز کو سہارا دے کر کھڑا کرنا عمدت الحائط دیوار کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور العمود اس لکڑی ( بلی ) کو کہتے ہیں جس کے سہارے خیمہ کو کھڑا کیا جاتا ہے اس کی جمع عمد آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ ، [ الهمزة 9] ( یعنی آگ کے ) لمبے لمبے ستونوں میں ۔ اور ایک قرات میں فی عمد ہے نیز فرمایا : ۔ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] ستونوں کے بغیر جیسا کہ تم دیکھتے ہو ۔ نیز العمود ہر اس لکڑی یا لوہے کو کہتے ہیں جس پر سہارا لگا کر انسان کھڑا ہوتا ہے - رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - رسا - يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ- [ سبأ 13] ، وقال : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] ، أي : جبالا ثابتات، وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات 32] ،- ( ر س و )- رسا الشئی ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] اور انچے انچے پہاڑ یہاں پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے رواسی کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا :- وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات 32] اور پہاڑوں کو ( اس میں گاڑ کر ) پلادیا ۔ - ميد - المَيْدُ : اضطرابُ الشیء العظیم کا ضطراب الأرض . قال تعالی: أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ- [ النحل 15] ، أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ [ الأنبیاء 31] . ومَادَتِ الأغصان تمید، وقیل المَيَدانُ في قول الشاعر :- 432-- نعیما ومَيَدَاناً من العیش أخضرا وقیل : هو الممتدُّ من العیش، وميَدان الدَّابة منه، والمائدَةُ : الطَّبَق الذي عليه الطّعام، ويقال لكلّ واحدة منها [ مائدة ] «2» ، ويقال : مَادَنِي يَمِيدُنِي، أي : أَطْعَمِني، وقیل : يُعَشِّينى، وقوله تعالی: أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] قيل : استدعوا طعاما، وقیل : استدعوا علما، وسمّاه مائدة من حيث إنّ العلم غذاء القلوب کما أنّ الطّعام غذاء الأبدان .- ( م ی د ) المید - ۔ زمین کی طرح کی کسی بڑی چیز کا مضطرب ہونا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ [ النحل 15] کہ تم کو نے کر کہیں جھک نہ جائے ۔ أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ [ الأنبیاء 31] تاکہ لوگوں ( کے بوجھ سے ہلنے اور جھکنے نہ لگے ۔ مادت اکا غصان تمید شاخوں کا مضطرب ہونا بعض نے کہا ہے کہ شاعر کے کلام ( 417 ) فعیما ومیدا انا من العیش اخضرا نعمتیں اور سر سبز لہلہاتی ہوئی زندگی میں بھی میدا نا مادت الا غصبان سے ہے اور اس کے معنی کشادہ زندگی کے ہیں اور اسی سے میدان الدابۃ ہے جس کے منعی جانور کے کھلے میدان میں پھرنے کے ہیں ۔ المائدۃ اصل میں اس خوان کو کہتے ہیں جس پر کھانا چنا ہوا ہو ۔ اور ہر ایک پر یعنی کھانے اور خالی خوان پر انفراد بھی مائدۃ کا لفظ بولا جاتا ہے یہ مادنی یمیدنی سے ہے جس کے معنی رات کا کھانا کھلانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ہم پر آسمان سے خواں نازل فرما ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ انہوں نے کھانا طلب کیا تھا ۔ اور بعض نے کہا ہے علم کے لئے دعا کی تھی اور علم کو مائدۃ سے اس ؛لئے تعبیر فرمایا ہے کہ علم روح کی غذا بنتا ہے جیسا کہ طعام بدن کے لئے غذا ہوتا ہے ۔- بث - أصل البَثِّ : التفریق وإثارة الشیء کبث الریح التراب، وبثّ النفس ما انطوت عليه من الغمّ والسّرّ ، يقال : بَثَثْتُهُ فَانْبَثَّ ، ومنه قوله عزّ وجل : فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة 6] - وقوله عزّ وجل : نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف 86] أي : غمّي الذي أبثّه عن کتمان، فهو مصدر في تقدیر مفعول، أو بمعنی: غمّي الذي بثّ فكري، نحو : توزّعني الفکر، فيكون في معنی الفاعل .- ( ب ث ث) البث - ( ن ض) اصل میں بث کے معنی کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنا کے ہیں جیسے بث الریح التراب ۔ ہوانے خاک اڑائی ۔ اور نفس کے سخت تریں غم یا بھید کو بت النفس کہا جاتا ہے شتتہ فانبث بیں نے اسے منتشر کیا چناچہ وہ منتشر ہوگیا اور اسی سے فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة 6] ہے یعنی پھر وہ منتشراذرات کی طرح اڑنے لگیں اور آیت کریمہ اِ نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف 86] میں بث کے معنی سخت تریں اور یہ پوشیدہ غم کے ہیں جو وہ ظاہر کررہے ہیں اس صورت میں مصدر بمعنی مفعول ہوگا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصدربمعنی فاعل ہو یعنی وہ غم جس نے میرے فکر کو منتشتر کر رکھا ہے - دب - الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] - ( د ب ب ) دب - الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - نبت - النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31]- ( ن ب ت ) النبت والنبات - ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ - زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی:- فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] - ( ز و ج ) الزوج - جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔- كرم - الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی:- فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] .- والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ :- أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ- [ الذاریات 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] منطو علی المعنيين .- ( ک ر م ) الکرم - ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ - الا کرام والتکریم - کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے
اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بنایا چناچہ تم ان کو دیکھ رہے ہو یا یہ کہ ایسے ستونوں کے ساتھ بنایا جن کو تم نہیں دیکھ رہے اور زمین میں بھاری بھاری پھاڑ بنائے جو زمین کے لیے میخیں ہیں کہ وہ تمہیں لے کر ڈانواں ڈول نہ ہونے لگے اور اس زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلا رکھے ہیں۔- اور ہم نے آسمان سے بارش برسائی پھر اس سے زمین سے ہر طرح کے عمدہ اقسام کی چیزیں اگائیں۔
(وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ ) ” - یعنی زمین کا توازن ( ) برقرار رکھنے کے لیے اس میں پہاڑ گاڑ دیے۔- م (وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْبَتْنَا فِیْہَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ ) ” - آج کی سائنس ” نباتات کے جوڑوں “ کی بہتر طور پر تشریح کرسکتی ہے۔ بہر حال دوسرے جانداروں کی طرح پودوں اور نباتات میں بھی نر اور مادہ کا نظام کار فرما ہے اور ان کے ہاں باقاعدہ خاندانوں اور قبیلوں کی پہچان اور تقسیم بھی پائی جاتی ہے۔
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :12 اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب اصل مدعا ، یعنی تردید شرک اور دعوت توحید پر کلام شروع ہوتا ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :13 اصل الفاظ ہیں بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا ۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ تم خود دیکھ رہے ہو کہ وہ بغیر ستونوں کے قائم ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ کہ وہ ایسے ستونوں پر قائم ہیں جو تم کو نظر نہیں آتے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور مجاہد نے دوسرا مطلب لیا ہے ، اور بہت سے دوسرے مفسرین پہلا مطلب لیتے ہیں ۔ موجودہ زمانے کے علوم طبیعی کے لحاظ سے اگر اس کا مفہوم بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام عالم افلاک میں یہ بے حد و حساب عظیم الشان تارے اور سیارے اپنے اپنے مقام و مدار پر غیر مرئی سہاروں سے قائم کئے گئے ہیں ۔ کوئی تار نہیں ہیں جنھوں نے ان کو ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہو ۔ کوئی سلاخیں نہیں ہیں جو ان کو ایک دوسرے پر گر جانے سے روک رہی ہوں ۔ صرف قانون جذب و کشش ہے جو اس نظام کو تھامے ہوئے ہے ۔ یہ تعبیر ہمارے آج کے علم کے لحاظ سے ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کل ہمارے علم میں کچھ اور اضافہ ہو اور اس سے زیادہ لگتی ہوئی کوئی دوسری تعبیر اس حقیقت کی کی جا سکے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :14 تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ۲ ، صفحہ ۵۳۰ ، حاشیہ نمبر ۱۲ ۔
2: آسمانوں کا پورا نظام کسی ایسے ستونوں پر نہیں کھڑا جو انسان کو نظر آسکیں، بلکہ اسے اللہ تعالیٰ نے محج اپنی قدرت کے سہارے قائم فرمایا ہے جو معنوی ستون ہیں، نظر نہیں آتے۔ آیت کی یہ تفسیر حضرت مجاہد سے منقول ہے، جیسا کہ سورۃ رعد :2 میں بھی گذر چکا ہے 3: یہ مضمون بھی قرآن کریم میں کئی جگہ آیا ہے کہ زمین کو پانی پر ڈگمگانے سے بچانے کے لیے پہاڑ پیدا کیے گئے ہیں۔ دیکھئے پیچھے سورۃ رعد :3 سورۃ حجر :19 سورۃ نحل : 15: سورۂ انبیاء : 31 اور سورۂ حم السجدہ : 10، سورۂ ق : 7 اور سورۂ مرسلات : 27