حضرت لقمان نبی تھے یا نہیں؟ اس میں سلف کا اختلاف ہے کہ حضرت لقمانبی تھے یا نہ تھے؟ اکثر حضرات فرماتے ہیں کہ آپ نبی نہ تھے پرہیزگار ولی اللہ اور اللہ کے پیارے بزرگ بندے تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ حبشی غلام تھے اور بڑھئی تھے ۔ حضرت جابر سے جب سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت لقمان پستہ قد اونچی ناک والے موٹے ہونٹ والے نبی تھے ۔ سعد بن مسیب فرماتے ہیں آپ مصر کے رہنے والے حبشی تھے ۔ آپ کو حکمت عطا ہوئی تھی لیکن نبوت نہیں ملی تھی آپ نے ایک مرتبہ ایک سیاہ رنگ غلام حبشی سے فرمایا اپنی رنگت کی وجہ سے اپنے تئیں حقیر نہ سمجھ تین شخص جو تمام لوگوں سے اچھے تھے تینوں سیاہ رنگ تھے ۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضور رسالت پناہ کے غلام تھے ۔ حضرت مجع جو جناب فاروق اعظم کے غلام تھے اور حضرت لقمان حکیم جو حبشہ کے نوبہ تھے ۔ حضرت خالد ربعی کا قول ہے کہ حضرت لقمان جو حبشی غلام بڑھی تھے ان سے ایک روز ان کے مالک نے کہا بکری ذبح کرو اور اس کے دو بہترین اور نفیس ٹکڑے گوشت کے میرے پاس لاؤ ۔ وہ دل اور زبان لے گئے کچھ دنوں بعد ان کے مالک نے کہاکہ بکری ذبح کرو اور دو بدترین گوشت کے ٹکڑے میرے پاس لاؤ آپ آج بھی یہی دو چیزیں لے گئے مالک نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ بہترین مانگے تو بھی یہی لائے گئے اور بدترین مانگے گئے تو بھی یہی لائے گئے یہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا جب یہ اچھے رہے تو ان سے بہترین جسم کا کوئی عضو نہیں اور جب یہ برے بن جائے تو پھر سبب سے بد تر بھی یہی ہیں ۔ حضرت مجاہد کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے نیک بندے تھے ۔ سیاہ فام غلام تھے موٹے ہونٹوں والے اور بھرے قدموں والے اور بزرگ سے بھی یہ مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں قاضی تھے ۔ ایک اور قول ہے کہ آپ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں تھے ۔ ایک مرتبہ آپ کسی مجلس میں وعظ فرما رہے تھے کہ ایک چروا ہے نے آپ کو دیکھ کر کہا کیا تو وہی نہیں ہے جر میرے ساتھ فلاں فلاں جگہ بکریاں چرایاکرتا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں وہی ہوں اس نے کہا پھر تجھے یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا ؟ فرمایا سچ بولنے اور بیکار کلام نہ کرنے سے ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی بلندی کی وجہ یہ بیان کی کہ اللہ کا فضل اور امانت ادائیگی اور کلام کی سچائی اور بےنفع کاموں کو چھوڑ دینا ۔ الغرض ایسے ہی آثار صاف ہیں کہ آپ نبی نہ تھے ۔ بعض روایتیں اور بھی ہیں جن میں گو صراحت نہیں کہ آپ نبی نہ تھے لیکن ان میں بھی آپ کا غلام ہونا بیان کیا گیا ہے جو ثبوت ہے اس امر کا کہ آپ نبی نہ تھے کیونکہ غلامی نبوت کے منافی ہے ۔ انبیاء کرام عالی نسب اور عالی خاندان کے ہوا کرتے تھے ۔ اسی لئے جمہور سلف کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے ۔ ہاں حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ آپ نبی تھے لیکن یہ بھی جب کے سند صحیح ثابت ہوجائے لیکن اسکی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ کہتے ہیں کہ حضرت لقمان حکیم سے ایک شخص نے کہا کیا تو بنی حسحاس کا غلام نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں ۔ اس نے کہا تو بکریوں کا چرواہا نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں ۔ کہا گیا تو سیاہ رنگ نہیں؟ آپ نے فرمایا ظاہر ہے میں سیاہ رنگ ہوں تم یہ بتاؤ کہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا یہی کہ پھر وہ کیا ہے ؟ کہ تیری مجلس پر رہتی ہے ؟ لوگ تیرے دروازے پر آتے ہیں تری باتیں شوق سے سنتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا سنو بھائی جو باتیں میں تمہیں کہتا ہوں ان پر عمل کرلو تو تم بھی مجھ جیسے ہوجاؤگے ۔ آنکھیں حرام چیزوں سے بند کرلو ۔ زبان بیہودہ باتوں سے روک لو ۔ مال حلال کھایاکرو ۔ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو ۔ زبان سے سچ بات بولا کرو ۔ وعدے کو پورا کیا کرو ۔ مہمان کی عزت کرو ۔ پڑوسی کا خیال رکھو ۔ بےفائدہ کاموں کو چھوڑ دو ۔ انہی عادتوں کی وجہ سے میں نے بزرگی پائی ہے ۔ ابو داؤد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت لقمان حکیم کسی بڑے گھرانے کے امیر اور بہت زیادہ کنبے قبیلے والے نہ تھے ۔ ہاں ان میں بہت سی بھلی عادتیں تھیں ۔ وہ خوش اخلاق خاموش غور و فکر کرنے والے گہری نظر والے دن کو نہ سونے والے تھے ۔ لوگوں کے سامنے تھوکتے نہ تھے نہ پاخانہ پیشاب اور غسل کرتے تھے لغو کاموں سے دور رہتے ہنستے نہ تھے جو کلام کرتے تھے حکمت سے خالی نہ ہوتا تھا جس دن ان کی اولاد فوت ہوئی یہ بالکل نہیں روئے ۔ وہ بادشاہوں امیروں کے پاس اس لئے جاتے تھے کہ غور و فکر اور عبرت ونصیحت حاصل کریں ۔ اسی وجہ سے انہیں بزرگی ملی ۔ حضرت قتادۃ سے ایک عجیب اثر وارد ہے کہ حضرت لقمان کو حکمت ونبوت کے قبول کرنے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے حکمت قبول فرمائی راتوں رات ان پُر حکمت برسادی گئی اور رگ وپے میں حکمت بھر دی گئی ۔ صبح کو ان کی سب باتیں اور عادتیں حکیمانہ ہوگئیں ۔ آپ سے سوال ہوا کہ آپ نے نبوت کے مقابلے میں حکمت کیسے اختیار کی ؟ تو جواب دیا کہ اگر اللہ مجھے نبی بنادیتا تو اور بات تھی ممکن تھا کہ منصب نبوت کو میں نبھاجاتا ۔ لیکن جب مجھے اختیار دیا گیا تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں نبوت کا بوجھ نہ سہار سکوں ۔ اس لئے میں نے حکمت ہی کو پسند کیا ۔ اس روایت کے ایک راوی سعید بن بشیر ہیں جن میں ضعف ہے واللہ اعلم ۔ حضرت قتادہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مراد حکمت سے اسلام کی سمجھ ہے ۔ حضرت لقمان نہ نبی تھے نہ ان پر وحی آئی تھی پس سمجھ علم اور عبرت مراد ہے ۔ ہم نے انہیں اپنا شکر بجالانے کا حکم فرمایا تھا کہ میں نے تجھے جو علم وعقل دی ہے اور دوسروں پر جو بزرگی عطا فرمائی ہے ۔ اس پر تو میری شکر گزاری کر ۔ شکر گذار کچھ مجھ پر احسان نہیں کرتا وہ اپناہی بھلاکرتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِهِمْ يَمْهَدُوْنَ 44ۙ ) 30- الروم:44 ) نیکی والے اپنے لئے بھی بھلا توشہ تیار کرتے ہیں ۔ یہاں فرمان ہے کہ اگر کوئی ناشکری کرے تو اللہ کو اسکی ناشکری ضرر نہیں پہنچاسکتی وہ اپنے بندوں سے بےپرواہ ہے سب اس کے محتاج ہیں وہ سب سے بےنیاز ہے ساری زمین والے بھی اگر کافر ہوجائیں تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ سب سے غنی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ہم اس کے سواکسی اور کی عبادت نہیں کرتے ۔
1 2 1حضرت لقمان، اللہ کے نیک بندے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حکمت یعنی عقل فہم اور دینی بصیرت میں ممتاز مقام عطا فرمایا تھا۔ ان سے کسی نے پوچھا تمہیں یہ فہم و شعور کس طرح حاصل ہوا ؟ انہوں نے فرمایا، راست بازی، امانت کے اختیار کرنے اور بےفائدہ باتوں سے اجتناب اور خاموشی کی وجہ سے۔ ان کا حکمت و دانش پر مبنی ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ یہ غلام تھے، ان کے آقا نے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بہترین دو حصے لاؤ، چناچہ وہ زبان اور دل نکال کرلے گئے۔ ایک دوسرے موقع پر آقا نے ان سے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بدترین حصے لاؤ، چناچہ وہ زبان اور دل نکال کرلے گئے، پوچھنے پر انہوں نے بتلایا کہ زبان اور دل، اگر صحیح ہوں تو سب سے بہتر ہیں اور اگر یہ بگڑ جائیں تو ان سے بدتر کوئی چیز نہیں۔ (ابن کثیر) 1 2 2شکر کا مطلب ہے، اللہ کی نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا اور اس کے احکام کی فرماں برداری۔
[١٤] حضرت لقمان حبشہ یا مصر کے رہنے والے تھے۔ بعد میں شام میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ پایا۔ آپ کی نبوت میں اختلاف ہے اور راجح کی یہی بات ہے کہ آپ نبی نہیں تھے۔ البتہ حکیم اور دانا ضرور تھے۔ عرب بھر میں وہ اپنی حکمت و دانائی کی وجہ سے مشہور تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں جو حکمت اور دانائی کی باتیں سکھلائی تھیں ان میں سرفہرست یہ بات تھی کہ اگر اللہ کی نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے تو اس کا فائدہ شکر ادا کرنے والے کو پہنچتا ہے۔ شکر میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھ دی کہ وہ مزید توجہ اور مہربانی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اللہ کا اس لئے بھی شکر ادا کرنا چاہئے تاکہ وہ مزید انعامات فرمائے اور بندوں کا بھی ضرور احسان مند ہونا چاہئے جو کوئی احسان کرے۔ اور یہ ایسی باتیں ہیں جو تقریباً ہر انسان کے تجربہ میں آتی رہتی ہیں۔ اور ناشکری اور نمک حرامی یا احسان فراموشی کے نتائح اس کے بالکل برعکس نکلتے ہیں۔ پہلی نعمتیں بھی چھین لی جاتی ہیں۔ بہرحال شکر کرنے کا فائدہ بھی شکر کرنے والے کو ہی پہنچتا ہے اور ناشکری کا نقصان بھی اسے ہی پہنچتا ہے۔ رہا اللہ کا معاملہ تو اللہ لوگوں کے شکر یا ناشکری سے بےنیاز ہے۔ کیونکہ اس کے سب کارنامے ہی ایسے ہیں جو قابل ستائش ہیں اور وہ اپنی ذات میں ہی محمود ہے۔ یہ تھی وہ پہلی دانائی کی بات جو اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کو سکھلائی تھی۔
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ : تفاسیر میں لقمان کے متعلق جو کچھ لکھا ہے ملاحظہ فرمائیں، روح المعانی میں ہے : ” وہب نے کہا، وہ ایوب (علیہ السلام) کے بھانجے تھے۔ مقاتل نے کہا، ان کے خالہ زاد تھے۔ عبدالرحمن سہیلی نے کہا، وہ عنقا بن سرون کے بیٹے تھے۔ بعض نے کہا، وہ آزر کی اولاد سے تھے، ہزار برس زندہ رہے اور داؤد (علیہ السلام) کو پایا اور ان سے علم حاصل کیا۔ - ان کے مبعوث ہونے سے پہلے فتویٰ دیتے تھے، جب وہ مبعوث ہوئے تو فتویٰ دینا چھوڑ دیا۔ ان سے پوچھا گیا تو فرمانے لگے، جب مجھ سے کفایت کی گئی تو کیا میں اکتفا نہ کروں۔ بعض نے کہا، وہ بنی اسرائیل کے ایک قاضی تھے۔ یہ بات واقدی سے نقل کی گئی ہے، مگر انھوں نے کہا، ان کا زمانہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تھا۔ عکرمہ اور شعبی نے کہا، وہ نبی تھے۔ اکثر کا کہنا ہے کہ وہ داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ میں تھے، نبی نہیں تھے اور ان کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ آزاد تھے یا غلام۔ اکثر کا کہنا ہے کہ وہ غلام تھے۔ ایک اختلاف اور ہے، بعض نے کہا، حبشی تھے، یہ ابن عباس اور مجاہد سے مروی ہے اور ابن مردویہ نے یہ ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً روایت کی ہے۔ مجاہد نے ان کے بارے میں بیان کیا کہ وہ موٹے ہونٹوں اور پاؤں کے سیدھے تلوے والے تھے۔ بعض نے کہا، وہ نوبی تھے، پھٹے ہوئے پاؤں اور موٹے ہونٹوں والے تھے۔ یہ ابن عباس، ابن مسیب اور مجاہد سے منقول ہے۔ ابن ابی حاتم نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا، میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے کہا، آپ کو لقمان کے بارے میں کیا خبر پہنچی ہے ؟ انھوں نے فرمایا، وہ چھوٹے قد، چپٹی ناک والے نوبی (حبشی) تھے۔ ابن ابی حاتم، ابن جریر اور ابن المنذر نے ابن المسیّب سے بیان کیا ہے، انھوں نے فرمایا کہ لقمان مصر کے سیاہ فام لوگوں میں سے کالے رنگ والے اور بڑے ہونٹوں والے تھے، اللہ تعالیٰ نے انھیں حکمت عطا کی، مگر نبوت نہیں دی۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ ان کا پیشہ کیا تھا۔ چناچہ خالد بن ربیع نے کہا، وہ نجار (راء کے ساتھ) یعنی ترکھان تھے اور معانی الزجاج میں ہے، وہ نجاد تھے (دال کے ساتھ، بروزن کتاب، جو بچھونے اور گدے وغیرہ بناتے اور سیتے ہیں) ۔ ابن ابی شیبہ نے اور احمد نے ” الزہد “ میں اور ابن المنذر نے ابن المسیّب سے روایت کی ہے کہ وہ خیاط (کپڑے سینے والے) تھے، جو نجاد سے عام ہے۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ وہ چرواہے تھے۔ بعض نے کہا، وہ ہر روز اپنے مالک کے لیے ایندھن کا گٹھا لاتے تھے۔ “ مفسر آلوسی صاحب روح المعانی یہ سب کچھ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ” وَلَا وُثُوْقَ لِيْ بِشَيْءٍ مِنْ ھٰذِہِ الْأَخْبَارِ وَإِنَّمَا نَقَلْتُھَا تَأْسِیًا بِمَنْ نَقَلَھَا مِنَ الْمُفَسِّرِیْنَ الْأَخْیَارِ غَیْرَ أَنِّيْ أَخْتَارُ أَنَّہُ کَانَ رَجُلًا صَالِحًا حَکِیْمًا وَلَمْ یَکُنْ نَبِیًّا “ ” یعنی مجھے ان خبروں میں سے کسی پر کوئی اعتبار نہیں ہے، میں نے تو انھیں صرف اس لیے نقل کیا ہے کہ جید مفسرین نے انھیں نقل کیا ہے۔ میں تو صرف اس بات کو ترجیح دیتا ہوں کہ وہ صالح اور حکیم (و دانا) آدمی تھے، نبی نہیں تھے۔ “- میں نے بھی یہ سارا کلام یہ دکھانے کے لیے نقل کیا ہے کہ بعض مفسرین کس طرح بلاثبوت باتیں نقل کرتے جاتے ہیں اور یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ مجاہد، قتادہ، ابن المسیّب وغیرہ حضرات کا ہزاروں برس پہلے گزرے ہوئے لقمان کے ساتھ کوئی میل جول رہا ہے، یا انھوں نے ان تک کوئی سند بیان کی ہے۔ نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب روایت نقل کرتے ہوئے یہ اہتمام کرتے ہیں کہ ثابت شدہ روایت ہی نقل کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ان کے متعلق اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا اور جسے صاحب روح المعانی نے ترجیح دی ہے۔ ان کے غلام یا حبشی وغیرہ ہونے کی کوئی روایت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ البتہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے بھی ان کی حکمت اور دانائی کے واقعات عرب میں مشہور تھے اور جاہلی شعراء اور خطباء اپنے کلام میں ان کا ذکر کرتے تھے، جیسا کہ ابن ہشام نے اپنی سیرت میں نقل کیا ہے۔ - 3 شرک کی تردید میں ایک پر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ توحید کی بات صرف پیغمبروں ہی کے ذریعے سے نہیں آئی، بلکہ عقل و حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے اور پہلے عاقل اور دانا لوگ بھی یہی بات کہتے چلے آئے ہیں، چناچہ تمہارا اپنا مشہور حکیم لقمان بھی اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے۔- اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِ : تفسیر قاسمی میں ہے : ” قَالَ فِي الْبَصَاءِرِ الشُّکْرُ مَبْنِيٌّ عَلٰی خَمْسَۃِ قَوَاعِدَ ، خُضُوْعُ الشَّاکِرِ لِلْمَشْکُوْرِ وَ حُبُّہُ لَہُ وَاعْتِرَافُہُ بِنِعْمَتِہِ وَالثَّنَاءُ عَلَیْہِ بِھَا وَ أَنْ لَّا یَسْتَعْمِلَھَا فِیْمَا یَکْرَہُ ، ھٰذَا الْخَمْسَۃُ ھِيَ أَسَاس الشُّکْرِ وَبَنَاءُ ہُ عَلَیْھَا فَإِنْ عُدِمَ مِنْھَا وَاحِدَۃٌ اخْتَلَّتْ قَاعِدَۃٌ مِّنْ قَوَاعِدِ الشُّکْرِ وَکُلُ مَنْ تَکَلَّمَ فِي الشُّکْرِ فَإِنَّ کَلَامَہُ إِلَیْھَا یَرْجِعُ وَ عَلَیْھَا یَدُوْرُ “ ” البصائر میں فرمایا کہ شکر کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، شکر کرنے والے کا اس کے سامنے عاجز ہونا جس کا وہ شکر ادا کر رہا ہے، اس کے ساتھ محبت کرنا، اس کی نعمت کا اعتراف کرنا، اس پر اس کی تعریف کرنا اور یہ کہ اس نعمت کو اس جگہ استعمال نہ کرے جہاں نعمت دینے والا پسند نہ کرتا ہو۔ یہ پانچوں چیزیں ہی شکر کی اساس ہیں اور انھی پر اس کی بنیاد ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک کم ہو تو شکر کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد کم ہوجائے گی۔ جس نے بھی شکر کے بارے میں گفتگو کی ہے اس کی گفتگو کا نتیجہ یہی ہے اور وہ اسی پر گھومتی ہے۔ “- وَمَنْ يَّشْكُرْ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة ابراہیم (٧) اور سورة نمل (٤٠) ۔- وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ : یعنی کسی کے کفر کا اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں، کیونکہ وہ بےنیاز ہے اور وہ کسی کے شکر کا محتاج نہیں، کوئی شکر کرے یا نہ کرے، کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ اس کی ذات محمود ہے اور تمام خوبیوں کا مالک وہی ہے، کسی میں کوئی خوبی ہے تو اس کی اپنی نہیں بلکہ اسی کی عطا کردہ ہے۔
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے لقمان کو دانشمندی (جس کی حقیقت علم مع العمل ہے) عطا فرمائی (اور ساتھ ہی یہ حکم دیا) کہ (سب نعمتوں پر عموماً اور اس نعمت حکمت پر کہ افضل النعم ہے خصوصاً ) اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے رہو اور جو شخص شکر کرے گا وہ اپنے ذاتی نفع کے لئے شکر کرتا ہے (یعنی اسی کا نفع ہے کہ اس سے نعمت میں ترقی ہوتی ہے کما قال (آیت) لئن شکرتم لازیدنکم) ، دینی نعمت میں تو ترقی دنیا میں بھی ہوتی ہے اور آخرت میں بھی، دنیا میں تو شکر نعمت سے علم بڑھتا ہے اور توفیق عمل میں اضافہ ہوتا ہے اور آخرت میں ثواب عظیم ملتا ہے، اور دنیوی میں آخرت کی ترقی یعنی ثواب میں اضافہ تو یقینی ہے اور کبھی دنیا میں شکر کرنے سے نعمت بڑھ جاتی ہے) اور جو ناشکری کرے گا تو (اپنا ہی نقصان کرے گا، کیونکہ) اللہ تعالیٰ (تو) بےنیاز (اور سب) خوبیوں والا ہے (یعنی چونکہ وہ اپنی ذات میں کامل ہے جو مدلول ہے حمید کا اس لئے وہ غنی ہے، اس کو کسی کے شکر وثناء کی احتیاج نہیں، کہ اس میں استکمال بالغیر لازم آتا ہے اور چونکہ لقمان موصوف ہیں حکمت یعنی علم و عمل کے ساتھ اس سے مفہوم ہوا کہ انہوں نے تعلیم شکر پر بھی شکر کیا ہوگا پس وہ شاکر بھی تھے اور شاکر ہونے سے ان کی حکمت میں ترقی بھی ہوئی ہوگی، پس وہ اعلیٰ درجہ کے حکیم ہوئے) اور (ایسے حکیم کی تعلیم ضرور قابل عمل ہونی چاہئے سو ان کی تعلیمات ان لوگوں کے سامنے ذکر کیجئے) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا خدا کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرانا، بیشک شرک کرنا بڑا بھاری ظلم ہے (ظلم کی حقیقت علماء نے یہ بیان کی ہے کہ کسی چیز کو بےمحل استعمال کیا جائے اور یہ بات شرک میں سب سے زیادہ واضح ہے کہ پیدا کرنے والے کی جگہ بتوں کی پرستش کی جائے) اور (درمیان قصہ کے امر توحید کی تاکید کے لئے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے (کہ ان کی اطاعت اور خدمت کرے) کیونکہ انہوں نے اس کے لئے بڑی مشقتیں جھیلی ہیں بالخصوص ماں نے چنانچہ) اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا، (کیونکہ جوں جوں حمل بڑھتا جاتا ہے حاملہ کا ضعف بڑھتا جاتا ہے) اور (پھر) دو برس میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے (ان دنوں میں بھی وہ ہر طرح کی خدمت کرتی ہے، اسی طرح اپنی حالت کے موافق باپ بھی مشقت اٹھاتا ہے، اس لئے ہم نے اپنے حقوق کے ساتھ ماں باپ کے حقوق ادا کرنے کا حکم فرمایا، چناچہ یہ ارشاد کیا) کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کیا کر (حق تعالیٰ کی شکر گزاری تو عبادت و اطاعت حقیقیہ کے ساتھ اور ماں باپ کی خدمت و ادائے حقوق شرعیہ کے ساتھ کیونکہ) میری ہی طرف (سب کو) لوٹ کر آنا ہے (اس وقت میں اعمال کی جزاء و سزا دوں گا، اس لئے احکام کی بجا آوری ضروری ہے) اور (باوجودیکہ ماں باپ کا اتنا بڑا حق ہے جیسا ابھی معلوم ہوا، لیکن امر توحید ایسا عظیم الشان ہے کہ) اگر تجھ پر وہ دونوں (بھی) اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس (کے شریک الوہیت ہونے) کی تیرے پاس کوئی دلیل (اور سند) نہ ہو (اور ظاہر ہے کہ کوئی چیز بھی ایسی نہیں کہ جس کے استحقاق شرکت پر کوئی دلیل قائم ہو بلکہ عدم استحقاق پر بہت سی دلیلیں قائم ہیں، پس مراد یہ ہوئی کہ اگر وہ کسی چیز کو بھی شریک الوہیت ٹھہرانے کا تجھ پر زور دیں) تو تو ان کا کہنا نہ ماننا اور (ہاں یہ ضرور ہے کہ) دنیا (کے حوائج و معاملات) میں (جیسے ان کے ضروری اخراجات اور خدمت وغیرہ) ان کے ساتھ خوبی کے ساتھ بسر کرنا اور (دین کے بارے میں صرف) اس (ہی) شخص کی راہ پر چلنا جو میری طرف رجوع ہو (یعنی میرے احکام کا معتقد اور عامل ہو) پھر تم سب کو میرے پاس آنا ہے پھر (آنے کے وقت) میں تم کو جتلا دوں گا جو جو کچھ تم کرتے تھے (اس لئے کسی امر میں میرے حکم کے خلاف مت کرو آگے پھر تکمیل ہے نصائح لقمانیہ کی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو اور نصیحتیں بھی کیں چناچہ توحید و عقائد کے بارے میں یہ بھی نصیحت کی کہ) بیٹا (حق تعالیٰ کا علم اور قدرت اس درجہ ہے کہ) اگر (کسی کا) کوئی عمل (کیسا ہی مخفی ہو، مثلاً فرض کرو کہ وہ) رائی کے دانہ کے برابر (مقدار میں) ہو (اور) پھر (فرض کرو کہ) وہ کسی پتھر کے اندر (چھپا رکھا) ہو (جو کہ ایسا حجاب ہو کہ اس کا رفع ہونا دشوار ہے اور بدون رفع کسی کو اس کے اندر کا علم نہیں ہوتا) یا وہ آسمانوں کے اندر ہو (جو کہ عام خلائق سے مکاناً بہت بعید ہے) یا وہ زمین کے اندر ہو (جہاں خوب ظلمت رہتی ہے، اور یہی اسباب ہیں عام مخلوق کی نظروں سے پوشیدہ رہنے کے، کیونکہ کبھی کوئی چیز چھوٹی اور باریک ہوتی ہے کہ نظر میں نہیں آتی اور کبھی کوئی شدید حجاب حائل ہونے سے کبھی مکان کے بعید ہونے سے کبھی ظلمت سے، لیکن حق تعالیٰ کی ایسی شان ہے کہ اگر یہ اسباب بھی چھیننے کے مجتمع ہوں) تب بھی (قیامت کے روز حساب کے وقت) اس کو اللہ تعالیٰ حاضر کر دے گا (جس سے علم اور قدرت دونوں ثابت ہوں) بیشک اللہ تعالیٰ بڑا باریک بیں (اور) باخبر ہے (اور اعمال کے باب میں یہ نصیحت کی کہ) بیٹا نماز پڑھا کرو (کہ بعد تصیح عقائد کے اعلیٰ درجہ کا عمل ہے) اور (جیسا تصحیح عقائد و اعمال سے اپنی تکمیل کی ہے اسی طرح دوسروں کی تکمیل کی بھی کوشش کرنا چاہئے، پس لوگوں کو) اچھے کاموں کی نصیحت کیا کر اور برے کاموں سے منع کیا کر اور (اس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بالخصوص اور ہر حالت میں بالعموم) تجھ پر جو مصیبت واقع ہو اس پر صبر کیا کر یہ (صبر کرنا) ہمت کے کاموں سے ہے اور (اخلاق و عادات کے باب میں یہ نصیحت کی کہ بیٹا) لوگوں سے اپنا رخ مت پھیر اور زمین پر اترا کر مت چل، بیشک اللہ تعالیٰ کسی تکبر کرنے والے فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے اور اپنی رفتار میں اعتدال اختیار کر (نہ بہت دوڑ کر چل کہ وقار کے خلاف ہے، نیز گر جانے کا بھی احتمال ہے، اور نہ بہت گن گن کر قدم رکھ کہ وضع متکبرین کی ہے، بلکہ بےتکلف اور متوسط رفتار تواضع و سادگی کی چال اختیار کر، جس کو دوسری آیت میں اس عنوان سے ذکر کیا ہے، (آیت) یمشون علیٰ الارض ھوناً ) اور (بولنے میں) اپنی آواز کو پست کر (یعنی بہت غل مت مچا اور یہ مطلب نہیں کہ اتنی پستی کر کہ دوسرا سنے بھی نہیں آگے غل مچانے سے نفرت دلاتے ہیں کہ) بیشک آوازوں میں سے سب سے بری آواز گدھوں کی آواز (ہوتی) ہے (تو آدمی ہو کر گدھوں کی طرح چیخنا اور چلانا کیا مناسب ہے، نیز چیخ چلاؤ سے بعض اوقات دوسروں کو وحشت و اذیت بھی ہوتی ہے)- معارف ومسائل - (آیت) ولقد اتینا لقمٰن الحکمة، حضرت لقمان علیہ السلام، وہب بن منبہ کی روایت کے مطابق حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بھانجے تھے، اور مقاتل نے ان کا خالہ زاد بھائی بتلایا ہے۔ اور تفسیر بیضاوی وغیرہ میں ہے کہ ان کی عمر دراز ہوئی، یہاں تک کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ پایا۔ یہ بات دوسری روایات سے بھی ثابت ہے کہ لقمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں ہوئے ہیں۔- اور تفسیر درمنثور میں حضرت ابن عباس کی روایت یہ ہے کہ لقمان ایک حبشی غلام تھے، نجاری کا کام کرتے تھے (اخرجہ ابن ابی شیبہ و احمد فی الزہد وابن جریر وابن المنذر وغیرہ) اور حضرت جابر بن عبداللہ سے ان کے حالات دریافت کئے گئے تو فرمایا کہ پست قد پست ناک کے حبشی تھے اور مجاہد نے فرمایا کہ حبشی غلام موٹے ہونٹ والے پھٹے ہوئے قدموں والے تھے۔ (ابن کثیر)- ایک سیاہ رنگ حبشی حضرت سعید بن مسیب کے پاس کوئی مسئلہ دریافت کرنے کے لئے حاضر ہوا تو حضرت سعید نے اس کی تسلی کے لئے فرمایا کہ تم اپنے کالے ہونے پر غم نہ کرو، کیونکہ کالے لوگوں میں تین بزرگ ایسے ہیں جو لوگوں میں سب سے بہتر تھے۔ حضرت بلال حبشی اور محجع حضرت عمر بن خطاب کے آزاد کردہ غلام اور حضرت لقمان علیہ السلام۔- لقمان جمہور سلف کے نزدیک نبی نہیں بلکہ ولی اور حکیم تھے :- ابن کثیر نے فرمایا کہ جمہور سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ نبی نہیں تھے، صرف حضرت عکرمہ سے ان کا نبی ہونا نقل کیا جاتا ہے، مگر اس کی مسند ضعیف ہے۔ اور امام بغوی نے فرمایا کہ اس پر اتفاق ہے کہ وہ فقیہ اور حکیم تھے نبی نہیں تھے۔ (مظہری)- ابن کثیر نے فرمایا کہ حضرت قتادہ سے ان کے بارے میں ایک عجیب روایت منقول ہے کہ حق تعالیٰ نے حضرت لقمان کو اختیار دیا تھا کہ نبوت لے لو یا حکمت، انہوں نے حکمت کو اختیار کرلیا۔ اور بعض روایات میں ہے کہ ان کو نبوت کا اختیار دیا گیا تھا، انہوں نے عرض کیا کہ اگر اس کے قبول کرنے کا حکم ہے تو میرے سر آنکھوں پر ورنہ مجھے معاف فرمایا جائے۔- اور حضرت قتادہ ہی سے یہ بھی منقول ہے کہ لقمان (علیہ السلام) سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے حکمت کو نبوت پر کیوں ترجیح دی جبکہ آپ کو دونوں کا اختیار دیا گیا تھا ؟ آپ نے فرمایا کہ نبوت بڑی ذمہ داری کا منصب ہے، اگر وہ مجھے بغیر میرے اختیار کے دے دیا جاتا تو حق تعالیٰ خود اس کی کفالت فرماتے کہ میں اس کے فرائض ادا کرسکوں اور اگر میں اپنے اختیار سے اس کو طلب کرتا تو ذمہ داری مجھ پر ہوتی۔ (ابن کثیر)- اور جبکہ لقمان (علیہ السلام) کا نبی نہ ہونا جمہور کے نزدیک مسلم ہے، تو پھر ان کو وہ حکم جو قرآن میں مذکور ہے ان اشکرلی یہ بذریعہ الہام ہوسکتا ہے جو اولیاء اللہ کو حاصل ہوتا ہے۔- حضرت لقمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) سے پہلے شرعی مسائل میں لوگوں کو فتویٰ دیا کرتے تھے، جب داؤد (علیہ السلام) کو نبوت عطا ہوئی تو فتویٰ دینا چھوڑ دیا کہ اب میری ضرورت نہیں رہی، بعض روایات میں ہے کہ بنی اسرائیل کے قاضی تھے۔ حضرت لقمان (علیہ السلام) سے کلمات حکمت بہت منقول ہیں۔ وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت لقمان (علیہ السلام) کی حکمت کے دس ہزار سے زیادہ ابواب پڑھے ہیں۔ (قرطبی)- حضرت لقمان ایک روز ایک بڑی مجلس میں لوگوں کو حکمت کی باتیں سنا رہے تھے، ایک شخص آیا اور اس نے سوال کیا کہ تم وہی ہو جو میرے ساتھ فلاں جنگل میں بکریاں چرایا کرتے تھے ؟ لقمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہاں میں وہی ہوں، اس شخص نے پوچھا کہ پھر آپ کو یہ مقام کیسے حاصل ہوا کہ خلق خدا آپ کی تعظیم کرتی ہے اور آپ کے کلمات سننے کے لئے دور دور سے جمع ہوتی ہے۔ لقمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس کا سبب میرے دو کام ہیں ایک ہمیشہ سچ بولنا، دوسرے فضول باتوں سے اجتناب کرنا۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت لقمان نے فرمایا کہ چند کام ایسے ہیں جنہوں نے مجھے اس درجہ پر پہنچایا، اگر تم اختیار کرلو تو تمہیں بھی یہی درجہ اور مقام حاصل ہوجائے گا۔ وہ کام یہ ہیں اپنی نگاہ کو پست رکھنا اور زبان کو بند رکھنا، حلال روزی پر قناعت کرنا، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنا، بات میں سچائی پر قائم رہنا، عہد کو پورا کرنا، مہمان کا اکرام کرنا، پڑوسی کی حفاظت کرنا اور فضول کام اور کلام کو چھوڑ دینا۔ (ابن کثیر)- حکمت جو لقمان کو دی گئی اس سے کیا مراد ہے ؟- لفظ حکمت قرآن کریم میں متعدد معانی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ علم، عقل، حلم و بردباری، نبوت، اصابت رائے۔- ابوحیان نے فرمایا کہ حکمت سے مراد وہ کلام ہے جس سے لوگ نصیحت حاصل کریں اور ان کے دلوں میں موثر ہو اور جس کو لوگ محفوظ کر کے دوسروں تک پہنچائیں۔ اور ابن عباس نے فرمایا کہ حکمت سے مراد عقل و فہم اور ذہانت ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ علم کے مطابق عمل کرنا حکمت ہے اور درحقیقت ان میں کوئی تضاد نہیں، یہ سبھی چیزیں حکمت میں داخل ہیں۔ اوپر خلاصہ تفسیر میں حکمت کا ترجمہ دانشمندی سے اور اس کی تفسیر علم باعمل سے کی گئی ہے یہ بہت جامع اور واضح ہے۔- آیت مذکورہ میں حضرت لقمان (علیہ السلام) کو حکمت عطا کرنے کا ذکر فرما کر آگے فرمایا ہے ان اشکرلی، اس میں ایک احتمال تو یہ ہے کہ یہاں قلنا مخدوف مانا جائے۔ مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے لقمان کو حکمت دی اور یہ حکم دیا کہ میرا شکر ادا کیا کرو، اور بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ان اشکرلی خود حکمت کی تفسیر ہے، یعنی وہ حکمت جو لقمان کو دی گئی یہ تھی کہ ہم نے اس کو شکر کا حکم دیا انہوں نے تعمیل کی۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر گزار ہونا سب سے بڑی حکمت ہے۔ اس کے بعد یہ جتلا دیا کہ یہ شکر گزاری کا حکم ہم نے کچھ اپنے فائدہ کے لئے نہیں دیا ہمیں کسی شکر کی حاجت نہیں، بلکہ یہ خود انہی کے فائدے کے لئے دیا ہے۔ کیونکہ ہمارا ضابطہ یہ ہے کہ جو شخص ہماری نعمت کا شکر ادا کرتا ہے ہم اس کی نعمت میں اور زیادتی کردیتے ہیں۔- اس کے بعد لقمان (علیہ السلام) کے کچھ کلمات کا ذکر فرمایا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائے تھے، وہ کلمات حکمت قرآن کریم نے اس لئے نقل فرمائے کہ دوسرے لوگ بھی ان سے فائدہ اٹھائیں۔
رکوع نمبر 11- وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَۃَ اَنِ اشْكُرْ لِلہِ ٠ ۭ وَمَنْ يَّشْكُرْ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِہٖ ٠ ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ ١٢- آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- لقم - لُقْمَانُ : اسم الحکيم المعروف، واشتقاقه يجوز أن يكون من : لَقِمْتُ الطّعام أَلْقَمُهُ وتَلَقَّمْتُهُ ، ورجل تَلْقَامٌ: كثير اللُّقَمِ ، واللَّقَمُ أصله الملتقم، ويقال لطرف الطریق : اللَّقَمُ.- ( ل ق م ) لقمان مشہور حکیم کا نام ہے ہوسکتا ہے کہ یہ بھی لقمت الطعام القمہ وتلقمتہ سے مشتق ہو جس کے معنی کسی چیز کو ہڑپ کو جانا کے ہیں ۔ رجل تلقام ۔ بڑے بڑے لقمے نگلنے والا ۔ اللقیم ۔ لوالا اور راستہ کی ایک جانب کو لقم کہاجاتا ہے ۔- حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ - شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - كفر ( ناشکري)- الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔ - غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔
اور ہم نے لقمان کو علم و فہم اور قول و فعل کی درستگی عطا فرمائی اور یہ حکم دیا کہ توحید اور اطاعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہو کیونکہ جو اس طریقہ پر اس کی نعمتوں کا شکر کرے گا تو وہ اپنے ذاتی ثواب کے لیے کرے گا۔- اور جو اس کی نعمتوں کی ناشکری کے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے شکر سے بےنیاز ہے اور اپنے تمام کاموں میں قابل تعریف ہے۔
سورة لقمان کا یہ رکوع اپنے مضامین کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اسے ہم نے مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب میں بھی شامل کیا ہے۔ چناچہ منتخب نصاب کے پہلے حصے (جامع اسباق) کا تیسرا درس اس رکوع پر مشتمل ہے۔ - بنیادی طور پر اس رکوع میں حضرت لقمان کی نصیحتیں نقل ہوئی ہیں۔ ان نصیحتوں میں اس قدر جامعیت ہے کہ انسان کی نجات اخروی کے لوازمات کا ایک مکمل خاکہ ان کے اندر موجود ہے۔ حضرت لقمان نہ تو خود نبی تھے اور نہ ہی کسی نبی کے پیروکار تھے ‘ بلکہ وہ ایک سلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان تھے۔ ان کے حوالے سے جو بہت اہم نکتہ یہاں پر واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے (اس دورۂ ترجمہ قرآن کے دوران قبل ازیں بھی یہ نکتہ بار بارزیر بحث آچکا ہے) کہ ہر انسان فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے اور اگر ماحول کے منفی اثرات کے باعث اس کی فطرت مسنح نہ ہوگئی ہو تو وحی یا کسی نبی کی راہنمائی کے بغیر بھی کائنات کے کچھ حقائق تک اس کی رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔ وہ اپنی عقل سلیم کے ذریعے بڑی آسانی سے اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ اس پوری کائنات کا خالق ایک ہے ‘ اس کی تخلیق میں اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں۔ وہ ایسی ہستی ہے جو تمام صفات کمال سے بتمام و کمال متصفّ ہے۔ اسی نے اس کائنات کی تدبیر کی ہے اور وہی اس کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ - اسی طرح ایک سلیم الفطرت انسان عقلی طور پر یہ حقیقت بھی سمجھ سکتا ہے کہ انسان کی زندگی صرف اس دنیا کی زندگی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی کا ہونا بھی ناگزیر ہے۔ اور یہ کہ جس خالق نے انسانوں کو پیدا کیا ہے وہ ان کا محاسبہ بھی کرے گا۔ ہر انسان کو اپنے کیے کی سزا یا جزا کے لیے اپنے خالق کے حضور ضرور حاضر ہونا پڑے گا۔ ان حقائق کے ادراک کو ” ایمان “ تو نہیں کہا جاسکتا ‘ لیکن معرفت یا حکمت کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ ” ایمان “ تو نبی کی دعوت کی تصدیق کا نام ہے ‘ جس تک انسان خود بخود رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ البتہ معرفت اور حکمت کے یہ دو مقامات (وجود باری تعالیٰ کا ادراک اور آخرت کا شعور) ایسے ہیں جن تک انسان اپنی عقل سلیم کی مدد سے بھی پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ اس کی فطرت پر غفلت اور مادیت کے پردے نہ پڑچکے ہوں۔- ایک سلیم الفطرت انسان کو اس مقام معرفت پر پہنچ کر آگے بڑھنے کے لیے کسی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی اب تک اس نے عقل کی مدد سے اپنے خالق کو پہچان تو لیا ہے لیکن اس کے خالق کا اس سے تقاضا کیا ہے اس بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں۔ چناچہ یہاں پہنچ کر وہ مدد کے لیے پکارتا ہے۔ انسان کی فطرت سلیمہ کی اس پکار کو اللہ تعالیٰ نے الفاظ کا جامہ عطا کر کے ایک خوبصورت دعا کی صورت میں محفوظ فرما دیا ہے۔ یہ وہی دعا ہے جو ہم ہر نماز کی ہر رکعت کے اندر پڑھتے ہیں۔ لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک عام آدمی کی دعا نہیں ہے بلکہ یہ اس انسان کی فطرت کی پکار ہے جو اپنی سلامتئ طبع ‘ سلامتئ فطرت اور سلامتئ عقل کی مدد سے اللہ کی معرفت حاصل کرچکا ہے۔ اس معرفت کے بعد اس کی روح گویا بےاختیار پکار اٹھتی ہے : (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) یعنی اس نے اللہ کو خالق کائنات اور رب العالمین کے طور پر پہچان لیا ہے۔ وہ اللہ کو (الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) ہستی کے طور پر بھی جان چکا ہے۔ اس کے بعد وہ (مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) کی منطق کا قائل بھی ہوچکا ہے اور اپنی عقل سلیم ہی کی مدد سے اسے (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) کا فلسفہ بھی سمجھ میں آچکا ہے۔ لیکن اس سے آگے وہ کچھ نہیں جانتا۔ اسے اس حقیقت کا ادراک تو ہوگیا ہے کہ اسے اپنے رب ہی کی بندگی کرنا چاہیے اور اسی کی مرضی پر چلنا چاہیے ‘ مگر اس کی بندگی کا طریقہ کیا ہے ؟ اور اس کی مرضی ہے کیا ؟ اس بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں۔ چناچہ یہاں وہ اسی ذات کی طرف رجوع کرتا ہے جس کی معرفت سے اس کا سینہ منور ہوا ہے اور اس سے راہنمائی کی درخواست کرتا ہے : (اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ٥ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلا الضَّآلِّیْنَ ) ” (اے ہمارے ربّ ) ہمیں ہدایت بخش سیدھی راہ کی۔ راہ ان لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا ‘ جو نہ تو مغضوب ہوئے اور نہ گمراہ۔ “ - ٦ حضرت لقمان ایک ایسی ہی سلیم الفطرت شخصیت تھے جو وحی یا کسی نبی کی راہنمائی کے بغیر کائنات کے مذکورہ حقائق تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ وہ حبشئ النسل تھے اور پیشے کے اعتبار سے بڑھئی تھے۔ ان کا تعلق مصر اور سوڈان کے سرحدی علاقے نوبیا ( ) سے تھا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حکمت و ذہانت اور سلامتی فطرت کی مدد سے نہ صرف انہیں توحید کی معرفت حاصل ہوئی بلکہ وہ اس نتیجے پر بھی پہنچ گئے کہ انسانی اعمال ضائع ہونے کی چیز نہیں ہیں۔ اس رکوع میں حضرت لقمان کی ان نصیحتوں کا ذکر ہے جو انہوں نے انتقال کے وقت اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ گویا یہ باتیں ان کی عمر بھر کی سوچ کاُ لبّ لباب ہیں۔ چونکہ وہ کسی نبی کے پیروکار نہیں تھے اور نہ ہی وحی کی تعلیمات ان تک پہنچی تھیں اس لیے ان کی نصیحتوں میں نہ تو کسی رسول کا تذکرہ ہے اور نہ ہی ان حقائق کا ذکر ہے جن کا علم صرف وحی کے ذریعے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ - عرب کے لوگ حضرت لقمان کی شخصیت سے خوب واقف تھے۔ وہ نہ صرف انہیں ایک دانشور حکیم کے طور پر جانتے تھے بلکہ ان کے اقوال کو اپنے اشعار اور خطبات میں نقل ( ) بھی کیا کرتے تھے۔ اس پس منظر میں حضرت لقمان کے اقوال و نصائح کو قرآن میں نقل ( ) کر کے اللہ تعالیٰ گویا مشرکین عرب کو بتانا چاہتا ہے کہ دیکھو لقمان جیسا دانشور حکیم بھی اپنی سلامتی طبع اور سلامتی فکر کے باعث اسی اصول اور اسی نکتے تک پہنچا تھا جس کی دعوت آج تم لوگوں کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دے رہے ہیں۔- (اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ ط) ” - انسان کی حکمت و دانائی اور اس کی فطرت کے ” سلیم “ ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ جو کوئی بھی اس کے ساتھ بھلائی کرے اس کے لیے اس کے دل میں بھلائی اور احسان مندی کے جذبات پیدا ہوں اور پھر وہ مناسب طریقے سے ان جذبات کا اظہار بھی کرے۔ چناچہ اگر کسی شخص کی فطرت بالکل ہی مسخ نہ ہوچکی ہو تو وہ اپنے محسن اعظم اور منعم حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور ہر لمحہ اور ہر مقام پر ضرور کلمہ شکر بجا لائے گا۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ اللہ کے شکر کے اظہار کے لیے بہترین کلمہ شکر ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ “ ہے جو قرآن مجید کا کلمہ آغاز بھی ہے۔
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :17 شرک کی تردید میں ایک پر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ معقول بات آج کوئی پہلی مرتبہ تمہارے سامنے پیش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ پہلے بھی عاقل و دانا لوگ یہی بات کہتے رہے ہیں اور تمہارا اپنا مشہور حکیم ، لقمان اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے ۔ اس لئے تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت کے جواب میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر شرک کوئی نامعقول عقیدہ ہے تو پہلے کسی کو یہ بات کیوں نہیں سوجھی ۔ لقمان کی شخصیت عرب میں ایک حکیم و دانا کی حیثیت سے بہت مشہور تھی ۔ شعرائے جاہلیت ، مثلاً امراؤ القیس ، لَبِید ، اَعْشیٰ ، طَرَفہ وغیرہ کے کلام میں ان کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اہل عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفۂ لقمان کے نام سے ان کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموعہ بھی موجود تھا ۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے مدینے کا اولین شخص جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ہوا وہ سُوَید بن صامت تھا ۔ وہ حج کے لئے مکہ گیا ۔ وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قاعدے کے مطابق مختلف علاقوں سے آئے ہوئے حاجیوں کی قیام گاہ جا جا کر دعوت اسلام دیتے پھر رہے تھے ۔ اس سلسلہ میں سُوید نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سنی تو اس نے آپ سے عرض کیا کہ آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے ۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ اس نے کہا مجلّۂ لقمان ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائش پر اس نے اس مجلّہ کا کچھ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا ۔ یہ بہت اچھا کلام ہے ، مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے ۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ بلا شبہ مجلّہ لقمان سے بہتر ہے ( سیر ۃ ابن ہشام ، ج ۲ ، ص ٦۷ ۔ ٦۹ ۔ اُسُد الغابہ ، ج ۲ ، صفحہ ۳۷۸ ) مؤرخین کا بیان ہے کہ یہ شخص ( سُوَید بن صامت ) مدینہ میں اپنی لیاقت ، بہادری ، شعر و سخن اور شرف کی بنا پر کامل کے لقب سے پکارا جاتا تھا ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد جب وہ مدینہ واپس ہوا تو کچھ مدت بعد جنگ بعاث پیش آئی اور یہ اس میں مارا گیا ۔ اس کے قبیلے کے لوگوں کا عام خیال یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد وہ مسلمان ہو گیا تھا ۔ تاریخی اعتبار سے لقمان کی شخصیت کے بارے میں بڑے اختلافات ہیں ۔ جاہلیت کی تاریک صدیوں میں کئی مدَوَّن تاریخ تو موجود نہ تھی ۔ معلومات کا انحصار ان سینہ بسینہ روایات پر تھا جو سینکڑوں برس سے چلی آ رہی تھیں ۔ ان روایات کی رو سے بعض لوگ لقمان کو قوم عاد کا ایک فرد اور یمن کا ایک بادشاہ قرار دیتے تھے ۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے انہی روایات پر اعتماد کر کے ارض القرآن میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قوم عاد پر خدا کا عذاب آنے کے بعد اس قوم کے جو اہل ایمان حضرت ہود علیہ السلام کے ساتھ بچ رہے تھے ، لقمان انہی نسل سے تھا اور یمن میں اس قوم نے جو حکومت قائم کی تھی ، یہ اس کے بادشاہوں میں سے ایک تھا ۔ لیکن دوسری روایات جو بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہیں اس کے بالکل خلاف ہیں ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ لقمان ایک حبشی غلام تھا ۔ یہی قول حضرت ابو ہریرہ ، مُجاہِد ، عکْرِمَہ اور خالد الربعی کا ہے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے کہ وہ نُوبہ کا رہنے والا تھا ۔ سعید بن مُسَیِّب کا قول ہے کہ وہ مصر کے سیاہ رنگ لوگوں میں سے تھا ۔ یہ تینوں اقوال قریب قریب متشابہ ہیں ۔ کیونکہ عرب کے لوگ سیاہ رنگ لوگوں کو اس زمانہ میں عموماً حبشی کہتے تھے ، اور نُوبہ اس علاقہ کا نام ہے جو مصر کے جنوب اور سوڈان کے شمال میں واقع ہے ۔ اس لیے تینوں اقوال میں ایک شخص کو مصری ، نُوبی اور حبشی قرار دینا محض لفظی اختلاف ہے معنی میں کوئی فرق نہیں ہے ، پھر روض الانف میں سُہَیلی اور مُرُوج الذَّہَب میں مسعودی کے بیانات سے اس سوال پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اس سوڈانی غلام کی باتیں عرب میں کیسے پھیلیں ۔ ان دونوں کا بیان ہے کہ یہ شخص اصلاً تو نُوبی تھا ، لیکن باشندہ مَدْیَن اور اَیلَہ ( موجودہ عَقَبہ ) کے علاقے کا تھا ۔ اسی وجہ سے اسکی زبان عربی تھی اور اس کی حکمت عرب میں شائع ہوئی ۔ مزید براں سُہَیلی نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ لقمان حکیم اور لقمان بن عاد دو الگ الگ اشخاص ہیں ۔ ان کو ایک شخصیت قرار دینا صحیح نہیں ہے ( روض الانف ، ج۱ ، ص۲٦٦ ۔ مسعودی ، ج۱ ۔ ص۵۷ ) ۔ یہاں اس بات کی تصریح بھی ضروری ہے کہ مستشرق دیر نبورگ ( ) نے پیرس کے کتب خانہ کا ایک عربی مخطوطہ جو امثال لقمان الحکیم ( ) کے نام سے شائع کیا ہے وہ حقیقت میں ایک موضوع چیز ہے جس کا مجلّٔہ لقمان سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے ۔ یہ امثال تیرھویں صدی عیسوی میں کسی شخص نے مرتب کی تھیں ۔ اس کی عربی بہت ناقص ہے اور اسے پڑھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل کسی اور زبان کی کتاب کا ترجمہ ہے جسے مصنف یا مترجم نے اپنی طرف سے لقمان حکیم کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔ مستشرقین اس قسم کی جعلی چیزیں نکال نکال کر جس مقصد کے لیے سامنے لاتے ہیں وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کسی طرح قرآن کے بیان کردہ قصوں کو غیر تاریخی افسانے ثابت کر کے ساقط الاعتبار ٹھہرا دیا جائے ۔ جو شخص بھی انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں لقمان کے عنوان پر ہیلر ( . ) کا مضمون پڑھے گا اس سے ان لوگوں کی نیت کا حال مخفی نہ رہے گا ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :18 یعنی اللہ کی بخشی ہوئی اس حکمت و دانائی اور بصیرت و فرزانگی کا اولین تقاضا یہ تھا کہ انسان ا پنے رب کے مقابلے میں شکر گزاری و احسان مندی کا رویہ اختیار کرے نہ کہ کفران نعمت اور نمک حرامی کا ۔ اور اس کا یہ شکر محض زبانی جمع خرچ ہی نہ ہو بلکہ فکر اور قول اور عمل ، تینوں صورتوں میں ہو ۔ وہ اپنے قلب و ذہن کی گہرائیوں میں اس بات کا یقین و شعور بھی رکھتا ہو کہ مجھے جو کچھ نصیب ہے خدا کا دیا ہوا ہے ۔ اس کی زبان اپنے خدا کے احسانات کا ہمیشہ اعتراف بھی کرتی رہے ۔ اور وہ عملاً بھی خدا کی فرماں برداری کر کے ، اس کی معصیت سے پرہیز کر کے ، اس رضا کی طلب میں دَوڑ دھوپ کر کے ، اس کے دیے ہوئے انعامات کو اس کے بندوں تک پہنچا کر ، اور اس کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے مجاہدہ کر کے یہ ثابت کر دے کہ وہ فی الواقع اپنے خدا کا احسان مند ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :19 یعنی جو شخص کفر کرتا ہے اس کا کفر اس کے اپنے لیے نقصان دہ ہے ، اللہ تعالیٰ کا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔ وہ بے نیاز ہے ، کسی کے شکر کا محتاج نہیں ہے ۔ کسی کا شکر اس کی خدائی میں کوئی اضافہ نہیں کر دیتا ، نہ کسی کا کفر اس امر واقعہ کو بدل سکتا ہے کہ بندوں کو جو نعمت بھی نصیب ہے اسی کی عطا کردہ ہے ۔ وہ تو آپ سے آپ محمود ہے خواہ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے ۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے کمال و جمال اور اس کی خلاقی و رزاقی پر شہادت دے رہا ہے اور ہر مخلوق زبان حال سے اس کی حمد بجا لا رہی ہے ۔
4: حضرت لقمان کے بارے میں راجح بات یہی ہے کہ وہ نبی نہیں، بلکہ ایک دانشمند شخص تھے، وہ کس زمانے میں تھے ؟ اور کس علاقے کے باشندے تھے، اس کے بارے میں بھی روایات بہت مختلف ہیں، جن سے کوئی حتمی نتیجہ نکالنا مشکل ہے، بعض روایات میں ہے کہ وہ یمن کے باشندے تھے اور حضرت ہود (علیہ السلام) کے جو ساتھی عذاب سے بچ گئے تھے، ان میں یہ بھی شامل تھے، اور بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ حبشہ سے تعلق رکھتے تھے، لیکن قرآن کریم نے ان کا جس غرض سے تذکرہ فرمایا ہے، وہ ان تفصیلات کے جاننے پر موقوف نہیں ہے، یہ بات واضح ہے کہ عرب کے لوگ ان کو عظیم دانشور سمجھتے تھے، اور ان کی حکمت کی باتیں ان کے درمیان مشہور تھیں، جاہلیت کے زمانے کے کئی شعراء نے ان کا تذکرہ کیا ہے، لہذا ان کی باتیں بجا طور پر ان اہل عرب کے سامنے حجت کے طور پر پیش کی جاسکتی تھیں۔ 5: