حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت ووصیت حضرت لقمان نے جو اپنے صاحبزادے کو نصیحت و وصیت کی تھی اس کا بیان ہو رہا ہے ۔ یہ لقمان بن عنقاء بن سدون تھے ان کے بیٹے کا نام سہیلی کے بیان کی رو سے ثاران ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر اچھائی سے کیا اور فرمایا کہ انکوحکمت عنایت فرمائی گئی تھی ۔ انہوں نے جو بہترین وعظ اپنے لڑکے کو سنایا تھا اور انہیں مفید ضروری اور عمدہ نصیحتیں کی تھیں ان کا ذکر ہو رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اولاد سے پیاری چیز انسان کی اور کوئی نہیں ہوتی اور انسان اپنی بہترین اور انمول چیز اپنی اولاد کو دینا چاہتا ہے ۔ تو سب سے پہلے یہ نصیحت کی کہ صرف اللہ کی عبادت کرنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ۔ یاد رکھو اس سے بڑی بےحیائی اور زیادہ برا کام کوئی نہیں ۔ حضرت عبداللہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ جب آیت ( اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ 82ۧ ) 6- الانعام:82 ) اتری تو آصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی مشکل آپڑی اور انہوں نے حضور سے عرض کیا ہم میں سے وہ کون ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو؟ اور آیت میں ہے کہ ایمان کو جنہوں نے ظلم سے نہیں ملایا وہی با امن اور راہ راست والے ہیں ۔ تو آپ نے فرمایا کہ ظلم سے مراد عام گناہ نہیں بلکہ ظلم سے مراد وہ ظلم ہے جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بڑا بھاری ظلم ہے ۔ اس پہلی وصیت کے بعد حضرت لقمان دوسری وصیت کرتے ہیں اور وہ بھی دوزخ اور تاکید کے لحاظ سے واقع ایسی ہی ہے کہ اس پہلی وصیت سے ملائی جائے ۔ یعنی ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرنا جیسے فرمان جناب باری ہے آیت ( وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا 23 ) 17- الإسراء:23 ) یعنی تیرا رب یہ فیصلہ فرماچکاہے کہ اس کے سواکسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک واحسان کرتے رہو ۔ عموما قرآن کریم میں ان دونوں چیزوں کا بیان ایک ساتھ ہے ۔ یہاں بھی اسی طرح ہے وھن کے معنی مشقت تکلیف ضعف وغیرہ کے ہیں ۔ ایک تکلیف تو حمل کی ہوتی ہے جسے ماں برداشت کرتی ہے ۔ حالت حمل کے دکھ درد کی حالت سب کو معلوم ہے پھر دو سال تک اسے دودھ پلاتی رہتی ہے اور اس کی پرورش میں لگی رہتی ہے ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے ( وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَةَ ٢٣٣ ) 2- البقرة:233 ) یعنی جو لوگ اپنی اولاد کو پورا پورا دودھ پلانا چاہے ان کے لئے آخری انتہائی سبب یہ ہے کہ دوسال کامل تک ان بچوں کو ان کی مائیں اپنا دودھ پلاتی رہیں ۔ چونکہ ایک اور آیت میں فرمایا گیا ہے ( وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا 15 ) 46- الأحقاف:15 ) یعنی مدت حمل اور دودھ چھٹائی کل تیس ماہ ہے ۔ اس لئے حضرت ابن عباس اور دوسرے بڑے اماموں نے استدلال کیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ مہینے ہے ۔ ماں کی اس تکلیف کو اولاد کے سامنے اس لئے ظاہر کیا جاتا ہے کہ اولاد اپنی ماں کی ان مہربانیوں کو یاد کرکے شکر گذاری اطاعت اور احسان کرے جیسے اور آیت میں فرمان عالیشان ہے آیت ( وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا 24ۭ ) 17- الإسراء:24 ) ہم سے دعا کرو اور کہو کہ میرے سچے پروردگار میرے ماں باپ پر اس طرح رحم وکرم فرما جس طرح میرے بچپن میں وہ مجھ پر رحم کیا کرتے تھے ۔ یہاں فرمایا تاکہ تو میرا اور اپنے ماں باپ کا احسان مند ہو ۔ سن لے آخر لوٹنا تو میری طرف ہے اگر میری اس بات کو مان لیا تو پھر بہترین جزا دونگا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر بناکر بھیجا آپ نے وہاں پہنچ کر سب سے پہلے کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا میں تمہاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا ہوا ہوں ۔ یہ پیغام لے کر تم اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو میری باتیں مانتے رہو میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہ کرونگا ۔ سب کو لوٹ کر اللہ کی طرف جانا ہے ۔ پھر یا تو جنت مکان بنے گی یا جہنم ٹھکانا ہوگا ۔ پھر وہاں سے نہ اخراج ہوگا نہ موت آئے گی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اسلام کے سوا اور دین قبول کرنے کو کہیں ۔ گو وہ تمام تر طاقت خرچ کر ڈالیں خبردار تم ان کی مان کر میرے ساتھ ہرگز شریک نہ کرنا ۔ لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ تم ان کیساتھ سلوک واحسان کرنا چھوڑ دو نہیں دنیوی حقوق جو تمہارے ذمہ انکے ہیں ادا کرتے رہو ۔ ایسی باتیں ان کی نہ مانو بلکہ ان کی تابعداری کرو جو میری طرف رجوع ہوچکے ہیں سن لو تم سب لوٹ کر ایک دن میرے سامنے آنے والے ہو اس دن میں تمہیں تمہارے تمام تر اعمال کی خبر دونگا ۔ طبرانی کی کتاب العشرہ میں ہے حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ میں اپنی ماں کی بہت خدمت کیا کرتا تھا اور ان کا پورا اطاعت گذار تھا ۔ جب مجھے اللہ نے اسلام کی طرف ہدایت کی تو میری والدہ مجھ پر بہت بگڑیں اور کہنے لگی بچے یہ نیا دین تو کہاں سے نکال لایا ۔ سنو میں تمہیں حکم دیتی ہوں کہ اس دین سے دستبردار ہو جاؤ ورنہ میں نہ کھاؤنگی نہ پیوگی اور یونہی بھوکی مرجاؤنگی ۔ میں نے اسلام کو چھوڑا نہیں اور میری ماں نے کھانا پینا ترک کردیا اور ہر طرف سے مجھ پر آوارہ کشی ہونے لگی کہ یہ اپنی ماں کا قاتل ہے ۔ میں بہت ہی دل میں تنگ ہوا اپنی والدہ کی خدمت میں باربار عرض کیا خوشامدیں کیں سمجھایا کہ اللہ کے لئے اپنی ضد سے باز آجاؤ ۔ یہ تو ناممکن ہے کہ میں اس سچے دین کو چھوڑ دوں ۔ اسی ضد میں میری والدہ پر تین دن کا فاقہ گذرگیا اور اس کی حالت بہت ہی خراب ہوگئی تو میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا میری اچھی اماں جان سنو تم مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہو لیکن میرے دین سے زیادہ عزیز نہیں ۔ واللہ ایک نہیں تمہاری ایک سوجانیں بھی ہوں اور اسی بھوک پیاس میں ایک ایک کرکے سب نکل جائیں تو بھی میں اخری لمحہ تک اپنے سچے دین اسلام کو نہ چھوڑونگا پر نہ چھوڑونگا ۔ اب میری ماں مایوس ہوگئیں اور کھانا پینا شرع کردیا ۔
1 3 1اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کی سب سے پہلی وصیت یہ نقل فرمائی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو شرک سے منع فرمایا، جس سے یہ واضح ہوا کہ والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو شرک سے بچانے کی سب سے زیادہ کوشش کریں۔ 1 3 2یہ بعض کے نزدیک حضرت لقمان ہی کا قول ہے اور بعض نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے اور اس کی تائید میں وہ حدیث پیش کی ہے جو (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ) 6 ۔ الانعام :82) کے نزول کے تعلق سے وارد ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ یہاں ظلم سے مراد ظلم عظیم ہے اور آیت ( ڼ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ) 31 ۔ لقمان :13) کا حوالہ دیا۔ مگر درحقیقت اس سے اللہ کا قول ہونے کی نہ تائید ہوتی ہے نہ تردید۔
[١٥] ایک دفعہ حضرت لقمان نے چند نصیحتیں اپنے بیٹے کو فرمائیں کہ وہ اتنی اہم تھیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمایا۔ دنیا میں اولاد ہی ایک ایسا رشتہ ہے جس کے متعلق انسان انتہائی خلوص برتتا ہے اور نفاق نہیں کرسکتا۔ اور اولاد ہی کے متعلق اس کی آرزو ہوسکتی ہے کہ وہ ہر بھلائی کی بات میں اس سے آگے نکل جائے۔ حتیٰ کہ ایسی آرزو انسان اپنے حقیقی بہن بھائیوں اور دوستوں تک سے بھی نہیں کرسکتا۔ چناچہ پہلی نصیحت جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو وہ یہ تھی کہ اللہ کے ساتھ کبھی کسی کو شریک نہ بنانا۔ کیونکہ دنیا میں سب سے بڑی ناانصافی اور اندھیر کی بات یہی شرک ہی ہے۔ شرک مجسم ظلم اور سب سے برا ظلم ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے :- حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب ( سورة انعام کی) یہ آیت اتری۔ (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ 82 ) 6 ۔ الانعام :82) تو صحابہ کرام (رض) پر بہت شاق گزری۔ وہ کہنے لگے ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ایمان کے ساتھ ظلم (یعنی کوئی گناہ) نہ کیا ہو۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں بتلایا کہ اس آیت میں ظلم سے ہر گناہ مراد نہیں ہے (بلکہ شرک مراد ہے) کیا ہم نے لقمان کا قول نہیں سنا۔ جو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا تھا۔ ان الشرک لظلم عظیم (بخاری۔ کتاب التفسیر)- یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اہل مکہ ایک طرف تو لقمان حکیم کے حکیم اور دانا ہونے کے قائل تھے ، دوسری طرف شرک میں بھی بری طرح مبتلا تھے۔ انھیں بتلایا جارہا ہے۔ کہ لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصحیتیں کی تھیں ان میں سرفہرست شرک سے ان کی نفرت اور بیزاری تھی۔ کیونکہ اللہ کے بندے پر سب سے بڑا حق یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ماذ بن جبل سے فرمایا : تجھے معلوم ہے کہ اللہ کا اس کے بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے ؟ حضرت معاذ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ : اللہ اور اس کا پیغمبر ہی خوب جانتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ جو بندہ شرک نہ کرتا ہو اللہ اسے عذاب نہ کرے (ہمیشہ دوزخ میں نہ رکھے) میں نے عرض کیا : یارسول اللہ کیا میں لوگوں کو یہ خوشخبری نہ سنا دوں ؟ فرمایا : ایسا نہ کرو ورنہ وہ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب اسم الفرس والحمار)
وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لابْنِهٖ وَهُوَ يَعِظُهٗ ۔۔ : ” وَعَظَ “ کا معنی کسی چیز سے روکنا ہے، جس میں ترغیب کے ساتھ ڈرانا بھی ہو، جیسا کہ اللہ نے نوح (علیہ السلام) کو بیٹے کے لیے سفارش پر فرمایا : (فَلَا تَسْـــَٔـلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۭ اِنِّىْٓ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ ) [ ھود : ٤٦ ] ” پس مجھ سے اس بات کا سوال نہ کر جس کا تجھے کچھ علم نہیں۔ بیشک میں تجھے اس سے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے ہوجائے۔ “ اور جیسا کہ فرمایا : ( فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَعِظْھُمْ وَقُلْ لَّھُمْ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِيْغًا ) [ النساء : ٦٣ ] ” سو تو ان سے دھیان ہٹا لے اور انھیں نصیحت کر اور ان سے ایسی بات کہہ جو ان کے دلوں میں بہت اثر کرنے والی ہو۔ “- يٰبُنَيَّ :” اِبْنٌ“ اصل میں ” بَنْوٌ“ ہے، اس کی تصغیر ” بُنَیْوٌ“ ہے۔ یائے متکلم کی طرف مضاف کرنے سے ” بُنَیْوِيَ “ ہوگیا۔ واؤ کو یاء کرنے سے ” بُنَیْیِيَ “ ہوگیا۔ پھر ایک یاء حذف کرنے اور ادغام سے ” بُنَيَّ “ ہوگیا۔ معنی اس کا ہے ” اے میرے چھوٹے بیٹے۔ “ چھوٹے سے مراد پیارا ہے۔ بیٹے پر شفقت اور محبت کے اظہار کے لیے تصغیر اور یائے متکلم کی طرف مضاف کر کے مخاطب فرمایا۔- 3 اس سے معلوم ہوا کہ وعظ کرتے وقت مخاطب کو نہایت محبت اور شفقت بھرے الفاظ کے ساتھ خطاب کرنا چاہیے، جیسا کہ لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو ” يٰبُنَيَّ “ کہہ کر اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کو ” یَااَبَتِ “ کہہ کر مخاطب فرمایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو طالب کو ” یَا عَمِّ قُلْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ “ کہہ کر وعظ فرمایا۔ بلکہ عام گفتگو میں بھی اس ادب کو ملحوظ رکھنا چاہیے، جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) نے والد کو ” یا ابت انی رایت احد عشر کوکبا “ اور والد نے انھیں ” یبنی لا تقصص رویاک علی اخوتک “ کے ساتھ مخاطب کیا۔ - لَا تُشْرِكْ باللّٰهِ : حکمت عطا ہونے کے بعد یہ پہلی نصیحت ہے جو لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو کی اور یہی وہ اصل الاصول ہے جس کی وحی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر رسول کو فرمائی، فرمایا : (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) [ الأنبیاء : ٢٥ ] ” اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ ہر والد کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی اولاد کو شرک سے بچانے کی کوشش کرے۔ اس کوشش میں وعظ کے ساتھ ان کے لیے اللہ سے دعا بھی شامل ہے، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو وادی غیر ذی زرع میں چھوڑا، تو ان کے نگاہوں سے اوجھل ہونے پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی : (وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ) [ إبراہیم : ٣٥ ] ” اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب اس شہر کو امن والا بنادے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ “- اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ : ” اِنَّ “ کا لفظ تعلیل کے لیے آتا ہے، یعنی اس کے ساتھ پہلی بات کی علت بیان کی جاتی ہے، فرمایا : ” اللہ کے ساتھ شرک مت کر، کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ “ ظلم کا معنی ہے ” وَضْعُ الشَّيْءِ فِيْ غَیْرِ مَحَلِّہِ “ کسی چیز کو اس کی جگہ کے بجائے دوسری جگہ رکھ دینا، کسی کا حق دوسرے کو دے دینا۔ کیونکہ ظلم کا اصل معنی اندھیرا ہے اور اندھیرے میں آدمی کسی چیز کو اس کی اصل جگہ نہیں رکھ سکتا۔ موحّد آدمی اپنی پوری زندگی توحید کی روشنی میں بصیرت کے ساتھ گزارتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ ٧ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ ) [ یوسف : ١٠٨ ] ” کہہ دے یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر، میں اور وہ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے۔ “ جب کہ مشرک ساری عمر شرک کی ظلمتوں میں بھٹکتا رہتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (ۻ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ) [ البقرۃ : ١٧١ ] ” بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، پس وہ نہیں سمجھتے۔ “ شرک بہت بڑا ظلم اس لیے ہے کہ اس سے بڑھ کر بےانصافی ہو نہیں سکتی کہ بےبس اور عاجز مخلوق کو خالق ومالک اور مختار رب تعالیٰ کے اختیارات کا مالک بنادیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حق تلفی ہے اور آدمی کا اپنی جان پر بھی بہت بڑا ظلم کہ وہ اپنے آپ کو توحید کے بلند آسمان سے گرا کر شرک کی پستی میں گرا دے اور ہمیشہ کی نعمتوں والی جنت کے بجائے ابد الآباد جہنم کے عذاب کا سزاوار ٹھہرے۔ دیکھیے سورة حج (٣١) اور مائدہ (٧٢) مزید دیکھیے سورة انعام کی آیت (٨٢) : (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ) کی تفسیر۔
ان کلمات حکمت میں سب سے اول تو عقائد کی درستگی ہے، اور ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو سارے عالم کا خالق ومالک بلاشرکت غیرے یقین کرے، اس کے ساتھ کسی غیر اللہ کو شریک عبادت نہ کرے کہ اس دنیا میں اس سے بڑا بھاری ظلم کوئی نہیں ہوسکتا کہ خدا تعالیٰ کسی مخلوق کو خالق کے برابر ٹھہرائے، اس لئے فرمایا یبنی لا تشرک باللہ ان الشرک الظلم عظیم، آگے حضرت لقمان کی دوسری نصائح اور کلمات حکمت آئے ہیں، جو اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے فرمائے تھے۔ درمیان میں حق تعالیٰ نے شرک کے ظلم عظیم ہونے اور کسی حال میں اس کے پاس نہ جانے کی ہدایات کے لئے ایک اور حکم ارشاد فرمایا :- والدین کی شکر گزاری اور اطاعت فرض ہے، مگر حکم الٰہی کے خلاف کسی کی اطاعت جائز نہیں :- کہ اگرچہ ہم نے اولاد کو اپنے ماں باپ کی اطاعت اور شکرگزاری کی بڑی تاکید کی ہے، اور اپنی شکرگزاری و اطاعت کے ساتھ ساتھ والدین کی شکرگزاری اور اطاعت کا حکم دیا ہے، لیکن شرک ایسا ظلم عظلم اور سنگین جرم ہے کہ وہ ماں باپ کے کہنے سے اور مجبور کرنے سے بھی کسی کے لئے جائز نہیں ہوتا، اگر کسی کو اس کے والدین اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دینے پر مجبور کرنے لگیں تو اس معاملہ میں والدین کا کہنا بھی ماننا جائز نہیں۔- اور یہاں جبکہ والدین کے حقوق اور ان کی شکرگزاری کا حکم دیا گیا تو اس کی حکمت یہ بتلا دی کہ اس کی ماں نے اس کے وجود وبقاء میں بڑی محنت برداشت کی ہے کہ نو مہینے تو اس کو اپنے شکم میں رکھ کر اس کی حفاظت کی اور اس کی وجہ سے جو روز بروز اس کو ضعف پر ضعف اور تکلیف پر تکلیف بڑھتی گئی اس کو برداشت کیا، پھر اس کے پیدا ہونے کے بعد بھی دو سال تک اس کو دودھ پلانے کی زحمت برداشت کی، جس میں ماں کو خاصی محنت بھی شب و روز اٹھانی پڑتی ہے، اور اس کا ضعف بھی اس سے بڑھتا ہے، اور چونکہ بچے کی پرورش میں محنت و مشقت زیادہ ماں اٹھاتی ہے، اس لئے شریعت میں ماں کا حق باپ سے بھی مقدم رکھا گیا ہے،
وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَہُوَيَعِظُہٗ يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللہِ ٠ۭ ؔ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ١٣- ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- وعظ - الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] - ( و ع ظ ) الوعظ - کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
اور جب لقمان نے اپنے بیٹے سلام کو برائی سے روکتے ہوئے اور نیکی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرانا کیونکہ شرک کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سزا کے اعتبار سے بڑا بھاری ظلم ہے۔
آیت ١٣ (وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لابْنِہٖ وَہُوَ یَعِظُہٗ ) ” - یہاں سے ان نصیحتوں کا آغاز ہوتا ہے جن میں حضرت لقمان اپنے بیٹے سے مخاطب ہیں۔ اگرچہ یہاں پر اس کا ذکر نہیں کیا گیا ‘ لیکن انہوں نے یہ نصیحتیں اپنے انتقال کے وقت کی تھیں۔ ہر شخص فطری طور پر چاہتا ہے کہ وہ اپنی موت سے پہلے اپنی اولاد کو اپنے ورثے کے بارے میں ضروری ہدایات دے جائے۔ جیسے عام طور پر بڑے بڑے کارخانہ دار اور دولت مند لوگ اپنے کاروبار ‘ اثاثہ جات اور اور لین دین کے معاملات سے متعلق وصیت کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ چناچہ حضرت لقمان جیسے حکیم انسان نے بھی ضروری سمجھا کہ اپنے عمر بھر کے غوروفکر اور دانائی کا نچوڑاورُ لبّ لباب موت سے پہلے اپنے بیٹے کو منتقل کردیں۔- (یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ باللّٰہِط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ) ” - لغوی اعتبار سے لفظ ” ظلم “ کا مفہوم ناانصافی اور حق تلفی ہے۔ ” ظلم “ کی تعریف یوں کی جاتی ہے : وَضْعُ الشَّیْئ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖیعنی کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی دوسری جگہ پر رکھ دینا۔ ظلم کی اس تعریف ( ) پر غور کریں تو یہ نکتہ بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے کہ یہاں شرک کو ” ظلم عظیم “ کیوں کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کا خالق ہے اور کائنات کی ہرچیز اس کی مخلوق ہے۔ وہ اپنی صفات میں یکتا اور تنہا ہے۔ اب اگر کوئی انسان ان صفات کے اعتبار سے مخلوق میں سے کسی کو اٹھا کر اللہ کے برابر کر دے یا اللہ تعالیٰ کو کسی اعتبار سے گرا کر مخلوق کی صف میں لا کھڑا کرے تو اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا ؟- حضرت لقمان کی اس اہم نصیحت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی طرف سے ایک نصیحت کا اضافہ کیا ہے جو والدین کے حقوق سے متعلق ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت لقمان نے کسر نفسی کے باعث خود اپنے حق سے متعلق بیٹے کو نصیحت کرنا مناسب نہ سمجھا ہو ‘ چناچہ اس کمی کو اللہ تعالیٰ نے پورا فرما دیا۔ اس لحاظ سے قرآن حکیم میں یہ پانچواں مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے حق توحید کے فوراً بعد والدین کے حقوق کا بیان فرمایا ہے۔ اس سے پہلے البقرۃ : ٨٣ ‘ النساء : ٣٦ ‘ الانعام : ١٥١ ‘ اور بنی اسرائیل : ٢٣ میں اللہ تعالیٰ کے حق کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر ہوا ہے۔
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :20 لقمان کی حکیمانہ باتوں میں سے اس خاص نصیحت کو دو مناسبتوں کی بنا پر یہاں نقل کیا گیا ہے ۔ اول یہ کہ انہوں نے یہ نصیحت اپنے بیٹے کو کی تھی اور ظاہر بات ہے کہ آدمی دنیا میں سب سے بڑھ کر اگر کسی کے حق میں مخلص ہو سکتا ہے تو وہ اس کی اپنی اولاد ہی ہے ۔ ایک شخص دوسروں کو دھوکا دے سکتا ہے ، ان سے منافقانہ باتیں کر سکتا ہے ، لیکن اپنی اولاد کو تو ایک برے سے برا آدمی بھی فریب دینے کی کوشش کبھی نہیں کر سکتا ۔ اس لیے لقمان کا اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ان کے نزدیک شرک فی الواقع ایک بد ترین فعل تھا اور اسی بنا پر انہوں نے سب سے پہلی جس چیز کی اپنے لخت جگر کو تلقین کی وہ یہ تھی کہ اس گمراہی سے اجتناب کرے ۔ دوسری مناسبت اس حکایت کی یہ ہے کہ کفار مکہ میں سے بہت سے ماں باپ اس وقت اپنی اولاد کو دین شرک پر قائم رہنے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید سے منہ موڑ لینے پر مجبور کر رہے تھے ، جیسا کہ آگے کی آیات بتا رہی ہیں ۔ اس لئے ان نادانوں کو سنایا جا رہا ہے کہ تمہاری سرزمین کے مشہور حکیم نے تو اپنی اولاد کی خیر خواہی کا حق یوں ادا کیا تھا کہ اسے شرک سے پرہیز کرنے کی نصیحت کی ۔ اب تم جو اپنی اولاد کو اسی شرک پر مجبور کر رہے ہو تو یہ ان کے ساتھ بد خواہی ہے یا خیر خواہی؟ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :21 ظلم کے اصل معنی ہیں کسی کا حق مارنا اور انصاف کے خلاف کام کرنا ۔ شرک اس وجہ سے ظلم عظیم ہے کہ آدمی ان ہستیوں کو اپنے خالق اور رازق اور منعم کے برابر لا کھڑا کرتا ہے جن کا نہ اس کے پیدا کرنے میں کوئی حصہ ، نہ اس کو رزق پہنچانے میں کوئی دخل ، اور نہ ان نعمتوں کے عطا کرنے میں کوئی شرکت جن سے آدمی اس دنیا میں متمتع ہو رہا ہے ۔ یہ ایسی بے انصافی ہے جس سے بڑھ کر کسی بے انصافی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ پھر آدمی پر اس کے خالق کا حق ہے کہ وہ صرف اسی کی بندگی و پرستش کرے ، مگر وہ دوسروں کی بندگی بجا لا کر اس کا حق مارتا ہے ۔ پھر اس بندگی غیر کے سلسلے میں آدمی جو عمل بھی کرتا ہے اس میں وہ اپنے ذہن و جسم سے لے کر زمین و آسمان تک کی بہت سی چیزوں کو استعمال کرتا ہے ، حالانکہ یہ ساری چیزیں اللہ وحدہ لا شریک کی پیدا کردہ ہیں اور ان میں سے کسی چیز کو بھی اللہ کے سوا کسی دوسرے کی بندگی میں استعمال کرنے کا اسے حق نہیں ہے ۔ پھر آدمی پر خود اس کے اپنے نفس کا یہ حق ہے کہ وہ اسے ذلت اور عذاب میں مبتلا نہ کرے ۔ مگر وہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کر کے اپنے آپ کو ذلیل بھی کرتا ہے اور مستحق عذاب بھی بناتا ہے ۔ اس طرح مشرک کی پوری زندگی ایک ہر جہتی اور ہمہ وقتی ظلم بن جاتی ہے جس کا کوئی سانس بھی ظلم سے خالی نہیں رہتا ۔
6: بعض اوقات اللہ تعالیٰ پیغمبروں کے علاوہ اپنے خاص بندوں پر بھی الہام فرماتے ہیں جو انبیاء کرام پرنازل ہونے والی وحی کی طرح تو حجت نہیں ہوتا، لیکن اس کے ذریعے عام ہدایات دی جاتی ہیں، جو وحی کے کسی حکم کے خلاف نہ ہوں۔ ظلم کے معنی یہ ہیں کسی کا حق چھین کر دوسرے کو دے دیا جائے، شرک اس لحاظ سے واضح طور پر بہت بڑا ظلم ہے کہ عبادت اللہ تعالیٰ کا خالص حق ہے شرک کرنے والے اللہ تعالیٰ کا یہ حق ادا کرنے کے بجائے خود اسی کے بندوں اور اسی کی مخلوقات کو دیتے ہیں۔