Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141توحید و عبادت الٰہی کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید سے اس نصیحت کی اہمیت واضح ہے۔ 142اس کا مطلب ہے رحم مادر میں بچہ جس حساب سے بڑھتا جاتا ہے، ماں پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے جس سے عورت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ماں کی اس مشقت کے ذکر سے اس طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کرتے وقت ماں کو مقدم رکھا جائے، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے۔ 143اس سے معلوم ہوا کہ مدت رضاعت دو سال ہے، اس سے زیادہ نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦] آیت نمبر ١٤ اور ١٥ لقمان کی نصائح کے درمیان اللہ تعالیٰ کی طرف سے جلد معترضہ کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔ کیونکہ ان آیات کا بھی بالواسطہ شرک کی مذمت ہی سے تعلق ہے۔- [ ١٧] اللہ تعالیٰ کئی مقامات پر اپنے حق کے ساتھ والدین سے بہتر سلوک کا ذکر فرمایا ہے اس کی وجہ اور تشریح کے لئے دیکھئے سورة بنی اسرائیل آیت نمبر ٢٣ اور ٢٤ کے حواشی نیز درج ذیل حدیث بھی والدین کی اطاعت کی اہمیت پر پوری روشنی ڈالتی ہے :- حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین بچوں کے سوا کسی نے مہد میں کلام نہیں کیا۔ عیسیٰ بن مریم اور صاحب جریج۔ جریج ایک عابدی تھا۔ جس نے ایک عبادت خانہ رکھا تھا ایک دن اس کی ماں آئی اور وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ ماں نے کہا : اے جریج اس نے دل میں کہا یا اللہ ایک طرف ماں ہے اور ایک طرف نماز۔ وہ نماز میں لگا رہا۔ حتیٰ کہ اس کی ماں واپس چلی گئی۔ دوسرے دن پھر اس کی ماں آئی اور پکارا اے جریج اس نے دل میں کہا : یا اللہ ایک طرف ماں ہے اور ایک طرف نماز، آخر وہ نماز میں ہی لگا رہا۔ (اب اس کی ماں کے منہ سے بددعا نکل گئی) کہنے لگی یا اللہ اسے موت نہ دینا جب تک یہ کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لے بنی اسرائیل میں جریج اور اس کی عبادت کا چرچا ہونے لگا۔ ان میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی کی مثال دی جاتی تھی۔ وہ کہنے لگی : اگر تم چاہتے ہو تو میں اسے پھنساؤں ؟ چناچہ اس نے اپنے آپ کو جریج پر پیش کیا لیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانہ کے پاس ٹھہرا کرتا تھا اور اس نے اپنے آپ کو اس کے حوالہ کردیا۔ چناچہ چرواہے نے اس سے صحبت کی تو وہ حاملہ ہوگئی۔ پھر جب بچہ پیدا ہوا تو کہنے لگی یہ جریج کا بچہ ہے لوگ آئے : اسے عبادت خانہ سے نکالا اور اسے گرا دیا اور اس کی پٹائی کرنے لگے۔ جریج نے پوچھا : کوئی بات تو بتلاؤ ؟ وہ کہنے لگے : تو نے اس فاحشہ سے زنا کیا اور اب تو اس کے بچہ بھی پیدا ہوچکا ہے جریج نے کہا : وہ بچہ کہاں ہے ؟ لوگ بچہ لے آئے تو جریج نے کہا : ذرا ٹھہر میں نماز پڑھ لوں۔ پھر وہ نماز سے فارغ ہو کر بچہ کے پاس آیا۔ اس کے پیٹ میں کچو کا دیا اور کہا : بچے بتلاؤ تمہارا باپ کون ہے ؟ بچہ بول اٹھا : فلاں چرواہا ہے۔ پھر تو لوگ جریج کے پاس آکر اسے بوسے دینے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تمہارے لئے سونے کا عبادت خانہ بنا دیتے ہیں۔ جریج نے کہا : نہیں بس ایسا ہی مٹی کا بنادو چناچہ انہوں نے عبادت خانہ بنایا۔ تیسرے بنی اسرائیل میں ایک عورت جو اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی ادھر سے ایک نہایت خوش وضع سوار گزرا وہ عورت اس سوار کو دیکھ کر کہنے لگی : یا اللہ میرے بچے کو اس سوار جیسا بنا دے بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ کر کہا : یا اللہ مجھے ایسا نہ بنانا پھر وہ دودھ پینے لگا۔ پھر وہاں سے ایک لونڈی گزری (جسے لوگ مارتے جاتے تھے) وہ عورت کہنے لگی یا اللہ میرے بیٹے کو ایسا نہ بنانا بچے نے چھاتی چھوڑ دی اور بول اٹھا یا اللہ مجھے ایسا ہی بنانا میں نے اپنے بچے سے کہا کہ تو ایسا کیوں کہتا ہے ؟ بچے نے کہا : وہ سوار تو ظالم لوگوں سے تعلق رکھتا ہے اور ظالم ہے اور اس لونڈی کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ اس نے چوری کی اور زنا کیا۔ حالانکہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔ (مسلم۔ کتاب البروالصلۃ باب تقدیم برا الوالدین۔۔ بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب واذکر فی الکتب مریم) یہ حدیث، حدیث جریج کے نام سے مشہور ہے اور اس سے علماء نے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے کہ اگر اولاد نفلی نماز میں مشغول ہو اور والدین میں سے کوئی اسے پکارے تو اسے نماز توڑ کر بھی اس آواز پر لبیک کہنا چاہئے۔ اور ان کا حکم بجا لانا چاہئے۔- [ ١٨] اس آیت سے نیز سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٣٣ سے صرا حۃ یہ معلوم ہوتا ہے کہ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ اس مدت میں کمی تو ہوسکتی ہے اگر والدین کسی ضرورت کے تحت دو سال سے پہلے دودھ چھڑانا چاہیں تو چھڑا سکتے ہیں۔ لیکن اس مدت میں بیشی نہیں ہوسکتی۔ نیز سورة احقاف کی آیت نمبر ١٥ میں فرمایا کہ حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے اس میں بھی علماء نے رضاعت کی مدت دو سال شمار کرکے حمل کی مدت میں کمی کے امکان یعنی چھ ماہ کو بھی ممکن قرار دیا ہے۔ لیکن ان سب تصریحات کے باوجود امام ابوحنیفہ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت اڑھائی سال قرار دیتے ہیں۔ اور وہ اپنی اس رائے میں منفرو ہیں اور کسی فقہ کے امام نے بھی ان کی تائید نہیں کی۔ اور اس مسئلہ کی اہمیت یہ ہے کہ حرمت نکاح کا فیصلہ اسی مدت کی صحیح تعیین کی بناء پر ہی کیا جاسکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

؀ وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ : اللہ عزوجل نے لقمان (علیہ السلام) کی اپنے بیٹے کو وصیت ذکر فرمائی، جس میں انھوں نے اسے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی تاکید فرمائی، تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے انسان کو ماں باپ کا حق ادا کرنے کی وصیت فرما دی، کیونکہ وہ دنیا میں اس کے آنے اور اس کی پرورش کا ذریعہ بنے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کا ذکر اکٹھا آیا ہے۔ دیکھیے بنی اسرائیل (٢٣، ٢٤) ، عنکبوت (٨) اور انعام (١٥١) یہاں ” وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ “ کے بعد اس وصیت کی تفسیر ” ان اشکر لی والدیک “ کے ساتھ فرمائی ہے، یعنی ہم نے انسان کو اس کے والدین کے متعلق وصیت کی کہ میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کر۔ درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر ماں کا حق زیادہ ہونے کی طرف توجہ دلائی کہ اس نے باپ سے کہیں زیادہ بچے کی مشقت اٹھائی ہے۔ معاویہ بن حیدہ (رض) (دادا بہز بن حکیم) بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا : ( یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَنْ أَبَرُّ ) ” یا رسول اللہ میں کس کے ساتھ نیکی اور احسان و سلوک کروں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أَبَاکَ ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ ) [ أبوداوٗد، الأدب، باب في بر الوالدین، : ٥١٣٩، و قال الألباني حسن صحیح ] ” اپنی ماں کے ساتھ، پھر اپنی ماں کے ساتھ، پھر اپنی ماں کے ساتھ، پھر اپنے باپ کے ساتھ، پھر اپنے سب سے قریب کے ساتھ، پھر اس کے بعد زیادہ قریب کے ساتھ۔ “ بعض اہل علم نے اس تاکید کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ والدہ کی کمزوری اور طبعی نرمی اور شفقت کی وجہ سے اولاد اس کی پروا نہیں کرتی اور اس کا حق ادا کرنے میں کوتاہی کرتی ہے، جب کہ باپ کی طبیعت کی وجہ سے اس کا خیال کرنا پڑتا ہے، لہٰذا تاکید کے لیے ماں کا ذکر تین دفعہ فرمایا۔ یہ مطلب نہیں کہ ماں کو تین روپے دو اور باپ کو ایک روپیہ، بلکہ اولاد کو دونوں ہی کا خیال رکھنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)- حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰي وَهْنٍ :” وھناً “ کی ترکیب کئی طرح سے ہوسکتی ہے، ایک یہ کہ یہ ” اُمّهٗ “ سے حال بمعنی اسم فاعل ہے۔” أَيْ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ ذَاتَ وَھْنٍ عَلٰی وَھْنٍ “ یعنی اس کی ماں نے اسے اس حالت میں اٹھائے رکھا کہ وہ کمزوری پر کمزوری والی تھی۔ زمخشری نے فرمایا : ” وھناً “ فعل محذوف ” تَھِنُ “ کا مفعول مطلق ہے، یعنی اس کی ماں نے اسے اس حال میں اٹھایا کہ وہ کمزور پر کمزور ہوتی جاتی تھی، دن بدن اس کا ضعف بڑھتا جاتا تھا، کیونکہ جیسے جیسے اس کا حمل بڑھتا، اس کا بوجھ اور ضعف بڑھتا جاتا تھا۔ “ ایک صورت یہ ہے کہ اس سے پہلے حرف جار ” باء “ محذوف ہے، جس کے حذف کرنے سے اس پر نصب آئی ہے : ” أَيْ حَمَلَتْہُ بِضُعْفٍ عَلٰی ضُعْفٍ “ یعنی اس نے اسے کمزوری پر کمزوری کے ساتھ اٹھائے رکھا۔- ” وَهْنًا عَلٰي وَهْنٍ “ (کمزوری پر کمزوری) میں دوران حمل دن بدن بڑھنے والی کمزوری کے بعد ” وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ “ (اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے) کے درمیان کمزوری اور مشقت کے کئی مرحلے ذکر نہیں فرمائے، کیونکہ وہ خود بخود سمجھ میں آ رہے ہیں۔ جن میں ولادت کا جاں گسل مرحلہ، پھر نفاس کی کمزوری، پھر دن رات بچے کی پرورش، نگہداشت، اسے دودھ پلانا اور اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا وغیرہ شامل ہیں۔- وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ 3 : حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ” وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ “ ( اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا ہم معنی ہے : (وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَةَ ) [ البقرۃ : ٢٣٣ ] ” اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں، اس کے لیے جو چاہے کہ دودھ کی مدت پوری کرے۔ “ اسی سے ابن عباس (رض) وغیرہ ائمہ نے استنباط فرمایا ہے کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں فرمایا ہے : ( وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا ) [ الأحقاف : ١٥ ] ” اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے۔ “ اور اللہ تعالیٰ نے ماں کی پرورش کا، اس کمزوری، تکان اور دن رات بیداری اور مشقت کا ذکر اس لیے فرمایا کہ بچے کو اس کا احسان یاد دلائے جو اس نے اس پر کیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا) [ بني إسرائیل : ٢٤ ] ” اور کہہ اے میرے رب ان دونوں پر رحم کر جیسے انھوں نے چھوٹا ہونے کی حالت میں مجھے پالا۔ “- 3 زمخشری نے فرمایا : ” اگر تم کہو کہ دودھ چھڑانے کی مدت دو سال مقرر کرنے کا کیا مطلب ہے، تو میں کہوں گا کہ یہ مدت مقرر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ حد ہے جس سے تجاوز درست نہیں۔ دو سال سے کم میں دودھ چھڑانے کا معاملہ ماں کے اجتہاد پر موقوف ہے۔ اگر وہ سمجھے کہ وہ اس سے پہلے دودھ چھڑانا برداشت کرسکتا ہے تو وہ چھڑا سکتی ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : (وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَةَ ) [ البقرۃ : ٢٣٣ ] ” اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں، اس کے لیے جو چاہے کہ دودھ کی مدت پوری کرے۔ “- 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ دودھ پلانے کی کامل مدت دو سال ہے۔ اس عرصے میں دودھ پینے سے رضاعت کی حرمت ثابت ہوگی، اس کے بعد نہیں۔ بعض لوگوں نے مدت رضاعت اڑھائی سال قرار دی ہے اور اسے احتیاط کا تقاضا قرار دیا ہے۔ مگر صریح آیت کے بعد کسی کو احتیاط یا کسی اور وجہ سے اس کی مخالفت کا کوئی اختیار نہیں۔ مزید دیکھیے سورة احقاف (١٥) ۔- اِلَيَّ الْمَصِيْرُ : ” الی “ کو پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا، یعنی میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے کسی اور کی طرف نہیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ یہ نہیں بتایا کہ کس کا لوٹ کر آنا مراد ہے ؟ جواب یہ ہے کہ اسے عام رکھا ہے، تاکہ اس میں سب لوگ شامل ہوجائیں۔ یعنی ہر ایک کو، جن میں تم بھی شامل ہو، میری ہی طرف واپس آنا ہے۔ اس میں ازسر نو اللہ عزوجل اور والدین کے شکر کی وصیت ہے اور وعدہ بھی اور وعید بھی کہ اگر میرے متعلق اور اپنے والدین کے متعلق میری وصیت پر عمل کرو گے تو جزائے خیر پاؤ گے، ورنہ سزا کے لیے تیار رہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) ووصینا الانسان بوالدیہ حملتہ امہ وھناً علیٰ وھن وفصلہ فی عامین۔ کا یہی مطلب ہے اور اس کے بعد (آیت) وان جاھداک میں یہ بتلایا ہے کہ غیر اللہ کو اللہ کے ساتھ شریک کرنے کے معاملہ میں والدین کی اطاعت بھی حرام ہے۔- اسلام کا بےنظیر قانون عدل :- اور ایسی صورت میں کہ ماں باپ اس کو شرک و کفر پر مجبور کریں اور اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہو کہ ان کی بات مانو، تو طبعی طور پر انسان حد پر قائم نہیں رہتا۔ اس پر عمل کرنے میں اس کا امکان تھا کہ بیٹا والدین کے ساتھ بدکلامی یا بدخوئی سے پیش آئے ان کی توہین کرے۔ اسلام ایک قانون عدل ہے، ہر چیز کی ایک حد ہے، اس لئے شرک میں والدین کی اطاعت نہ کرنے کے حکم کے ساتھ ہی یہ حکم بھی دیدیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ۝ ٠ ۚ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰي وَہْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ۝ ٠ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ۝ ١٤- وصی - الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] وقرئ :- وأَوْصَى «2» قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ [ النساء 131] ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] ، يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ [ النساء 11] ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ- ( و ص ی ) الوصیۃ - : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] اور ہم نے انسان کو حکم دیا ۔ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے ۔ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ [ المائدة 106] کہ وصیت کے وقت تم دو مر د ۔ وصی ( ایضاء) کسی کی فضیلت بیان کرنا ۔ تواصی القوم : ایک دوسرے کو وصیت کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [ العصر 3] اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [ الذاریات 53] کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں ۔- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- أمّ- الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته .- ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا «1» ، قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف 4] «2» أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) «3» ، وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة «4» . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک - «5» وقیل : أم الأضياف وأم المساکين «6» ، کقولهم : أبو الأضياف «7» ، ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم - «8» وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ- [ القارعة 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه «1» ، وکذا : هوت أمّه «2» والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة «3» . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان .- ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ يَا ابْنَ أُمَّ ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔- وهن - الوَهْنُ : ضعف من حيث الخلق، أو الخلق . قال تعالی: قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي - [ مریم 4] ، فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران 146] ، وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان 14] أي : كلّما عظم في بطنها : زادها ضعفا علی ضعف : وَلا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ- [ النساء 104] ، وَلا تَهِنُوا وَلا تَحْزَنُوا [ آل عمران 139] ، ذلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكافِرِينَ [ الأنفال 18] .- ( و ھ ن ) الوھن - کے معنی کسی معاملہ میں جسمانی طور پر کمزور ہونے یا اخلاقی کمزور یظاہر کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي[ مریم 4] اے میرے پروردگار میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہوگئی ہیں فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران 146] تو جو مصیبتیں ان پر واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری ۔ وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان 14] تکلیف پر تکلیف سہہ کر ۔ یعنی جوں جوں پیٹ میں حمل کا بوجھ بڑھتا ہے کمزور ی پر کزوری بڑھتی چلی جاتی ہے ولا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ [ النساء 104] اور دیکھو بےدل نہ ہونا اور کسی طرح کا غم کرنا ۔ اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا ۔ ذلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكافِرِينَ [ الأنفال 18] بات یہ ہے کچھ شک نہیں کہ خدا کافروں کی تدبیر کو کمزور کردینے والا ہے ۔ - فِصالُ :- التّفریق بين الصّبيّ والرّضاع، قال : فَإِنْ أَرادا فِصالًا عَنْ تَراضٍ مِنْهُما [ البقرة 233] ، وَفِصالُهُ فِي عامَيْنِ [ لقمان 14] ، ومنه : الفَصِيلُ ، لکن اختصّ بالحُوَارِ ، والمُفَصَّلُ من القرآن، السّبع الأخير «1» ، وذلک للفصل بين القصص بالسّور القصار، والفَوَاصِلُ : أواخر الآي، وفَوَاصِلُ القلادة : شذر يفصل به بينها، وقیل : الفَصِيلُ : حائط دون سور المدینة «2» ، وفي الحدیث : «من أنفق نفقة فَاصِلَةً فله من الأجر کذا» «3» أي : نفقة تَفْصِلُ بين الکفر والإيمان .- الفصال کے معنی بچے کا دودھ چھڑانا کے ہیں قرآن پاک میں ہے : فَإِنْ أَرادا فِصالًا عَنْ تَراضٍ مِنْهُما [ البقرة 233] اور اگر دونوں ( یعنی ماں باپ ) آپس کی رضامندی ۔۔۔ سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں ۔ وَفِصالُهُ فِي عامَيْنِ [ لقمان 14] اور ( آخر کار) دوبرس میں اس کا دودھ چھڑا نا ہوتا ہے ۔ اسی سے تفصیل ( یعنی دودھ چھڑایا ہوا بچہ ) ہے لیکن یہ خاص کر اونٹ کے بچہ پر بولا جاتا ہے المفصل قرآن کی آخر منزل کو کہاجاتا ہے ۔ اس لئے کہ اس میں چھوٹی چھوٹی سورتوں میں تمام قصے الگ الگ بیان کئے گئے ہیں ۔ الفواصل ( اوخر آیات : اور فواصل القلادۃ ان بڑے موتیوں کو کہاجاتا ہے جو ہار کے اندر چھوٹی موتیوں کے درمیان فاصلہ کے لئے ڈال دیئے جاتے ہیں ۔ حدیث میں ہے : من اتفق نفقۃ فاصلۃ فلہ سن الاجر کذا یعنی جس نے اتنا زیادہ خرچ کیا جس سے حق و باطل کے درمیان فاصلہ ہوجائے تو اس کے لئے اتنا اور اتنا اجر ہے ۔- عام - العَامُ کالسّنة، لکن كثيرا ما تستعمل السّنة في الحول الذي يكون فيه الشّدّة أو الجدب . ولهذا يعبّر عن الجدب بالسّنة، والْعَامُ بما فيه الرّخاء والخصب، قال : عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] ، وقوله : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً- [ العنکبوت 14] ، ففي كون المستثنی منه بالسّنة والمستثنی بِالْعَامِ لطیفة «1» موضعها فيما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، والْعَوْمُ السّباحة، وقیل : سمّي السّنة عَاماً لِعَوْمِ الشمس في جمیع بروجها، ويدلّ علی معنی الْعَوْمِ قوله : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] .- ( ع و م ) العام ( سال ) اور السنۃ کے ایک ہی معنی ہیں ۔ لیکن السنۃ کا لفظ عموما اس سال پر بولا جاتا ہے جس میں تکلیف یا خشک سالی ہو اس بنا پر قحط سالی کو سنۃ سے تعبیر کرلیتے ہیں اور عامہ اس سال کو کہا جاتا ہے جس میں وسعت اور فروانی ہو قرآن پاک میں ہے : ۔ عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] اس کے بعد ایک ایسا سال آئیگا جس میں خوب بارش ہوگی اور لوگ اس میں نچوڑیں گے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے ۔ میں لفظ سنۃ کو مستثنی منہ اور لفظ عام کو مستثنی لانے میں ایک لطیف نکتہ ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد کسی دوسرے موقع پر بیان کریں گے انشا اللہ اور عوم ( ن ) کے معنی پانی میں تیر نا بھی آتے ہیں چناچہ بعض نے کہا ہے کہ سال کو بھی عام اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس مدت میں سورج اپنے تمام بر جوں میں تیر لیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں ۔ میں یسحبون کے لفظ سے اس توجیہ کی تائید ہوتی ہے ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔- صير - الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] .- و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال .- ( ص ی ر ) الصیر - کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

طاعت والدین - قول باری ہے (ووصینا الانسان بوالدیہ۔ اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے متعلق وصیت کی) تاقول باری (وان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلا تطعھما وصاحبھما فی الدنیا معروفا ۔ اور اگر دونوں تجھ پر اس معاملہ میں زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہیں تو تو ان کا کہا نہ مان اور دنیا میں ان کے ساتھ خوبی سے بسر کیے جا) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے یہ واضح کردیا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کے سلسلے میں اس کا حکم مسلمان اور کافر تمام والدین کے لئے عام ہے۔- کیونکہ پہلے یہ فرمایا (وان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم) پھر اس کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا (وصاحبھما فی الدنیا معروفا) اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ بیٹے کو اپنے باپ سے قصاص کا حق نہیں ہے یعنی اگر باپ اپنے بیٹے کو قتل کردے تو اس سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔ نیز اگر باپ اپنے بیٹے کو قذف کرے گا تو اسے حد قذف نہیں لگائی جائے گی۔ علاوہ ازیں باپ پر اگر بیٹے کا قرضہ ہو تو اس کی ادائیگی کے سلسلے میں بات کو قید میں نہیں ڈالا جائے گا۔- اگر والدین ضرورت مند ہوں تو بیٹے پر ان کی کفالت ضروری ہوگی کیونکہ یہ تمام باتیں ان کے ساتھ خوبی سے بسر کرنے میں داخل ہیں۔ ان کے خلاف عمل اس مصاحبت کے منافی ہوگا۔ اسی پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ باپ کو بیٹے کے قرضہ کی بنا پر قید میں نہیں ڈالا جائے گا۔ امام یوسف سے مروی ہے کہ اگر وہ سرکشی کرتا ہو تو اس صورت میں بیٹا اسے قید کرسکتا ہے۔- حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے - قول باری ہے : (حملتہ امہ وھنا علی وھن) اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا۔ ضحاک کا قول ہے ” ضعف پر ضعف اٹھا کر “ یعنی ماں کی کمزوری پر بچے کی کمزوری ۔ ایک قوال کے مطابق اس کے ذریعہ مشقت کی شدت بیان کی گئی ہے جو عورت کو حمل کے دوران اٹھانی پڑتی ہے : (و فصالہ فی عامین) اور دو برس میں اس کادودھ چھوٹتا ہے۔ یعنی دو برس کے اختتام تک ایک اور ایٓت میں ذکر ہے (وحملہ وفصالہ ثلثون شھرا اور حمل اور دودھ چھوٹنے کی مدت تیس مہینے ہے) ان دونوں آیتوں سے یہ بات حاصل ہوئی کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔ حمل کی کم سے کم مدت کے بارے میں حضرت ابن عباس (رض) نے اس سے استدلال کیا تھا۔ تمام اہل علم کا اس پر اتفاق ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے انسان یعنی سعد بن ابی وقاص کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کی کیونکہ اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری اور سختی پر سختی اور مشقت پر مشقت اٹھا کر اس کو اپنے پیٹ میں رکھا کیونکہ جب بچہ پیٹ میں بڑا ہوتا جاتا ہے تو ماں کے لیے تکلیف اور کمزوری کا باعث ہوتا جاتا ہے اور پھر دو برس میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے۔ لہٰذا تو میری عبادت و فرمانبرداری کے ساتھ میرا اور ماں باپ کی خدمت و فرمانبرداری کے ساتھ ان کا شکر ادا کیا کر۔- میری ہی طرف تجھے اور تیرے والدین کو لوٹ کر آنا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ ج) ” - یعنی والدین کے بارے میں حسن سلوک کی تاکیدی ہدایت کی۔ پھر والدین میں سے بھی والدہ کے حق کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ‘ کیونکہ بچوں کی پیدائش اور پرورش کے سلسلے میں زیادہ مشقت اور تکلیف والدہ ہی کو برداشت کرنا پڑتی ہے۔- (وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ ) ” - پہلے نو ماہ تک بچہ ماں کے پیٹ میں رہ کر جونک کی طرح اس کا خون چوستا رہا اور پھر پیدائش کے بعد دو سال تک مسلسل اس کے جسم کی توانائیاں دودھ کی شکل میں نچوڑتا رہا۔- ( اِلَیَّ الْمَصِیْرُ ) ” - اب اللہ تعالیٰ اور والدین کے حقوق میں توازن کے سلسلے میں جو وضاحت اگلی آیت میں آرہی ہے وہ ہم سورة العنکبوت کی آیت ٨ میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ اس سے ان دونوں سورتوں کے مضامین میں مشابہت اور مناسبت کی نشان دہی بھی ہوتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :22 یہاں سے پیراگراف کے آخر تک کی پوری عبارت ایک جملۂ معترضہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے لقمان کے قول کی تشریح مزید کے لیے ارشاد فرمایا ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :23 ان الفاظ سے امام شافعی ، امام احمد ، امام ابو یوسف اور امام محمد نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بچے کی مدت رضاعت دو سال ہے ۔ اس مدت کے اندر اگر کسی بچے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تب تو حرمت رضاعت ثابت ہو گی ، ورنہ بعد کی کسی رضاعت کا کوئی لحاظ نہ کیا جائے گا ۔ امام مالک سے بھی ایک روایت اسی قول کے حق میں ہے لیکن امام ابو حنیفہ نے مزید احتیاط کی خاطر ڈھائی سال کی مدت تجویز کی ہے ، اور اس کے ساتھ ہی امام صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر دو سال یا اس سے کم مدت میں بچے کا دودھ چھڑا دیا گیا ہو اور اپنی غذا کے لیے بچہ دودھ کا محتاج نہ رہا ہو تو اس کے بعد کسی عورت کا دودھ پی لینے سے کوئی حرمت ثابت نہ ہو گی ۔ البتہ اگر بچے کی اصل غذا دودھ ہی ہو تو دوسری غذا تھوڑی بہت کھانے کے باوجود اس زمانے کی رضاعت سے حرمت ثابت ہو جائے گی ۔ اس لیے کہ آیت کا منشا یہ نہیں ہے کہ بچے کو لازماً دو سال ہی دودھ پلایا جائے ۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ مائیں بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں اس شخص کے لئے جو رضاعت پوری کرانا چاہتا ہو ( آیت۲۳۳ ) ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اور اہل علم نے اس پر ان سے اتفاق کیا ہے کہ حمل کی قلیل ترین مدت چھ ماہ ہے ، اس لیے کہ قرآن میں ایک دوسری جگہ فرمایا ہے وَحَمْلُہ وَفِصٰلُہ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کا دودھ چھوٹنا ۳۰ مہینوں میں ہوا ۔ ( الاحقاف ، آیت ۱۵ ) ۔ یہ ایک اہم قانونی نکتہ ہے جو جائز اور ناجائز ولادت کی بہت سی بحثوں کا فیصلہ کر دیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: یہ حضرت لقمان کی نصیحتوں کے درمیان ایک جملہ معترضہ ہے جو اس مناسبت سے لایا گیا ہے کہ حضرت لقمان تو اپنے بیٹے کو شرک سے بچنے اور توحید کا عقیدہ رکھنے کی تاکید کررہے تھے، دوسری طرف مکہ مکرمہ کے بعض مشرکین، جو حضرت لقمان کو ایک دانش مند شخص سمجھتے تھے، جب ان کی اولاد نے توحید کا عقیدہ اختیار کیا تو وہ انہیں دوبارہ شرک اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے، اور اولاد پریشان تھی کہ وہ ان ماں باپ کے ساتھ کیا سلوک کرے، اللہ تعالیٰ نے پہلے تو یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم نے ہی انسان کو یہ تاکید کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے والدین کا بھی شکر ادا کرے، کیونکہ اگرچہ اسے پیدا تو اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ؛ لیکن ظاہری اسباب میں والدین ہی اس کا سبب بنے ہیں، پھر والدین میں سے بھی خاص طور پر ماں کی مشقتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ کتنی محنت سے اس نے بچے کو پیٹ میں اٹھائے رکھا، اور دوسال تک اسے دودھ پلایا، اور بچے کی پرورش میں دودھ پلانے کا زمانہ ماں کے لئے سب سے زیادہ محنت کا ہوتا ہے، اس لئے ماں بطور خاص اولاد کی طرف سے اچھے سلوک کی مستحق ہے، لیکن اس اچھے سلوک کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اپنے دین اور عقیدے کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے کے بجائے ماں باپ کا حکم ماننا شروع کردے، اسی لئے اس آیت میں والدین کا شکر ادا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنا شکر ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے ؛ کیونکہ والدین تو صرف ایک ذریعہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی پرورش کے لئے پیدا کردیا ہے، ورنہ خالق حقیقی تو خود اللہ تعالیٰ ہیں، لہذا ایک ذریعے کی اہمیت کو خالق حقیقی کی اہمیت سے بڑھایا نہیں جاسکتا۔