1 7 1اقامۃ صلوۃ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور مصائب پر صبر کا اس لئے ذکر کیا کہ یہ تینوں اہم ترین عبادات اور امور خیر کی بنیاد ہیں۔ 1 7 2یعنی مذکورہ باتیں ان کاموں میں سے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے اور بندوں پر انھیں فرض قرار دیا ہے۔ یا یہ ترغیب ہے عزم و ہمت پیدا کرنے کی کیونکہ عزم و ہمت کے بغیر اطاعت مذکورہ عمل ممکن نہیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک ذالِکَ کا مرجع صبر ہے۔ اس سے پہلے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وصیت ہے اور اس راہ میں شدائد و مصائب اور طعن و ملامت ناگزیر ہے، اس لئے اس کے فوراً بعد صبر کی تلقین کرکے واضح کردیا کہ صبر کا دامن تھامے رکھنا کہ یہ عزم و ہمت کے کاموں میں سے ہے اور اہل عزم و ہمت کا ایک بڑا ہتھیار، اس کے بغیر فریضہ تبلیغ کی ادائیگی ممکن نہیں۔
[٢٣] یعنی نماز کی ہمیشگی کے ساتھ باجماعت ادا کرتے رہنا یہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ یہ کام باہمت لوگوں کا کام ہے۔ اسی طرح اچھے کاموں کا حکم دینا اور لوگوں کو برے کاموں سے روکتے رہنا بھی عام لوگوں کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ بھی صاحب عزم لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ اس سے یہ بھی از خود معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ دوسروں کو اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے رکنے کا فریضہ سرانجام دیں انھیں لامحالہ لوگوں کی طرف سے ایذائیں پہنچیں گی۔ کیونکہ یہ پیغمبروں کا اسوہ ہے اور اسی لئے پیغمبروں کو لوگ ستاتے اور دکھ پہنچاتے تھے۔ اسی لئے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اس راہ میں اگر مجھے دکھ اور ایذا پہنچے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کر اور یہ کہ مصائب پر صبر کرنا بھی کوئی معمولی کام نہیں۔ صاحب عزم و ہمت ہی یہ تینوں کام بجا لاسکتے ہیں۔
يٰبُنَيَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بالْمَعْرُوْفِ ۔۔ : لقمان (علیہ السلام) نے بنیادی عقائد کی وصیت کے بعد بیٹے کو بنیادی احکام کی وصیت فرمائی۔ جن میں سب سے اول اور سب سے اہم نماز کی اقامت ہے، جس میں اس کو وقت پر صحیح طریقے اور خشوع و اطمینان کے ساتھ باجماعت ادا کرنا سب کچھ شامل ہے۔ دوسری چیز لوگوں کو نیکی کا حکم دینا اور تیسری چیز برائی سے منع کرنا ہے، کیونکہ سب لوگ دنیا میں آخرت کے سفر پر ہیں۔ اگر کوئی شخص ساتھیوں کا خیال نہیں رکھے گا اور انھیں ساتھ لے کر چلنے کی کوشش نہیں کرے گا تو وہ اسے بھی لے بیٹھیں گے اور وہ منزل پر پہنچنے سے محروم رہے گا۔ اسی طرح اس سفر میں سب لوگ ایک جہاز پر سوار ہیں، اگر اس میں سوراخ کرنے والوں کو روکا نہیں جائے گا تو جہاز کے ڈوبنے کے ساتھ سب ڈوب جائیں گے۔ واضح رہے کہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا دو الگ الگ حکم ہیں اور دونوں پر عمل ضروری ہے۔ جس کا بلند ترین درجہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلام کے کوہان کی چوٹی قرار دیا ہے۔- 3 اقامت صلاۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حکم میں ان تینوں کا علم حاصل کرنا خود بخود شامل ہے، کیونکہ یہ مسلّم قاعدہ ہے : ” مَا لَا یَتِمُّ الْوَاجِبُ إِلَّا بِہِ فَھُوَ وَاجِبٌ“ ” جن چیزوں کے بغیر واجب پوری طرح ادا نہیں ہوتا وہ بھی واجب ہیں۔ “ معروف و منکر کے صحیح علم کے بغیر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہوئے عین ممکن ہے کہ کوئی شخص کتاب و سنت اور معروف کی دعوت کے بجائے شرک و بدعت اور خرافات و منکرات کی اشاعت کرتا پھرے، جیسا کہ آج کل بہت سے لوگوں کا یہی حال ہے۔ اس طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے دعوت کا اسلوب، اس کے لیے ضروری حکمت، موعظہ حسنہ، نرمی اور برداشت سیکھنا اور اختیار کرنا بھی لازم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ برائی کو روکنے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری اور اس کے لیے مطلوب قوت، گھوڑے اور سواریاں تیار رکھنا بھی لازم ہے۔ غرض لقمان (علیہ السلام) کی اس نصیحت میں اگرچہ نمایاں طور پر نماز کا ذکر آیا ہے، کیونکہ ایمان کے بعد وہ سب سے اہم فریضہ ہے، مگر معروف اور منکر کے ضمن میں پورا اسلام، اس کا علم حاصل کرنا اور اسے آگے پہنچانا سب کچھ آگیا ہے۔ - وَاصْبِرْ عَلٰي مَآ اَصَابَكَ : اگرچہ معروف کے ضمن میں اس کا ذکر آچکا ہے، تاہم اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے الگ بھی ذکر فرمایا۔ اس میں دو چیزیں شامل ہیں، پہلی یہ کہ اقامت صلاۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض کی ادائیگی میں پیش آنے والی ہر مصیبت پر صبر کرنا۔ اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو شخص بھی یہ کام کرے گا اس پر مصیبتوں نے آنا ہی آنا ہے۔ جنّ و انس کے شیاطین ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑجائیں گے اور اسے ہر قسم کی اذیتوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ سو اس پر لازم ہے کہ صبر سے کام لے۔ دوسری چیز یہ کہ دنیا کی زندگی آزمائشوں اور مصیبتوں سے بھری ہوئی ہے، راحت اور آرام صرف جنت میں حاصل ہوگا۔ اس لیے مومن پر لازم ہے کہ اس قید خانے کی ہر تکلیف اور آزمائش پر صبر کرے اور اپنے رب کا شکوہ کرنے کے بجائے اس پر راضی رہے۔- اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْر : ” عَزْم “ مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، جو اپنے موصوف کی طرف مضاف ہے : ” أَيْ الْأُمُوْرُ الْمَعْزُوْمَۃُ “ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ ” عزم “ کا معنی ” واجب کرنا “ ہے، یعنی یہ چاروں ایسے کاموں میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب اور فرض کیے گئے ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے : ( إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی رُخَصُہُ ، کَمَا یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی عَزَاءِمُہُ ) [ صحیح ابن حبان : ٣٥٤، عن ابن عباس (رض) و صححہ شعیب الأرنؤوط ] ” اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں پر عمل کیا جائے، جس طرح وہ پسند کرتا ہے کہ اس کے فرائض پر عمل کیا جائے۔ “ اشرف الحواشی میں ہے : ” دوسرا مطلب اس کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا یہ کام بڑے عزم و ہمت کا کام ہے، کم ہمت لوگوں کے بس میں نہیں کہ اس کی سختیاں جھیل سکیں۔ اس لیے اپنے اندر عزم و ہمت پیدا کر۔ “
تیسری وصیت لقمانی متعلقہ اصلاح عمل :- اعمال واجبہ تو بہت ہیں مگر ان سب میں سب سے بڑا اور اہم عمل نماز ہے، اور خود اہم ہونے کے ساتھ وہ دوسرے اعمال کی درستی کا ذریعہ بھی ہے۔ جیسا کہ نماز کے بارے میں ارشاد ربانی ہے۔ (آیت) ان الصلوٰة تنھی عن الفحشاء والمنکر، اس لئے اعمال صالحہ واجبہ میں سے نماز کے ذکر پر اکتفا فرمایا یبنی اقیم الصلوٰة، یعنی اے میرے بیٹے نماز کو قائم کرو۔ اور جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ اقامت صلوٰة کا مفہوم صرف نماز پڑھ لینا نہیں بلکہ اس کے تمام ارکان و آداب کو پوری طرح بجا لانا، اس کے اوقات کی پابندی کرنا اور اس پر مداومت کرنا سب اقامت صلوٰة کے مفہوم میں داخل ہیں۔- چوتھی وصیت لقمانی متعلقہ اصلاح خلق :- اسلام ایک اجتماعی دین ہے فرد کی اصلاح کے ساتھ جماعت کی اصلاح اس کے نظام کا اہم جزو ہے۔ اس لئے نماز جیسے اہم فریضہ کے ساتھ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ذکر فرمایا گیا کہ لوگوں کو نیک کاموں کی دعوت دو اور برے کاموں سے روکو، وامر بالمعروف وانہ عن المنکر یہ دو فریضے ہیں ایک اپنی اصلاح اور دوسرا عام مخلوق کی اصلاح۔ دونوں ایسے ہیں کہ دونوں کی پابندی میں خاصی مشقت و محنت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اس پر ثابت قدم رہنا آسان نہیں، خصوصاً اصلاح خلق کے لئے امر بالمعروف کی خدمت کا صلہ دنیا میں ہمیشہ عداوتوں اور مخالفتوں سے ملا کرتا ہے۔ اس لئے وصیت کے ساتھ ہی یہ وصیت بھی فرمائی کہ (آیت) واصبر علیٰ ما اصابک ان ذلک من عزم الامور، یعنی ان کاموں میں تمہیں جو کچھ تکلیف پیش آئے اس پر صبر وثبات سے کام لو۔
يٰبُنَيَّ اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلٰي مَآ اَصَابَكَ ٠ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ١٧ۚ- اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً- [ الفرقان 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ- «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ- [هود 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ- [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] ، إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء 114] ، وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 241] ، أي : بالاقتصاد والإحسان، وقوله : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] ، وقوله : قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة 263] ، أي : ردّ بالجمیل ودعاء خير من صدقة كذلك، والعُرْفُ : المَعْرُوفُ من الإحسان، وقال : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ- [ الأعراف 199] . وعُرْفُ الفرسِ والدّيك مَعْرُوفٌ ، وجاء القطا عُرْفاً. أي : متتابعة . قال تعالی: وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء 114] ہاں ( اس شخص کی مشاورت اچھی ہوسکتی ہے ) جو خیرات یا نیک بات ۔۔۔ کہے ۔ وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 241] اور مطلقہ کو بھی دستور کے مطابق نان ونفقہ دینا چاہیے ۔ یعنی اعتدال اور احسان کے ساتھ ۔ نیز فرمایا : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] تو یا تو ان کی اچھی طرح سے زوجیت میں رہنے دو اور اچھی طرح سے علیحدہ کردو ۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة 263] نرم بات اور درگذر کرنا صدقہ سے بہتر ہے ۔ یعنی نرم جواب دے کر لوٹا دینا اور فقیر کے لئے دعا کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس پر احسان جتلایا جائے ۔ العرف : وہ نیک بات جس کی اچھائی کو سب تسلیم کرتے ہوں قرآن پاک میں ہے : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ [ الأعراف 199] اور نیک کام کرنے کا حکم دو ۔ عرف الفرس گھوڑے کی ایال عرف الدیک : مرغی کی کلغی جاء القطاعرفا : قطار جانور آگے پیچھے یکے بعد دیگرے آئے اسی سے قرآن پاک میں ہے : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] ہواؤں کی قسم جو متواتر چلتی ہیں ۔- مُنْكَرُ- والمُنْكَرُ : كلُّ فِعْلٍ تحكُم العقولُ الصحیحةُ بقُبْحِهِ ، أو تتوقَّفُ في استقباحِهِ واستحسانه العقولُ ، فتحکم بقبحه الشّريعة، وإلى ذلک قصد بقوله : الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] ، كانُوا لا يَتَناهَوْنَ عَنْ مُنكَرٍ فَعَلُوهُ [ المائدة 79] ، وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وَتَأْتُونَ فِي نادِيكُمُ الْمُنْكَرَ [ العنکبوت 29] وتَنْكِيرُ الشَّيْءِ من حيثُ المعنی جعْلُه بحیث لا يُعْرَفُ. قال تعالی: نَكِّرُوا لَها عَرْشَها[ النمل 41] وتعریفُه جعْلُه بحیث يُعْرَفُ.- اور المنکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقول سلیمہ قبیح خیال کریں یا عقل کو اس کے حسن وقبیح میں تو قف ہو مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو ۔ چناچہ آیات : ۔ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے ۔ كانُوا لا يَتَناهَوْنَ عَنْ مُنكَرٍ فَعَلُوهُ [ المائدة 79] اور برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے ۔ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَتَأْتُونَ فِي نادِيكُمُ الْمُنْكَرَ [ العنکبوت 29] اور اپنی مجلسوں میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو ۔ تنکر الشئی کے معنی کسی چیز بےپہچان کردینے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ نَكِّرُوا لَها عَرْشَها[ النمل 41] اس کے تخت کی صورت بد ل دو ۔ - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] ، قال :- الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل .- مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔- عزم - العَزْمُ والعَزِيمَةُ : عقد القلب علی إمضاء الأمر، يقال : عَزَمْتُ الأمرَ ، وعَزَمْتُ عليه، واعْتَزَمْتُ. قال : فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران 159] ، وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة 235] ، وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة 227] ، إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری 43] ، وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ، أي : محافظة علی ما أمر به وعَزِيمَةً علی القیام . والعَزِيمَةُ : تعویذ، كأنّه تصوّر أنّك قد عقدت بها علی الشّيطان أن يمضي إرادته فيك . وجمعها : العَزَائِمُ.- ( ع ز م ) العزم - والعزیمۃ کسی کام کو قطعی اور حتمی طور پر کرنے کا ارادہ کرنا عزمت الامر وعزمت علیہ واعتزمت میں نے اس کام کو قطعی طور پر کرنے کا ارادہ کرلیا قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران 159] جب کسی کام کا عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو ۔ وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة 235] اور نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا ۔ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة 227] اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیں إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری 43] بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں ۔ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ پایا ۔ یعنی جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا اسکی حفاظت کرنے اور اسے بجا لانے میں ثابت قدم نہ پایا ۔ العزیمۃ ایک قسم کا گنڈہ اور تعویز جس میں اس خیال سے گر ہیں لگائی جاتی تھیں کہ گویا شیطان کو ایزا رسانی سے روک دیا گیا ہے عزیمۃ کی جمع عذایم آتی ہے ۔
امر بالمعروف نہی عن المنکر ، عزیمت کا کام ہے - قول باری ہے : (یا بنی اقم الصلوٰۃ وامر بالمعروف واتہ عن المنکر واصبر علی ما اصابک) اے میرے بیٹے نماز کو قائم رکھ اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کر اور برے کاموں سے منع کیا کر اور جو کچھ پیش آئے اس پر صبر کیا کر۔ یعنی…واللہ اعلم…امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے کے سلسلے میں لوگوں کے ہاتھوں جو تکلیفیں اٹھانی پڑیں ان پر صبر کر۔ ظاہر آیت صبر کے وجوب کا مقتضی ہے خواہ جان کا خطرہ کیوں نہ ہو، تاہم اللہ تعالیٰ نے دوسری آیات میں جن کا ہم نے ذکر کردیا ہے جان کے خطرے کی حالت میں تقیہ کرلینے کی رخصت عطا کردی ہے۔ درج بالا آیت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے وجوب کی مقتضی ہے۔
اے بیٹا نماز پڑھا کرو اور توحید اور نیکی کا حکم دیا کرو اور شرک اور بری باتوں اور برے کاموں سے روکا کرو اور جو کچھ مصیبت آئے اس پر صبر کیا کرو کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور صبر یہ بلند ہمتی کے کاموں سے ہیں۔
آیت ١٧ (یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ) ” - نماز اللہ کے ذکر کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ نماز کی اقامت یا پابندی سے مقصود بنیادی طور پر یہی ہے کہ اللہ پر ایمان کی کیفیت کو ہر وقت مستحضر رکھا جائے ‘ ورنہ انسان کا نفس اسے غلط راستے پر ڈال دے گا اور شیطان اسے ورغلانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ سورة العنکبوت کی آیت ٤٥ میں نماز کا مقصد یہی بتایا گیا ہے کہ یہ غلط کاموں سے روکتی ہے : (اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَط اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ ط) ” تلاوت کرتے رہا کریں اس کی جو وحی کی گئی ہے آپ کی طرف کتاب میں سے اور نماز قائم کریں ‘ یقیناً نماز روکتی ہے بےحیائی سے اور برے کاموں سے “۔ چناچہ حضرت لقمان کی نصیحت کا مفہوم یہ ہے کہ بیٹا اللہ کو محض پہچان لینا ہی کافی نہیں بلکہ اسے ہر وقت یاد رکھنا بھی ضروری ہے ‘ ورنہ انسان کا سیدھے راستے سے بھٹکنے کا اندیشہ ہر وقت رہے گا۔ اب ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ حضرت لقمان کے ہاں نماز کی کیا صورت تھی مگر مراد اس سے یہی ہے کہ انسان کو اپنے شب و روز میں کوئی ایسا معمول ضرور اپنانا چاہیے جس سے اللہ کو ہر وقت یاد رکھا جائے۔- (وَاْمُرْ بالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ ) ” - یہ ان کی چوتھی نصیحت ہے۔ دراصل یہ انسان کی انسانیت ‘ اس کی شرافت اور مروّت کا نا گزیر تقاضا ہے کہ وہ اپنے ابنائے جنس کی بھلائی کے لیے حسب استطاعت کوشاں رہے۔ انسانیت کی سب سے بڑی خدمت جو کوئی انسان سر انجام دے سکتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ معاشرے میں رہتے ہوئے بھلائی کا پرچار کرے اور برائیوں سے لوگوں کو روکے۔- (وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ ط) ” - یہ گویا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عمل کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ اس لیے کہ حق ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے ‘ اپنے اعمال اور رویے ّ پر تنقید کسی کو بھی پسند نہیں۔ چناچہ جب آپ حق کی بات کریں گے ‘ لوگوں کے غلط طرز عمل پر تنقید کریں گے ‘ کسی کو برائی سے رک جانے کی نصیحت کریں گے ‘ تو لوگ آپ کو برا بھلا بھی کہیں گے اور آپ پر کیچڑ بھی اچھالنے کی کوشش کریں گے۔ حتیٰ کہ وہ آپ کی جان کے درپے بھی ہوجائیں گے۔ اس لیے اگر آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علم بلند کر کے حق کا راستہ اپنانا ہے تو پھر آپ کو صبر کرنا بھی سیکھنا ہوگا اور مشکل سے مشکل حالات میں استقامت کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا۔- (اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ) ” - غور کریں تو حضرت لقمان کی ان چارنصیحتوں میں وہی چار باتیں ایک دوسرے انداز میں بیان ہوئی ہیں جن کا ذکر سورة العصر میں آیا ہے۔ سورة العصر میں یہ باتیں یوں بیان ہوئی ہیں : (اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بالْحَقِّج وَتَوَاصَوْا بالصَّبْرِ ) ” سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ‘ انہوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی “۔ سورة العصر میں مذکور ان چار نکات یعنی ایمان ‘ اعمال صالحہ ‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا اگر حضرت لقمان کی نصائح کے مندرجات سے تقابل کریں تو ” ایمان “ کی جگہ حضرت لقمان نے توحید کا ذکر کیا ہے ‘ اعمال صالحہ میں سے نماز اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر ہے۔ تواصی بالحق کی جگہ انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی نصیحت کی ہے جبکہ ” صبر “ کا ذکر دونوں جگہ پر ہی موجود ہے۔ گویا دونوں مقامات پر استعمال ہونے والی اصطلاحات اگرچہ مختلف ہیں لیکن مضمون ایک ہی ہے۔
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :29 اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ جو شخص بھی نیکی کا حکم دینے اور بدی سے روکنے کا کام کرے گا اس پر مصائب کا نزول ناگزیر ہے ۔ دنیا لازماً ایسے شخص کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ جاتی ہے اور اسے ہر قسم کی اذیتوں سے سابقہ پیش آ کر رہتا ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :30 دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بڑے حوصلے کا کام ہے ۔ اصلاح خلق کے لیے اٹھنا اور اس کی مشکلات کو انگیز کرنا کم ہمت لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے ۔ یہ ان کاموں میں سے ہے جن کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے ۔