Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181یعنی تکبر نہ کر کہ لوگوں کو حقیر سمجھے اور جب وہ تجھ سے ہم کلام ہوں تو ان سے منہ پھیر لے۔ یا گفتگو کے وقت اپنا منہ پھیرے رکھے؛ صعر ایک بیماری ہے جو اونٹ کے سر یا گردن میں ہوتی ہے، جس سے اس کی گردن مڑ جاتی ہے، یہاں بطور تکبر منہ پھیر لینے کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے (ابن کثیر) 182یعنی ایسی چال یا رویہ جس سے مال ودولت یا جاہ و منصب یا قوت و طاقت کی وجہ سے فخر و غرور کا اظہار ہوتا ہو، یہ اللہ کو ناپسند ہے، اس لیے کہ انسان ایک بندہ عاجز وحقیر ہے، اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی وانکساری ہی اختیار کیے رکھے اس سے تجاوز کر کے بڑائی کا اظہار نہ کرے کہ بڑائی صرف اللہ ہی کے لیے زیبا ہے جو تمام اختیارات کا مالک اور تمام خوبیوں کا منبع ہے۔ اسی لیے حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا۔ جو تکبر کے طور پر اپنے کپڑے کو گھسیٹتے ہوئے چلے اللہ اس کی طرف قیامت والے دن نہیں دیکھے گا۔ تاہم تکبر کا اظہار کیے بغیر اللہ کے انعامات کا ذکر یا اچھا لباس اور خوراک وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] گال پھلا پھلا کر باتیں کرنا اور اکڑ اکڑ چلنا یہ سب خود پسندوں اور متکبروں کی ادائیں ہیں۔ متکبر لوگوں کی گفتگو سے، وضع قطع سے، چال ڈھال سے غرضیکہ ان کی ایک ایک ادا سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شخص اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلہ میں بہت کچھ سمجھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں کی ایک ایک حرکت سخت ناگوار ہے (مزید تشریح کے لئے دیکھئے سورة بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٣٧ کا حاشیہ نمبر ٤٧ اور سورة الفرقان کی آیت نمبر ٦٣ کا حاشیہ نمبر ٨٠)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ للنَّاسِ : ” صَعَرٌ“ اونٹ کو لگنے والی ایک بیماری، جس سے وہ اپنی گردن ایک طرف پھیرے رکھتا ہے۔ اس سے باب ” تفعیل “ تکلف کے لیے ہے۔ یعنی تکلف سے ایک طرف منہ پھیرے رکھنا۔ یہ انداز حقارت کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عمرو بن حُنَیّ تغلبی نے اپنے بعض بادشاہوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ؂- وَ کُنَّا إِذَا الْجَبَّارُ صَعَّرَ خَدَّہُ- أَقَمْنَا لَہُ مِنْ مَیْلِہِ فَتَقَوَّمَا - ” اور ہم ایسے تھے کہ جب کسی جبار نے اپنا رخسار ٹیڑھا کیا، تو ہم نے اس کی ٹیڑھ سیدھی کردی، سو تو بھی سیدھا ہوجا۔ “ [ فَتَقَوَّمَا امر کا صیغہ ہے (ابوعبید) اور آخر میں الف اشباع کے لیے ہے ]- 3 احکام کی وصیت کے بعد لقمان (علیہ السلام) نے چند آداب و اخلاق کی وصیت فرمائی، فرمایا لوگوں کے لیے اپنا رخسار ٹیڑھا نہ رکھ، یعنی انھیں حقیر سمجھ کر ایسا نہ کر جیسے متکبر اور مغرور لوگ کرتے ہیں، بلکہ تواضع اور نرمی اختیار کر، جیسا کہ عقل مند لوگوں کا شیوہ ہے۔ تحقیر کے اس انداز سے منع کرنے میں زبان یا ہاتھ کے ساتھ کسی کی تحقیر سے منع کرنا بالاولیٰ شامل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے فرمایا : (فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ ) [ بني إسرائیل : ٢٣ ] ” ماں باپ کو ” اُف “ نہ کہو۔ “ مراد کسی بھی طرح تکلیف پہنچانے سے منع کرنا ہے۔- وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا : یہاں ایک سوال ہے کہ چلا زمین ہی پر جاتا ہے، پھر خاص طور پر اس کا ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ تمام لوگوں کی طرح اس زمین سے تمہاری پیدائش ہے، اسی میں تم نے دفن ہونا ہے اور دوسرے تمام لوگ بھی اسی زمین پر چل رہے ہیں، پھر تمہارا دوسروں کو حقیر اور اپنے آپ کو ان سے برتر سمجھنا اور اکڑ کر چلنا تمہیں کس طرح زیب دیتا ہے ؟ (واللہ اعلم) سورة بنی اسرائیل (٣٧) میں یہ مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔- اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة نساء (٣٦) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پانچویں وصیت لقمانی متعلقہ آداب معاشرت :- (آیت) ولا تصعر خدک للناس، لاتصعر، صعر سے مشتق ہے جو اونٹ کی ایک بیماری ہے جس سے اس کی گردن مڑ جاتی ہے، جیسے انسانوں میں لقوہ معروف بیماری ہے جس سے چہرہ ٹیڑھا ہوجاتا ہے، مراد اس سے رخ پھیرلینا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی ملاقات اور گفتگو میں ان سے منہ پھیر کر گفتگو نہ کرو جو ان سے اعراض کرنے اور تکبر کرنے کی علامت ہے اور اخلاق شریفانہ کے خلاف ہے۔- (آیت) ولا تمش فی الارض مرحاً ، مرح اکڑ کر، اترا کر چلنا ہے۔ معنی یہ ہیں کہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے سارے عناصر سے پست افتادہ بنایا ہے تم اسی سے پیدا ہوئے اسی پر چلتے پھرتے ہو اپنی حقیقت کو پہچانو اترا کر نہ چلو جو متکبرین کا طریقہ ہے۔ اسی لئے اس کے بعد فرمایا (آیت) ان اللہ لا یحب کل مختال فخور، ” یعنی اللہ نہیں پسند کرتا کسی متکبر فخر کرنے والے کو “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ۝ ١٨ۚ - صعر - الصَّعَرُ : ميل في العنق، والتَّصْعِيرُ : إمالته عن النّظر کبرا، قال تعالی: وَلا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ- [ لقمان 18] ، وكلّ صعب يقال له : مُصْعَرٌ ، والظَّليم أَصْعَرُ خلقةً «3» .- ( ص ع ر ) الصعر کے اصل معنی گردن میں کجی کے ہیں ۔ اور تصعیر کے معنی ہیں تکبر کی وجہ سے گردن کو ٹیڑھا کرنا اور اعراض پر تنا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ [ لقمان 18] اور ( تکبر کی بنا پر ) لوگوں سے روگردانی نہ کرو ۔ اور ہر مشکل امر کو مصعر کہا جاتا ہے شتر مرغ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ پیدائشی طور پر اصعر یعنی کج گردن ہوتا ہے ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - مشی - المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ- [ البقرة 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها .- ( م ش ی ) المشی - ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ مشی کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔- مرح - المَرَحُ : شدّة الفرح والتّوسّع فيه، قال تعالی: وَلا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً- [ الإسراء 37] وقرئ : ( مَرِحاً ) «3» أي : فَرِحاً ، ومَرْحَى: كلمة تعجّب .- ( م ر ح ) المرح - کے معنی ہیں بہت زیادہ اور شدت کی خوشی جس میں انسان اترانے لگ جائے قرآن میں ہے : وَلا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً [ الإسراء 37] اور زمین پر اکڑا کر ( اور اٹھلاکر ) مت چل ۔ اس میں ایک قرآت مرحا بمعنی فرحا بھی ہے ۔ مرحی یہ کلمہ تعجب ہے ( اور احسنت یا اصبت کی جگہ استعمال ہوتا ہے ) یعنی خوب کیا کہنے ہیں ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - خيل - الخَيَال : أصله الصّورة المجرّدة کالصّورة المتصوّرة في المنام، وفي المرآة وفي القلب بعید غيبوبة المرئيّ ، ثم تستعمل في صورة كلّ أمر متصوّر، وفي كلّ شخص دقیق يجري مجری الخیال، والتّخييل : تصویر خيال الشیء في النّفس، والتّخيّل : تصوّر ذلك، وخلت بمعنی ظننت، يقال اعتبارا بتصوّر خيال المظنون . ويقال خَيَّلَتِ السّماءُ : أبدت خيالا للمطر، وفلان مَخِيل بکذا، أي : خلیق . وحقیقته : أنه مظهر خيال ذلك . والخُيَلَاء : التّكبّر عن تخيّل فضیلة تراءت للإنسان من نفسه، ومنها يتأوّل لفظ الخیل لما قيل : إنه لا يركب أحد فرسا إلّا وجد في نفسه نخوة، والْخَيْلُ في الأصل اسم للأفراس والفرسان جمیعا، وعلی ذلک قوله تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال 60] ، ويستعمل في كلّ واحد منهما منفردا نحو ما روي : (يا خيل اللہ اركبي) فهذا للفرسان، وقوله عليه السلام : «عفوت لکم عن صدقة الخیل» يعني الأفراس . والأخيل :- الشّقراق لکونه متلوّنا فيختال في كلّ وقت أنّ له لونا غير اللون الأوّل، ولذلک قيل :- كأبي براقش کلّ لو ... ن لونه يتخيّل - ( خ ی ل ) الخیال ۔ اس کے اصل معنی صورت مجردہ کے ہیں ۔ جیسے وہ صورت جو خواب یا آیئنے میں نظر آتی ہے یا کسی کی عدم موجودگی میں دل کے اندر اس کا تصور آتا ہے ۔ پھر ( مجازا ) ہر اس امر پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جس کا تصور کیا جائے اور ہر اس پتلے دبلے شخص کو خیال کہاجاتا ہے جو بمنزلہ خیال اور تصور کے ہو ۔ التخییل ( تفعیل ) کے معنی کسی کے نفس میں کسی چیز کا خیال یعنی تصور قائم کرنے کے ہیں اور التخیل کے معنی ازخود اس قسم کا تصور قائم کرلینے کے ہیں ۔ اور خلت بمعنی ظننت آتا ہے ۔ اس اعتبار سے کہ مظنون چیز بھی بمنزلہ خیال کے ہوتی ہے ۔ خیلت السماء آسمان میں بارش کا سماں نظر آنے لگا ۔ فلاں مخیل بکذا ۔ فلاں اس کا سزا اور ہے اصل میں اس کے معنی یہ ہیں کہ فلاں اس خیال کو ظاہر کرنے والا ہے ۔ الخیلاء ۔ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو ۔ اسی سے لفظ خیل لیا گیا ہے کیونکہ جو شخص گھوڑے پر سوار ہو وہ اپنے اندر بخت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل اندر نحوت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل کا لفظ گھوڑے اور سواروں دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال 60] اور گھوڑو ن کے تیار رکھنے سے اور کبھی ہر ایک پر انفراد بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے (122) یاخیل اللہ ارکبی ۔ ( اے اللہ کے سوا گھوڑے پر سوار ہوجا۔ تو یہاں خیل بمعنی فا رس کے ہے اور ایک حدیث میں ہے (123) عفوت لکم عن صدقۃ الخیل کہ میں نے تمہیں گھوڑوں کا صدقہ معاف کیا الاخیل ۔ شقرا ( ایک پرندہ ) کو کہاجاتا ہے کیونکہ وہ رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ اور ہر لحظہ یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ دوسرے رنگ کا ہے ۔ اس ی بناپر شاعر نے کہا ہے ( مجرد الکامل) (149) کا بی براقش کل لومن نہ یتخیل ابوبراقش کی طرح جو ہر آن نیا رنگ بدلتا ہے ۔- فخر - الفَخْرُ : المباهاة في الأشياء الخارجة عن الإنسان کالمال والجاه، ويقال : له الفَخَرُ ، ورجل فَاخِرٌ ، وفُخُورٌ ، وفَخِيرٌ ، علی التّكثير . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُورٍ [ لقمان 18] ، ويقال : فَخَرْتُ فلانا علی صاحبه أَفْخَرُهُ فَخْراً : حکمت له بفضل عليه، ويعبّر عن کلّ نفیس بِالْفَاخِرِ. يقال : ثوب فَاخِرٌ ، وناقة فَخُورٌ: عظیمة الضّرع، كثيرة الدّر، والفَخَّارُ :- الجرار، وذلک لصوته إذا نقر كأنما تصوّر بصورة من يكثر التَّفَاخُرَ. قال تعالی: مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن 14] .- ( ف خ ر ) الفخر ( ن ) کے معنی ان چیزوں پر اترانے کے ہیں جو انسان کے ذاتی جوہر سے خارج ہوں مثلا مال وجاہ وغیرہ اور اسے فحر ( بفتح الخا ) بھی کہتے ہیں اوت فخر کرنے والے کو فاخر کہا جاتا ہے اور فخور وفخیر صیغہ مبالغہ ہیں یعنی بہت زیادہ اترانے والا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُورٍ [ لقمان 18] کہ خدا کسی اترانے والے کو خود پسند کو پسند نہیں کرتا ۔ فخرت فلان علٰی صاحبہ افخرہ فخرا ایک یکو دوسرے پر فضیلت دینا اور ہر نفیس چیز کو فاخر کہا جاتا ہے چوب فاخر قیمتی کپڑا اور جس اونٹنی کے تھن تو بڑے بڑے ہوں مگر دودھ بہت کم دے اسے فخور کہتے ہیں ۔ الفخار منکوں کو کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ٹھوکا لگانے سے اس طرح زور سے بولتے ہیں جیسے کوئی کوئی بہت زیادہ فخر کررہا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن 14] ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مغرورانہ انداز میں گفتگو نہ کی جائے - قول باری ہے : (ولا تصعر خدک للناس) اور لوگوں سے اپنا رخ مت پھیرو۔ حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد کا قول ہے کہ آیت کے معنی ہیں۔” غرور کی بنا پر اپنا رخ لوگوں سے نہ پھیرو۔ “ ابراہیم نخعی کا قول ہے اس سے تشدق مراد ہے یعنی باچھیں کھولنا۔ یہ معنی بھی پہلے معنی کی طرف راجع ہے کیونکہ باچھیں پھیلا کر باتیں کرنے والا متکبر ہوتا ہے۔ ایک کے مطابق صعر دراصل ایک بیماری کا نام ہے جو اونٹوں کے سروں اور گردنوں میں پیدا ہوجاتی ہے اور ان کے چہروں اور گردتوں کو ٹیڑھا رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ اس شخص کو تشبیہ دی گئی ہے جو لوگوں سے اپنی گردن ٹیڑھی رکھتا ہے یعنی ان سے اپنا رخ پھیرے رکھتا ہے۔ شاعر کا شعر ہے :- وکنا اذا الجبار صعر خدہ - اقمنالہ من میلہ فتقوما - ہم تو ایسے لوگ ہیں کہ اگر کوئی مغرور ہمارے سامنے اپنی گردن ٹیڑھی کرتا تو ہم اس کی کجی دور کردیتے اور پھر وہ سیدھی ہوجاتی ۔ یعنی ہم اس کا غرور ختم کردیتے۔- غرور انسان کو زیب نہیں دیتا - قول باری ہے (والا تسمش فی الارض مرحبا۔ اور زمین پر اکڑ کر مت چلو) مرح اترانے لوگوں کو حقارت کی نظروں سے دیکھنے اور انہیں ذلیل سمجھنے نیز خود پسندی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمادیا اس لئے کہ یہ حرکت صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو حقیقت سے آگاہ نہ ہو اور اسے اپنی ابتداء اور انتہا کی خبر نہ ہو۔ حسن بصری کا قول ہے کہ ابن آدم کیسے تکبر کرتا ہے حالانکہ اس کا خروج دودفعہ پیشاب کی راہ سے ہو رہا ہے۔- قول باری ہے (ان اللہ لا یحب کل مختال دخور۔ بیشک اللہ تعالیٰ کسی تکبر کرنے والے فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا) مجاہد کا قول ہے کہ مختال متکبر کو کہتے ہیں۔ فخور اس شخص کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر لوگوں کے سامنے ڈینگیں مارتا اور انہیں حقارت کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ اس کا یہ رویہ قابل مذمت ہوتا ہے کیونکہ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکرادا کرنا چاہیے نہ کہ ان نعمتوں کو اس کی نافرمانی کا ذریعہ بنایا جائے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ” میں اولاد آدم کا سردار ہوں لیکن میں اس پر فخر کا اظہار نہیں کرتا۔ “ آپ نے یہ بتادیا کہ اولاد آدم کے سردار ہونے کی بات کا ذکر شکر کے طور پر ہوا تھا اظہار فخر کے طور پر نہیں ہوا تھا۔ جس طرح یہ قول باری ہے (واما بنعمۃ ربک فحدث اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرو) ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور تکبر اور بڑائی میں لوگوں سے اپنا رخ مت پھیر یا یہ کہ غریب مسلمانوں کو کمتر مت سمجھ اور زمین پر بڑائی کے ساتھ مغرور ہو کر مت چل۔- بیشک اللہ تعالیٰ کبھی تکبر کرنے والے اور نعمت خداوندی پر فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ للنَّاسِ ) ” - یعنی لوگوں سے بےرخی اور غرور وتکبر کی روش مت اختیار کرو ۔- (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ ) ” - لفظی اعتبار سے مُخْتَال کا تعلق خیل (گھوڑے) سے ہے۔ گھوڑے کی چال میں ایک خاص تمکنت اور غرور کا انداز پایا جاتا ہے۔ چناچہ جب انسان اپنی چال کے انداز میں گھوڑے کے سے غرور و تمکنت کا مظاہرہ کرتا ہے تو گویا وہ مُخْتَالبن جاتا ہے۔ یہی مضمون اس سے پہلے سورة بنی اسرائیل میں اس طرح بیان ہوا ہے : (وَلاَ تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاج اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلاً ) ” اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو ‘ تم نہ تو زمین کو پھاڑ سکو گے اور نہ ہی پہنچ سکو گے پہاڑوں تک اونچائی میں “۔۔ اور اب آخری نصیحت :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :31 اصل الفاظ ہیں لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ ۔ صَعَر عربی زبان میں ایک بیماری کو کہتے ہیں جو اونٹ کی گردن میں ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے اونٹ اپنا منہ ہر وقت ایک ہی طرف پھیرے رکھتا ہے ۔ اس سے محاورہ نکلا فلان صعّر خدّہ ، فلاں شخص نے اونٹ کی طرح اپنا کلا پھیر لیا یعنی تکبر کے ساتھ پیش آیا اور منہ پھیر کر بات کی ۔ اسی کے متعلق قبیلۂ تغلب کا ایک شاعر عمرو بن حی کہتا ہے ، وکنّا اذا الجبار صَعَّر خَدَّ ٭ اقمنَا لہ من میْلہ فتقوّ مَا ہم ایسے تھے کہ جب کبھی کسی جبار نے ہم سے بات کی تو ہم نے اس کی ٹیڑھ ایسی نکالی کہ وہ سیدھا ہو گیا ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :32 اصل الفاظ ہیں مختال اور فخور ۔ مختال کے معنی ہیں وہ شخص جو اپنی دانست میں اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتا ہو ۔ اور فخور اس کو کہتے ہیں جو اپنی بڑائی کا دوسروں پر اظہار کرے ۔ آدمی چال میں اکڑ اور اتراہٹ اور تبختر کی شان لازماً اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کے دماغ میں تکبر کی ہوا بھر جاتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو اپنی بڑائی محسوس کرائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani