Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

191یعنی چال اتنی سست نہ ہو جیسے کوئی بیمار ہو اور نہ اتنی تیز ہو کہ شرف و وقار کے خلاف ہو۔ اسی کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا (يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا) 25 ۔ الفرقان :63) اللہ کے بندے زمین پر وقار اور سکونت کے ساتھ چلتے ہیں۔ 192یعنی چیخ یا چلا کر بات نہ کر، اس لئے کہ زیادہ اونچی آواز سے بات کرنا پسندیدہ ہوتا تو گدھے کی آواز سب سے اچھی سمجھی جاتی لیکن ایسا نہیں، بلکہ گدھے کی آواز سب سے بدتر اور بری ہے۔ اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے پناہ مانگو (بخاری، کتاب بدء الخلق اور مسلم وغیرہ)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥] بعض دفعہ ضرورت کی وجہ سے انسان کو بلند آواز سے پکارنا پڑتا ہے۔ مثلاً دو چار آدمی آس پاس بیٹھے ہوں تو پست آواز سے کام چل جاتا ہے۔ مگر زیادہ آدمیوں کو بات سنانا مقصود ہو یا کوئی شخص خطاب کر رہا ہو اذان دیتے وقت انسان کو بلند آواز نکالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پست آواز سے کام ہی نہیں چلتا۔ ایسے مواقع پر بلند آواز سے بات کرنا یا خطاب کرنا ہرگز مذموم نہیں ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ استاد کو اپنے شاگرد کو سرزنش کرنے یا ڈانٹنے کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت بھی اگر وہ آواز پست اور نرم لہجہ رکھے گا تو شاگرد پر خاک بھی اثر نہ ہوگا۔ مذموم چیز یہ ہے کہ کوئی شخص از راہ تکبر دوسروں پر دھونس جمانے اور انھیں ذلیل یا مرعوب کرنے کے لئے یہ تکلیف گلا پھاڑے یا چلا کر بات کرے۔ اس غرض سے جب کوئی چلا چلا کر بولتا ہے تو بسا اوقات آواز بےڈھنگی اور بےسری ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ کہ اگر یہ بھی کوئی خوبی کی بات ہوتی تو یہ کام تو گدھے تم سے اچھا کرسکتے ہیں۔ حالانکہ ان کی آواز سے سب نفرت کرتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ : اکڑ کر چلنے سے منع کیا تو ممکن تھا کہ اس پر عمل کرتے ہوئے کوئی انتہائی کمزور اور مریل چال اختیار کرتا، اس لیے چال میں میانہ روی کا حکم دیا، جس سے نہ تکبر کا اظہار ہوتا ہو نہ کمزوری کا۔ مزید دیکھیے سورة فرقان (٦٣) ۔- وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ : ” مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” اور اپنی آواز کچھ نیچی رکھ۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ بلا ضرورت اونچی آواز سے نہیں بولنا چاہیے، کیونکہ یہ وقار کے خلاف ہے اور چلا کر بولنے سے سننے والے کو تکلیف ہوتی ہے۔ بولتے وقت اپنی آواز کسی قدر پست رکھنی چاہیے، نہ اتنی کہ سننے والے سن یا سمجھ ہی نہ سکیں۔- اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْر : یعنی بلا ضرورت اونچی آواز سے بولنے اور چیخنے کی مثال گدھے کی آواز جیسی ہے اور تمام آوازوں سے بری آواز گدھے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہنمیوں کے چیخنے چلانے کی آوازوں کو ” زَفِیْر “ اور ” شَھِیْقٌ“ (گدھے کی آواز) کہا ہے۔ (دیکھیے ہود : ١٠٦ ) کفار جب جہنم میں پھینکے جائیں گے تو اس کی خوف ناک آواز جو انھیں سنائی دے گی، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی ” شَھِیْقاً “ فرمایا ہے۔ (دیکھیے ملک : ٧ ) اس سے گدھے کی آواز کا شدید مکروہ ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ رازی نے یہاں ایک نکتہ بیان کیا ہے کہ ہر جانور جب بولتا ہے تو اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ تکان کی وجہ سے بول رہا ہے یا بوجھ سے یا خوف یا مار کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے، صرف گدھا ایسا جانور ہے جو کسی ضرورت کی وجہ سے نہیں بولتا، وہ نہ بوجھ کی وجہ سے بولتا ہے نہ مارنے سے، حتیٰ کہ اگر اسے جان سے مار دیا جائے تو بھی نہیں بولتا اور بولتا ہے تو بلاضرورت ہی بولتا چلا جاتا ہے۔ اس لیے اس کی آواز سب سے زیادہ بری لگنے کی ایک وجہ اس کی کرختگی اور شدت کے علاوہ یہ بھی ہے۔ “ (الکبیر) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گدھے کے رینکنے کی وجہ اس کا شیطان کو دیکھنا بیان فرمایا ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا سَمِعْتُمْ صِیَاح الدِّیَکَۃِ فَاسْأَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہِ فَإِنَّہَا رَأَتْ مَلَکًا، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَہِیْقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوْا باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ فَإِنَّہُ رَأَی شَیْطَانًا ) [ بخاري، بدء الخلق، باب خیر مال المسلم غنم ۔۔ : ٣٣٠٣ ] ” جب تم مرغوں کے چیخنے کی آواز سنو تو اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو، کیونکہ انھوں نے کوئی فرشتہ دیکھا ہے اور جب تم گدھے کے رینکنے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو، کیونکہ اس نے کوئی شیطان دیکھا ہے۔ “ یہ مثال دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم گدھے کی مشابہت اختیار مت کرو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَیْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ ، الَّذِيْ یَعُوْدُ فِيْ ہِبَتِہِ کَالْکَلْبِ یَرْجِعُ فِيْ قَیْءِہِ ) [ بخاري، الھبۃ، باب لا یحل لأحد أن یرجع في ھبتہ و صدقتہ : ٢٦٢٢، عن ابن عباس ]” بری مثال ہمارے لیے نہیں ہے (ہمیں اس کا مصداق نہیں بننا چاہیے) وہ شخص جو اپنے ہبہ کو واپس لیتا ہے، وہ کتے کی طرح ہے، جو اپنی قے چاٹ لیتا ہے۔ “- ” الْحَمِيْر “ ” حِمَارٌ“ کی جمع ہے۔ ابن عاشور لکھتے ہیں : ” قرآن مجید میں گدھے کے لیے جمع کا لفظ ” الْحَمِيْر “ آیا ہے، حالانکہ لفظ ” صَوْتٌ“ مفرد ہے۔ ” حِمَارٌ“ کا لفظ نہیں فرمایا، کیونکہ جس جمع پر جنس کا الف لام آجائے وہ مفرد و جمع کے لیے یکساں ہوتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جمع پر جنس کا الف لام آجائے تو وہ اس سے جمع ہونے کا مفہوم ختم کردیتا ہے۔ یہاں ” حِمَارٌ“ کے بجائے ” الْحَمِيْر “ کے لفظ کو اس لیے ترجیح دی گئی ہے، کیونکہ ” الْحَمِيْر “ کا لفظ آیات کے فواصل سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے، جیسا کہ اس سے پہلی اور بعد والی آیات کے فواصل کو دیکھنے سے ظاہر ہے، جو ” خبیر، الامور، فخور، منیر “ اور ” السعیر “ وغیرہ ہیں۔ “ (التحریر والتنویر) ہمارے بھائی حافظ عبداللہ رفیق صاحب (دار العلوم المحمدیہ لاہور) نے اس کی ایک اور دلچسپ توجیہ فرمائی ہے کہ گدھے اکٹھے مل کر رینکنا شروع کردیں تو ماحول بہت زیادہ خراب ہوجاتا ہے۔ یہاں لقمان (علیہ السلام) کی وصیتیں ختم ہوگئیں، آگے پھر توحید کے دلائل اور مشرکین کو ڈانٹ ڈپٹ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جس کے ساتھ سورت کی ابتدا ہوئی تھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) واقصد فی مشیک، یعنی اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو، نہ بہت دوڑ بھاگ کر چلو کہ وہ وقار کے خلاف ہے۔ حدیث میں ہے کہ چلنے میں بہت جلدی کرنا مومن کی رونق ضائع کردیتا ہے۔ (جامع صغیر عن ابی ہریرہ) اور اس طرح چلنے میں خود اپنے آپ کو یا کسی دوسرے کو تکلیف بھی پہنچنے کا خطرہ رہتا ہے، اور نہ بہت آہستہ چلو، جو یا تو ان تکبر اور تصنع کرنے والوں کی عادت ہے جو لوگوں پر اپنا امتیاز جتانا چاہتے ہیں، یا عورتوں کی عادت ہے جو شرم وحیا کی وجہ سے تیز نہیں چلتیں، یا پھر بیماروں کی عادت ہے جو اس پر مجبور ہیں۔ پہلی صورت حرام اور دوسری بھی اگر عورتوں کی مشابہت پیدا کرنے کے قصد سے ہو تو ناجائز ہے اور یہ قصد نہ ہو تو پھر مردوں کے لئے ایک عیب ہے۔ اور تیسری صورت میں اللہ کی ناشکری ہے، کہ تندرستی کے باوجود بیماروں کی ہئیت بنائے۔- حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ صحابہ کرام کو یہود کی طرح دوڑنے سے بھی منع کیا جاتا تھا اور نصاریٰ کی طرح بہت آہستہ چلنے سے بھی۔ اور حکم یہ تھا کہ ان دونوں چالوں کی درمیانی چال اختیار کرو۔ - حضرت عائشہ نے کسی شخص کو بہت آہستہ چلتے دیکھا جیسے ابھی مر جائے گا تو لوگوں سے پوچھا کہ یہ ایسے کیوں چلتا ہے ؟ لوگوں نے بتلایا کہ یہ قراء میں سے ہے۔ قراء قاری کی جمع ہے، اس زمانے میں قاری اس کو بھی کہا جاتا تھا جو تلاوت قرآن کی صحت و آداب کے ساتھ قرآن کا عالم بھی ہو۔ مطلب یہ تھا کہ یہ کوئی بڑا قاری عالم ہے، اس لئے ایسا چلتا ہے۔ اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا کہ عمر بن خطاب اس سے زیادہ قاری تھے، مگر ان کی عادت یہ تھی کہ جب چلتے تو تیز چلتے تھے (مراد تیزی نہیں جس کی ممانعت کی گئی ہے بلکہ اس کے بالمقابل تیزی ہے) اور جب وہ کلام کرتے تھے تو اس طرح کہ لوگ اچھی طرح سن لیں (ایسی پست آواز نہ ہوتی تھی کہ سننے والوں کو پوچھنا پڑے کہ کیا فرمایا) ۔- و اغضض من صوتک، ” یعنی آواز کو پست کرو “ مراد پست کرنے سے یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ بلند آواز نہ نکالو، اور شور نہ کرو۔ جیسا کہ ابھی حضرت فاروق اعظم کے متعلق گزرا کہ کلام ایسا کرتے تھے کہ حاضرین سن لیں، انہیں سننے میں تکلیف نہ ہو۔ - اس کے بعد فرمایا (آیت) ان انکرا الاصوات تصوف الحمیر، ” یعنی چوپاؤں میں سب سے زیادہ مکروہ آواز گدھے کی ہے جو بہت شور کرتا ہے۔ “- یہاں آداب معاشرت میں چار چیزیں ذکر کی گئی ہیں : اول لوگوں سے گفتگو اور ملاقات میں متکبرانہ انداز سے رخ پھیر کر بات کرنے کی ممانعت، دوسرے زمین پر اترا کر چلنے کی ممانعت، تیسرے درمیانی چال چلنے کی ہدایت، چوتھے بہت زور سے شور مچا کر بولنے کی ممانعت، حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عادات و شمائل میں یہ سب چیزیں جمع تھیں۔- شمائل ترمذی میں حضرت حسین فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد علی مرتضیٰ سے دریافت کیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب لوگوں کے ساتھ بیٹھتے تھے تو آپس میں آپ کا کیا طرز ہوتا تھا ؟ انہوں نے فرمایا :- ” کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ خوش و خرم معلوم ہوتے تھے، آپ کے اخلاق میں نرمی اور برتاؤ میں سہولت مندی تھی، آپ کی طبیعت سخت نہ تھی، بات بھی درشت نہ تھی، آپ نہ شور مچانے والے تھے نہ فحش گو تھے، نہ کسی کو عیب لگاتے تھے، نہ بخل کرتے تھے، جو چیز دل کو نہ بھاتی اس کی جانب سے غفلت برتتے تھے (مگر) دوسرے کو اس کی طرف سے ناامید بھی نہ کرتے تھے، (اگر حلال ہو اور اس کی رغبت ہو) اور جو چیز اپنی مرغوب نہ ہو دوسرے کے حق میں اس کی کاٹ نہ کرتے تھے (بلکہ خاموشی اختیار فرماتے تھے) تین چیزیں آپ نے بالکل چھوڑ رکھی تھیں، (١) جھگڑنا (٢) تکبر کرنا (٣) جو چیز کام کی نہ ہو اس میں مشغول ہونا۔ “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ۝ ٠ ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ۝ ١٩ۧ- قصد - القَصْدُ : استقامة الطریق، يقال : قَصَدْتُ قَصْدَهُ ، أي : نحوت نحوه، ومنه : الِاقْتِصَادُ ، والِاقْتِصَادُ علی ضربین : أحدهما محمود علی الإطلاق، وذلک فيما له طرفان : إفراط وتفریط کالجود، فإنه بين الإسراف والبخل، وکالشّجاعة فإنّها بين التّهوّر والجبن، ونحو ذلك، وعلی هذا قوله : وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ [ لقمان 19] وإلى هذا النحو من الاقتصاد أشار بقوله : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا «2» [ الفرقان 67] . والثاني يكنّى به عمّا يتردّد بين المحمود والمذموم، وهو فيما يقع بين محمود و مذموم، کالواقع بين العدل والجور، والقریب والبعید، وعلی ذلک قوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ [ فاطر 32] ، وقوله : وَسَفَراً قاصِداً [ التوبة 42] أي : سفرا متوسّط غير متناهي هي البعد، وربما فسّر بقریب . والحقیقة ما ذکرت، وأَقْصَدَ السّهم : أصاب وقتل مکانه، كأنه وجد قَصْدَهُ قال :- 368-- فأصاب قلبک غير أن لم تقصد - «3» وانْقَصَدَ الرّمحُ : انکسر، وتَقَصَّدَ : تكسّر، وقَصَدَ الرّمحَ : كسره، وناقة قَصِيدٌ: مکتنزة ممتلئة من اللّحم، والقَصِيدُ من الشّعر : ما تمّ شطر أبنیته «4» .- ( ق ص د ) القصد - ( ض ) راستہ کا سیدھا ہونا محاورہ ہ قصدث قصدہ میں اس کی طرف سیدھا گیا ۔ اسی سے اقتصاد ہے اوراقتصاد دوقسم ہر ہے (1) محمود عل الاطلاق جو افراط وتفریط کے درمیان میں ہو جیسے سخاوت جو اسراف اور بخل کے مابین کو کہتے ہیں اور شجاعت جو لاپرواہی اور بزدلی کے درمیانی درجہ کا نام ہے چناچہ اسی معنی کے لحاظ سے فرمایا : وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ [ لقمان 19] اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا ۔ اوراقتصادی کی اسی نوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا «2» [ الفرقان 67] یعنی اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم ۔ (2) قصد کا لفظ کنایہ کے طور پر ہر اس چیز پر بولاجاتا ہے جس کے محمود اور مذموم ہونے میں شبہ ہو یعنی جو نہ بالکل محمود اور بالکل مذموم بلکہ ان کے درمیان میں ہو ۔ مثلا ایک چیز عدلی وجور کے مابین ہو چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ [ فاطر 32] و کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں ۔ اسی طرح درمیانی مسافت پر بھی قصد کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ چناچہ آیت وَسَفَراً قاصِداً [ التوبة 42] اور سفر بھی ہلکا سا ہوتا ہے ۔ میں قاصد ا کے معنی معتدل سفر کے ہیں جو زیادہ دو ر کا نہ ہو اور بعض نے اس کا معنی سفر قریب لکھا ہے ۔ لیکن اصل معنی وہی ہیں جو ہم نے بیان کردیئے ہیں ۔ اقصد السھم تیر کا لگ کر فورا ہلاک کردینا ۔ گویا اس نے اپنے قصد کو پالیا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الکامل) (355) فاصاب قلبک غیرا ن لم یقصد وہ تیرے دل پر لگا لیکن اس نے قتل نہیں کیا انقصد الرمح کے معنی نیزہ ٹوٹ جانے کے ہیں اور تقصد بمعنی تکسر کے ہے ۔ قصد الرمح نیزہ تؤڑ دیا ۔ ناقۃ قصید گوشت سے گتھی ہوئی اونٹنی ۔ القصید کم ازکم سات اشعار کی نظم ۔- مشی - المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ- [ البقرة 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها .- ( م ش ی ) المشی - ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ مشی کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔- غض - الغَضُّ : النّقصان من الطّرف، والصّوت، وما في الإناء . يقال : غَضَّ وأَغَضَّ. قال تعالی:- قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ [ النور 30] ، وَقُلْ لِلْمُؤْمِناتِ يَغْضُضْنَ [ النور 31] ، وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ [ لقمان 19] ، وقول الشاعر : فَغُضَّ الطّرفَ إنّك من نمیر فعلی سبیل التّهكّم، وغَضَضْتُ السّقاء : نقصت ممّا فيه، والْغَضُّ : الطّريّ الذي لم يطل مكثه .- ( ع ض ض ) الغض ( ن ) کے معنی کمی کرنے کے ہیں خواہ نظر اور صور میں ہو یا کسی برتن میں سے کچھ کم کرنے کی صورت میں ہو قرآن میں ہے : ۔ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ [ النور 30] مومن مردوں سے کہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں ۔ وَقُلْ لِلْمُؤْمِناتِ يَغْضُضْنَ [ النور 31] اور مومن عورتوں سے بھی کہدو ( کہ اپنی نگاہیں ) نیچی رکھا کریں وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ [ لقمان 19] اور بولتے وقت ) آواز نیچی رکھنا ۔ اور شاعر کے قول ( 328 ) فغض الطرف انک من نمیر نگاہ نیچی رکھ تو بنی نمیر سے ہے ) میں غض کا لفظ بطور نہي کم استعمال ہوا ہے غضضت السقاء میں نے مشک سے پانی کم کردیا اور غض ایسی تر اور تازہ چیز کو کہتے ہیں جس پر ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو ۔- صوت - الصَّوْتُ : هو الهواء المنضغط عن قرع جسمین، وذلک ضربان : صَوْتٌ مجرّدٌ عن تنفّس بشیء کالصَّوْتِ الممتدّ ، وتنفّس بِصَوْتٍ ما .- والمتنفّس ضربان - : غير اختیاريّ : كما يكون من الجمادات ومن الحیوانات، واختیاريّ : كما يكون من الإنسان، وذلک ضربان : ضرب بالید کصَوْتِ العود وما يجري مجراه، وضرب بالفم .- والذي بالفم ضربان : نطق وغیر نطق، وغیر النّطق کصَوْتِ النّاي، والنّطق منه إما مفرد من الکلام، وإمّا مركّب، كأحد الأنواع من الکلام . قال تعالی: وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ لِلرَّحْمنِ فَلا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْساً [ طه 108] ، وقال : إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ [ لقمان 19] ، لا تَرْفَعُوا أَصْواتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِ [ الحجرات 2] ، و تخصیص الصَّوْتِ بالنّهي لکونه أعمّ من النّطق والکلام، ويجوز أنه خصّه لأنّ المکروه رفع الصَّوْتِ فوقه، لا رفع الکلام، ورجلٌ صَيِّتٌ: شدید الصَّوْتِ ، وصَائِتٌ: صائح، والصِّيتُ خُصَّ بالذّكر الحسن، وإن کان في الأصل انتشار الصَّوْتِ.- والإِنْصَاتُ :- هو الاستماع إليه مع ترک الکلام . قال تعالی: وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا [ الأعراف 204] ، وقال : يقال للإجابة إِنْصَاتٌ ، ولیس ذلک بشیء، فإنّ الإجابة تکون بعد الإِنْصَاتِ ، وإن استعمل فيه فذلک حثّ علی الاستماع لتمکّن الإجابة .- ( ص و ت ) الصوات - ( آواز ) اس ہوا کو کہتے ہیں جو وہ جسموں کے ٹکرانے سے منضغظ یعنی دب جائے اس کی دو قسمیں ہیں ( 1 ) وہ صورت جو ہر قسم کے تنفس سے خالی ہوتا ہے جیسے صورت جو ہر قسم کے تنفس سے خالی ہوتا ہے جیسے صورت ممتد ( 2 ) وہ صورت جو تنفس کے ساتھ ملا ہوتا ہے پھر صورت متنفس دو قسم پر ہے ایک غیر اختیاری جیسا کہ جمادات حیوانات سے سرز د ہوتا ہے ۔ - دو م اختیاری - جیسا کہ انسان سے صادر ہوتا ہے جو صورت انسان سے صادر ہوتا ہے پھر دو قسم پر ہے ایک وہ جو ہاتھ کی حرکت سے پیدا ہو جیسے عود ( ستار ) اور اس قسم کی دوسری چیزوں کی آواز ۔ دوم وہ جو منہ سے نکلتا ہے اس کی پھر دو قسمیں ہیں ایک وہ جو نطق کے ساتھ ہو دوم وہ جو بغیر نطق کے ہو جیسے نے یعنی بانسری کی آواز پھر نطق کی دو صورتیں ہیں ایک مفرد دوم مرکب جو کہ انواع کلام میں سے کسی ایک نوع پر مشتمل ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ لِلرَّحْمنِ فَلا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْساً [ طه 108] اور خدا کے سامنے آوازیں لسبت ہوجائیں گی تو تم آواز خفی کے سوا کوئی اور آواز نہ سنو گے إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ [ لقمان 19] ان انکر الا ضوات لصوات الحمیر کیوں کہ سب آوازوں سے بری آواز گدھوں کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَرْفَعُوا أَصْواتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِ [ الحجرات 2] اپنی آوازیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ نطق و کلام سے عام ہے اور ہوسکتا ہے کہ ممانعت کا تعلق صوت یعنی محض آواز کے ساتھ ہو نہ کہ بلند آؤاز کے ساتھ کلام کرنے سے نیز اس کی وجہ تخصیص یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آنحضرت کے آواز سے بلند آواز کرنے کی کراہت ظاہر کرنا مقصود ہو اور مطلق بلند آوازو الا آدمی رجل صائت چیخنے والا الصیت کے اصل منعی مشہور ہونے کے ہیں مگر استعمال میں اچھی شہرت کے ستاھ مخصوص ہوچکا ہے - الانصات - کے معنی چپ کر کے توجہ کے کسی کی بات سننا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا [ الأعراف 204] اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو بعض نے کیا ہے کہ انصات کے معنی جواب دینا بھی آتے ہیں لیکن یہ آیت نہیں ہے کیونکہ جواب تو انصات یعنی بات سننے کے بعد ہوتا ہے اور اگر اس معنی میں استعمال بھی ہو تو آیت میں اس امر پر تر غیب ہو کی کہ کان لگا کر سنوتا کہ اسے قبول کرنے پر قوت حاصل ہو ۔- نكر - الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ- [هود 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58]- وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- ( ن ک ر )- الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔ - حمر - الحِمَار : الحیوان المعروف، وجمعه حَمِير وأَحْمِرَة وحُمُر، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ [ النحل 8] ، ويعبّر عن الجاهل بذلک، کقوله تعالی: كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة 5] ، وقال تعالی: كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ [ المدثر 50] ، وحمار قبّان :- دويّبة، والحِمَارَان : حجران يجفّف عليهما الأقط «5» ، شبّه بالحمار في الهيئة، والمُحَمَّر :- الفرس الهجين المشبّه بلادته ببلادة الحمار .- والحُمْرَة في الألوان، وقیل : ( الأحمر والأسود) «1» للعجم والعرب اعتبارا بغالب ألوانهم، وربما قيل : حمراء العجان «2» ، والأحمران : اللحم والخمر «3» ، اعتبارا بلونيهما، والموت الأحمر أصله فيما يراق فيه الدم، وسنة حَمْرَاء : جدبة، للحمرة العارضة في الجوّ منها، وکذلک حَمَّارَة «4» القیظ : لشدّة حرّها، وقیل :- وِطَاءَة حَمْرَاء : إذا کانت جدیدة، ووطاءة دهماء : دارسة .- ( ح م ر ) الحمام ( گدھا ) اس کی حمر وحمیر واحمرتہ آتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ [ النحل 8] اور گھوڑے خچر اور گدھے ۔ کبھی حمار کے لفظ سے جاہل اور بےعلم آدمی بھی مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة 5] ان کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں ۔ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ [ المدثر 50] گویا گدھے ہیں جو بدک جاتے ہیں ۔ حمار قبان ایک قسم کا کیڑا ( جسے فارسی میں خرک کہا جاتا ہے ) الجمار ( ان دو پتھر جن پر پنیر خشک کیا جاتا ہے ہیئت میں حمار سے تشبیہ کے طور پر کہا جاتا ہے اور گدھے کے ساتھ جلاوت میں تشبیہ دیکر و غلی نسلی کے گھوڑے کو بھی المحمر کہا جاتا ہے الحمرۃ سرخی ۔ الاحمر الاسود ( عرب ) وعجم ( اس میں عمومی رنگت کا لحاظ کیا گیا ہے ) اور کبھی حمراء العجان ( کنایہ ازعجم ) بھی کہا جاتا ہے ۔ الاحمران ۔ گوشت اور شراب الموت الاحمر سخت موت ، وہ موت جو قبل راقع ہو سنۃ حمراء قحط سالی کیونکر اس میں فضا کا رنگ سرخ نظر آتا ہے اسی بنا پر سخت گرمی کو حمرۃ القیط کہا جاتا ہے ۔ وطاءۃ حمراء قدم کا تازہ نشان س کے بالمقابل مٹے ہوئے نسان کو وطاءۃ دھماء بولتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (واقصدفی مشیک ۔ اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو) یزید بن ابی حبیب نے کہا ہے کہ اس سے تیز رفتاری مراد ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یزید نے اس سے یہی مراد لی ہے کیونکہ تکبر کرنے والا شخص اپنی رفتار تیز نہیں رکھتا ہے۔ اس طرح چال میں سرعت تکبر اور غرور کے منافی ہوتی ہے ۔- چیخ چیخ کر بات کرنا بہت معیوب ہے - قول باری ہے (واغضض من صوتک ان انکر الاصوات لصوت الحمیر۔ اور اپنی آواز پست رکھو بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہوتی ہے) آیت میں آواز پست رکھنے کا حکم ہے اس لئے کہ یہ بات تواضع اور انکساری سے زیادہ قریب ہے جیسا کہ قول باری ہے (ان الذین یغضون اصواتھم عند رسول اللہ۔ وہ لوگ جو اللہ کے رسول کے سامنے اپنی آواز نچی رکھتے ہیں۔ )- لوگوں پر رعب ڈانے اور نہیں پست سمجھنے کی بنا پر آواز بلند کرنا قابل مذمت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس فعل کی قباحت واضح کردی ۔ نیز یہ بتادیا کہ یہ کوئی فضیلت کی بات نہیں ہے کیونکہ گدھے بھی اپنی آواز اونچی رکھتے ہیں حالانکہ ان کی یہ آواز سب سے بری آواز ہے۔- مجاہد نے (اتکرالاصوات) کی تفسیر اقبح الاصوات (قبیح ترین آواز) سے کی ہے جس طرح کہا جاتا ہے۔ ” ھذا وجد منکر “ (یہ توجیہ ناپسندیدہ ہے) یعنی قباحت کی بنا پر ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرما کر بندوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اپنی آواز بلند کرنے سے پرہیز کیا کریں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اپنی رفتار میں میانہ روی اور تواضع اختیار کرو اور اپنی آواز کو نیچا کرو۔ کیونکہ آوازوں میں سب سے بری اور بدترین آواز گدھے کی آواز ہوتی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ ) ” - یہ میانہ روی (اقتصاد) صرف ظاہری چال ہی میں نہیں بلکہ زندگی کی مجموعی ” چال “ میں بھی مطلوب ہے۔ خصوصی طور پر قرآن میں معیشت کی میانہ روی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ مثلاً سورة الفرقان میں بندۂ مومن کی پختہ ( ) اور متوازن شخصیت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے : (وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ۔ ) ” اور وہ لوگ کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ (ان کا معاملہ) اس کے بین بین معتدل ہوتا ہے۔ “ - (وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ ط) ” - خصوصی طور پر کسی بحث و تمحیص کے دوران اونچی آواز میں چیخنے کے بجائے ٹھوس دلیل کے ساتھ پر وقار انداز میں گفتگو کرو۔ کیونکہ عام طور پر بحث کرتے ہوئے آدمی اونچی آواز میں چیخ چیخ کر اس وقت بولتا ہے جب اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو۔ گویا وہ آواز کے زور سے اپنی دلیل کی کمی پوری کرنا چاہتا ہے۔- (اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ ) ” - خواہ مخواہ بلند آواز سے بولنے میں انسان کی کوئی بڑائی نہیں ہے۔ اس میں اگر کوئی بڑائی ہوتی تو اس کا سب سے زیادہ مستحق گدھا قرار پاتا جس کی آواز غیر معمولی طور پر بلند اور زور دار ہوتی ہے ‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گدھے کی آواز سب آوازوں سے زیادہ مکروہ اور ناپسندیدہ سمجھی جاتی ہے۔ چناچہ ایک معقول انسان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ گدھے کی طرح چلاّ چلا کر گفتگو کرے ‘ بلکہ بات چیت میں انسان کا بہتر طرز عمل یہی ہے کہ وہ تحمل سے گفتگو کرے اور گفتگو میں وزن پیدا کرنے کے لیے علمی و عقلی دلیل کا سہارا لے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :33 بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ تیز بھی نہ چل اور آہستہ بھی نہ چل ، بلکہ میانہ روی اختیار کر لیکن سیاق کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رفتار کی تیزی و سستی زیر بحث نہیں ہے ۔ آہستہ چلنا یا تیز چلنا اپنے اندر کوئی اخلاقی حسن و قبح نہیں رکھتا اور نہ اس کے لیے کوئی ضابطہ مقرر کیا جا سکتا ہے ۔ آدمی کو جلدی کا کوئی کام ہو تو تیز کیوں نہ چلے ۔ اور اگر وہ محض تفریحاً چل رہا ہو تو آخر آہستہ چلنے میں کیا قباحت ہے میانہ روی کا اگر کوئی معیار ہو بھی تو ہر حالت میں ہر شخص کے لیے اسے ایک قاعدۂ کلیہ کیسے بنایا جا سکتا ہے ۔ دراصل جو چیز یہاں مقصود ہے وہ تو نفس کی اس کیفیت کی اصلاح ہے جس کے اثر سے چال میں تبختر اور مسکینی کا ظہور ہوتا ہے ۔ بڑائی کا گھمنڈ اندر موجود ہو تو وہ لازماً ایک خاص طرز کی چال میں ڈھل کر ظاہر ہوتا ہے جسے دیکھ کر نہ صرف یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے بلکہ چال کی شان یہ تک بتا دیتی ہے کہ کس گھمنڈ میں مبتلا ہے ۔ دولت ، اقتدار ، حسن ، علم ، طاقت اور ایسی ہی دوسری جتنی چیزیں بھی انسان کے اندر تکبُّر پیدا کرتی ہیں ان میں سے ہر ایک کا گھمنڈ اس کی چال کا ایک مخصوص ٹائپ پیدا کر دیتا ہے ۔ اس کے برعکس چال میں مسکینی کا ظہور بھی کسی نہ کسی مذموم نفسی کیفیت کے اثر سے ہوتا ہے ۔ کبھی انسان کے نفس کا مخفی تکبُّر ایک نمائشی تواضع اور دکھاوے کی درویشی و خدا رسیدگی کا روپ دھار لیتا ہے اور یہ چیز اس کی چال میں نمایاں نظر آتی ہے ۔ اور کبھی انسان واقعی دنیا اور اس کے حالات سے شکست کھا کر اور اپنی نگاہ میں آپ حقیر ہو کر مریل چال چلنے لگتا ہے ۔ لقمان کی نصیحت کا منشا یہ ہے کہ اپنے نفس کی ان کیفیات کو دور کرو اور ایک سیدھے سادھے معقول اور شریف آدمی کی سی چال چلو جس میں نہ کوئی اینٹھ اور اکڑ ہو ، نہ مریل پن ، اور نہ ریا کارانہ زہد و انکسار ۔ صحابۂ کرام کا ذوق اس معاملہ میں جیسا کچھ تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایک شخص کو سر جھکائے ہوئے چلتے دیکھا تو پکار فرمایا سر اٹھا کر چل ، اسلام مریض نہیں ہے ۔ ایک اور شخص کو انہوں نے مریل چال چلتے دیکھا تو فرمایا ظالم ، ہمارے دین کو کیوں مارے ڈالتا ہے ۔ ان دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک دینداری کا منشا ہرگز یہ نہیں تھا کہ آدمی بیماروں کی طرح پھونک پھونک کر قدم رکھے اور خواہ مخواہ مسکین بنا چلا جائے ۔ کسی مسلمان کو ایسی چال چلتے دیکھ کر انہیں خطرہ ہوتا تھا کہ یہ چال دوسروں کے سامنے اسلام کی غلط نمائندگی کرے گی اور خود مسلمانوں کے اندر افسردگی پیدا کر دے گی ۔ ایسا ہی واقعہ حضرت عائشہ کو پیش آیا ۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب بہت مضمحل سے بنے ہوئے چل رہے ہیں ۔ پوچھا انہیں کیا ہو گیا ؟ عرض کیا گیا کہ یہ قرّاء میں سے ہیں ( یعنی قرآن پڑھنے پڑھانے والے اور تعلیم و عبادت میں مشغول رہنے والے ) ۔ اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا عمر سید القراء تھے ، مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب چلتے تو زور سے چلتے ، جب بولتے تو قوت کے ساتھ بولتے اور جب پیٹتے تو خوب پیٹتے تھے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، تفسیر سورۂ بنی اسرائیل ، حاشیہ ٤۳ ۔ تفسیر سورہ الفرقان ، حاشیہ ۷۹ ) سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :34 اس کا منشا یہ نہیں ہے کہ آدمی ہمیشہ آہستہ بولے اور کبھی زور سے بات نہ کرے ، بلکہ گدھے کی آواز سے تشبیہ دے کر واضح کردیا گیا ہے کہ مقصود کس طرح کے لہجے اور کس طرح کی آواز میں بات کرنے سے روکنا ہے ۔ لہجے اور آواز کی ایک پستی و بلندی اور سختی ونرمی تو وہ ہوتی ہے جو فطری اور حقیقی ضروریات کے لحاظ سے ہو ۔ مثلا قریب کے آدمی یا کم آدمیوں سے آپ مخاطب ہوں تو آہستہ بولیں گے ۔ دور کے آدمی سے بولنا ہو یا بہت سے لوگوں سے خطاب کرنا ہو تو لامحالہ زور ہی سے بولنا ہوگا ۔ ایسا ہی فرق لہجوں میں بھی موقع و محل کے لحاظ سے لازما ہوتا ہے ۔ تعریف کا لہجہ مذمت کے لہجے اور اظہار خوشنودی کا لجہ اظہار ناراضی کے لہجے سے مختلف ہی ہونا چاہیے ۔ یہ چیز کسی بھی درجہ میں قابل اعتراض نہیں ہے ۔ نہ لقمان کی نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس فرق کو مٹا کر بس ہمیشہ ایک ہی طرح نرم آواز اور پست لہجے میں بات کیا کرے ۔ قابل اعتراض جو چیز ہے وہ تکبر کا اظہار کرنے اور دھونس جمانے اور دوسرے کو ذلیل ومرعوب کرنے کے لیے گلا پھاڑنا اور گدھے کی سی آواز میں بولنا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: یعنی اِنسان کو درمیانی رفتار سے چلنا چاہئے، رفتار نہ اتنی تیز ہو کہ بھاگنے کے قریب پہنچ جائے اور نہ اتنی آہستہ کہ سُستی میں داخل ہوجائے۔ یہاں تک کہ جب کوئی شخص جماعت سے نماز پڑھنے جارہا ہو تو اُس کو بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھاگنے سے منع فرماکر وقار اور سکون کے ساتھ چلنے کی تاکید فرمائی ہے۔ 12: آواز آہستہ رکھنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ اِنسان اتنا آہستہ بولے کہ سننے والے کو دقت پیش آئے، بلکہ مراد یہ ہے کہ جن کو سنانا مقصود ہے، اُن تک تو آواز وضاحت کے ساتھ پہنچ جائے، لیکن اس سے زیادہ چیخ چیخ کر بولنا اسلامی آداب کے خلاف ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص درس دے رہا ہو، یا وعظ کررہا ہو، تو اس کی آواز اتنی ہی بلند ہونی چاہئے جتنی اس کے مخاطبوں کو سننے سمجھنے کے لئے ضرورت ہے، اُس سے زیادہ آواز بڑھانے کو بھی اس آیت کے تحت بزرگوں نے منع فرمایا ہے۔ اِس حکم پر خاص طور سے اُن حضرات کو غور کرنے کی ضرورت ہے جو بلا ضرورت لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرکے لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔