Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

انعام واکرام کی بارش اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی نعمتوں کا اظہار فرما رہا ہے کہ دیکھو آسمان کے ستارے تمہارے لئے کام میں مشغول ہیں چمک چمک کر تمہیں روشنی پہنچا رہے ہیں بادل بارش اولے خنکی سب تمہارے نفع کی چیزیں ہیں خود آسمان تمہارے لئے محفوظ اور مضبوط چھت ہے ۔ زمین کی نہریں چشمے دریا سمندر درخت کھیتی پھل یہ سب نعمتیں بھی اسی نے دے رکھی ہیں ۔ پھر ان ظاہری بیشمار نعمتوں کے علاوہ باطنی بیشمار نعمتیں بھی اسی نے تمہیں دے رکھی ہیں مثلا رسولوں کا بھیجنا کتابوں کانازل فرمانا شک وشبہ وغیرہ دلوں سے دور کرنا وغیرہ ۔ اتنی بڑی اور اتنی ساری نعمتیں جس نے دے رکھی ہیں حق یہ تھا کہ اس کی ذات پر سب کے سب ایمان لاتے لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ اب تک اللہ کے بارے میں یعنی اس کی توحید اور اس کے رسولوں کی رسالت کے بارے میں الجھ رہے ہیں اور محض جہالت سے ضلالت سے بغیر کسی سند اور دلیل کے اڑے ہوئے ہیں ۔ جب ان سے کہاجاتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ وحی کی اتباع کرو تو بڑی بےحیائی سے جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے اگلوں کی تقلید کریں گے گو ان کے باپ دادے محض بےعقل اور بےراہ شیطان کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے اور اس نے انہیں دوزخ کی راہ پر ڈال دیا تھا یہ تھے ان کے سلف اور یہ ہیں ان کے خلف ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

201تسخیر کا مطلب ہے انتفاع (فائدہ اٹھانا) جس کو یہاں کام سے لگا دیا سے تعبیر کیا گیا ہے جیسے آسمانی مخلوقْ ، چاند، سورج، ستارے وغیرہ ہیں، انھیں اللہ تعالیٰ نے ایسے ضابطوں کا پابند بنادیا ہے کہ یہ انسانوں کے لئے کام کر رہے ہیں اور انسان ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ دوسرا مطلب تسخیر کا تابع بنادینا ہے۔ چناچہ بہت سی زمینی مخلوق کو انسان کے تابع بنادیا گیا ہے جنہیں انسان اپنی حسب منشا استعمال کرتا ہے جیسے زمین اور حیوانات وغیرہ ہیں، گویا تسخیر کا مفہوم یہ ہوا کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں انسانوں کے فائدے کے لئے کام میں لگی ہوئی ہیں، چاہے وہ انسان کے تابع اور اس کے زیر اثر تصرف ہوں یا اس کے تصرف اور تابعیت سے بالا ہوں۔ (فتح القدیر) 202ظاہری سے وہ نعمتیں مراد ہیں جن کا ادراک عقل، حواس وغیرہ سے ممکن ہو اور باطنی نعمتیں وہ جن کا ادراک و احساس انسان کو نہیں۔ یہ دونوں قسم کی نعمتیں اتنی ہیں کہ انسان ان کو شمار بھی نہیں کرسکتا۔ 203یعنی اس کے باوجود لوگ اللہ کی بابت جھگڑتے ہیں، کوئی اس کے وجود کے بارے میں کوئی اس کے ساتھ شریک گرداننے میں اور کوئی اس کے احکام و شرائع کے بارے میں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٦] تسخیر کائنات کے دو مطلب ہیں ایک کہ کائنات کی ہر چیز انسان کی خادم ہے اور انسان مخدوم ہے۔ زمین، سمندر، پانی، ہوائیں، پہاڑ، چاند، سورج، ستارے یہی موٹی موٹی اشیائے کائنات گنی جاتی ہیں۔ ان کے انسان کا خادم ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اگر ان میں سے ایک چیز بھی نہ ہو تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ مگر انسان کے بغیر ان چیزوں میں سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ اور اس کا دورا مطلب یہ ہے کہ زمین میں جتنی بھی اشیاء موجود ہیں۔ خواہ وہ جمادات ہو یا نباتات ہو یا حیوانات ہوں اللہ نے انسان کو اتنی عقل عطا فرما دی ہے کہ وہ ان میں سے جس کو چاہے اپنے قابو میں لاسکتا ہے اور اس سے حسب ضرورت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ وہیں وہ چیزیں جن کا تعلق زمین سے نہیں مثلاً سورج، چاند، ستارے اور ہوائیں وغیرہ تو ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے قوانین بنا دیئے ہیں اور انھیں ایسے نظم و ضبط سے جکڑ رکھا ہے کہ انسان ان سے فائدے اٹھا سکتا ہے۔ اور اپنے معمولات زندگی اور کاروبار وغیرہ ٹھیک طرح سے سرانجام دے سکتا ہے۔ وہ مدتوں پہلے یہ معلوم کرسکتا ہے کہ سورج گرہن یا چاند گرہن کب لگے گا۔ بحر و بر کی تاریکیوں میں وقت اور راستے اور سمتیں معلوم کرسکتا ہے یعنی کہ ہزارہا سال بعد تک کے لئے تقویم بھی تیار کرسکتا ہے۔ اور نت نئی سے نئی ایجادات بھی وجود میں لاسکتا ہے اور یہی تسخیر کائنات کا مطلب ہے۔ تسخیر کائنات کا یہ منطلب ہرگز نہیں کہ انسان پہلے اپنی قریبی سیارہ چاند پر پہنچنے کی کوشش کرتے پھر دوسرے سیاروں پر پہنچنے میں اپنی قیمتی عمر برباد کرے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ : تو کار جہاں رانکو ساختی کہ باآسمان نیز پرداختی ؟- یعنی اس دنیا میں جو تیرے کرنے کے کام تھے کیا تو انھیں بخوبی سرانجام دے چکا ہے کہ اب تجھے آسمان پر اڑنے کی فکر پڑگئی ہے۔- [ ٢٧] ظاہری نعمتیں وہ ہیں جن کو ہم حواس خمسہ کے ذریعہ معلوم کرسکتے ہیں۔ اور ان کا تعلق ہماری مادی زندگی اور معاشیات وغیرہ سے ہے۔ اور یہ بھی لاتعداد ہیں۔ اور باطنی سے مراد وہ نعمتیں ہیں جن سے ہماری اخلاقی تربیت ہوتی ہے اور روح کا تزکیہ ہوتا ہے۔ اور یہ بھی لاتعداد اور ان کا ذریعہ معلومات وحی الٰہی ہے۔ پھر کچھ ایسی نعمتیں ہیں جن کا تعلق دونوں سے ہے۔ مثلاً آنکھ سے ہم دیکھتے ہیں یہ آنکھ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن قوت باصرہ کا علم اس سے علیحدہ چیز ہے اسی طرح انسان کی قوت سامعہ، قوت ہانسمہ، قوت متخیلہ، قوت رافعہ وغیرہ بیشمار قوتیں انسان کے جسم کے اندر کام کر رہی ہیں۔ اگر یہ ٹھیک کام کرتی رہیں تو انسان تندرست رہتا ہے اگر ان میں سے کسی ایک میں بھی گڑ بڑ ہوجائے تو انسان بیمار پڑجاتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ یہی وہ قسما قسم کی نعمتیں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرما دیا کہ اگر تم اللہ کی نعمتیں گننا چاہو بھی تو کبھی ان کو شمار نہ کرسکو گے (١٤: ٢٤، ١٦: ١٨)- [ ٢٨] یعنی اللہ کی ان گنت نعمتوں کے باوجود کچھ لوگ ایسے نمک حرام ہیں کہ اللہ کے بارے میں بحث کرنے لگتے ہیں کہ اللہ کی ذات موجود بھی ہے یا نہیں یا اس کی صفات اور قدرتوں میں جھگڑا کرنے لگتے ہیں۔ اس آیت کی تشریح کے لئے دیکھئے سورة حج کی آیت نمبر ٨ کا حاشیہ نمبر ٨)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ : ” اَلَمْ تَرَوْا “ کا معنی ” اَلَمْ تَعْلَمُوْا “ (کیا تم نے جانا) ہے، کیونکہ انسان نے آسمان و زمین کی ہر چیز کو اپنی آنکھوں سے اپنی خاطر مسخر شدہ نہیں دیکھا، مگر اس کے لیے دیکھنے کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا کہ یہ بات اتنی واضح ہے جیسے آنکھوں سے دیکھی ہوئی بات ہوتی ہے۔ (بقاعی) ” سخر لکم “ میں لام انتفاع کا ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” تمہاری خاطر مسخر کردیا “ کیونکہ چند چیزیں اگر انسان کے کسی حد تک تابع فرمان ہیں، جیسے چوپائے وغیرہ کہ انسان ان سے جس طرح چاہے فائدہ اٹھا سکتا ہے، تو بیشمار چیزیں ایسی ہیں جن پر انسان کا کوئی اختیار نہیں۔ انھیں انسان کی خاطر مسخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں پابند کردیا ہے کہ وہ سب اس کے فائدے اور خدمت کے لیے کام کریں، جیسے سورج، چاند، ستارے بلکہ فرشتے بھی جو اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ موذی جانور بھی آخر کار کسی نہ کسی طرح انسان کے فائدے کے لیے ہیں، حتیٰ کہ ابلیس بھی کہ وہ نہ ہوتا تو نہ آزمائش کا سلسلہ ہوتا، نہ اس میں کامیاب ہو کر انسان ہمیشہ کی جنت کا وارث بن سکتا۔ وہ لوگ اپنی حیثیت سے بہت بڑھ کر بولتے ہیں جو کہتے ہیں کہ آدمی سائنس کے ساتھ کائنات کو مسخر کرسکتا ہے۔ کائنات تو بہت دور کی بات ہے، یہ حضرات اپنے دل کی دھڑکن ہی کو مسخر کر کے دکھائیں، یا بچپن سے جوانی، پھر بڑھاپے کی منزلوں کو تابع فرمان بنا کردکھائیں، چلیں موت ہی کو مسخر کرلیں۔ : (كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ ۭ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا ) [ الکہف : ٥ ] ”(یہ بات) بولنے میں بڑی ہے، جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے، وہ سراسر جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ “ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کی دلیل ” خلق السموات بغیر عمد ترونھا :۔۔ “ بیان فرمائی تھی، اب زمین و آسمان کی ہر چیز کو انسان کے فائدے کے لیے مسخر کرنے کو اپنی توحید کی دلیل کے طور پر بیان فرمایا کہ سوچو اس خلق یا تسخیر میں تمہارے کسی معبود کا ذرہ برابر بھی دخل ہے ؟- وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً کھلی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جن کا انسان اپنے حواس سے مشاہدہ کرتا ہے، یا وہ عقل سے معلوم ہوتی ہیں، یا اسے کسی کے بتانے سے معلوم ہوتی ہیں اور چھپی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان کے جسم کے اندر یا باہر اس کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہیں، جن کا اسے شعور تک نہیں کہ اس کے پروردگار نے اس کے رزق، اس کی نشو و نما اور حفاظت کے لیے کیا کچھ سامان فراہم کر رکھا ہے۔ مثلاً انسان کھانا کھا کر فارغ ہوجاتا ہے، اسے کچھ خبر نہیں کہ اس کے اندر کتنی مشینیں اسے ہضم کرنے، جزو بدن بنانے اور اس کے فضلے کو خارج کرنے کے لیے پوری مستعدی کے ساتھ مصروف عمل ہوجاتی ہیں۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں جیسے جیسے تحقیق آگے بڑھتی جا رہی ہے اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتیں انسان کے سامنے بےنقاب ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ تو ہوئیں دنیوی اور مادی نعمتیں، دینی اور روحانی نعمتیں جو ظاہر اور پوشیدہ ہیں، وہ ان کے علاوہ ہیں اور ان سے کہیں زیادہ ہیں، جیسا کہ اسلام، قرآن، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اللہ تعالیٰ کی بےپایاں رحمت وغیرہ۔ رازی نے ” ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً “ کی ایک سادہ سی پُر لطف توجیہ کی ہے، وہ فرماتے ہیں : ” ظاہری نعمتوں سے مراد اعضائے انسانی کا سلامت ہونا ہے اور باطنی نعمتوں سے مراد وہ قوتیں ہیں جو ان اعضا میں ودیعت کی گئی ہیں۔ دیکھیے آنکھ، کان، ناک اور زبان سب چربی، گوشت، ہڈی اور پٹھوں سے بنے ہیں، جو صاف نظر آتے ہیں، مگر ان میں دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے اور بولنے کی قوتیں باطنی نعمتیں ہیں۔ بعض اوقات باطنی نعمت مثلاً بینائی، شنوائی ختم ہوجاتی ہے، جب کہ ظاہری عضو، مثلاً آنکھ یا کان سلامت رہتا ہے۔ یہی حال ہر عضو کا ہے۔ “ ۭ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ ۔۔ : یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو خلق، تسخیر اور دوسری بیشمار ظاہری و باطنی نعمتوں کے دلائل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ثابت ہو چکنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفات میں جھگڑتے اور بحثیں کرتے ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ موجود بھی ہے یا نہیں ؟ اور ہے تو ایک ہے یا اس کے ساتھ دوسرے بھی خدائی میں شریک ہیں ؟ اور اس کی صفات کیا ہیں ؟- بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ : علم حاصل کرنے کے تین مراتب ہیں، پہلا اپنی جدوجہد اور غور و فکر سے معلوم کرنا، دوسرا کسی علم والے سے رہنمائی حاصل کرلینا اور تیسرا کسی درست کتاب کے مطالعہ سے علم حاصل کرلینا۔ مشرکین کا حال یہ ہے کہ نہ ان کے پاس خود کوئی علم یا سمجھ بوجھ ہے جس کی بنا پر وہ حقیقت کو سمجھ سکیں، نہ انھیں کسی سچے راہ نما کی راہ نمائی حاصل ہے اور نہ ان کے پاس خود اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کوئی کتاب موجود ہے جس سے انھوں نے یہ عقیدہ اخذ کیا ہو۔ بلکہ علم کے تینوں ذرائع سے محرومی کے بعد ان کی کل کائنات تقلید آباء ہے اور وہ اندھا دھند ان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں۔- حافظ صاحبان یاد رکھیں کہ ” الم تروا “ قرآن مجید میں صرف دو جگہ آیا ہے، ایک اس آیت میں اور دوسرا سورة نوح میں : (اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا) [ نوح : ١٥ ] ان کے علاوہ ہر جگہ واحد کے صیغے کے ساتھ ”“ ہی آیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - کیا تم لوگوں کو (مشاہدہ دلائل سے) یہ بات معلوم نہیں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو (بواسطہ یا بلاواسطہ) تمہارے کام میں لگا رکھا ہے جو کچھ آسمانوں میں (موجود) ہیں اور جو کچھ زمین میں (موجود) ہیں اور اس نے تم پر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی پوری کر رکھی ہیں (ظاہری وہ کہ آنکھ کان وغیرہ سے معلوم ہوں اور باطنی وہ جو کہ عقل سے سمجھی جائیں، اور مراد نعمتوں سے وہ نعمتیں ہیں جو تسخیر سموات و ارض پر مرتب ہوتی ہیں پس اس سے سب مخاطبین کا مشرف باسلام ہونا لازم نہیں ہوتا) اور باوجودیکہ (اس دلیل سے توحید ثابت ہوتی ہے مگر) بعضے آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں (یعنی اس کی توحید میں) بدون واقفیت (یعنی علم ضروری) اور بدون دلیل (یعنی علم استدلال عقلی) اور بدون کسی روشن کتاب (یعنی علم استدلال نقلی) کے جھگڑا کرتے ہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز کا اتباع کرو جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے (یعنی حق کو ثابت کرنے والے دلائل میں غور کر کے ان کا اتباع کرو) تو (جواب میں) کہتے ہیں کہ (ہم اس کا اتباع) نہیں (کرتے) ہم (تو) اسی کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا ہے، (آگے ان پر رد ہے کہ) کیا اگر شیطان ان کے بڑوں کو عذاب دوزخ کی طرف (یعنی گمراہی کی طرف جو کہ سبب ہے عذاب دوزخ کا) بلاتا رہا ہو تب بھی (انہی کا اتباع کریں گے، مطلب یہ کہ ایسے معاند ہیں کہ باوجود اس کے کہ ان کی دلیل کی طرف بلایا جاتا ہے مگر پھر بھی بلا دلیل بلکہ خلاف دلیل محض گمراہ باپ دادا کی راہ پر چلتے ہیں یہ حالت تو اہل ضلالت کی ہوئی) اور جو شخص (حق کا اتباع کر کے) اپنا رخ اللہ کی طرف جھکا دے (یعنی فرمانبرداری اختیار کرے عقائد میں بھی اعمال میں بھی، مراد اسلام و توحید ہے) اور (اس کے ساتھ) وہ مخلص بھی ہو (یعنی محض ظاہری اسلام نہ ہو) تو اس نے بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا (یعنی وہ اس شخص کے مشابہ ہوگیا جو کہ کسی مضبوط رسی کا حلقہ ہاتھ میں تھام کر گرنے سے مامون رہتا ہے، اسی طرح یہ شخص ہلاکت و خسران سے محفوظ ہوگیا) اور آخر سب کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف پہنچے گا (پس یہ اعمال یعنی اتباع باطل و اتباع حق بھی اسی کے حضور میں پیش ہوں گے، پس وہ ہر ایک کو مناسب جزاء وسزا دے گا) اور جو شخص (حق کو ثابت کرنے والے دلائل کے باوجود) کفر کرے سو آپ کے لئے اس کا کفر باعث غم نہ ہونا چاہئے، (یعنی آپ غم نہ کریں) ان سب کو ہمارے ہی پاس لوٹنا ہے سو ہم ان سب کو جتلا دیں گے جو جو کچھ وہ (دنیا میں) کیا کرتے تھے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ کو (تو) دلوں کی باتیں (تک) خوب معلوم ہیں (تو ظاہری اعمال کا معاملہ ظاہر ہے، پس ہم سے کوئی امر مخفی نہیں سب جتلا دیں گے اور مناسب سزا دیں گے، اس لئے آپ کچھ غم نہ کریں اور یہ لوگ اگر محض چند روزہ عیش پر پھول رہے ہیں تو ان کی بڑی غلطی ہے، کیونکہ یہ دائمی نہیں بلکہ ہم ان کو چند روزہ عیش دیئے ہوئے ہیں پھر ان کو کشاں کشاں ایک سخت عذاب کی طرف لے آویں گے (پس اس پر ناز کرنا جہالت ہے) اور (ہم جس توحید کی طرف ان کو بلا رہے ہیں اس کے مقدمات کو خود یہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں، مگر اس سے صحیح نتیجہ تک پہنچنے کا کام نہیں لیتے چنانچہ) اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور یہی جواب دیں گے کہ اللہ نے (اس پر) آپ کہئے کہ الحمد للہ (جو مقدمہ مہتم بالشان تھا وہ تو تمہارے اعتراف سے ثابت ہوا اور دوسرا مقدمہ نہایت ہی ظاہر ہے کہ جو خود مخلوق و مصنوع ہو وہ مستحق عبادت نہیں پس مطلوب ثابت ہوگیا، مگر یہ لوگ مطلوب کو نہیں مانتے) بلکہ ان میں اکثر (تو مجموعہ مقدمات کو بھی) نہیں جانتے (چنانچہ دوسرے مقدمہ جلیہ کی طرف بھی توجہ نہیں کرتے کہ معبود ہونا صرف خالق کا حق ہے اور اللہ کی وہ شان ہے کہ) جو کچھ آسمان و زمین میں موجود ہے سب اللہ ہی کا (مملوک) ہے (پس سلطنت تو ان کی ایسی) اور بیشک اللہ تعالیٰ (خود اپنی ذات میں بھی) بےنیاز (اور) سب خوبیوں والا ہے (پس سزا دار الوہیت وہی ہے) اور (اس کی خوبیاں اس کثرت سے ہیں کہ) جتنے درخت زمین بھر میں ہیں اگر وہ سب قلم بن جائیں (یعنی متعارف قلم کے برابر ان کے اجزاء کے قلم بنا لئے جائیں اور ظاہر ہے کہ اس طرح ایک ایک درخت میں ہزاروں قلم تیار ہوں) اور یہ جو سمندر ہیں اس کے علاوہ سات سمندر (روشنائی کی جگہ) اس میں اور شامل ہوجائیں (اور پھر ان قلموں اور اس روشنائی سے حق تعالیٰ کے کمالات لکھنا شروع کریں) تو (سب قلم روشنائی ختم ہوجائیں اور) اللہ کی باتیں (یعنی وہ کلمات جن سے اللہ تعالیٰ کے کمالات کی حکایت ہوتی ہو) ختم نہ ہوں، بیشک اللہ تعالیٰ زبردست حکمت والا ہے (کہ وہ قدرت میں بھی کامل ہے اور علم میں بھی، اور یہ دونوں صفتیں چونکہ تمام صفات و افعال سے تعلق رکھتی ہیں، شاید اس لئے بعد عموم کے ان کو خصوصاً بیان فرما دیا اور اس کمال صنف قدرت کی ایک فرع عالم آخرت بھی ہے، جس کو بدفہم دشوار سمجھ رہے ہیں، حالانکہ وہ ایسا قادر ہے کہ) تم سب کا (پہلی بار) پیدا کرنا اور (دوسری بار) زندہ کرنا (اس کے نزدیک) بس ایسا ہی ہے جیسا ایک شخص کا (پیدا کرنا اور زندہ کرنا۔ گو یہاں مقصود قرینہ مقام سے بعث کا ذکر فرمانا ہے، لیکن ذکر خلق سے استدلال اور قوی ہوگیا ہے) بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتا اور سب کچھ دیکھتا ہے، (پس جو لوگ باوجود ان دلائل کے قیامت کا انکار کر رہے ہیں اور اس جرأت پر فسق و فجور کرتے ہیں ان سب کو سن رہا ہے دیکھ رہا ہے ان کو سزا دے گا، آگے پھر توحید کا بیان ہے، کہ) اے مخاطب کیا تجھ کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ رات (کے اجزاء) کو دن میں اور دن (کے اجزاء) کو رات میں داخل کردیتا ہے، اور اس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے کہ ہر ایک مقررہ وقت تک (یعنی قیامت تک) چلتا رہے گا اور (کیا تجھ کو) یہ (معلوم نہیں) کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب عملوں کی پوری خبر رکھتا ہے (پس اس کمال علمی و عقلی کا مقتضٰی یہ ہے کہ شرک چھوڑ دیا جائے اور اوپر جو ان افعال مذکورہ کا اختصاص حق تعالیٰ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے) یہ (اختصاص) اس سبب سے ہے کہ اللہ ہی ہستی میں کامل (اور واجب الوجود) ہے اور جن چیزوں کی اللہ کے سوا یہ لوگ عبادت کر رہے ہیں بلکہ ہی لچر ہیں اور اللہ ہی عالی شان اور (سب سے) بڑا ہے (اس لئے یہ سب تصرفات اسی کے لئے مختص ہیں، البتہ اگر دوسرے موجودات باطل اور فانی اور ممکن نہ ہوتے، بلکہ نعوذ باللہ کوئی اور بھی واجب الوجود ہوتا تو پھر یہ تصرفات حق تعالیٰ کے ساتھ مختص نہ ہوتے، چناچہ ظاہر ہے) ۔- اے مخاطب کیا تجھ کو (توحید کی) یہ (دلیل) معلوم نہیں کہ اللہ ہی کے فضل سے کشتی دریا میں چلتی ہے، تاکہ تم کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھلا دے (چنانچہ ہر ممکن کا وجود اپنے پیدا کرنے والے کے وجود کی دلیل ہے، اسی طور پر) اس میں (بھی قدرت کی) نشانیاں ہیں ہر ایسے شخص کے لئے جو صابر و شاکر ہو (مراد اس سے مومن ہے کہ صبر و شکر میں کامل ہونا اسی کی صفت ہے، نیز صبر و شکر محرک ہے تذکر و تدبر عالم کو اور استدلال کے لئے تذکر و تفکر ضروری ہے، اسی لئے یہ دونوں وصف یہاں مناسب ہوئے بالخصوص کشتی کی حالت کے اعتبار سے کہ موجوں کا اٹھنا محل صبر ہے، اور بسلامت کنارہ پر جا لگنا محل شکر ہے، پس جو لوگ ان سب واقعات میں فکر کرتے رہتے ہیں استدلال کی توفیق انہی کو ہوتی ہے) اور (جیسا اوپر آیت ولئن سالتھہم میں مقدمات دلیل کا اعتراف ان کفار کی طرف سے ثابت ہے، بعض اوقات خود نتیجہ دلیل یعنی توحید کا بھی اعتراف کرتے ہیں جس سے توحید خوب ہی واضح ہوگئی چنانچہ) جب ان لوگوں کو موجیں سائبانوں (یعنی بادلوں) کی طرح (محیط ہو کر) گھیر لیتی ہیں تو وہ خالص اعتقاد کر کے اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہیں، پھر جب ان کو نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے، سو بعضے تو ان میں اعتدال پر رہتے ہیں (یعنی کجی سڑک کو چھوڑ کر توحید کو جو کہ اعدل الطرق ہے اختیار کرلیتے ہیں) اور (بعضے پھر ہماری آیتوں کے منکر ہوجاتے ہیں اور) ہماری آیتوں کے بس وہی لوگ منکر ہوتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرے ہیں (کہ کشتی میں جو عہد توحید کا کیا تھا اس کو توڑ دیا اور خشکی میں آنے کا مقتضی تھا شکر کرنا اس کو چھوڑ دیا) ۔- معارف ومسائل - شروع سورة میں کفار و مشرکین کو اس پر تنبیہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کے علم محیط اور قدرت مطلقہ کے مظاہر دیکھنے کے باوجود یہ لوگ اپنے کفر و شرک پر مصر ہیں، اور ان کے بالمقابل اطاعت شعار مومنین کی مدح اور ان کے انجام خیر کا ذکر تھا۔ درمیان میں حضرت لقمان (علیہ السلام) کی وصایا کا ذکر بھی ایک حیثیت سے انہی مضامین کی تکمیل تھی۔ آیات مذکورہ میں حق تعالیٰ کے علم وقدرت کے محیط ہونے اور مخلوق پر اس کے انعامات و احسانات کا ذکر کر کے پھر توحید کی طرف دعوت ہے۔- سخرلکم ما فی السموٰت وما فی الارض، یعنی مسخر کردیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ان تمام چیزوں کو جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں۔ مسخر کرنے کے مشہور معنی کسی چیز کو کسی کے تابع فرمان بنا دینے کے ہیں۔ یہاں اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اول تو زمین کی سب چیزیں بھی انسان کے تابع فرمان نہیں بلکہ بہت سی چیزیں اس کے مزاج کے خلاف کام کرتی ہیں۔ خصوصاً جو چیزیں آسمانوں میں ہیں ان میں تو انسان کے تابع فرمان ہونے کا کوئی احتمال ہی نہیں۔ جواب یہ ہے کہ دراصل تسخیر کے معنی کسی چیز کو زبردستی کسی کام میں لگا دینا اور اس پر مجبور کردینا ہے۔ آسمان و زمین کی سب مخلوقات کو انسان کے لئے مسخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام مخلوقات کو انسان کی خدمت اور نفع رسانی میں لگا دیا۔ ان میں بہت سی چیزوں کو تو اس طرح خدمت میں لگایا کہ ان کو انسان کا تابع فرمان بھی بنادیا وہ جس وقت جس طرح چاہے ان کو استعمال کرتا ہے۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ ان کو انسان کے کام میں تو لگا دیا گیا ہے کہ وہ انسان کی خدمت میں لگی ہوتی ہیں، مگر بتقاضائے حکمت ربانی ان کو انسان کے تابع نہیں بنایا گیا، جیسا کہ آسمانی مخلوق اور سیارات اور برق و باراں وغیرہ، کہ ان کو انسان کے حکم کا تابع بنادیا جاتا تو انسانوں کی طبائع اور مزاجوں اور حالات کے اختلافات کا ان پر اثر پڑتا۔ ایک انسان چاہتا کہ آفتاب جلدی طلوع ہوجائے دوسرے کی ضرورت اس پر موقوف ہوتی کہ اس میں دیر لگے، ایک شخص بارش مانگتا دوسرا سفر میں ہے کھلے میدان میں ہے وہ چاہتا کہ بارش نہ ہو، تو یہ متضاد تقاضے آسمانی کائنات کے عمل میں تضاد اور خلل پیدا کرتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان سب چیزوں کو انسان کی خدمت میں لگا دیا مگر اس کا تابع حکم نہیں بنایا، یہ بھی ایک قسم کی تسخیر ہی ہے۔ واللہ اعلم۔- (آیت) واسبغ علیکم نعمہ ظاہرةً وباطنةً ، اسباغ کے معنی مکمل کرنے کے ہیں معنی یہ ہیں کہ مکمل کردیا اللہ تعالیٰ نے تم پر اپنی ظاہری نعمتوں کو اور باطنی نعمتوں کو۔ ظاہری نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان اپنے حواس خمسہ سے محسوس اور معلوم کرلیتا ہے، مثلاً حسن صورت، اعضائے انسانی کا اعتدال اور ہر عضو کو ایسے تناسب سے بنانا جو انسان کے عمل میں زیادہ سے زیادہ معین بھی ہو اور اس کی شکل و صورت کو بھی نہ بگاڑے۔ اسی طرح رزق مال و دولت، اسباب معیشت، تندرستی اور عافیت یہ سب ظاہری نعمتیں اور محسوس نعمتیں ہیں۔ اسی طرح دین اسلام کو سہل کردینا اور اللہ و رسول کی اطاعت کی توفیق ہونا اور اسلام کا دوسرے ادیان پر غالب آنا اور دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی مدد ہونا بھی انہی نعمائے ظاہرہ میں داخل ہیں۔ اور باطنی نعمتیں وہ ہیں جو انسان کے قلب سے متعلق ہوں، جیسے ایمان اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور علم و عقل، حسن اخلاق، گناہوں کی پردہ پوشی، اور جرائم پر فوری سزا نہ ملنا وغیرہ ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 12- اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّبَاطِنَۃً۝ ٠ ۭ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ۝ ٢٠- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- سبغ - درع سَابِغٌ: تامّ واسع . قال اللہ تعالی: أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ [ سبأ 11] ، وعنه استعیر إِسْبَاغُ الوضوء، وإسباغ النّعم قال : وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان 20] .- ( س ب غ ) درع سابغ پوری اور وسیع زرہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ [ سبأ 11] کہ کشادہ ( اور پوری پوری ) زرہیں بناؤ ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر اسباغ الوضوء ( پورا وضو کرنا ) اور اسباغ النعم ( پورا پورا انعام کرنا ) کا محاور استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان 20] اور تم پر اپنی نعمتوں کو پورا کیا ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- ظَاهَرَ- وظَهَرَ الشّيءُ أصله : أن يحصل شيء علی ظَهْرِ الأرضِ فلا يخفی، وبَطَنَ إذا حصل في بطنان الأرض فيخفی، ثمّ صار مستعملا في كلّ بارز مبصر بالبصر والبصیرة . قال تعالی: أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر 26] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف 33] ، إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] ، يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم 7] ، أي : يعلمون الأمور الدّنيويّة دون الأخرويّة، والعلمُ الظَّاهِرُ والباطن تارة يشار بهما إلى المعارف الجليّة والمعارف الخفيّة، وتارة إلى العلوم الدّنيوية، والعلوم الأخرويّة، وقوله : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] ، وقوله : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] ، أي : كثر وشاع، وقوله : نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان 20] ، يعني بالظَّاهِرَةِ : ما نقف عليها، وبالباطنة : ما لا نعرفها، وإليه أشار بقوله : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل 18] ، وقوله : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ 18] ، فقد حمل ذلک علی ظَاهِرِهِ ، وقیل : هو مثل لأحوال تختصّ بما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، وقوله : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن 26] ، أي : لا يطلع عليه، وقوله : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة 33] ، يصحّ أن يكون من البروز، وأن يكون من المعاونة والغلبة، أي : ليغلّبه علی الدّين كلّه . وعلی هذا قوله : إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ- [ الكهف 20] ، وقوله تعالی: يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر 29] ، فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف 97] ، وصلاة الظُّهْرِ معروفةٌ ، والظَّهِيرَةُ : وقتُ الظُّهْرِ ، وأَظْهَرَ فلانٌ: حصل في ذلک الوقت، علی بناء أصبح وأمسی «4» . قال تعالی:- وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم 18]- ظھر الشئی کسی چیز کا زمین کے اوپر اس طرح ظاہر ہونا کہ نمایاں طور پر نظر آئے اس کے بالمقابل بطن کے معنی ہیں کسی چیز کا زمین کے اندر غائب ہوجانا پھر ہر وہ چیز اس طرح پر نمایاں ہو کہ آنکھ یابصیرت سے اس کا ادراک ہوسکتا ہو اسے ظاھر کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر 26] یا ملک میں فساد ( نہ ) پیدا کردے ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف 33] ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] مگر سرسری سی گفتگو ۔ اور آیت کریمہ : يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم 7] یہ دنیا کی ظاہری زندگی ہی کو جانتے ہیں کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ صرف دنیو یامور سے واقفیت رکھتے ہیں اخروی امور سے بلکل بےبہر ہ ہیں اور العلم اظاہر اور الباطن سے کبھی جلی اور خفی علوم مراد ہوتے ہیں اور کبھی دنیوی اور اخروی ۔ قرآن پاک میں ہے : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] جو اس کی جانب اندورنی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب ۔ اور آیت کریمہ : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ۔ میں ظھر کے معنی ہیں زیادہ ہوگیا اور پھیل گیا اور آیت نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان 20] اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں ۔ میں ظاہرۃ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکتی ہیں اور باطنۃ سے وہ جو ہمارے علم سے بلا تر ہیں چناچہ اسی معنی کی طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ اور آیت کریمہ : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ 18] کے عام معنی تو یہی ہیں کہ وہ بستیاں سامنے نظر آتی تھیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بطور مثال کے انسانی احوال کیطرف اشارہ ہو جس کی تصریح اس کتاب کے بعد دوسری کتاب ہیں ) بیان کریں گے انشاء اللہ ۔ اظھرہ علیہ اسے اس پر مطلع کردیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن 26] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اپنے غائب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا اور آیت کریمہ : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة 33] میں یظھر کے معنی نمایاں کرنا بھی ہوسکتے ہیں اور معاونت اور غلبہ کے بھی یعنی تمام ادیان پر اسے غالب کرے چناچہ اس دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر 29] اے قوم آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو ۔ فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف 97] پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس کے اوپر چڑھ سکیں ۔ صلاۃ ظھر ظہر کی نماز ظھیرۃ ظہر کا وقت ۔ اظھر فلان فلاں ظہر کے وقت میں داخل ہوگیا جیسا کہ اصبح وامسیٰ : صبح اور شام میں داخل ہونا ۔ قرآن پاک میں ہے : وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم 18] اور آسمان اور زمین میں اسی کیلئے تعریف ہے اور سہ پہر کے وقت بھی اور جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو ۔ - بطن - أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر :- 58-- النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس - «1» ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر :- ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن .- قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) «2» .- وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته .- ( ب ط ن )- البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کیا تم لوگوں کو قرآن کریم کے ذریعے یہ بات معلوم نہیں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے چاند، سورج، ستارے، بادل و بارش درخت اور جانور تمام چیزوں کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے اور اس نے تم پر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی پوری کر رکھی ہیں یعنی توحید و معرفت عطا کر رکھی ہے اور کہا گیا کہ ظاہری نعمتیں تمہاری وہ نیکیاں ہیں جن کا دوسروں کو علم ہو اور باطنی تمہاری وہ برائیاں ہیں جو لوگوں کے علم میں نہ آسکیں یا یہ کہ ظاہری تو کھانے پینے کی چیزیں اور مال و دولت ہے اور باطنی نعمتیں پھل اور نباتات، بارش، پانی وغیرہ ہے یا یہ کہ ظاہری سے مراد وہ نعمتیں کہ جس سے تمہیں عزت حاصل ہو اور باطنی سے مراد وہ جس کے ذریعے تمہاری حفاظت ہو۔- مگر بعض آدمی جیسا کہ نضر بن حارث ایسے ہیں جو دین الہی میں بغیر علم اور بغیر دلیل اور بغیر کسی روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ) ” - تم لوگ غور کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی ساری مخلوق کو تمہاری خدمت کرنے اور تمہیں سہولیات بہم پہنچانے پر مامور کردیا ہے۔ مثلاً سورج کو دیکھو جو تمہارے لیے تمازت اور روشنی مہیا کرتا ہے۔ اسی سے ہواؤں اور بارشوں کا نظام ترتیب پاتا ہے اور زمین پر فصلوں اور پھلوں کی پرورش ممکن ہوتی ہے۔ زمین کو دیکھو جسے اللہ تعالیٰ نے ایک بچھونے کی طرح بچھا کر تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے اور یوں تمہاری تمام ضرورتیں پوری کرنے کا اہتمام کیا ہے۔- (وَاَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّبَاطِنَۃً ط) ” - اللہ کی ان نعمتوں سے ہم دن رات مستفیض ہو رہے ہیں۔ ان میں سے کئی نعمتیں تو ایسی ہیں جنہیں ہم دیکھتے بھی ہیں اور محسوس بھی کرتے ہیں مگر اس کی بیشمار نعمتوں کے بارے میں ہمیں کبھی احساس بھی نہیں ہوا۔ مثلاً ہمارے وجود کے اندر اللہ کی قدرت سے کیسے کیسے نظام خود بخود مصروف عمل ہیں ‘ لیکن عام طور پر ہمیں ان کے بارے میں احساس نہیں ہوتا۔- (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًی وَّلَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍ ) ” - اس سے پہلے یہ مضمون سورة الحج کی آیت ٣ میں بھی بالکل انہی الفاظ میں آچکا ہے۔ ایسے لوگ اللہ کی ذات ‘ اس کی آیات اور اس کے احکام کے بارے میں طرح طرح کے سوالات اٹھاتے ہیں ‘ منفی انداز میں بحث وتمحیص کرتے ہیں ‘ لیکن اس کے بارے میں ان کے پاس نہ تو کوئی علمی دلیل ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی الہامی ثبوت۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :35 کسی چیز کو کسی کے لیے مسخر کرنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ چیز اس کے تابع کر دی جائے اور اسے اختیار دے دیا جائے کہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے اور جس طرح چاہے اسے استعمال کرے ۔ دوسری یہ کہ اس چیز کو ایسے ضابطہ کا پابند کر دیا جائے جس کی بدولت اس شخص کے لیے نافع ہو جائے اور اس کے مفاد کی خدمت کرتی رہے ۔ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ایک ہی معنی میں مسخ نہیں کر دیا ہے ، بلکہ بعض چیزیں پہلے معنی میں مسخر کی ہیں اور بعض دوسرے معنی میں ۔ مثلاً ہوا ، پانی ، مٹی ، آگ ، نباتات ، معدنیات ، مویشی وغیرہ بے شمار چیزیں پہلے معنی میں ہمارے لیے مسخر ہیں ، اور چاند ، سورج ، وغیرہ دوسرے معنی میں ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :36 کھلی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو آدمی کو کسی نہ کسی طرح محسوس ہوتی ہیں ، یا جو اس کے علم میں ہیں ۔ اور چھپی ہوئی نعمتوں سے وہ نعمتیں مراد ہیں جنہیں آدمی نہ جانتا ہے نہ محسوس کرتا ہے ۔ بے حد و حساب چیزیں ہیں جو انسان کے اپنے جسم میں اور اس کے باہر دنیا میں اس کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہیں ، مگر انسان کو ان کا پتہ تک نہیں ہے کہ اس کے خالق نے اس کی حفاظت کے لیے ، اس کی رزق رسانی کے لیے ، اس کے نشو و نما کے لیے ، اور اس کی فلاح کے لیے کیا کیا سر و سامان فراہم کر رکھا ہے ۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں انسان تحقیق کے جتنے قدم آگے بڑھاتا جا رہا ہے ، اس کے سامنے خدا کی بہت سی وہ نعمتیں بے نقاب ہوتی جا رہی ہیں جو پہلے اس سے بالکل مخفی تھیں ، اور آج تک جن نعمتوں پر سے پردہ اٹھا ہے وہ ان نعمتوں کے مقابلے میں درحقیقت کسی شمار میں بھی نہیں ہیں جن پر سے اب تک پردہ نہیں اٹھا ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :37 یعنی اس طرح کے مسائل میں جھگڑے اور بحثیں کرتے ہیں کہ مثلاً اللہ ہے بھی یا نہیں؟ اکیلا وہی ایک خدا ہے یا دوسرے خدا بھی ہیں؟ اس کی صفات کیا ہیں اور کیسی ہیں؟ اپنی مخلوقات سے اسکے تعلق کی کیا نوعیت ہے ؟ وغیرہ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :38 یعنی نہ تو ان کے پاس کوئی ایسا ذریعۂ علم ہے جس سے انہوں نے براہ راست خود حقیقت کا مشاہدہ یا تجربہ کرلیا ہو ، نہ کسی ایسے رہنما کی رہنمائی انہیں حاصل ہے جس نے حقیقت کا مشاہدہ کر کے انہیں بتایا ہو ، اور نہ کوئی کتاب الٰہی ان کے پاس ہے جس پر یہ اپنے عقیدے کی بنیاد رکھتے ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: حضرت لقمان کی بنیادی نصیحت میں توحید پر جو زور دیا گیا تھا، اب اس کے وہ دلائل بیان فرمائے جا رہے ہیں جو اس کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں، اور انسان ذرا غور کرے تو ان سے اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کے سوا کوئی اور نتیجہ معقولیت کے ساتھ نہیں نکالا جاسکتا۔