Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مضوبوط دستاویز فرماتا ہے کہ جو اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرے جو اللہ کا سچافرمانبردار بن جائے جو شریعت کا تابعدار ہوجائے اللہ کے حکموں پر عمل کرے اللہ کے منع کردہ کاموں سے باز آجائے اس نے مضبوط دستاویز حاصل کرلی گویا اللہ کا وعدہ لے لیا کہ عذابوں میں وہ نجات یافتہ ہے ۔ کاموں کا انجام اللہ کے ہاتھ ہے ۔ اے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے کفر سے آپ غمگین نہ ہوں ۔ اللہ کی تحریر یونہی جاری ہوچکی ہے سب کالوٹنا اللہ کی طرف ہے ۔ اس وقت اعمال کے بدلے ملیں گے اس اللہ پر کوئی بات پوشیدہ نہیں ۔ دنیا میں مزے کرلیں پھر تو ان عذابوں کو بےبسی سے برداشت کرنا پڑے گا جو بہت سخت اور نہایت گھبراہٹ والے ہیں جیسے اور آیت میں ہے ( قُلْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ 69؀ ) 10- یونس:69 ) اللہ پر جھوٹ افترا کرنے والے فلاح سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ دنیا کا فائدہ تو خیر الگ چیز ہے لیکن ہمارے ہاں ( موت کے بعد ) آنے کے بعد تو اپنے کفر کی سخت سزا بھگتنی پڑے گی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

221یعنی صرف اللہ کی رضا کے لئے عمل کرے اس کے حکم کی اطاعت اور اس کی شریعت کی پیروی کرے۔ 222یعنی ما مور بہ چیزوں کا اتباع اور منہیات کو ترک کرنے والا۔ 223یعنی اللہ سے اس نے مضبوط عہد لے لیا کہ وہ اس کو عذاب نہیں کرے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٠] مضبوط حلقہ کی تعریف اللہ تعالیٰ نے خود ہی بیان کردی۔ یعنی جو شخص اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم ختم کر دے اور پھر اس کے احکام کے مطابق نیک اعمال بھی بجا لائے گویا اس میں ساری شریعت آگئی۔ اس شریعت پر عمل پیرا ہونا ہی ایسے مضبوط حلقے یا کڑے کو تھامنا ہے۔ جو اپنی مضبوطی کی وجہ ٹوٹنے والا نہیں۔ لہذا جو شخص اسے مضبوطی سے پکڑے رکھے گا اس کو نہ گر پڑنے کا خطرہ ہے اور نہ کہیں چوٹ لگ جانے کا۔ پھر اسی حلقہ کو تھامے ہوئے وہ بالآخر اللہ تک پہنچ جائے گا۔ جب تے وہ یہ حلقہ کو تھامے رہے گا، شیطان نہ اسے دھوکا دے سکے گا نہ گمراہ کرسکے گا یا دوسری راہ پر ڈال سکے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ يُّسْلِمْ وَجْهَهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۔۔ : اس سے پہلے ان لوگوں کا ذکر ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی علم، ہدایت یا کتاب منیر کے بغیر جھگڑتے ہیں۔ اب ان کے مقابلے میں اس شخص کا ذکر ہے جو اپنے چہرے یعنی اپنے آپ کو پوری طرح اللہ تعالیٰ کے سپرد اور اس کے حوالے کردیتا ہے۔ اپنا ہر عمل صرف اس کی رضا کے لیے کرتا ہے۔ جو وہ کہے کرتا ہے، جس سے روک دے رک جاتا ہے۔ نہ اپنی خواہش پر چلتا ہے نہ کسی دوست یا رشتہ دار کے پیچھے چلتا ہے اور نہ آبا و اجداد میں سے کسی کی راہ و رسم اختیار کرتا ہے۔ اس کی نماز، قربانی، زندگی اور موت سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، فرمایا : (قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) [ الأنعام : ١٦٢ ] ” کہہ دے بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔ “ آیت میں چہرے کو اللہ کے حوالے کرنے کا ذکر ہے، مراد پورے وجود کو اللہ کے حوالے کرنا ہے۔ کیونکہ چہرہ جسم کا سب سے باشرف حصہ ہے، اس کے تابع ہونے سے پورا وجود تابع ہوجاتا ہے۔ - وَهُوَ مُحْسِنٌ : اور وہ اپنا ہر عمل اس طرح کرتا ہے گویا وہ اپنے رب کو دیکھ رہا ہے۔ سو اگر وہ اسے نہیں دیکھتا تو اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے اور وہ ہر عمل میں اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر چلتا ہے۔- فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى : ” أَمْسَکَ یُمْسِکُ إِمْسَاکًا “ تھامنا، پکڑنا۔ ” استمسک “ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے مبالغہ ہے، یعنی ” اچھی طرح پکڑ لیا۔ “ ” اَلْعُرْوَۃُ “ کڑا یا حلقہ یا رسی کا کنارا جسے لٹکتے ہوئے گرنے سے بچنے کے لیے پکڑ لیا جائے اور ” الوثقی “ ” أَوْثَقُ “ کا مؤنث ہے ” سب سے مضبوط۔ “ یعنی اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردینے والا یہ وہ شخص ہے جس نے اسلام کی رسی کے مضبوط حلقے کو اچھی طرح تھام لیا ہے۔ اسے بلندی سے پستی میں یا جہنم میں گرنے کا کوئی خطرہ نہیں۔ شیطان اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اسی حلقے کو تھامے ہوئے آخرکار وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچ جائے گا اور اس کی جنت کا وارث بن جائے گا۔ بخلاف ان لوگوں کے جو کسی علم، ہدایت یا کتاب منیر کے بغیر جھگڑتے ہیں کہ انھوں نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک گرنے والے کھوکھلے تودے کے کنارے پر رکھی ہے، جو انھیں لے کر جہنم کی آگ میں گرنے والا ہے۔ دیکھیے سورة توبہ (١٠٩) ۔- وَاِلَى اللّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ : ” الی اللہ “ کو پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا کہ تمام کاموں کا انجام اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے، کسی اور کی طرف نہیں، وہی ہر کام کی جزا دے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يُّسْلِمْ وَجْہَہٗٓ اِلَى اللہِ وَہُوَمُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝ ٠ ۭ وَاِلَى اللہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۝ ٢٢- وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- مسك - إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] ، أي : يحفظها، واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ- [ الزخرف 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ- [ الممتحنة 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال :- هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن .- ( م س ک )- امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہستہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔ - عُرْوَةُ- والعُرْوَةُ : ما يتعلّق به من عُرَاهُ. أي : ناحیته . قال تعالی: فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى- [ البقرة 256] ، وذلک علی سبیل التّمثیل .- والعُرْوَةُ أيضا : شجرةٌ يتعلّق بها الإبل، ويقال لها : عُرْوَةٌ وعَلْقَةٌ. والعَرِيُّ والعَرِيَّةُ : ما يَعْرُو من الرّيح الباردة، والنّخلةُ العَرِيَّةُ : ما يُعْرَى عن البیع ويعزل، وقیل : هي التي يُعْرِيهَا صاحبها محتاجا، فجعل ثمرتها له ورخّص أن يبتاع بتمر «1» لموضع الحاجة، وقیل : هي النّخلة للرّجل وسط نخیل کثيرة لغیره، فيتأذّى به صاحب الکثير «2» ، فرخّص له أن يبتاع ثمرته بتمر، والجمیع العَرَايَا . «ورخّص رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم في بيع العَرَايَا» «3» .- العروۃ ۔ ہر وہ چیز جسے پکڑ کر کوئی لٹک جائے اور آیت کریمہ : فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى[ البقرة 256] تو اس نے مضبوط حلقہ ہاتھ میں پکڑا ۔ میں ( ایمان باللہ کو ) بطور تمثیل کے ، ، مضبوط حلقہ ، ، ، سے تعبیر فرمایا ہے ۔ نیز عروۃ یا علقہ ایک قسم ( کی ) خار دار جھاڑی یا پیلو کی قسم ) کے درخت کو بھی کہتے ہیں جو اونٹوں کے لئے آخری سہارا ہوتا ہے العری والعریۃ سرد ہوا انسان کو لگ جاتی ہے ۔ نیز العریۃ کھجور کا وہ درخت جو بیع سے مستثنیٰ کیا گیا ہو ۔ بعض کہتے ہیں کہ عریۃ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جس کا پھل اس کے مالک نے کسی محتاج کو ہبہ کردیا ہو شرعا اس درخت کے پھل کو خشک کھجوروں کے عوض بیچنا جائز ہے بعض کہتے ہیں کہ عربیۃ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جو کسی آدمی کے باغ میں دوسرے کی ملکیت ہو اور اس کے آنے جانے سے باغ کے مالک کو تکلیف ہوتی ہو تو شریعت نے خشک کھجوروں کے عوض ا س کا پھل خریدنے کی اجازت دی ہے ۔ اس کی جمع عرایا ہے اور آنحضرت نے بیع عرایا کی رخصت دی ہے ۔- وثق - وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] - والمِيثاقُ :- عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] - والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] - ( و ث ق )- وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔- حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔- المیثاق - کے معنی پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔- الموثق - ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔- عاقب - والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] ،- ( ع ق ب ) العاقب - اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جو شخص اپنے دین و عمل کو خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کرے اور وہ موحد و مخلص بھی ہو تو اس نے کلمہ لا الہ الا اللہ کا بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔- اور آخر سب کاموں کا کہ جن پر انسان مرتے ہیں آخرت میں اللہ ہی کی طرف پہنچے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ط) ” - اَلْعُرْوَۃُ الْوُثْقٰی (مضبوط کنڈا یا حلقہ ) سے مراد اللہ کا تعلق اور اس کا سہارا ہے۔ اس مضبوط سہارے کو تھامنے کا ذکر اس سے پہلے سورة البقرۃ کی آیت ٢٥٦ میں اس طرح آیا ہے : (فَمَنْ یَّکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم باللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیق لاَ انْفِصَامَ لَھَا ط) ” اور جو کوئی انکار کرے طاغوت کا اور ایمان لائے اللہ پر اس نے تو ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :40 یعنی پوری طرح اپنے آپ کو اللہ کی بندگی میں دے دے ۔ اپنی کوئی چیز اس کی بندگی سے مستثنیٰ کر کے نہ رکھے ۔ اپنے سارے معاملات اس کے سپرد کر دے اور اسی کی دی ہوئی ہدایات کو اپنی پوری زندگی کا قانون بنائے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :41 یعنی ایسا نہ ہو کہ زبان سے تو وہ حوالگی و سپردگی کا اعلان کر دے مگر عملاً وہ رویہ اختیار نہ کرے جو خدا کے ایک مطیع فرمان بندے کا ہونا چاہیے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :42 یعنی نہ اس کو اس بات کا کوئی خطرہ کہ اسے غلط رہنمائی ملے گی ، نہ اس بات کا کوئی اندیشہ کہ خدا کی بندگی کر کے اس کا انجام خراب ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani