2 8 1یعنی اس کی قدرت اتنی عظیم ہے کہ تم سب کا پیدا کرنا یا قیامت والے دن زندہ کرنے یا پیدا کرنے کی طرح ہے۔ اس لئے وہ جو چاہتا ہے لفظ کُنْ سے پلک جھپکتے میں معرض وجود میں آجاتا ہے۔
[٣٦] اس کی مثال یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ اربوں انسانوں کی پکار بیک وقت سن لیتا ہے۔ ایک انسان کی دعا سننا اسے دوسروں کی دعا سننے سے غافل یا قاصر نہیں بنا سکتا۔ اس کے لئے ایک انسان کی ایک وقت میں دعا سننا اور اربوں انسانوں کی اسی وقت میں دعا سننا برابر ہے۔ پھر اس کی مخلوق صرف انسان ہی نہیں۔ لاکھوں انواع میں اور اربوں کھربوں کی تعداد میں ہیں۔ وہ ان سب کی وہ دعا و فریاد سنتا ہے۔ اور ایک چیونٹی کی بھی فریاد اسی طرح سنتا ہے جیسے ایک انسان کی۔ پھر معاملہ صرف سننے تک محدود نہیں۔ بلکہ انہی کمالات کے ساتھ وہ اپنی ساری مخلوق کو دیکھ بھی رہا ہے۔ ان کے ظاہری اور باطنی حالات سے واقف بھی ہے۔ انھیں رزق بھی پہنچا رہا ہے اور ان کی جملہ ضروریات بھی پوری کر رہا ہے۔ یہی حال اس کی تخلیق کا بھی ہے۔ اس کا ایک انسان کو پیدا کرنا بھی ایسے ہی ہے جیسے سب انسانوں کا پیدا کرنا۔ وہ ایک ہی وقت میں لاکھوں انسانوں اور اربوں دوسری مخلوق کو اس وقت بھی پیدا کر رہا ہے اور قیامت کو مرنے کے بعد دوبارہ بھی انسانوں کو ایسے ہی بیک وقت اٹھا کھرا کرے گا اور اس کے لئے ایک انسان کے دوبارہ پیدا کرنے اور سب انسانوں کے دوبارہ پیدا کرنے میں کوئی فرق نہیں۔
مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ : اللہ تعالیٰ کے کمال علم و قدرت کے بیان کے بعد کفار کی اس بات کی تردید فرمائی کہ ہم دوبارہ کیسے زندہ کیے جائیں گے ؟ چناچہ فرمایا، تم سب کو پیدا کرنا اور دوبارہ زندہ کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے ایک شخص کے پیدا کرنے اور زندہ کرنے کی طرح ہی ہے، کیونکہ وہ تمام چیزوں کو کلمہ ” کُنْ “ سے موجود کردیتا ہے، پھر تمہیں دوبارہ زندہ کردینا اس کے لیے کیا مشکل ہے ؟ دیکھیے سورة یٰس (٢٢ اور ٧٩) ۔- اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ : ان دو صفات کی مناسبت یہاں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اربوں انسانوں کی پکار بیک وقت سن لیتا ہے۔ ایک انسان کی دعا سننا اسے دوسرے کی دعا سننے سے غافل یا قاصر نہیں بنا سکتا۔ اس کے لیے ایک انسان کی ایک وقت میں دعا سننا اور اربوں انسانوں کی اسی وقت دعا سننا برابر ہے۔ پھر اس کی مخلوق صرف انسان ہی نہیں بلکہ لاکھوں انواع میں اور اربوں کھربوں کی تعداد میں ہے، وہ ان سب کی دعا اور فریاد سنتا ہے اور ایک چیونٹی کی بھی فریاد اسی طرح سنتا ہے جیسے ایک انسان کی۔ پھر معاملہ سننے تک محدود نہیں بلکہ سننے کے ساتھ وہ اپنی ساری مخلوق کو دیکھ بھی رہا ہے۔ ان کے ظاہری اور باطنی حالات سے واقف بھی ہے، انھیں رزق بھی پہنچا رہا ہے اور ان کی جملہ ضروریات بھی پوری کر رہا ہے۔ یہی حال اس کی تخلیق کا ہے، اس کا ایک انسان کو پیدا کرنا بھی ایسے ہی ہے جیسے سب انسانوں کو پیدا کرنا۔ وہ ایک ہی وقت میں لاکھوں انسانوں اور اربوں دوسری مخلوق کو اس وقت بھی پیدا کر رہا ہے اور مرنے کے بعد قیامت کے دن دوبارہ تمام انسانوں کو ایسے ہی ایک وقت میں دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا۔ اس کے لیے ایک انسان کے دوبارہ پیدا کرنے اور سب انسانوں کے دوبارہ پیدا کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ (کیلانی)
مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ ٢٨- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] ،- فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] ، أي : توجههم ومضيّهم .- ( ب ع ث ) البعث - ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا رکی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے - پس بعث دو قسم پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا - دوم بعث الہی - یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے
آیت ٢٨ (مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ط) ” - پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی وسعت و عظمت کا تذکرہ تھا۔ اب اس وسیع و عریض کائنات کے انتظام و انصرام اور رنگا رنگ مخلوق کے معاملات کی نگرانی کا ذکر ہے کہ ان تمام امور کی نگہداشت اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔ جیسے آیت الکرسی (سورۃ البقرۃ) میں ارشاد ہوا : (وَلاَ یَءُوْدُہٗ حِفْظُہُمَاج وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ) ” اور اس پر گراں نہیں گزرتی ان دونوں (زمین و آسمان) کی حفاظت ‘ اور وہ بلند وبالا ہے ‘ بڑی عظمت والا۔ “
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :49 یعنی وہ بیک وقت ساری کائنات کی آوازیں الگ الگ سن رہا ہے اور کوئی آواز اس کی سماعت کو اس طرح مشغول نہیں کرتی کہ اسے سنتے ہوئے وہ دوسری چیزیں نہ سن سکے ۔ اسی طرح وہ بیک وقت ساری کائنات کو اس کی ایک ایک چیز اور ایک ایک واقعہ کی تفصیل کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور کسے چیز کے دیکھنے میں اس کی بینائی اس طرح مشغول نہیں ہوتی کہ اسے دیکھتے ہوئے وہ دوسری چیزیں نہ دیکھ سکے ۔ ٹھیک ایسا ہی معاملہ انسانوں کے پیدا کرنے اور دوبارہ وجود میں لانے کا بھی ہے ۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک جتنے آدمی بھی پیدا ہوئے ہیں اور آئندہ قیامت تک ہوں گے ان سب کو وہ ایک آن کی آن میں پھر پیدا کر سکتا ہے ۔ اس کی قدرت تخلیق ایک انسان کو بنانے میں اس طرح مشغول نہیں ہوتی کہ اسی وقت وہ دوسرے انسان نہ پیدا کر سکے ۔ اس کے لیے ایک انسان کا بنانا اور کھربوں انسانوں کا بنا دینا یکساں ہے ۔