Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حمد و ثنا کا حق ادا کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں اللہ رب العلمین اپنی عزت کبریائی بڑائی جلالت اور شان بیان فرما رہا ہے اپنی پاک صفتیں اپنے بلند ترین نام اور اپنے بیشمار کلمات کا ذکر فرما رہا ہے جنہیں نہ کوئی گن سکے نہ شمار کرسکے نہ ان پر کسی کا احاطہ ہو نہ ان کی حقیقت کو کوئی پاسکے ۔ سید البشر ختم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے ( لا احصی ثناء علیک کما اثنیت علی نفسک ) اے اللہ میں تیری تعریفوں کا اتنا شمار بھی نہیں کرسکتاجتنی ثناء تونے اپنے آپ فرمائی ہے ۔ پس یہاں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ اگر روئے زمین کے تمام تر درخت قلمیں بن جائیں اور تمام سمندر کے پانی سیاہی بن جائیں اور ان کیساتھ ہی سات سمندر اور بھی ملالئے جائیں اور اللہ تعالیٰ کی عظمت وصفات جلالت وبزرگی کے کلمات لکھنے شروع کئے جائیں تو یہ تمام قلمیں گھس جائیں ختم ہوجائیں سب سیاہیاں پوری ہوجائیں ختم ہوجائیں لیکن اللہ وحدہ لاشریک لہ کی تعریفیں ختم نہ ہوں ۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ سات سمندر ہوں تو پھر اللہ کے پورے کلمات لکھنے کے لئے کافی ہوجائیں ۔ نہیں یہ گنتی تو زیادتی دکھانے کے لئے ہے ۔ اور یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ سات سمندر موجود ہیں اور وہ عالم کو گھیرے ہوئے ہیں البتہ بنواسرائیل کی ان سات سمندروں کی بات ایسی روایتیں ہیں لیکن نہ تو انہیں سچ کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی جھٹلایا جاسکتا ہے ۔ ہاں جو تفسیر ہم نے کہ ہے اسکی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے ( قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا ١٠٩؁ ) 18- الكهف:109 ) یعنی اگر سمندر سیاہی بن جائیں اور رب کے کلمات کا لکھنا شروع ہو تو کلمات اللہ کے ختم ہونے سے پہلے ہی سمندر ختم ہوجائیں اگرچہ ایسا ہی اور سمندر اس کی مدد میں لائیں ۔ پس یہاں بھی مراد صرف اسی جیسا ایک ہی سمندر لانا نہیں بلکہ ویسا ایک پھر ایک اور بھی ویسا ہی پھر ویسا ہی پھر ویساہی الغرض خواہ کتنے ہی آجائیں لیکن اللہ کی باتیں ختم نہیں ہوسکتی ۔ حسن بصری فرماتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ لکھوانا شروع کرے کہ میرا یہ امر اور یہ امر تو تمام قلمیں ٹوٹ جائیں اور تمام سمندروں کے پانی ختم ہوجائیں ۔ مشرکین کہتے تھے کہ یہ کلام اب ختم ہوجائے گا جس کی تردید اس آیت میں ہورہی ہے کہ نہ رب کے عجائبات ختم ہوں نہ اس کی حکمت کی انتہا نہ اس کی صفت اور اس کے علم کا آخر ۔ تمام بندوں کے علم اللہ کے علم کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ ۔ اللہ کی باتیں فنا نہیں ہوتیں نہ اسے کوئی ادراک کرسکتا ہے ۔ ہم جو کچھ اس کی تعریفیں کریں وہ ان سے سوا ہے ۔ یہود کے علماء نے مدینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ یہ جو آپ قرآن میں پڑھتے ہیں آیت ( وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا 85؀ ) 17- الإسراء:85 ) یعنی تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے ہم یا آپ کی قوم ؟ آپ نے فرمایا ہاں سب ۔ انہوں نے کہا پھر آپ کلام اللہ شریف کی اس آیت کو کیا کریں گے جہاں فرمان ہے کہ توراۃ میں ہر چیز کا بیان ہے ۔ آپ نے فرمایا سنو وہ اور تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ کے کلمات کے مقابلہ میں بہت کم ہے تمہیں کفایت ہو اتنا اللہ تعالیٰ نے نازل فرمادیاہے ۔ اس پر آیت اتری ۔ لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہونی چاہئے حالانکہ مشہور یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہے تمام اشیاء اس کے سامنے پست وعاجز ہیں کوئی اس کے ارادے کے خلاف نہیں جاسکتا اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا اس کی منشاء کو کوئی بدل نہیں سکتا ۔ وہ اپنے افعال اقوال شریعت حکمت اور تمام صفتوں میں سب سے اعلی غالب وقہار ہے ۔ پھر فرماتا ہے تمام لوگوں کا پیدا کرنا اور انہیں مار ڈالنے کے بعد زندہ کر دینا مجھ پر ایسا ہی آسان ہے جیسے کہ ایک شخص کو مارنا اور پیدا کرنا ۔ اس کا تو کسی بات کو حکم فرمادینا کافی ہے ۔ ایک آنکھ جھپکانے جتنی دیر بھی نہیں لگتی ۔ نہ دوبارہ کہنا پڑے نہ اسباب اور مادے کی ضرورت ۔ ایک فرمان میں قیامت قائم ہوجائے گی ایک ہی آواز کیساتھ سب جی اٹھیں گے ۔ اللہ تعالیٰ تمام باتوں کا سننے والا ہے سب کے کاموں کا جاننے والا ہے ۔ ایک شخص کی باتیں اور اس کے کام جیسے اس پر مخفی نہیں اسی طرح تمام جہان کے معاملات اس سے پوشیدہ نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

271اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی، جلالت شان، اس کے اسمائے حسنٰی اور صفات عالیہ اور اس کی عظمتوں کا بیان ہے کہ وہ اتنے ہیں کہ کسی کے لئے ان کا احاطہ یا ان سے آگاہی یا ان کی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں اگر ان کا شمار کرنا حیطہ تحریر میں لانا چاہے، تو دنیا بھر کے درختوں کے قلم گھس جائیں، سمندروں کے پانی سے بنائی ہوئی سیاہی ختم ہوجائے، لیکن اللہ کی معلومات، اس کی تخلیق و صنعت کے عجائبات اور عظمت و جلالت کے مظاہر کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ سات سمندر بطور مبالغہ ہے، حصر مراد نہیں (ابن کثیر) اس لیے کہ اللہ کی آیات و کلمات کا حصر و احصاء ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی مفہوم کی ایک آیت سورة کہف کے آخر میں گزر چکی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٥] اللہ کے کلمات سے مراد اس کے تخلیقی کارنامے، اس کے عجائبات اور کرشمے اور اس کی خوبیاں ہیں۔ اور ان کے بیشمار پہلو ہیں۔ مثلاً انسان کے اندر کی دنیا کے عجائبات اور بیرونی دنیا کے عجائبات۔ انسان کی عقل اور علم ان دونوں میں کسی کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ اور جو کچھ وہ جانسکا ہے اسے بھی ضابطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے اور نہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ جہاں انسان کی عقل اور اس کا علم خود ہی ورطہ حیرت میں پڑجاتے اسے وہ لکھے گا کیا اور بیان کیا کرسکتا ہے۔ پھر یہ ایک نوع انسان ہی کی بات نہیں جو اربوں کی تعداد میں دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ حیوانات کی تقریباً دس لاکھ انواع ایسی ہیں جو انسان کے علم میں آچکی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی جسمانی ساخت اور نظام زیست دوسری تمام انواع سے الگ ہے۔ یہی حال نباتات اور جمادات اور سمندری مخلوق کا ہے پھر بہت سی ایسی مخلوق ہے جو انسان کے علم میں آہی نہیں سکی اور نہ آسکتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے یہ تخلیقی کارنامے ختم نہیں ہوگئے بلکہ ہر آن جاری ہین۔ اور اس کی مخلوق میں ہر آن ترقی اور اضافہ ہو رہے۔ جیسا کہ بعض دوسری آیات مثلاً ٥١: ٤٧ اور ٥٥: ٢٩ میں یہ صراحت موجود ہے۔ لہذا اس آیت میں جو یہ بیان ہوا ہے کہ تمام درختوں کی قلمیں بنا لی جائیں اور سارے سمندر بلکہ اتنے اور بھی سیاہ بن جائیں تو یہ چیزیں تو ختم ہوسکتی ہیں مگر اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے۔ اس میں کچھ مبالغہ معلوم نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کی خواہ کتنی ہی زیادہ تعداد ہو بہرحال وہ محدود ہے اور ان کا شمار کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ اللہ کے کلمات لامحدود ہیں۔ جن کا کچھ حد و حساب ممکن نہیں۔ اور یہ تو مسلمہ امر ہے کہ محدود چیز لامحدود کا کبھی احاطہ نہیں کرسکتی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ ۔۔ : ” کلمت “ ” کَلِمَۃٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی کلام ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا) [ المؤمنون : ١٠٠ ] ” یہ تو ایک بات ہے جسے وہ کہنے والا ہے۔ “ مراد اللہ تعالیٰ کے دوسرے کلام کے ساتھ ساتھ کلمہ ” کُنْ “ بھی ہے۔ یہ اس خیال کا رد ہے جو ذہن میں پیدا ہوسکتا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا مالک ہے اور وہ غنی ہے، مگر یہ سب کچھ ختم بھی تو ہوسکتا ہے اور جو غنی ہے وہ محتاج بھی تو ہوسکتا ہے۔ اس خیال کے رد میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں کبھی کمی نہیں ہوسکتی اور نہ وہ کبھی محتاج ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو وہ کلمہ ” کُنْ “ کہنے سے ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہ جو بات چاہے کرسکتا ہے اور کرتا ہے۔ جس طرح اس کی ذات کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا، اسی طرح اس کے کلمات کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا اور نہ ان کا شمار ہوسکتا ہے۔ پھر جو مالک ایک کلمہ ” کُنْ “ کہنے سے سارے عالم کو فنا کرسکتا ہے اور ایک ” کُنْ “ کہہ کر اس جیسے بلکہ اس سے کہیں بڑے اور اعلیٰ کروڑوں جہاں پیدا کرسکتا ہے اور جس کے کلمات کی کوئی انتہا نہیں اور نہ وہ کبھی ختم ہوسکتے ہیں، ایسے مالک کے ملک کو کبھی زوال ہوسکتا ہے ؟ یا وہ کبھی محتاج ہوسکتا ہے ؟ نہیں، وہ ہمیشہ سے غنی وحمید ہے اور عزیزو حکیم ہے اور ہمیشہ رہے گا۔- 3 مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ اپنی عظمت، کبریائی، جلال، اپنے اسماء وصفات حسنیٰ اور اپنے کامل کلمات کے متعلق بتاتے ہوئے فرماتے ہیں، جن کا نہ کوئی احاطہ کرسکتا ہے اور نہ کسی بشر کو ان کی حقیقت اور شمار کا علم ہے، جیسا کہ سیدالبشر اور خاتم الرسل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا أُحْصِيْ ثَنَاءً عَلَیْکَ ، أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ ) [ مسلم، الصلاۃ، باب ما یقال في الرکوع و السجود ؟ : ٤٨٦ ] ” میں تیری ثنا کا شمار نہیں کرسکتا، تو اسی طرح ہے جیسے تو نے خود اپنی ثنا کی ہے۔ “ چناچہ فرمایا : (وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ ۔۔ ) یعنی اگر زمین کے تمام درخت قلم بنا دیے جائیں اور سمندر کو سیاہی بنادیا جائے اور اس کے ساتھ سات سمندر مزید بڑھا دیے جائیں اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کلمات لکھے جائیں، جو اس کی عظمت، جلال اور اس کی صفات پر دلالت کرتے ہیں، تو قلم ٹوٹ جائیں گے، سمندروں کا پانی ختم ہوجائے گا، خواہ ان جیسے جتنے بھی اور لے آئیں۔ ” سات سمندروں “ کا ذکر صرف مبالغہ کے لیے ہے، اس سے حصر مراد نہیں، نہ ہی یہ بات ہے کہ کوئی سات سمندر موجود ہیں جو عالم کو گھیرے ہوئے ہیں، جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے جو اسرائیلیات بیان کرتے ہیں، جن کی تصدیق یا تکذیب نہیں ہوسکتی، بلکہ حقیقت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں بیان فرمایا : (قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا) [ الکہف : ١٠٩ ] ” کہہ دے اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی بن جائے تو یقیناً سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے برابر اور سیاہی لے آئیں۔ “ چناچہ اس کی مثل سے مراد اس جیسا ایک اور سمندر نہیں بلکہ اس جیسا، پھر اس جیسا، پھر اس جیسا، اس طرح آگے بڑھاتے جاؤ۔ جتنے بھی سمندر لے آئیں اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے کلمات کا شمار نہیں ہوسکتا۔ حسن بصری نے فرمایا : ” اگر زمین کے تمام درخت قلم بنا دیے جائیں اور سمندر سیاہی ہوجائے اور اللہ تعالیٰ فرمائے کہ ” میرا یہ حکم ہے اور میرا یہ حکم ہے “ تو سمندر کا پانی ختم ہوجائے گا اور قلم ٹوٹ جائیں گے۔ “ (ابن کثیر)- اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ : یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور زبردست ہے، وہ جو ارادہ کرے کوئی نہ اسے روک سکتا ہے، نہ اس سے باز پرس کرسکتا ہے، اور وہ کمال حکمت والا ہے، اس کا غلبہ اندھے کی لاٹھی نہیں، بلکہ اس کا ہر کام سراسر حکمت پر مبنی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) ولو ان ما فی الارض من شجرة اقلام، اس آیت میں حق تعالیٰ نے اپنی معلومات اور اپنی قدرت کے تصرفات اور اپنی نعمتوں کی ایک مثال دی ہے کہ وہ غیر متناہی ہیں۔ نہ کسی زبان سے، وہ سب ادا ہو سکتے ہیں نہ کسی قلم سے سب کو لکھا جاسکتا ہے۔ مثال یہ فرمائی کہ ساری زمین میں جتنے درخت ہیں اگر ان سب شاخوں کے قلم بنا لئے جائیں اور ان کے لکھنے کے لئے سمندر کو روشنائی بنادیا جائے اور یہ سب قلم حق تعالیٰ کی معلومات اور تصرفات قدرت کو لکھنا شروع کریں تو سمندر ختم ہوجائے گا اور معلومات و تصرفات ختم نہ ہوں گے۔ اور ایک سمندر نہیں اس جیسے سات سمندر اور بھی شامل کردیئے جائیں، جب بھی سب سمندر ختم ہوجائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے کلمات ختم نہ ہوں گے۔ کلمات اللہ سے مراد اس کے علم و حکمت کے کلمات ہیں (روح و مظہری) اور شیون قدرت اور نعمائے آلہیہ بھی اس میں داخل ہیں۔ اور سات سمندر سے مطلب یہ نہیں کہ کہیں سات سمندر موجود ہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ ایک سمندر کے ساتھ فرض کرلو اور سات سمندر مل جائیں جب بھی ان سب سے سب کلمات اللہ کو ضبط تحریر میں نہیں لایا جاسکتا۔ اور سات کا عدد بھی بطور مثال ہے، حصر مقصود نہیں۔ اور دلیل اس کی دوسری آیت قرآن ہے جس میں فرمایا ہے (آیت) قل لوکان البحر مداداً لکمت ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمت ربی ولوجئنا بمثلہ مدداً ، یعنی اگر سمندر کو کلمات اللہ کو لکھنے کے لئے روشنائی بنا لیا جائے تو سمندر ختم ہوجائے گا اور کلمات اللہ ختم نہ ہوں گے، اور صرف یہی سمندر نہیں اسی جیسے اور سمندر کو بھی شامل کردیں تب بھی بات یہی رہے گی۔ اس آیت میں بمثلہ فرما کر اشارہ کردیا کہ یہ سلسلہ دور تک چلایا جائے کہ اس سمندر کے مثل دوسرا سمندر مل گیا پھر اس کی مثل تیسرا چوتھا، غرض سمندروں کی کتنی ہی مقدار فرض کرلو ان کی روشنائی کلمات اللہ کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ عقلی طور پر وجہ ظاہر ہے کہ سمندر سات نہیں سات ہزار بھی ہوں وہ بہرحال محدود اور متناہی ہیں اور کلمات اللہ یعنی معلومات اللہ غیر متناہی ہیں، کوئی متناہی چیز غیر متناہی کا احاطہ کیسے کرسکتی ہے۔- بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت احبار یہود کے ایک سوال کے جواب میں نازل ہوئی وجہ یہ تھی کہ قرآن کی آیت ہے (آیت) وما اوتیتم من العلم الاً قلیلاً ، یعنی تمہیں نہیں دیا گیا مگر تھوڑا سا علم، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو چند احبار یہود حاضر ہوئے اور اس آیت کے بارے میں معارضہ کیا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا، یہ آپ نے اپنی قوم کا حال ذکر کیا ہے، یا اس میں آپ نے ہمیں بھی داخل کیا ہے ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری مراد سب ہیں، یعنی ہماری قوم بھی اور یہود و نصاریٰ بھی۔ تو انہوں نے یہ معارضہ کیا کہ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے تورات عطا فرمائی ہے جس کی شان تبیان لکل شئی، یعنی ہر چیز کا بیان ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ بھی علم الٰہی کے مقابلہ میں قلیل ہی ہے۔ پھر تورات میں جتنا علم ہے اس کا بھی تمہیں پورا علم نہیں، بقدر کفایت ہی ہے۔ اس لئے علم الہٰی کے مقابلہ میں ساری آسمانی کتابوں اور سب انبیاء کے علوم کا مجموعہ بھی قلیل ہی ہے۔ اسی کلام کی تائید کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) ولو ان ما فی الارض من شجرة اقلام۔ الایة (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَۃٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللہِ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝ ٢٧- شجر - الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه .- ( ش ج ر ) الشجر - ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔- قلم - أصل القَلْمِ : القصّ من الشیء الصّلب، کا لظفر وکعب الرّمح والقصب، ويقال لِلْمَقْلُومِ : قِلْمٌ. كما يقال للمنقوض : نقض . وخصّ ذلک بما يكتب به، وبالقدح الذي يضرب به، وجمعه : أَقْلَامٌ. قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] . وقال : وَلَوْ أَنَّما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ [ لقمان 27] ، وقوله : إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ [ آل عمران 44] أي : أقداحهم، وقوله تعالی: عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] تنبيه لنعمته علی الإنسان بما أفاده من الکتابة وما روي «أنه عليه الصلاة والسلام کان يأخذ الوحي عن جبریل وجبریل عن ميكائيل وميكائيل عن ؟ ؟ ؟ إسرافیل وإسرافیل عن اللّوح المحفوظ واللّوح عن القَلَمِ» فإشارة إلى معنی إلهيّ ، ولیس هذا موضع تحقیقه .- والْإِقْلِيمُ :- واحد الْأَقَالِيمِ السّبعة . وذلک أنّ الدّنيا مقسومة علی سبعة أسهم علی تقدیر أصحاب الهيئة .- ( ق ل م ) القلم ( مصدر ض ) اس کے اصل معنی کسی سخت چیز کو تراشنے کے ہیں ۔ اس لئے ناخن بانس کی گرہ اور سر کنڈ سے وغیرہ کے تراشنے پر قلم کا لفظ بو لاجاتا ہے اور تراشیدہ چیز کو ہے جیسے کہا جاتا ہے تو قلم مقلوم ہے جیسے نقض بمعنی منقوض اتا ہے ۔ اور ( عرف میں ) خاص کر لکھنے کے آلہ اور قرعہ اندازی کے تیر پر یہ لفظ بولاجاتا ہے ۔ اس کی جمع اقلام ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَلَوْ أَنَّما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ [ لقمان 27] اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں ( سب کے سب ) قلم ہوں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ [ آل عمران 44] جب وہ لوگ اپنے قلم بطور قرعہ ڈال رہے تھے ۔ میں اقلام سے قرعہ اندازی کے تیر مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] جس نے قلم کے ذر یعہ سے علم سکھایا ۔ میں تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انسان کو کتابت کی تعلیم دینا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے اور جو حدیث میں ایا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبیریل (علیہ السلام) سے وحی اخذ کرتے تھے اور جبیریل مکائیل سے وہ اسرافیل سے اور اسرافیل لوح محفوظ سے اور لوح محفوظ قلم سے تو یہاں سر الہٰی کی طرف اشارہ ہے جس کی تحقیق کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ الاقلیم ۔ ربع مسکون کا ساتواں حصہ ۔ علماء بیئت کی تحقیق کے مطابق زمین کے سات حصے ہیں ۔ اور ہر حصہ پر اقلیم کا لفظ بولتے ہیں اس کی جمع اقالیم ہے ۔- بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ - مد - أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ- [ النمل 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ- [ البقرة 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] والمُدُّ من المکاييل معروف .- ( م د د ) المد - کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔- سبع - أصل السَّبْع العدد، قال : سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة 29] ، سَبْعاً شِداداً [ النبأ 16] ، يعني : السموات السّبع وسَبْعَ سُنْبُلاتٍ [يوسف 46] ، سَبْعَ لَيالٍ [ الحاقة 7] ، سَبْعَةٌ وَثامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف 22] ، سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة 32] ، سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة 80] ، سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي[ الحجر 87] . قيل : سورة الحمد لکونها سبع آيات، السَّبْعُ الطّوال : من البقرة إلى الأعراف، وسمّي سور القرآن المثاني، لأنه يثنی فيها القصص، ومنه : السَّبْعُ ، والسَّبِيعُ والسِّبْعُ ، في الورود . والْأُسْبُوعُ جمعه : أَسَابِيعُ ، ويقال : طفت بالبیت أسبوعا، وأسابیع، وسَبَعْتُ القومَ : كنت سابعهم، وأخذت سبع أموالهم، والسَّبُعُ :- معروف . وقیل : سمّي بذلک لتمام قوّته، وذلک أنّ السَّبْعَ من الأعداد التامّة، وقول الهذليّ :- 225-- كأنّه عبد لآل أبي ربیعة مسبع - «2» أي : قد وقع السّبع في غنمه، وقیل : معناه المهمل مع السّباع، ويروی ( مُسْبَع) بفتح الباء، وكنّي بالمسبع عن الدّعيّ الذي لا يعرف أبوه، وسَبَعَ فلان فلانا : اغتابه، وأكل لحمه أكل السّباع، والْمَسْبَع : موضع السَّبُع .- ( س ب ع ) السبع اصل میں " سبع " سات کے عدد کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة 29] سات آسمان ۔ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 16] سات مضبوط ( آسمان بنائے ) ۔ وسَبْعَ سُنْبُلاتٍ [يوسف 46] سات بالیں ۔ سَبْعَ لَيالٍ [ الحاقة 7] سات راتیں ۔ سَبْعَةٌ وَثامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف 22] سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے ۔ سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة 32] ستر گز سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة 80] ستر مرتبہ اور آیت : سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي[ الحجر 87] ( الحمد کی ) سات آیتیں ( عطا فرمائیں جو نماز کی ہر رکعت میں مکرر پڑھی جاتی ہیں میں بعض نے کہا ہے کہ سورة الحمد مراد ہے ۔ کیونکہ اس کی سات آیتیں ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ السبع الطوال یعنی سورة بقرہ سے لے کر اعراف تک سات لمبی سورتیں مراد ہیں ۔ اور قرآن پاک کی تمام سورتوں کو بھی مثانی کہا گیا ہے ۔ کیونکہ ان میں واقعات تکرار کے ساتھ مذکور ہیں منجملہ ان کے یہ سات سورتیں ہیں السبیع والسبع اونٹوں کو ساتویں روز پانی پر وارد کرتا ۔ الاسبوع ۔ ایک ہفتہ یعنی سات دن جمع اسابیع طفت بالبیت اسبوعا میں نے خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگائے سبعت القوم میں ان کا ساتواں بن گیا ۔ اخذت سبع اموالھم میں نے ان کے اموال سے ساتواں حصہ وصول کیا ۔ السبع ۔ درندہ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس کی قوت پوری ہوتی ہے جیسا کہ سات کا عدد " عدد تام " ہوتا ہے ۔ ھذلی نے کہا ہے ( الکامل) كأنّه عبد لآل أبي ربیعة مسبعگویا وہ آل ابی ربیعہ کا غلام ہے جس کی بکریوں کو پھاڑ کھانے کے لئے درندے آگئے ہوں ۔ بعض نے مسبع کا معنی مھمل مع السباع کئے ہیں یعنی وہ جو درندوں کی طرح آوارہ پھرتا ہے اور بعض نے مسبع ( بفتح باء ) پڑھا ہے ۔ اور یہ دعی سے کنایہ ہے یعنی وہ شخص جسکا نسب معلوم نہ ہو ۔ سبع فلانا کسی کی غیبت کرنا اور درندہ کی طرح اس کا گوشت کھانا ۔ المسبع ۔ درندوں کی سر زمین ۔- نفد - النَّفَادُ : الفَناءُ. قال تعالی: إِنَّ هذا لَرِزْقُنا ما لَهُ مِنْ نَفادٍ [ ص 54] يقال : نَفِدَ يَنْفَدُ «1» قال تعالی: قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ [ الكهف 109] ، ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ [ لقمان 27] . وأَنْفَدُوا : فَنِيَ زادُهم، وخَصْمٌ مُنَافِدٌ: إذا خَاصَمَ لِيُنْفِدَ حُجَّةَ صاحبِهِ ، يقال : نَافَدْتُهُ فَنَفَدْتُهُ.- ( ن ف د ) النفاد - ( س ) ختم ہوجانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ هذا لَرِزْقُنا ما لَهُ مِنْ نَفادٍ [ ص 54] یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا ۔ اور اس معنی میں فعل نفد ( س ) استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ [ الكهف 109] کہہ دو کہ اگر سمندر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لئے سیاہی ہو تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہوجائے ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ [ لقمان 27] تو خدا کی باتیں ( یعنی اس کی صفتیں ختم نہ ہوں ۔ انفدوا ان کا تو شہ ختم ہوگیا ۔ اور خصم منا فد دوسرے کی حجت کو ختم کرنے کے لئے جھگڑنے والے کو کہتے ہیں اور نافدۃ ونفد تہ کے معنی دوسرے کی دلیل کو ختم کرنے کے ہیں ۔- کلام - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع،- فَالْكَلَامُ يقع علی الألفاظ المنظومة، وعلی المعاني التي تحتها مجموعة، وعند النحويين يقع علی الجزء منه، اسما کان، أو فعلا، أو أداة . وعند کثير من المتکلّمين لا يقع إلّا علی الجملة المرکّبة المفیدة، وهو أخصّ من القول، فإن القول يقع عندهم علی المفردات، والکَلمةُ تقع عندهم علی كلّ واحد من الأنواع الثّلاثة، وقد قيل بخلاف ذلک «4» . قال تعالی: كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5]- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلام کا اطلاق منظم ومرتب الفاظ اور ان کے معانی دونوں کے مجموعہ پر ہوتا ہے ۔ اور اہل نحو کے نزدیک کلام کے ہر جز پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے ۔ خواہ وہ اسم ہو یا فعل ہو یا حرف مگر اکثر متکلمین کے نزدیک صرف جملہ مرکبہ ومفیدہ کو کلام کہاجاتا ہے ۔ اور یہ قول سے اخص ہے کیونکہ قول لفظ ان کے نزدیک صرف مفرد الفاظ پر بولاجاتا ہے اور کلمۃ کا اطلاق انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف تینوں میں سے ہر ایک پر ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے برعکس کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5] یہ بڑی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزۃ - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جتنے درخت زمین بھر میں ہیں اگر وہ سب قلم بن جائیں اور یہ جو سمندر ہیں ان کے علاوہ سات سمندر روشنائی کی جگہ اور ہوجائیں اور ان سے کلمات خداوندی اور علم خداوندی کو لکھا جائے تب بھی کلام اور علم خدا ختم نہ ہو، بیشک اللہ تعالیٰ اپنی بادشاہت و سلطنت میں زبردست اور اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والا ہے۔- شان نزول : وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ (الخ)- ابن جریر نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ اہل کتاب نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روح کے بارے میں دریافت کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا۔ اس پر یہودی بولے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں تھوڑا علم دیا گیا حالانکہ ہمیں توریت دی گئی اور وہ سراپا حکمت ہے اور جس کو حکمت دے دی جائے گویا کہ اس کو خیر کثیر مل گئی اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔- اور ابن اسحاق نے عطاء بن یسار سے روایت کیا ہے کہ مکہ مکرمہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔ وما اوتیتم من العلم الا قلیلا۔ جب آپ مدینہ منورہ ہجرت کر کے تشریف لائے تو آپ کے پاس علما یہود آئے اور کہنے لگے کیا آپ نے یہ نہیں کہا کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ آیا اس سے مراد ہم ہیں یا آپ کی قوم آپ نے فرمایا اس سے مراد سب ہیں۔ وہ بولے کہ آپ پڑھتے ہیں کہ ہمیں توریت دی گئی اور اس میں ہر ایک چیز کا بیان ہے اس پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ علم خداوندی کے مقابلہ میں بہت کم ہے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور ان ہی الفاظ کے ساتھ اس روایت کو ابن ابی حاتم نے سعید یا عکرمہ کے واسطہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کیا ہے۔- اور ابو الشیخ نے کتاب الفطمہ میں اور ابن جریر نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ مشرکین کہنے لگے کہ یہ ایسا کلام ہے جو کہ ختم ہوجائے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی جتنے درخت زمین بھر میں ہیں اگر وہ سب قلم بن جائیں۔ الخ

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ) ” - قرآن مجید کے اس اسلوب کی طرف پہلے بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ اہم مضامین کم از کم دو مرتبہ ضرور دہرائے جاتے ہیں۔ چناچہ یہی مضمون سورة الکہف میں اس طرح بیان ہوا ہے : (قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِءْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا ) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہیے کہ اگر سمندر سیاہی بن جائے میرے رب کی باتوں (کے لکھنے) کے لیے تو یقیناً سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں اگرچہ ہم اسی کی طرح اور (سمندر) بھی مدد کے لیے لے آئیں “۔ سورة الکہف کی اس آیت میں لکھنے کے حوالے سے صرف سیاہی کا ذکر ہے جبکہ یہاں پر سیاہی کے ساتھ قلم کا ذکر بھی ہوا ہے۔ - (وَّالْبَحْرُیَمُدُّہٗ مِنْم بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ ) ” - یہاں پر الْبَحْرکے بعد مِدَاد (سیاہی) کا لفظ محذوف ہے۔ بہر حال مفہوم واضح ہے کہ اگر زمین پر موجود سب کے سب درخت قلمیں بن جائیں اور سمندر سیاہی بن جائے اور پھر مزید سات سمندروں کا پانی بھی سیاہی بن کر اس میں شامل ہوجائے تب بھی :- (مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ) ” - قبل ازیں کئی بار ذکر ہوچکا ہے کہ کائنات کی ہرچیز اللہ کے کلمہ ” کُن “ کا ظہور ہے۔ اس لحاظ سے اللہ کی تمام مخلوقات گویا ” کلمات اللہ “ ہیں جن کا شمار ممکن ہی نہیں۔ پرانے زمانے کے مقابلے میں آج کا انسان اس کائنات کی وسعت کے بارے میں بہتر طور پر جانتا ہے۔ آج کے سائنسدان اربوں نوری سالوں کی وسعت تک کائنات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں مگر اس سب کچھ کے باوجود بھی وہ کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کی وسعت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ چناچہ جس کائنات کی وسعت کا اندازہ لگانا کسی کے بس کی بات نہیں ‘ اس میں موجود مخلوق یعنی اللہ کے کلمات وصفات کو احاطۂ تحریر میں لانا کسی کے لیے کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :48 اللہ کی باتوں سے مراد ہیں اس کے تخلیقی کام اور اس کی قدرت و حکمت کے کرشمے ۔ یہ مضمون اس سے ذرا مختلف الفاظ میں سورہ کہف آیت ۱۰۹ میں بھی بیان ہوا ہے ۔ بظاہر ایک شخص یہ گمان کرے گا شاید اس قول میں مبالغہ کیا ۔ لیکن اگر آدمی تھوڑا سا غور کرے تو محسوس ہو گا کہ درحقیقت اس میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں ہے ۔ جتنے قلم اس زمین کے درختوں سے بن سکتے ہیں اور جتنی روشنائی زمین کے موجودہ سمندر اور ویسے ہی سات مزید سمندر فراہم کر سکتے ہیں ، ان سے اللہ کی قدرت و حکمت اور اس کی تخلیق کے سارے کرشمے تو درکنار ، شائد موجودات عالَم کی مکمل فہرست بھی نہیں لکھی جا سکتی ۔ تنہا اس زمین پر جتنی موجودات پائی جاتی ہیں انہی کا شمار مشکل ہے ، کجا کہ اس اتھاہ کائنات کی ساری موجودات ضبط تحریر میں لائی جا سکیں ۔ اس بیان سے دراصل یہ تصور دلانا مقصود ہے کہ جو خدا اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لایا ہے اور ازل سے ابد تک اس کا سارا نظم و نسق چلا رہا ہے اس کی خدائی میں ان چھوٹی چھوٹی ہستیوں کی حیثیت ہی کیا ہے جنہیں تم معبود بنائے بیٹھے ہو ۔ اس عظیم الشان سلطنت کے چلانے میں دخیل ہونا تو درکنار ، اس کے کسی اقل قلیل جز سے پوری واقفیت اور محض واقفیت تک کسی مخلوق کے بس کی چیز نہیں ہے ۔ پھر بھلا یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ مخلوقات میں سے کسی کو یہاں خداوندانہ اختیارات کا کوئی ادنیٰ سا حصہ بھی مل سکے جس کی بنا پر وہ دعائیں سننے اور قسمتیں بنانے اور بگاڑنے پر قادر ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani