Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

261یعنی ان کا خالق بھی وہی ہے، مالک بھی وہی اور مدبر و متصرف کائنات کا محتاج بھی وہی۔ 262بےنیاز ہے اپنے ماسوائے یعنی ہر چیز اس کی محتاج ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ 263اپنی تمام پیدا کردہ چیزوں میں۔ پس اس نے جو کچھ پیدا کیا اور جو احکام نازل فرمائے، اس پر آسمان و زمین میں سزاوار حمد و ثنا صرف اسی کی ذات ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٣] پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت کا ذکر تھا اور اس پہلو سے شرک کے بطلان پر دلیل پیش کی گئی تھی۔ اس آیت میں اللہ کے ہر چیز کا مالک ہونے کا ذکر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کائنات کو پیدا کرکے کہیں علیحدہ نہیں جا بیٹھا۔ بلکہ وہ اس کے سر پر آن موجود ہے۔ وہ ان چیزوں پر کنٹرول رکھے ہوئے ہے۔ ان پر قابض ہے۔ اور جس طرح ان چیزوں میں چاہے تصرف بھی کرسکتا ہے اور کر رہا ہے اور اس کی ساری مخلوق اس کی مملوک بھی ہے۔ کسی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی اس ملکیت میں سے کسی چیز پر بھی شاہانہ اختیارات حاصا نہیں ہیں۔ بلکہ اگر اللہ نے کوئی چیز کسی کی ملک میں کردی ہے تو وہ اس میں اسی حد تک تصرف کرسکتا ہے یا اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جس حد تک شریعت نے اجازت دے رکھی ہے۔- [ ٣٤] اس جملہ کی تشریح کے لئے اسی سورة کی آیت نمبر ١٢ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔ : یہ پہلی آیت ہی کا نتیجہ ہے کہ جب آسمانوں کا اور زمین کا خالق اللہ تعالیٰ ہے تو ظاہر ہے کہ ان کا مالک بھی وہی ہے، اور جب مالک وہ ہے تو ثابت ہوا کہ چیز اپنے وجود اور بقا میں اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے غنی ہے، کسی کا محتاج نہیں اور ہر حمد کا مالک ہے۔ دیکھیے اسی سورت کی آیت (١٢) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ ہُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ۝ ٢٦- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جو کچھ آسمان و زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کی ملکیت ہے۔- اور اللہ تعالیٰ مخلوق سے بےنیاز اور قابل تعریف ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط) ” - لفظ اللہ کے ساتھ یہاں ” لام تملیک “ آیا ہے۔ یعنی آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کی ملکیت ہے۔- (اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ) ” - وہ بےنیاز ہے ‘ اسے کوئی احتیاج نہیں ‘ وہ خود اپنی ذات میں ستودہ صفات ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :46 یعنی حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے بلکہ درحقیقت وہی ان سب چیزوں کا مالک بھی ہے جو زمین و آسمانوں میں پائی جاتی ہیں ۔ اللہ نے اپنی یہ کائنات بنا کر یوں ہی نہیں چھوڑ دی ہے کہ جو چاہے اس کا ، یا اسکے کسی حصے کا مالک بن بیٹھے ۔ اپنی خلق کا وہ آپ ہی مالک ہے اور ہر چیز جو اس کائنات میں موجود ہے وہ اس کی ملک ہے ۔ یہاں اس کے سوا کسی کی بھی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اسے خداوندانہ اختیارات حاصل ہوں ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :47 اس کی تشریح حاشیہ نمبر ۱۹ میں گزر چکی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani