حاکم اعلی وہ اللہ ہے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ یہ مشرک اس بات کو مانتے ہوئے سب کا خالق اکیلا اللہ ہی ہے پھر بھی دوسروں کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ انکی نسبت خود جانتے ہیں کہ یہ اللہ کے پیدا کئے ہوئے اور اس کے ماتحت ہیں ۔ ان سے اگر پوچھا جائے کہ خالق کون ہے؟ تو انکا جواب بالکل سچا ہوتا ہے کہ اللہ تو کہہ کہ اللہ کا شکر ہے اتنا تو تمہیں اقرار ہے ۔ بات یہ ہے کہ اکثر مشرک بےعلم ہوتے ہیں ۔ زمین وآسمان کی ہر چھوٹی بڑی چھپی کھلی چیز اللہ کی پیدا کردہ اور اسی کی ملکیت ہے وہ سب سے بےنیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں وہی سزاوار حمد ہے وہی خوبیوں والا ہے ۔ پیدا کرنے میں بھی احکام مقرر کرنے میں بھی وہی قابل تعریف ہے ۔
2 5 1یعنی ان کو اعتراف ہے کہ آسمانوں و زمین کا خالق اللہ ہے نہ کہ وہ معبود جن کی وہ عبادت کرتے ہیں۔ 2 5 2اس لئے کہ ان کے اعتراف سے ان پر حجت قائم ہوگئی۔
[٣٢] یعنی اللہ کی تعریف اس بات پر ہے کہ انہوں نے یہ تو خود ہی تسلیم کرلیا کہ آسمانوں اور زمین یعنی کل کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ اب ان کے اس اعتراف کا جو لازمی نتیجہ نکلتا ہے اس سے یہ لوگ بیخبر ہیں یا بیخبر رہنا چاہتے ہیں۔ اور ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو ان کے اس اعتراف کی عین ضد ہیں۔ مثلاً ایک شخص جب یہ اعتراف کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر اسے لازماً یہ بھی تسلیم کرلینا چاہئے کہ الٰہ اور رب بھی صرف اللہ ہی ہوسکتا ہے۔ بندگی اور عبادت کا مستحق بھی وہی ہوسکتا ہے۔ اپنی مخلوق کا حاکم وہی اور شاعر بھی وہی ہوسکتا ہے۔ دعاء اور فریاد بھی صرف اسی سے کرنا چاہئے۔ عقلی لحاظ سے یہ کیسے قابل تسلیم ہوسکتا ہے کہ خالق تو کوئی اور ہو اور معبود اس کی مخلوق بن بیٹھے۔ اور جو شخص اللہ کو خالق تسلیم کرلینے کے بعد دوسروں کو معبود سمجھتا ہے۔ اور اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے دوسروں کو پکارتا ہے۔ اسے اپنی عقل کا ماتم کرنا چاہئے۔
وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۔۔ : اس سے پہلے مشرکین کے اللہ تعالیٰ کے متعلق مجادلہ کا ذکر فرمایا، اب ان کے مسکت جواب کا ذکر ہے کہ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے، تو وہ یقیناً یہی کہیں گے کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ اب اس اقرار کے بعد ان کے پاس جھگڑنے کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ ” أَلْمَرْءُ یُؤْخَذُ بِإِقْرَارِہِ “ ” آدمی اپنے اقرار کے ساتھ پکڑا جاتا ہے۔ “- قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ : آپ فرمائیں کہ جب تم نے مان لیا کہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، جس میں تمہارے بنائے معبود بھی شامل ہیں، تو تمام حمد اور ہر خوبی کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ٹھہرا، پھر تم ہر خوبی کے مالک کو چھوڑ کر اس کی عبادت کیوں کرتے ہو جس میں اپنی کوئی خوبی ہے ہی نہیں ؟- بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ : بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، یا جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کا مطلب اور نتیجہ کیا ہے، مثلاً جب انھوں نے اعتراف کرلیا کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، تو پھر انھیں لازماً ماننا ہوگا کہ مالک بھی وہی ہے، رب بھی وہی ہے، حاکم اور شارع بھی وہی ہے، عبادت اور بندگی کا حق دار بھی وہی ہے، دعا اور فریاد بھی اسی سے کرنی چاہیے۔ یہ علم و عقل سے کتنی بعید بات اور کتنا بڑا تناقض ہے کہ خالق تو کوئی اور ہو اور معبود اس کی مخلوق میں سے کسی کو بنا لیا جائے۔- 3 یہ جو فرمایا کہ ” ان کے اکثر نہیں جانتے “ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین میں سے کچھ ایسے بھی تھے اور ہوتے ہیں کہ بات واضح ہونے پر سمجھ لیتے اور مان جاتے ہیں۔ ان کا ذکر آگے ” فمنہم مقتصد “ میں آ رہا ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو جانتے ہیں مگر ضد اور عناد کی وجہ سے مانتے نہیں۔
وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللہُ ٠ ۭ قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ ٠ ۭ بَلْ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ٢٥- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔
اور اگر آپ ان سے آسمان و زمین کے پیدا کرنے کے بارے میں دریافت کریں تو کفار مکہ جواب میں یہی کہیں گے کہ اللہ نے پیدا کیا ہے۔- تو آپ کہیے الحمدللہ تم سب بھی شکر کرو مگر ان میں اکثر توید الہی کو نہیں جانتے اور نہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں۔
سورہ لقمن حاشیہ: 44 یعنی شکر ہے تم اتنی بات تو جانتے ہو اور مانتے ہو ۔ لیکن جب حقیقت یہ ہے تو پھر حمد ساری کی ساری صرف اللہ ہی کے لیے ہونی چاہیے ۔ دوسری کوئی ہستی حمد کی مستحق کیسے ہو سکتی ہے جبکہ تخلیق کائنات میں اس کا کوئی حصہ ہی نہیں ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :45 یعنی اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ اللہ کو خالق کائنات ماننے کے لازمی نتائج اور تقاضے کیا ہیں ، اور کونسی باتیں اس کی نقیض پڑتی ہیں ۔ جب ایک شخص یہ مانتا ہے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق صرف اللہ ہے تو لازماً اس کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ الٰہ اور رب بھی صرف اللہ ہی ہے ، عبادت اور طاعت و بندگی کا مستحق بھی تنہا وہی ہے ، تسبیح و تحمید بھی اس کے سوا کسی دوسرے کی نہیں کی جا سکتی ، دعائیں بھی اس کے سوا کسی اور سے نہیں مانگی جا سکتیں ، اور اپنی مخلوق کے لیے شارع اور حاکم بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا ۔ خالق ایک ہو اور معبود دوسرا ، یہ بالکل عقل کے خلاف ہے ، سراسر متضاد بات ہے جس کا قائل صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو جہالت میں پڑا ہوا ہو ۔ اسی طرح ایک ہستی کو خالق ماننا اور پھر دوسری ہستیوں میں سے کسی کو حاجت روا و مشکل کشا ٹھہرانا ، کسی کے آگے سر نیاز جھکانا ، اور کسی کو حاکم ذی اختیار اور مطاع مطلق تسلیم کرنا ، یہ سب بھی باہم متناقض باتیں ہیں جنہیں کوئی صاحب علم انسان قبول نہیں کر سکتا ۔
14: یعنی الحمد للہ ان لوگوں نے اس حقیقت کا تو اعتراف کرلیا کہ اس کائنات کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے، لیکن اس سے جو کھلا ہوا نتیجہ نکالنا چاہئے تھا کہ جب یہ کائنات تنہا اسی نے پیدا کی ہے تو عبادت کے لائق بھی تنہا وہی ہے، اس کے نتیجے تک پہنچنے کے لیے انہوں نے سمجھ سے کام نہیں لیا، اور اپنے باپ دادوں کی تقلید میں شرک اختیار کیے ہوئے ہیں۔