غیب کی پانچ باتیں یہ غیب کی وہ کنجیاں ہیں جن کا علم بجز اللہ تعالیٰ کے کسی اور کو نہیں ۔ مگر اس کے بعد کہ اللہ اسے علم عطافرمائے ۔ قیامت کے آنے کا صحیح وقت نہ کوئی نبی مرسل جانے نہ کوئی مقرب فرشتہ ، اس کا وقت صرف اللہ ہی جانتا ہے اسی طرح بارش کب اور کہاں اور کتنی برسے گی اس کا علم بھی کسی کو نہیں ہاں جب فرشتوں کو حکم ہوتا ہے جو اس پر مقرر ہیں تب وہ جانتے ہیں اور جسے اللہ معلوم کرائے ۔ اسی طرح حاملہ کے پیٹ میں کیا ہے؟ اسے بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ نر ہوگا یا مادہ لڑکا ہوگا یا لڑکی نیک ہوگا یا بد ؟ اسی طرح کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کل وہ کیا کرے گا ؟ نہ کسی کو یہ علم ہے کہ وہ کہاں مرے گا ؟ اور آیت میں ہے ( وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ 59 ) 6- الانعام:59 ) غیب کی کنجیاں اللہ ہی کے پاس ہیں جنہیں بجز اس کے اور کوئی نہیں جانتا اور حدیث میں ہے کہ غیب کی کنجیاں یہاں پانچ چیزیں ہیں جن کا بیان آیت ( اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 34ۧ ) 31- لقمان:34 ) میں ہے مسند احمد میں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ باتیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ بخاری کی حدیث کے الفاظ تو یہ ہیں کہ یہ پانچ غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تجھے ہر چیز کی کنجیاں دی گئی ہیں سوائے پانچ کے پھر یہی آیت آپ نے پڑھی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور ہماری مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے جو ایک صاحب تشریف لائے اور پوچھنے لگے ایمان کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ کو فرشتوں کو کتابوں کو رسولوں کو آخرت کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کو مان لینا ۔ اس نے پوچھا اسلام کیا ہے؟ فرمایا ایک اللہ کی عبادت کرنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا نمازیں پڑھنازکوٰۃ دینا رمضان کے روزے رکھنا ۔ اس نے دریافت کیا احسان کیا ہے؟ فرمایا تیرا اس طرح اللہ کی عبادت کرنا کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہیں دیکھتا تو وہ تجھے دیکھ رہاہے ۔ اس نے کہا حضور قیامت کب ہے فرمایا اس کا علم نہ مجھے ہے اور نہ تجھے ہے ہاں اس کی کچھ نشانیاں میں تمہیں بتادیتا ہوں ۔ جب لونڈی اپنے میاں کو جنے اور جب ننگے پیروں اور ننگے بدنوں والے لوگوں کے سردار بن جائیں ۔ علم قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ وہ شخص واپس چلا گیا آپ نے فرمایا جاؤ اسے لوٹا لاؤ لوگ دوڑ پڑے لیکن وہ کہیں بھی نظر نہ آیا ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ جبرائیل تھے لوگوں کو دین سکھانے آئے تھے ( بخاری ) ہم نے اس حدیث کا مطلب صحیح بخاری میں خوب بیان کیا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ جبرائیل نے اپنی ہتھیلیاں حضور کے گھٹنوں پر رکھ کر یہ سوالات کیے تھے ۔ ایک صحیح سند کے ساتھ مسند احمد میں مروی ہے کہ بنو عامر قبیلے کا ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کہنے لگا میں آؤں؟ آپ نے اپنے خادم کو بھیجا کہ جا کر انہیں ادب سکھاؤ یہ اجازت مانگنا نہیں جانتے ۔ ان سے کہو پہلے سلام کرو پھر دریافت کرو کہ میں آسکتا ہوں ؟ انہوں نے سن لیا اور اسی طرح سلام کیا اور اجازت چاہی یہ گئے اور جاکر کہا آپ ہمارے لیے کیا لے کر آئے ہیں؟ آپ نے فرمایا بھلائی ہی بھلائی ۔ سنو تم ایک اللہ کی عبادت کرو لات وعزیٰ کو چھوڑ دو دن رات میں پانچ نمازیں پڑھاکرو سال بھر میں ایک مہینے کے روزے رکھو اپنے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کرکے اپنے فقیروں پر تقسیم کرو ۔ انہوں نے دریافت کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا علم میں سے کچھ ایساباقی ہے جسے آپ نہ جانتے ہوں ۔ آپ نے فرمایا ہاں ایساعلم بھی ہے جسے بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا ۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ مجاہد فرماتے ہیں گاؤں کے رہنے والے ایک شخص نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ میری عورت حمل سے ہے بتلائے کیا بچہ ہوگا ؟ ہمارے شہر میں قحط ہے فرمائیے بارش کب ہوگی؟ یہ تو میں نہیں جانتا کہ میں کب پیدا ہوا لیکن یہ آپ معلوم کرادیجئیے کہ کب مرونگا ؟ اس کے جواب میں یہ آیت اتری کہ مجھے ان چیزوں کا مطلق علم نہیں ۔ مجاہد فرماتے ہیں یہی غیب کی کنجیاں ہیں جن کے بارے میں فرمان باری ہے کہ غیب کی کنجیاں صرف اللہ ہی کے پاس ہے ۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں جو تم سے کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی بات کا علم جانتے تھے تو سمجھ لینا کہ وہ سب سے بڑا جھوٹاہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہوگا ؟ قتادۃ فرماتے ہیں کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں دیا نہ نبی کو نہ فرشتہ کو اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے کوئی نہیں جانتا کہ کس سال کس مہینے کس دن یا کس رات میں وہ آئے گی ۔ اسی طرح بارش کا علم بھی اس کے سوا کسی کو نہیں کہ کب آئے؟ اور کوئی نہیں جانتاکہ حاملہ کے پیٹ میں بچہ نر ہوگا یا مادہ سرخ ہوگا یاسیاہ ؟ اور کوئی نہیں جانتا کہ کل وہ نیکی کرے گا یا بدی کرے گا ؟ مرے گا یا جئے گا بہت ممکن ہے کل موت یا آفت آجائے ۔ نہ کسی کو یہ خبر ہے کہ کس زمین میں وہ دبایا جائے گا یاسمندر میں بہایا جائے گا یا جنگل میں مرے گا یا نرم یاسخت زمین میں جائے گا ۔ حدیث شریف میں ہے جب کسی کو موت دوسری زمین میں ہوتی ہے تو اس کا وہیں کا کوئی کام نکل آتا ہے اور وہیں موت آجاتی ہے اور روایت میں ہے کہ یہ فرما کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ۔ اعشی ہمدان کے شعر ہیں جن میں اس مضمون کو نہایت خوبصورتی سے ادا کیا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے دن زمین اللہ تعالیٰ سے کہے گی کہ یہ ہیں تیری امانتیں جو تونے مجھے سونپ رکھی تھیں ۔ طبرانی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔
3 4 1حدیث میں آتا ہے کہ پانچ چیزیں مفاتیح الغیب ہیں، جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ قرب قیامت کی علامات تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائیں ہیں لیکن قیامت کے وقوع کا یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، کسی فرشتے کو، نہ کسی نبی مرسل کو، بارش کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے آثار و علائم سے تخمینہ تو لگایا جاتا اور لگایا جاسکتا ہے لیکن یہ بات ہر شخص کے تجربہ و مشاہدے کا حصہ ہے کہ یہ تخمینے کبھی صحیح نکلتے ہیں اور کبھی غلط۔ حتی کہ محکمہ موسمیات کے اعلانات بھی بعض دفعہ صحیح ثابت نہیں ہوتے۔ جس سے صاف واضح ہے کہ بارش کا بھی یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ رحم مادر میں مشینی ذرائع سے جنسیت کا ناقص اندازہ تو شاید ممکن ہے کہ بچہ ہے یا بچی ؟ لیکن ماں کے پیٹ میں نشوونما پانے والا یہ بچہ نیک بخت ہے یا بدبخت ناقص ہوگا یا کامل، خوب رو ہوگا یا بد شکل، کالا ہوگا یا گورا، وغیرہ باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ انسان کل کیا کرے گا ؟ وہ دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا ؟ کسی کو آنے والے کل کے بارے میں علم نہیں کہ وہ اس کی زندگی میں آئے گا بھی یا نہیں ؟ اور اگر آئے گا تو وہ اس میں کیا کچھ کرے گا ؟ موت کہاں آئے گی ؟ گھر میں یا گھر سے باہر اپنے وطن میں یا دیار غیر میں جوانی میں آئے گی یا بڑھاپے میں اپنی آرزوؤں اور خواہشات کی تکمیل کے بعد آئے گی یا اس سے پہلے ؟ کسی کو معلوم نہیں۔
[٤٩] کفار مکہ اکثر آپ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی ؟ کتاب و سنت میں اس کے کئی الگ الگ جواب مذکور ہیں۔ مثلاً ایک جواب یہ ہے کہ قیامت جب بھی آئی یک لخت ہی آجائے گی۔ کبھی قرب قیامت کی علامات بتلا دی گئیں۔ ایک صحابی نے یہی سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے پوچھا : کیا تم نے اس کے لئے کچھ تیاری کر رکھی ہے ؟ ایک سائل کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ جواب دیا کہ جو شخص مرگیا بس اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ لیکن اس سوال کا بالکل ٹھیک جواب یہی ہے کہ قیامت کا علم صرف اللہ کو ہے۔ کسی نبی کو بھی نہیں حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی نہ تھا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی پیدل چلتا ہوا آیا (یہ جبریل ( علیہ السلام) تھے) اور کہنے لگا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایمان کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تو اللہ، اس کے فرشتوں اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے، اور (قیامت کے دن) ان سے ملنے کا یقین رکھے اور مر کر جی اٹھنے پر ایمان لائے، پھر وہ کہنے لگا : اسلام کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ تو صرف اللہ ہی کی پرستش کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے (فرض) نماز اور زکوٰ ۃ ادا کرتا رہے ، اور رمضان کے روزے رکھے پھر اس نے پوچھا : احسان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی یوں عبادت کرے جیسے اسے دیکھ رہا ہے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو کم از کم یہ سمجھ کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کب آئے گی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس سے یہ سوال کر رہے ہو وہ بھی سائل سے زیادہ جانتا (یعنی دونوں ایک جیسے ناواقف ہیں) البتہ میں تجھے قیامت کی وہ نشانیاں بتلاتا ہوں ایک یہ ہے کہ عورت اپنا مالک چنے گی۔ دوسرے یہ کہ ننگے پاؤں پھرنے والے اور ننگے بدن (گنوار قسم کے لوگ) لوگوں کے رئیس ہوں گے۔ دیکھو ان پانچ باتوں میں سے ایک قیامت بھی ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، وہی جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی، اور بارش کب برسے گی، اور ماؤں کے پیٹ میں کیا کچھ (تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے) پھر وہ شخص لوٹ کر چل دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ذرا اسے بلا لاؤ۔ لوگ بلانے لگے تو دیکھا وہاں کوئی نہ ملا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ جبرئیل تھے جو آپ لوگوں کو دین کی باتیں سکھلانے آئے تھے (بخاری۔ کتاب التفسیر)- یہ حدیث، حدیث جبرئیل ( علیہ السلام) کے نام سے مشہور ہے۔ اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ قیامت کا معین وقت نہ جبرئیل ( علیہ السلام) کو معلوم تھا اور نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو۔ اس کا معین وقت نہ بتلانے میں حکمت یہ ہے کہ قیامت کا معین وقت اور اسی طرح کسی کو اس کی موت کا متعین وقت بتلا دینے سے اس دنیا کے دارالامتحان ہونے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ اسی لئے نہ موت کے وقت کا ایمان مقبول ہے اور نہ قیامت کو مقبول ہوگا جبکہ جب قیامت کی صریح علامات مثلاً سورج کا مغرب سے طلوع ہونا وغیرہ تو اس وقت بھی ایمان لانا مقبول نہ ہوگا۔- [ ٥٠] قیامت کے علاوہ چار باتیں اور بھی ہیں۔ جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان چار میں میں سے پہلی بات یہ ہے کہ نفع رساں بارش کب ہوگی۔ دوسری یہ کہ مادر رحم میں کیا کچھ ہوتا ہے۔ اور اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جب جنین میں روح ڈالی جاتی ہے تو ساتھ ہی فرشتہ اس کی عمر، اس کی روزی، (یعنی اسے کتنا رزق ملے گا، خوشحالی ہوگا یا تنگ دست، نیز یہ کہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت یہ باتیں بھی مادر رحم کے مراحل میں شامل ہیں۔ تیسری یہ بات وہ کل کیا کرے گا یعنی اسے توبہ کی توفیق نصیب ہوگی یا نہیں۔ بلکہ اسے کل تک جینا بھی نصیب ہوگا یا نہیں۔ اور چوتھی یہ بات کہ وہ کب اور کہاں مرے گا۔ یہ چار باتیں ایسی ہیں جن سے ہر انسان کو دلچسپی ہوتی ہے۔ اس لئے بالخصوص ان باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ورنہ اور بھی کئی امور ایسے ہیں۔ جو غیب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تک انسان کی رسائی نہیں ہوسکتی۔
اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ : قیامت کے ذکر پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کب آئے گی ؟ اور یہی سوال کفار بار بار کرتے تھے۔ اس لیے فرمایا، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اسے مخفی رکھنا اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت ہے، تاکہ ہر شخص اس کے لیے ہر وقت تیار رہے اور ہر شخص کو اس کے عمل کی جزا ملے۔ (دیکھیے طٰہٰ : ١٥) ” عِنْدَهٗ “ کو پہلے لانے سے تخصیص کا معنی پیدا ہوا کہ قیامت کا علم صرف اس کے پاس ہے، کسی اور کے پاس نہیں۔ دیکھیے سورة اعراف (١٨٧) ، احزاب (٦٣) اور نازعات (٤٢ تا ٤٤) حدیث جبریل میں جبریل (علیہ السلام) کے سوال ” مَتَی السَّاعَۃُ ؟ “ (قیامت کب ہے ؟ ) کے جواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا الْمَسْءُوْلُ عَنْھَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّاءِلِ ) ” جس سے پوچھا گیا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ “۔۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فِيْ خَمْسٍ لَا یَعْلَمُھُنَّ إِلَّا اللّٰہُ : (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( إن اللہ عندہ علم الساعۃ ) : ٤٧٧٧ ] ” قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں سے ہے جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ) [ لقمان : ٣٤ ] ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَفَاتِیْحُ الْغَیْبِ خَمْسٌ، ثُمَّ قَرَأَ : (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( إن اللہ عندہ علم الساعۃ ) : ٤٧٧٨ ]” غیب کی چابیاں پانچ ہیں۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ )- [ لقمان : ٣٤ ] - وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ : اس کا عطف ” عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ“ پر ہے، گویا عبارت یوں ہے ” وَ إِنَّ اللّٰہَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ “ یعنی اللہ تعالیٰ ہی بارش اتارتا ہے، اور جو اتارتا ہے وہی جانتا ہے کہ کہاں اتارنی ہے، کب اتارنی ہے اور کتنی اتارنی ہے، اس کے سوا کسی کو یہ بات معلوم نہیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ ” وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ“ دونوں جملوں میں حصر پر دلالت کرنے والا کوئی لفظ نہیں، جس کا ترجمہ یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی یہ کام کرتا ہے۔ اس کا سب سے قوی جواب تو وہ ہے جو شنقیطی نے دیا ہے کہ یہ بات کہ یہاں حصر مراد ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح حدیث سے ثابت ہے، جیسا کہ اوپر گزرا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر قرآن مجید اور لغت عرب کو جاننے والا کوئی نہیں۔ ویسے علمائے عربیت نے کئی طرح سے یہاں حصر ثابت فرمایا ہے جن میں سے ایک جواب یہاں بیان کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھیے کہ اگر کہا جاتا کہ ”إِنَّ عِلْمَ السَّاعَۃِ عِنْدَ اللّٰہِ “ تو جملہ مختصر بھی ہوتا اور بات بھی ادا ہوجاتی، مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” ان اللہ “ اور اس کی خبر ” عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ“ بیان فرمائی۔ اس میں دو طرح سے حصر ہے، لفظ ” اللہ “ کو زیادہ صراحت کے ساتھ پہلے لانا، پھر خبر کے جملہ میں ” عندہ “ کو مقدم کرنا، جس سے تخصیص پیدا ہوئی۔ گویا جملے کی ابتدا جو حصر کے ساتھ ہوئی، وہی حصر ” وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ “ میں بھی ملحوظ ہے، کیونکہ ان دونوں کا عطف جملہ ” عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ “ پر ہے۔ بعض اوقات عامۃ الناس کی طرف سے ایک سوال آتا ہے کہ آج کل سائنس اتنی ترقی کرگئی ہے کہ محکمہ موسمیات والے پہلے ہی پیش گوئی کردیتے ہیں کہ فلاں دن بارش ہوگی، اگر یہ مفاتیح الغیب سے ہے، جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، تو وہ کیسے بتا دیتے ہیں ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ علم یقین کا نام ہے، ظن وتخمین اور گمان کو علم نہیں کہتے۔ محکمہ موسمیات والے اپنے تجربے کے مطابق ہوا کے دباؤ اور فضا میں موجود نمی وغیرہ کو دیکھ کر بارش ہونے یا نہ ہونے کا اعلان کردیتے ہیں، مگر کبھی ان کی بات درست ثابت ہوتی ہے کبھی نادرست۔ بعض اوقات تجربے کے مطابق بارش ہونے کے تمام اسباب ہوتے ہیں مگر بادل ایک بوند برسائے بغیر گزر جاتے ہیں اور بعض اوقات بارش کے اسباب میں سے کچھ بھی موجود نہیں ہوتا کہ یکایک تمام اسباب پیدا ہو کر بارش شروع ہوجاتی ہے۔ اس کی دلیل کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب، کہاں اور کتنی ہوگی محکمہ موسمیات والوں کا یہ اعلان بھی ہے کہ آج بارش کا امکان ہے۔ سوفیصد علم نہ ان کے پاس ہے نہ ان کا دعویٰ ہے۔ آیت پر اعتراض کرنے والوں کا حال ” مدعی سست گواہ چست “ والا ہے۔- وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ : اس کا عطف بھی ” عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ “ پر ہے : ” أَيْ إِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ “ یعنی اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا ہے۔ یہاں بھی یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آج کل الٹراساؤنڈ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ پیدا ہونے والا لڑکا ہے یا لڑکی۔ اس کے جواب میں عموماً علمائے اسلام فرماتے ہیں کہ آیت کے الفاظ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں لڑکا ہے یا لڑکی، بلکہ فرمایا ” ما فِی الارحامِ “ کہ جو کچھ پیٹوں میں ہے، ضروری نہیں کہ اس سے مراد لڑکا یا لڑکی ہی لیا جائے، بلکہ مراد اس سے یہ ہے کہ جنین زندہ رہنے والا ہے یا ضائع ہوجانے والا، طویل عمر والا ہے یا تھوڑی عمر والا، خوش بخت ہے یا بدنصیب، تندرست رہے گا یا بیمار ہوگا۔ سو اگر اس کی جنس معلوم ہو بھی جائے کہ لڑکا ہے یا لڑکی، تب بھی قرآن کے بیان پر کوئی حرف نہیں آتا۔ یقیناً یہ جواب بہت عمدہ ہے، مگر ابھی تک یہ دعویٰ کہ الٹراساؤنڈ سے لڑکے یا لڑکی کی جنس معلوم ہوجاتی ہے، سوفیصد درست ثابت نہیں ہوا۔ خود ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ جنین کی وضع پیٹ میں ایسی ہوتی ہے کہ اس کے اعضائے تناسل اس کے سر کے نیچے چھپے ہوتے ہیں اور الٹراساؤنڈ کے ذریعے سے اندازے ہی کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے جو اکثر صحیح ہوتا ہے اور کبھی غلط بھی نکلتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ الٹراساؤنڈ سے جنس معلوم ہوجاتی ہے، سوفیصد درست نہیں۔ الٹرا ساؤنڈ کی شہرت کے باوجود میں نے اپنی زندگی میں دو دفعہ الٹرا ساؤنڈ کی پیش گوئی تمام دنیا کے سامنے غلط ثابت ہوتی ہوئی دیکھی ہے، ایک دفعہ برطانیہ کے ولی عہد کی بیوی لیڈی ڈیانا کے ہاں ڈاکٹروں نے اعلان کیا کہ لڑکی پیدا ہوگی، مگر ان کے اعلان کے برعکس لڑکا پیدا ہوا۔ دوسرا پاکستان کی سابقہ وزیراعظم بےنظیر کے ڈاکٹر نے اعلان کیا کہ لڑکا پیدا ہوگا، مگر لڑکی پیدا ہوئی۔ اب آپ سوچیں کہ برطانیہ اور پاکستان کے ان اونچے مناصب پر فائز لوگوں کے پاس الٹراساؤنڈ کے ماہرین کی کیا کمی تھی ؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر الٹراساؤنڈ کے ذریعے سے ایک ہزار بچوں کے متعلق پیش گوئی کی جائے، جن میں سے نوسو ننانوے درست اور ایک غلط نکلے تو بھی اسے علم نہیں کہہ سکتے، کیونکہ علم وہ ہے جو یقینی ہو، کبھی غلط نہ نکلے۔ البتہ اگر کوئی آپریشن کرکے آنکھوں سے بچے کی جنس دیکھ لے تو قرآن کی بات پھر بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ یہ بات کہ بچہ دانیوں میں کیا ہے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، کیونکہ ” کیا ہے “ میں لڑکے لڑکی کی جنس کے علاوہ بیشمار باتیں داخل ہیں۔- وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا : مسروق فرماتے ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا : ” اماں جان کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ “ انھوں نے فرمایا : ” تم نے جو بات کہی اس سے تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، کیا تم ان تین باتوں سے بھی ناواقف ہو ؟ جنھیں جو بھی تمہیں بیان کرے وہ جھوٹ کہے گا۔ “ پھر فرمایا : ( مَنْ حَدَّثَکَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ رَأَی رَبَّہُ فَقَدْ کَذَبَ ، ثُمَّ قَرَأَتْ : (لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ) [ الأنعام : ١٠٣ ] ، (وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ ) [ الشورٰی : ٥١ ] وَ مَنْ حَدَّثَکَ أَنَّہُ یَعْلَمُ مَا فِيْ غَدٍ فَقَدْ کَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ : (وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ) [ لقمان : ٣٤ ] وَمَنْ حَدَّثَکَ أَنَّہُ کَتَمَ فَقَدْ کَذَبَ ، ثُمَّ قَرَأَتْ : ( يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭ ) [ المائدۃ : ٦٧ ] ، وَ لٰکِنَّہُ رَأٰی جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ فِيْ صُوْرَتِہِ مَرَّتَیْنِ ) [ بخاري، التفسیر، باب : ٤٨٥٥۔ مسلم : ١٧٧ ] ” جو شخص تمہیں بیان کرے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے یقیناً جھوٹ کہا، پھر ام المومنین نے یہ آیت پڑھی : (لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ) [ الأنعام : ١٠٣ ] ” اسے نگاہیں نہیں پاتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے اور وہی نہایت باریک بین، سب خبر رکھنے والا ہے۔ “ اور یہ آیت : (وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ ) [ الشورٰی : ٥١ ] ” اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعے، یا پردے کے پیچھے سے۔ “ ” اور جو شخص تمہیں بیان کرے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ جانتے ہیں جو کل ہوگا تو اس نے یقیناً جھوٹ کہا۔ “ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی : (وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا )[ لقمان : ٣٤ ] ” اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا۔ “ ” اور جو شخص تمہیں بیان کرے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (وحی کی بات کو) چھپایا ہے، اس نے یقیناً جھوٹ کہا۔ “ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی : ( يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭ ) [ المائدۃ : ٦٧ ] ” اے رسول پہنچا دے جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔ “ ” لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے۔ “ - رُبَیِّع بنت معوّذ (رض) بیان کرتی ہیں : ” جس رات میری رخصتی ہوئی اس کی صبح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس آئے اور میرے بستر پر بیٹھ گئے، جہاں تم بیٹھے ہو اور کچھ چھوٹی لڑکیاں دف بجا کر اپنے آباء کے متعلق شعر پڑھ رہی تھیں جو بدر میں شہید ہوئے، یہاں تک کہ ایک لڑکی نے کہا : ( وَفِیْنَا نَبِيٌّ یَعْلَمُ مَا فِيْ غَدٍ ) ” اور ہم میں وہ نبی ہے جو کل ہونے والی بات جانتا ہے۔ “ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ تَقُوْلِيْ ہٰکَذَا، وَقُوْلِيْ مَا کُنْتِ تَقُوْلِیْنَ ) ” اس طرح مت کہو اور وہ کہتی جاؤ جو کہہ رہی تھی۔ “ [ بخاري، المغازي، باب : ٤٠٠١ ]- وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ : یعنی کوئی انسان نہیں جانتا کہ اسے موت کہاں آئے گی، خشکی پر یا سمندر میں یا پہاڑ پر۔ جب اسے اپنی موت کی جگہ کا علم نہیں تو وقت کا علم کیسے ہوسکتا ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا کَانَ أَجَلُ أَحَدِکُمْ بِأَرْضٍ أَوْثَبَتْہُ إِلَیْہَا الْحَاجَۃُ ، فَإِذَا بَلَغَ أَقْصٰی أَثَرِہِ ، قَبَضَہُ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ ، فَتَقُوْلُ الأَرْضُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَبِّ ہٰذَا مَا اسْتَوْدَعْتَنِيْ ) [ ابن ماجہ، الزھد، باب ذکر الموت والاستعداد : ٤٢٦٣، وقال البوصیري و الألباني صحیح ] ” جب تم میں سے کسی شخص کی موت کسی زمین میں طے ہو، تو کوئی ضرورت اسے چھلانگ لگوا کر وہاں پہنچا دیتی ہے۔ پھر جب وہ اس جگہ پہنچتا ہے جہاں اس کے قدم کا آخری نشان ہوتا ہے، تو اللہ سبحانہ اسے قبض کرلیتے ہیں۔ چناچہ زمین قیامت کے دن کہے گی : ” اے میرے رب یہ ہے وہ امانت جو تو نے میرے پاس رکھی تھی۔ “- اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ : یعنی اللہ تعالیٰ کا علم ان پانچ چیزوں کے ساتھ ہی خاص نہیں، بلکہ وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے اور ان کے ظاہر و باطن کی پوری خبر رکھنے والا ہے۔
(آیت) ان اللہ عندہ علم الساعة وینزل الغیث ویعلم ما فی الارحام وما تدری نفس ماذا تکسب غداوما تدری نفس بای ارض تموت، یعنی اللہ ہی کے پاس ہے علم قیامت کا (کہ کس سال کس تاریخ میں آئے گی) اور وہی بارش کو اتارتا ہے اور وہی جانتا ہے جو شکم مادر میں ہے (کہ لڑکی ہے یا لڑکا اور کس شکل و صورت کا ہے) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کو کیا کمائے گا (یعنی خیر و شر میں سے کیا حاصل کرے گا) اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔- پہلی تین چیزوں میں اگرچہ یہ تصریح نہیں کی گئی کہ ان کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے، مگر کلام ایسے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے جس سے ان چیزوں کے علم کا انحصار علم الٰہی میں معلوم ہوتا ہے، اور باقی دو چیزوں میں اس کی تصریح موجود ہے کہ ان کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں۔ انہی پانچ چیزوں کو سورة انعام کی آیت میں مفاتح الغیب فرمایا گیا ہے۔ (آیت) وعندہ مفاتح الغیب لا یعلہما الا ہو، یعنی صرف اللہ ہی کے پاس ہے علم مفاتح غیب کا، کوئی نہیں جانتا ان کو بجز اللہ تعالیٰ کے “ حدیث میں اس کو مفاتیح الغیب فرمایا گیا ہے۔ مفاتح اور مفاتیح مفتاح کی جمع ہے، کجی یا چابی کو کہتے ہیں، جس سے قفل کھلتے ہیں مراد اس سے اصول الغیب ہیں، جن سے معلومات غیب کھلتے ہیں۔- مسئلہ علم غیب :- اس مسئلہ کی تفصیل بقدر ضرورت سورة نمل کی آیت (آیت) قل لا یعلم من فی السموٰت والارض الغیب الا اللہ، کے تحت میں گزر چکی ہے۔ اس آیت میں مطلقاً علم غیب کا حق تعالیٰ کے لئے مخصوص ہونا صراحةً بیان فرمایا گیا ہے اور یہی پوری امت کا عقیدہ سلفا و خلفاً رہا ہے۔ آیت زیر بحث میں جو صرف پانچ چیزوں کو خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ان کا علم کسی مخلوق کو نہیں، صرف اللہ تعالیٰ ہی ان کو جانتا ہے، یہ کوئی تخصیص کے لئے نہیں، ورنہ سورة نمل کی آیت سے تضاد ہوجائے گا بلکہ ان پانچ چیزوں کا خاص اہتمام بتلانے کے لئے یہاں ان کا ذکر فرمایا ہے۔- اور وجہ تخصیص و اہتمام کی یہ ہے کہ عام طور پر جن غیب کی چیزوں کو انسان معلوم کرنے کا شائق ہوتا ہے وہ یہی پانچ چیزیں ہیں، نیز علم غیب کا دعویٰ کرنے والے نجومی وغیرہ جن چیزوں کی خبریں لوگوں کو بتا کر اپنا عالم الغیب ہونا ثابت کرتے ہیں وہ یہی پانچ چیزیں ہیں۔ اور بعض روایات میں ہے کہ کسی شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انہی پانچ چیزوں کے متعلق دریافت کیا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی، جن میں ان پانچوں کے علم کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔ (روح)- اور حدیث میں جو بروایت ابن عمر وابن مسعود یہ ارشاد آیا ہے کہ اوتیت مفاتح کل شئی الاً الخمس (اخرجہ الامام احمد، ابن کثیر) اس میں لفظ اوتیت نے خود یہ بات واضح کردی کہ ان پانچ چیزوں کے علاوہ جن غائبات کا علم آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور وحی دیا گیا تھا، اس لئے وہ علم غیب کی تعریف میں شامل نہیں۔ کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کو بذریعہ وحی اور اولیاء کو بذریعہ الہام جو غیب کی چیزوں کی خبریں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دے دی جاتی ہیں وہ حقیقت کے اعتبار سے علم غیب نہیں، جس کی بنا پر ان کو عالم الغیب کہا جاسکے بلکہ وہ انباء الغیب یعنی غیب کی خبریں ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے اپنے فرشتوں اور رسولوں اور مقبول بندوں کو عطا فرما دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ان کو انباء الغیب فرمایا گیا ہے۔ (آیت) من انباء الغیب نوحیھا الیک۔- اس لئے مطلب حدیث کا یہ ہے کہ ان پانچ چیزوں کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے ساتھ ایسا مخصوص فرمایا ہے کہ بطور انباء غیب کے بھی فرشتے اور رسول کو اس کا علم نہیں دیا گیا۔ اس کے علاوہ دوسری مغیبات کا علم بہت کچھ انبیاء (علیہم السلام) کو بذریعہ وحی دے دیا جاتا ہے۔- اس تقریر سے بھی ایک اور وجہ ان پانچ چیزوں کے خصوصی ذکر کی معلوم ہوگئی۔- ایک شبہ اور جواب :- مذکورہ آیت سے یہ ثابت ہوا کہ مطلق علم غیب جو حق تعالیٰ کی خصوصیت ہے اس میں بھی خاص طور سے پانچ مذکورہ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا علم کسی پیغمبر کو بذریعہ وحی بھی نہیں دیا جاتا۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ چیزیں کسی کو بھی معلوم نہ ہوں، حالانکہ امت کے بہت سے اولیاء اللہ سے ایسے بیشمار واقعات منقول ہیں کہ انہوں نے کہیں بارش کی خبر دی یا کسی حمل کے متعلق کوئی خبر دی، کسی کے متعلق آئندہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی خبر دی، کسی کے مرنے کی جگہ متعین کر کے بتلا دی اور پھر یہ پیشنگوئی مشاہدہ سے صحیح بھی ثابت ہوئی۔- اسی طرح بعض نجومی یا جعفر و رمل وغیرہ کا فن جاننے والے ان چیزوں کے متعلق بعض خبریں دے دیتے ہیں، اور بعض اوقات وہ صحیح بھی ہوجاتی ہیں، تو پھر ان پانچ چیزوں کی خصوصیت علم الٰہی کے ساتھ کس طرح رہی۔- اس کا ایک جواب تو وہی ہے جو سورة نمل میں تفصیل سے آ چکا ہے، اور اختصار کے ساتھ اوپر مذکور ہوا ہے کہ علم غیب درحقیقت اس علم کو کہا جاتا ہے جو سبب طبعی کے واسطہ سے نہ ہو، بلاواسطہ خودبخود ہو۔ یہ چیزیں انبیاء (علیہم السلام) کو بذریعہ وحی اور اولیاء کو بذریعہ الہام اور نجومیوں وغیرہ کو اپنے حسابات و اسباب طبیعیہ کے ذریعہ حاصل ہوجائیں تو وہ علم غیب نہیں بلکہ انباء الغیب ہیں، جو کسی جزئی و شخصی معاملہ میں کسی مخلوق کو حاصل ہوجانا آیت مذکورہ کے منافی نہیں۔ کیونکہ اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ ان پانچ چیزوں کا کلی علم جو تمام مخلوقات اور تمام حالات پر حاوی ہو وہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو بذریعہ وحی یا الہام نہیں دیا، کسی ایک آدھ واقعہ میں کوئی جزئی علم بذریعہ الہام حاصل ہوجانا اس کے منافی نہیں۔- اس کے علاوہ علم سے مراد علم قطعی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں، الہام کے ذریعہ جو علم کسی ولی کو حاصل ہوتا ہے وہ قطعی نہیں ہوتا، اس میں مغالطوں کے بہت سے احتمالات رہتے ہیں، اور نجومیوں وغیرہ کی خبروں میں تو روز مرہ مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ دس جھوٹ میں ایک صحیح کا بھی تناسب نہیں ہوتا، اس کو علم قطعی کیسے کہہ سکتے ہیں۔- مسئلہ علم غیب کے متعلق ایک فائدہ مہمہ :- استاذ محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے اپنے فوائد تفسیر میں ایک مختصر جامع بات فرمائی ہے، جس سے مذکورہ قسم کے سب اشکالات ختم ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ غیب کی دو قسمیں ہیں، ایک احکام غیبیہ ہیں جیسے احکام شرائع جن میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا علم بھی داخل ہے جس کو علم عقائد کہا جاتا ہے، اور وہ تمام احکام شرعیہ بھی جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کون سے کام پسند ہیں کون سے ناپسند، یہ سب چیزیں غیب ہی کی ہیں۔- دوسری قسم اکوان غیبیہ یعنی دنیا میں پیش آنے والے واقعات کا علم۔ پہلی قسم کے غائبات کا علم حق تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل کو عطا فرمایا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح آیا ہے۔ (آیت) فلایظہر علیٰ غیبہ احداً الا من ارتضیٰ من رسول، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتے، بجز اس رسول کے جس کو اللہ تعالیٰ اس کام کے لئے پسند فرما لیں۔- اور دوسری قسم یعنی اکوان غیبیہ، ان کا علم کلی تو حق تعالیٰ کسی کو عطا نہیں فرماتے وہ بالکل ذات حق کے ساتھ مخصوص ہے، مگر علم جزئی خاص خاص واقعات کا جب چاہتا ہے جس قدر چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے۔ اس طرح اصل علم غیب تو سب کا سب حق تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے، پھر وہ اپنے علم غیب میں سے احکام غیب کا علم تو عادتاً انبیاء (علیہم السلام) کو بذریعہ وحی بتلاتے ہی ہیں، اور یہی علم ان کی بعثت کا مقصد ہے۔- اکوان غیب کا علم جزئی بھی انبیاء و اولیاء کو بذریعہ وحی یا الہام جس قدر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے عطا فرما دیتا ہے، جو منجانب اللہ عطا کیا ہوا علم ہے۔ اس کو حقیقی معنی کے اعتبار سے علم الغیب نہیں کہا جاسکتا بلکہ غیب کی خبریں (انباء الغیب) کہا جاتا ہے۔- فوائد متعلقہ الفاظ آیت :- اس آیت میں پانچ چیزوں کے علم کا حق اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہونا ایک خاص اہتمام کے ساتھ بیان کرنا مقصود ہے، جس کا ظاہری تقاضا یہ تھا کہ ایک ہی عنوان سے پانچ چیزوں کو شمار کر کے کہہ دیا جاتا کہ ان کا علم اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے کسی مخلوق کو ان کا علم نہیں دیا گیا۔ مگر آیت مذکورہ میں ایسا نہیں کیا گیا بلکہ ابتدائی تین چیزوں کے علم کو تو مثبت طور پر اللہ کے لئے خاص ہونے کا ذکر فرمایا اور دو چیزوں میں غیر اللہ سے علم کی نفی فرمائی۔ اور پہلی تین چیزوں میں بھی علم ساعت یعنی قیامت کا ذکر تو اس طرح فرمایا کہ ان اللہ عندہ علم الساعة، یعنی اللہ ہی کے پاس ہے علم قیامت کا۔ اور دوسری چیز کا ذکر عنوان بدل کر جملہ فعلیہ میں اس طرح ذکر فرمایا ینزل الغیث، یعنی اللہ تعالیٰ اتارتا ہے بارش، اس میں بارش کے علم کا ذکر ہی نہیں، بلکہ اس میں اتارنے کا ذکر ہے۔ تیسری چیز کا ذکر پھر عنوان بدل کر اس طرح فرمایا کہ ویعلم ما فی الارحام، اس تغیر عنوان کو بلاغت کلام کا ایک تفنن بھی کہا جاسکتا ہے اور غور کرنے سے اس میں کچھ اور حکمتیں بھی معلوم ہوتی ہیں، جو بیان القرآن میں حضرت نے بیان فرمائی ہیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ آخری دو چیزیں یعنی آئندہ کل میں انسان کیا کمائے گا، اور یہ کہ وہ کس زمین میں مرے گا خود انسان کی ذات کے متعلق حالات ہیں ان میں احتمال ہوسکتا تھا کہ انسان ان کا علم حاصل کرلے۔ اس لئے ان دونوں میں خصوصیت سے غیر اللہ کے علم کو منفی کر کے بیان فرمایا گیا، جس سے پہلی تین چیزوں کا علم غیر اللہ کے لئے نہ ہونا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگیا کہ جب انسان خود اپنے اعمال و مکاسب کو اور ان کی انتہا یعنی موت اور اس کی جگہ نہیں جانتا تو آسمان اور نزول مطر اور شکم مادر کی اندھیریوں میں مخفی چیز کو کیا جانے گا ؟ اور آخری چیز میں صرف مکان موت کا علم انسان کو نہ ہونا بیان فرمایا ہے، حالانکہ مکان موت کی طرح زمان موت بھی انسان کے علم میں نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ مکان موت اگرچہ متعین طور پر معلوم نہ ہو مگر ظاہری حالات کے اعتبار سے انسان کچھ سمجھ سکتا ہے، کہ جہاں رہتا سہتا ہے وہیں مرے گا اور کم از کم وہ مکان جس میں اس کو مرنا ہے دنیا میں موجود تو ہے، بخلاف زمان موت کے جو زمانہ مستقبل ہے ابھی وجود میں بھی نہیں آیا، تو جو شخص مکان موت کو موجود بالفعل ہونے کے باوجود نہیں جان سکتا، اس کے متعلق یہ تصور کیسے کیا جائے کہ زمان موت جس کا اس وقت وجود ہی نہیں اس کو جان لے۔- خلاصہ یہ ہے کہ یہاں ایک چیز کی نفی سے خودبخود دوسری چیزوں کی نفی بدرجہ اولیٰ معلوم ہوجاتی ہے۔ اس لئے ان دونوں کو منفی عنوان سے بیان فرمایا۔ اور پہلی تین چیزیں تو انسانی دسترس سے ظاہر حالات میں خود ہی خارج ہیں، ان میں انسان کے علم کا دخل نہ ہونا واضح ہے۔ اس لئے ان میں مثبت عنوان اختیار کر کے ان کا اختصاص حق تعالیٰ کے ساتھ بیان کردیا گیا۔- اور ان میں سے پہلے جملے کو جملہ اسمیہ سے اور بعد کے دونوں جملوں کو فعلیہ کے عنوان سے ذکر کرنے میں شاید یہ حکمت ہے کہ قیامت تو ایک امر متعین ہے اس میں تجدد نہیں بخلاف نزول مطر اور خمل کے کہ ان کے حالات میں تجدد ہوتا رہتا ہے، اور جملہ فعلیہ تجدد پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے ان دونوں میں وہ استعمال کیا گیا، اور ان دونوں میں بھی حمل کے حالات میں تو علم الٰہی کا ذکر فرمایا (آیت) ویعلم ما فی الارحام، اور نزول بارش میں علم کا ذکر ہی نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں بارش نازل کرنے کا ذکر کر کے ضمناً یہ بھی بتلا دیا کہ بارش جس سے انسان کے ہزاروں منافع وابستہ ہیں وہ اللہ ہی کے کرنے سے آتی ہے، اور کسی کے تصرف میں نہیں، اور اس کا علمی اختصاص تو سیاق کلام ہی سے ثابت ہوجاتا ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
اِنَّ اللہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ ٠ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ٠ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَام ٠ ِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ٠ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ٣ ٤ۧ- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- غوث ( بارش)- الغَوْثُ يقال في النّصرة، والغَيْثُ في المطر، واسْتَغَثْتُهُ : طلبت الغوث أو الغیث،- والغيْثُ : المطر في قوله : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید 20]- ( غ و ث ( غ ی ث ) الغوث - کے معنی مدد اور الغیث کے معنی بارش کے ہیں - اور غیث ( پانی مانگنا ) سے بھی اسی طرح یغاثوا ( فعل مجہول ) کے بھی دونوں معنی ہوسکتے ہیں آیت کریمہ : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید 20] جیسے بارش کہ اس سے کھیتی اگتی اور کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے ۔ میں غیث کے معنی بارش ہیں - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- دری - الدّراية : المعرفة المدرکة بضرب من الحیل، يقال : دَرَيْتُهُ ، ودَرَيْتُ به، دِرْيَةً ، نحو : فطنة، وشعرة، وادَّرَيْتُ قال الشاعر : وماذا يدّري الشّعراء منّي ... وقد جاوزت رأس الأربعین والدَّرِيَّة : لما يتعلّم عليه الطّعن، وللناقة التي ينصبها الصائد ليأنس بها الصّيد، فيستتر من ورائها فيرميه، والمِدْرَى: لقرن الشاة، لکونها دافعة به عن نفسها، وعنه استعیر المُدْرَى لما - يصلح به الشّعر، قال تعالی: لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] ، وقال : وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] ، وقال : ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] ، وكلّ موضع ذکر في القرآن وما أَدْراكَ ، فقد عقّب ببیانه «1» ، نحو وما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] ، وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] ، وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] ، ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] ، وقوله : قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] ، من قولهم : دریت، ولو کان من درأت لقیل : ولا أدرأتكموه . وكلّ موضع ذکر فيه : وَما يُدْرِيكَ لم يعقّبه بذلک، نحو : وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] ، وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] ، والدّراية لا تستعمل في اللہ تعالی، وقول الشاعر : لا همّ لا أدري وأنت الدّاري فمن تعجرف أجلاف العرب - ( د ر ی ) الدرایۃ اس معرفت کو کہتے ہیں جو کسی قسم کے حیلہ یا تدبیر سے حاصل کی جائے اور یہ دریتہ ودریت بہ دریۃ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ( یعنی اس کا تعدیہ باء کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ اور باء کے بغیر بھی جیسا کہ فطنت وشعرت ہے اور ادریت بمعنی دریت آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ع اور شعراء مجھے کیسے ہو کہ دے سکتے ہیں جب کہ میں چالیس سے تجاوز کرچکاہوں قرآن میں ہے ۔ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے کے بعد کوئی ( رجعت کی سبیلی پیدا کردے ۔ وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] اور میں نہیں جانتا شاید وہ تمہارے لئے آزمائش ہو ۔ ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں وما ادراک آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] اور تم کیا سمجھتے کہ ہاویہ ) کیا ہے ؟ ( وہ ) دھکتی ہوئی آگ ہے ۔ وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] اور تم کو کیا معلوم ہے کہ سچ مچ ہونے والی کیا چیز ہے ؟ ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] یہ بھی ) کہہ و کہ اگر خدا چاہتا تو ( نہ تو ) میں ہی یہ کتاب ) تم کو پڑھکر سناتا اور نہ وہی تمہیں اس سے واقف کرتا ۔ میں سے ہے کیونکہ اگر درآت سے ہوتا تو کہا جاتا ۔ اور جہاں کہیں قران میں وما يُدْرِيكَآیا ہے اس کے بعد اس بیان مذکور نہیں ہے ( جیسے فرمایا ) وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] اور تم کو کیا خبر شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا ہے ۔ وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] اور تم کیا خبر شاید قیامت قریب ہی آپہنچی ہو یہی وجہ ہے کہ درایۃ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال نہیں ہوتا اور شاعر کا قول ع اے اللہ ہی نہیں جانتا اور تو خوب جانتا ہے میں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے بےسمجھ اور اجڈ بدر دکا قول ہے ( لہذا حجت نہیں ہوسکتا ) - الدریۃ - ( 1 ) ایک قسم کا حلقہ جس پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہے ۔ ( 2 ) وہ اونٹنی جسے شکار کو مانوس کرنے کے لئے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ اور شکار اسکی اوٹ میں بیٹھ جاتا ہے تاکہ شکا کرسکے ۔ المدوی ( 1 ) بکری کا سینگ کیونکہ وہ اس کے ذریعہ مدافعت کرتی ہے اسی سے استعارہ کنگھی یا بار یک سینگ کو مدری کہا جاتا ہے جس سے عورتیں اپنے بال درست کرتی ہیں ۔ مطعن کی طرح مد سر کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بہت بڑے نیزہ باز کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے وہ ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ - غَدٌ- يقال للیوم الذي يلي يومک الذي أنت فيه، قال : سَيَعْلَمُونَ غَداً [ القمر 26] ، ونحوه .- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ،- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ،- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔
علم غیب صرف اللہ کو ہے - قول باری ہے (ان اللہ عندہ علم الساعۃ وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام بیشک اللہ ہی کو قیامت کی خبر ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے) اس خطاب کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے ان امور کی خبر دی ہے جن کا علم صرف اس کی ذات کو ہے اور بندوں کی ان تک رسائی نہیں ہے۔ کسی کو ان باتوں کا علم صرف اسی وقت ہوسکتا جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے آگاہ کردیا جائے۔- اپنی بیوی کے حمل سے منکر قاذف نہیں ہوگا - اس بات میں یہ دلیل موجود ہے کہ حمل کے وجود حقیقت کا ہمیں علم نہیں ہوتا۔ اگرچہ ظن غالب کی حد تک اس کے وجود کا احساس ہوتا ہے۔ اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کے حمل کے متعلق یہ کہہ دے کہ یہ اس کا نہیں ہے وہ اپنی بیوی کا قاذف شمار نہیں ہوگا۔ ہم نے اس مسئلے پر پچھلے مباحث میں روشنی ڈالی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہی کو قیامت کے قائم ہونے کی خبر ہے اور اس چیز کی جو بندوں سے مخفی ہے اور وہ ہی بارش برساتا ہے اور بارش کا علم اور اس کی قدرت بھی اسی کے ساتھ خاص ہے۔- اور وہی جانتا ہے جو کچھ حاملہ کے رحم میں ہے کہ لڑکا ہے ؟ یا لڑکی ؟ پورا ہے یا ناقص، بدنصیب ہے یا خوش نصیب، یہ چیز بھی اسی کے لیے خاص ہے اور اسی طرح کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا نیکی یا برائی کرے گا اس کی بھی اسی کو خبر ہے۔ اللہ ہی اپنی مخلوق کی تمام باتوں کو جاننے والا ہے اور ان کے اعمال اور اسی طرح جو کچھ ان کو نفع یا نقصان پہنچے گا سب سے باخبر ہے کسی دوسرے کو ان کاموں کی کچھ خبر نہیں۔- شان نزول : اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ (الخ)- ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ دیہات سے ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ میری عورت حاملہ ہے تو بتایئے کہ وہ کیا جنے گی اور ہماری بستیاں خشک پڑی ہیں بتایئے کہ کب بارش ہوگی اور مجھے یہ تو معلوم ہے کہ میں کہاں پیدا ہوا ہوں بتایئے کہ میں کب مروں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اللہ ہی کو قیامت کی خبر ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ ماں کے پیٹ کے میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیسا عمل کرے گا اور نہ ہی کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ سب باتوں کا جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔
آیت ٣٤ (اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ ج) ” - اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ گھڑی کب آئے گی۔ عام طور پر ہم ” قیامت “ اور ” السّاعۃ “ کے الفاظ کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہیں اور انہیں باہم مترادف الفاظ سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ ان دونوں میں سے ہر لفظ کا اپنا الگ مفہوم ہے۔ ” السَّاعۃ “ کے معنی مخصوص گھڑی کے ہیں اور قرآنی اصطلاح کے مطابق ” السَّاعۃ “ وہ معینّ گھڑی ہے جب پوری زمین زلزلے سے جھنجھوڑ ڈالی جائے گی ‘ اجرام سماویہ ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔ مثلاً سورة القارعہ میں ” السَّاعۃ “ کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے : (اَلْقَارِعَۃُ مَا الْقَارِعَۃُ ۔ وَمَآ اَدْرٰٹکَ مَا الْقَارِعَۃُ ۔ یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ ۔ وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ ) ” وہ کھڑ کھڑانے والی کیا ہے وہ کھڑکھڑانے والی ؟ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ کھڑکھڑانے والی جب لوگ ایسے ہوں گے جیسے بکھرے ہوئے پتنگے۔ اور پہاڑ ایسے ہوجائیں گے جیسے دھنکی ہوئی روئی۔ “ - اسی طرح لفظ ” قیامت “ کا جائزہ لیں تو اس کے لغوی معنی قیام کرنے اور کھڑے ہونے کے ہیں اور اس سے وہ وقت یا وہ دن مراد ہے جب تمام لوگ دوبارہ زندہ ہو کر اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے۔ - (وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ط) ” - اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک آدمی ساری عمر ایک جگہ مقیم رہا ‘ مگر کبھی اچانک وہ کسی دوسرے ملک گیا اور وہاں اس کی موت واقع ہوگئی ‘ جبکہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسے موت اس دیار غیر میں آئے گی۔- (اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ) ” - اس آیت کے حوالے سے کچھ لوگ خواہ مخواہ اشکال پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے اس کا مفہوم اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پہلا نکتہ یہ نوٹ کرلیں کہ جن پانچ چیزوں کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے ان میں سے پہلی اور آخری دو یعنی کل تین چیزیں ایسی ہیں جن کے ذکر میں ” حصر “ کا اسلوب ہے ‘ یعنی ان میں دو ٹوک نفی ( ) موجود ہے کہ ان چیزوں کا علم صرف اللہ کو ہے ‘ اس کے سوا کوئی دوسرا ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ یہ تین چیزیں ہیں : (١) عِلم السَّاعۃ ‘ (٢) اس چیز کا علم کہ کل کوئی کیا کرے گا ‘ اور (٣) کسی کو اپنی موت کی جگہ کا علم ہونا۔ جبکہ باقی دو چیزوں (دوسری اور تیسری) کے ذکر میں ” حصر “ کا اسلوب نہیں ہے۔ یعنی ان کا ذکر کرتے ہوئے کسی دوسرے کے علم کی نفی نہیں کی گئی۔ بلکہ بارش کے حوالے سے تو یہاں اللہ کی قدرت کا ذکر ہوا ہے ‘ نہ کہ اس کے علم کا ‘ کہ اللہ بارش برساتا ہے۔ اس سلسلے کے دوسرے فرمان (وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ ) میں بھی اللہ کے علم کا ذکر ہے کہ وہ جانتا ہے جو کچھ رحموں کے اندر ہے ‘ اور یہاں بھی ” حصر “ کا اسلوب نہیں ہے۔ یعنی کسی دوسرے کے علم کی یہاں بھی نفی نہیں کی گئی۔ چناچہ قرآن کے ان الفاظ میں نہ تو کوئی اشکال ہے اور نہ ہی کسی اعتراض کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ البتہ بعض لوگ اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں جو اس آیت کی وضاحت میں وارد ہوئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی متفق علیہ ” حدیث جبریل “ میں مذکور ہے کہ نووارد شخص (جو دراصل حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) تھے) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایمان ‘ اسلام اور احسان کے بارے میں سوالات کرنے کے بعد دریافت کیا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَتَی السَّاعَۃُ ؟ ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کب آئے گی ؟ “ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (مَا الْمَسْءُوْلُ عَنْھَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّاءِلِ ) ” جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا “۔۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیامت کی چند علامات بیان فرمائیں اور پھر ارشاد فرمایا : (فِیْ خَمْسٍ لَا یَعْلَمُھُنَّ اِلَّا اللّٰہُ ) ” پانچ چیزوں کے بارے میں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا “۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِج وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَج وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِط وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًاط وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ) (١)- اس حدیث کے حوالے سے عام طور یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آج کل ماں کے پیٹ کے اندر بچے کی جنس کے بارے میں معلوم کیا جاسکتا ہے ‘ لہٰذا یہ دعویٰ درست نہیں کہ اس کے بارے میں اللہ کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ لیکن غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعتراض بھی درست نہیں۔ کیونکہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے ؟ اب تک انسان اس کے صرف ایک پہلو یعنی بچے کی جنس (لڑکا یا لڑکی) کے بارے میں ہی معلوم کرسکا ہے ‘ جبکہ اس کے بہت سے دوسرے پہلوؤں کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جان سکتا۔ مثلاً ماں کے پیٹ میں موجود بچے کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ بچہ کن صلاحیتوں کا مالک ہوگا ؟ ذہین و فطین ہوگا یا کند ذہن ‘ نیکو کار ہوگا یا بدکار۔ اسی طرح بارش کے بارے میں محکمہ موسمیات کی پیشین گوئیوں کی حقیقت ظن وتخمین سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ چناچہ اس توجیہہ کی موجودگی میں حدیث کے الفاظ پر بھی اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی ۔
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :63 یہ آیت دراصل اس سوال کا جواب ہے جو قیامت کا ذکر اور آخرت کا وعدہ سن کر کفار مکہ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے تھے کہ آخر وہ گھڑی کب آئے گی ۔ قرآن مجید میں کہیں ان کے اس سوال کو نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے ، اور کہیں نقل کیے بغیر جواب دے دیا گیا ہے ، کیونکہ مخاطبین کے ذہن میں وہ موجود تھا ۔ یہ آیت بھی انہی آیات میں سے ہے جن میں سوال کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے ۔ پہلا فقرہ: اس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے ۔ یہ اصل سوال کا جواب ہے ۔ اس کے بعد کے چاروں فقرے اس کے لیے دلیل کے طور پر ارشاد ہوئے ہیں ۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جن معاملات سے انسان کی قریب ترین دلچسپیاں وابستہ ہیں ، انسان ان کے متعلق بھی کوئی علم نہیں رکھتا ، پھر بھلا یہ جاننا اس کے لیے کیسے ممکن ہے کہ ساری دنیا کے انجام کا کب آئے گا ۔ تمہاری خوشحالی و بد حالی کا بڑا انحصار بارش پر ہے ۔ مگر اس کا سر رشتہ بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ جب ، جہاں ، جتنی چاہتا ہے برساتا ہے اور جب چاہتا ہے روک لیتا ہے ۔ ہم قطعاً نہیں جانتے کہ کہاں ، کس وقت کتنی بارش ہو گی اور کونسی زمین اس سے محروم رہ جائے گی ، یا کس زمین پر بارش الٹی نقصان دہ ہو جائے گی ۔ تمہاری اپنی بیویوں کے پیٹ میں تمہارے اپنے نطفے سے حمل قرار پاتا ہے جس سے تمہاری نسل کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے ۔ مگر تم نہیں جانتے کہ کیا چیز اس پیٹ میں پرورش پا رہی ہے اور کس شکل میں کن بھلائیوں یا برائیوں کو لیے ہوئے وہ برآمد ہو گی ۔ تم کو یہ تک پتہ نہیں ہے کہ کل تمہارے ساتھ کیا کچھ پیش آنا ہے ۔ ایک اچانک حادثہ تمہاری تقدیر بدل سکتا ہے ، مگر ایک منٹ پہلے بھی تم کو اس کی خبر نہیں ہوتی ، تم کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ تمہاری اس زندگی کا خاتمہ آخر کار کہاں کس طرح ہو گا ۔ یہ ساری معلومات اللہ نے اپنے ہی پاس رکھی ہیں اور ان میں سے کسی کا علم بھی تم کو نہیں دیا ۔ ان میں سے ایک ایک چیز ایسی ہے جسے تم چاہتے ہو کہ پہلے سے تمہیں اس کا علم ہو جائے تو کچھ اس کے لیے پیش بندی کر سکو لیکن تمہارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ ان معاملات میں اللہ ہی کی تدبیر اور اسی کی قضا پر بھروسہ کرو ۔ اسی طرح دنیا کے اختتام کی ساعت کے معاملے میں بھی اللہ کے فیصلے پر اعتماد کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے ۔ اس کا علم بھی نہ کسی کو دیا گیا ہے نہ دیا جا سکتا ہے ۔ یہاں ایک بات اور بھی اچھی طرح سمجھ لینی ضروری ہے ، کہ اس آیت میں امور غیب کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ۔ یہاں تو صرف سامنے کی چند چیزیں مثالاً پیش کی گئی ہیں جن سے انسان کی نہایت گہری اور قریبی دلچسپیاں وابستہ ہیں اور انسان اس سے بے خبر ہے ۔ اس سے نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ صرف یہی پانچ امور غیب ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ حالانکہ غیب نام ہی اس چیز کا ہے جو مخلوقات سے پوشیدہ اور صرف اللہ پر روشن ہو ، اور فی الحقیقت اس غیب کی کوئی حد نہیں ہے ۔ ( اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جِلد سوم ، صفحات ۵۹۵ تا ۵۹۸ ) ۔