1 3 1یعنی دنیا میں، لیکن یہ ہدایت جبری ہوتی، جس میں امتحان کی گنجائش نہ ہوتی۔ 1 3 2یعنی انسانوں کی دو قسموں میں سے جو جہنم میں جانے والے ہیں، ان سے جہنم کو بھرنے والی میری بات سچ ثابت ہوگی۔
[ ١٤] یعنی ہمیں انسان کے اضطراری ایمان کی ضرورت نہیں۔ اس صورت میں انسان کو اختیار دینا بالکل عبث تھا۔ اب چونکہ اسے اچھے یا برے راستہ کی تمیز بھی اسے بخش دے گئی ہے اور ان میں سے کسی ایک راہ کے انتخاب کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ لہذا اب اللہ کا کام یہ نہیں کہ ہر ایک کو ہدایت کی راہ پر لانے پر مجبور کردے۔ بلکہ یہ ہے کہ جس راہ پر کوئی چلتا ہے۔ اسی راستہ کے لئے اسے توفیق دے دے۔- [ ١٥] اللہ تعالیٰ کی تمام جاندار مخلوق میں سے جن اور انسان دو نوع ایسی ہیں۔ جن کو اللہ نے قوت تمیز اور قوت ارادہ و اختیار بخشی ہے۔ اور یہی دو انواع شریعت الٰہی کی مکلف ہیں۔ انھیں کے لئے یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ انسانوں سے پہلے جنات ہی اس زمین پر آباد تھے۔ جب ان میں سرکشی بڑھی تو اللہ نے ایک دوسری مخلوق انسان کو ان کا جانشین بنادیا۔ پہلے نبوت کا سلسلہ جنوں میں تھا۔ پھر یہ سلسلہ نبوت انسان کی طرف منتقل ہوگیا۔ جو نبی انسانوں کی طرف مبعوث ہوتا وہی جنوں کے لئے بھی ہوتا تھا۔ اور جن بھی بالتبع اسی نبی کی اطاعت کے پابند بنا دیئے گئے۔ لیکن حضرت انسان بھی سرکشی اور انکار حق میں جنوں سے پیچھے نہ رہا۔ دونوں نے اللہ کے عطا کردہ اختیار کا ناجائز اور غلط استعمال کیا۔ دونوں انواع کی اکثریت دنیا پر فریفتہ ہو کر اس امتحان میں فیل ہوگئی۔ جنوں اور انسانوں کے شیاطین نے خلقت کو اللہ کی راہ سے روکنے اور انھیں گمراہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور یہ سب باتیں اللہ کے علم میں پہلے سے موجود نہیں کہ جنوں اور انسانوں کی اکثریت اس امتحان میں ناکام ہو کر جہنم کا ایندھن بنے گی۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے کبھی اس ناکامی کی نسبت اپنی طرف کی ہے کبھی شیاطین جن و انس کی طرف اور کبھی ان گمراہوں کی طرف۔
وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا ۔۔ : یعنی یہ کیا بات ہوئی کہ اب تم حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ایمان لے آؤ اور ہم تمہاری سزا موقوف کردیں، یا تمہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیں۔ اس طرح کی جبری ہدایت تو ہم تمہیں پہلے ہی دے سکتے تھے، مگر اس سے قیامت کی جزا و سزا بےنتیجہ ہو کر رہ جاتی اور امتحان کا مقصد فوت ہوجاتا۔ اب تو ضروری ہے کہ میرا وہ قول پورا ہو جو میں نے ابلیس کے آدم کو سجدے سے انکار کے وقت اسے مخاطب کر کے فرمایا تھا : (قَالَ فَالْحَقُّ ۡ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ اَجْمَعِيْنَ ) [ ص : ٨٤، ٨٥ ] ” فرمایا پھر حق یہی ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں کہ میں ضرور بالضرور جہنم کو تجھ سے اور ان سب لوگوں سے بھر دوں گا جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے۔ “
وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ ہُدٰىہَا وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَــَٔــنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ١٣- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- مِلْء) بهرنا)- مقدار ما يأخذه الإناء الممتلئ، يقال : أعطني ملأه ومِلْأَيْهِ وثلاثة أَمْلَائِهِ.- لمل کسی چیز کی اتنی مقدار جس سے کوئی بر تن بھر جائے محاورہ ہے : ۔ اعطنی ملاءہ وملاء بہ وثلاثۃ املائہ - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - جِنَّة :- جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- ۔ الجنتہ - جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔
مگر اگر ہمیں یہ منظور ہوتا تو ہر ایک شخص کو اس کی نجات کا راستہ عطا فرماتے لیکن میری بات محقق ہوچکی کہ میں جہنم کو جن و انس میں سے جو کافر ہیں سب سے بھروں گا اور اگر یہ نہ ہوتا تو پھر میں ہر ایک شخص کو معرفت و توحید سے سرفراز فرماتا۔
آیت ١٣ (وَلَوْ شِءْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ہُدٰٹہَا) - اگر ہمیں اسی طرح آخرت کے پردے اٹھا کر اور عالم غیب کا مشاہدہ کروا کر لوگوں کو ہدایت دینا مقصود ہوتا تو ہم یہ کام دنیا میں ہی کردیتے اور اس طرح تمام انسانوں کو راہ ہدایت پر لے آتے۔ بہر حال ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب انہیں سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر یقین آجائے گا تو اس وقت انہیں اس ایمان اور یقین کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا ‘ کیونکہ اس وقت ان کی امتحانی مہلت ختم ہوچکی ہوگی۔- (وَلٰکِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَاَمْلَءَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ والنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ) - جنوں اور انسانوں میں سے جو بھی ہمارے باغی ہیں وہ سب ضرور جہنم کا ایندھن بنیں گے۔
سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :23 یعنی اس طرح حقیقت کا مشاہدہ اور تجربہ کرا کر ہی لوگوں کو ہدایت دینا ہمارے پیش نظر ہوتا تو دنیا کی زندگی میں اتنے بڑے امتحان سے گزار کر تم کو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی ‘ ایسی ہدایت تو ہم پہلے ہی تم کو دے سکتے تھے لیکن تمہارے لیے تو آغاز ہی سے ہماری اسکیم یہ نہ تھی ہم تو حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل اور حواس سے مخفی رکھ کر تمہارا امتحان لینا چاہتے تھے کہ تم براہ راست اس کو بے نقاب دیکھنے کے بجائے کائنات میں اور خود اپنے نفس میں اس کی علامات دیکھ کر اپنی عقل سے اس کو پہچانتے ہو یا نہیں ، ہم اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے اس حقیقت شناسی میں تمہاری جو مدد کرتے ہیں اس سے فائدہ اٹھاتے ہو یا نہیں ، اور حقیقت جان لینے کے بعد اپنے نفس پر اتنا قابو پاتے ہو یا نہیں کہ خواہشات اور اغراض کی بندگی سے آزاد ہو کر اس حقیقت کو مان جاؤ اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل درست کر لو ۔ اس امتحان میں تم ناکام ہو چکے ہو ۔ اب دوبارہ اسی امتحان کا سلسلہ شروع کرنے سے کیا حاصل ہو گا ۔ دوسرا امتحان اگر اس طرح لیا جائے کہ تمہیں وہ سب کچھ یاد ہو جو تم نے یہاں دیکھ اور سن لیا ہے تو یہ سرے سے کوئی امتحان ہی نہ ہو گا ۔ اگر پہلے کی طرح تمہیں خالی الذہن کر کے اور حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل رکھ کر تمہیں پھر دنیا میں پیدا کر دیا جائے اور نئے سرے سے تمہارا اسی طرح امتحان لیا جائے جیسے پہلے لیا گیا تھا ، تو نتیجہ پچھلے امتحان سے کچھ بھی مختلف نہ ہو گا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل ، صفحات ۱٦۰ ۔ ۱٦۱ ۔ ۵٦۵ ۔ ٦۲۵ ۔ ۵۳۲ ۔ ٦۰۳ ۔ ٦۰٤ ۔ جلد دوّم ص ، ۲۷٦ ۔ جلد سوّم ص ۳۰۰ ) سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :24 اشارہ ہے اس قول کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم علیہ السلام کے وقت ابلیس کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا تھا ۔ سورہ ص کے آخری رکوع میں اس وقت کا پورا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور نسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت مانگی ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ پس حق یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں کہ جہنم کو بھر دوں گا تجھ سے اور ان لوگوں سے جو انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے ۔ اَجْمَعِیْنَ کا لفظ یہاں اس معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ تمام جن اور تمام انسان جہنم میں ڈال دیے جائیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے شیاطین اور ان شیاطین کے پیرو انسان سب ایک ساتھ ہی وصل جہنم ہوں گے ۔
5: یعنی اگر اللہ تعالیٰ زبردستی لوگوں کو ہدایت پر لانا چاہتے تو وہ ضرور ایسا کرسکتے تھے، لیکن اس صورت میں وہ آزمائش نہ ہوتی جو انسان کی تخلیق کا اصل مقصد ہے، انسان کی آزمائش تو اسی میں تھی کہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر پیغمبروں کی بات پر ایمان لائے، جنت اور جہنم کا آنکھ سے نظارہ کرلینے کے بعد اس پر زبردستی ایمان لانے میں کوئی آزمائش نہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے اس آزمائش کی خاطر انسان کو پیدا کرکے ازل ہی میں یہ طے کرلیا تھا کہ جو لوگ عقل سے کام لے کر پیغمبروں کی اطاعت نہیں کریں گے ؛ بلکہ ان کو جھٹلائیں گے، اُن سے میں جہنم کو بھردوں گا۔