Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

161یعنی راتوں کو اٹھ کر نوافل (تہجد) پڑھتے توبہ استغفار، تسبیح تحمید اور دعا الحاح وزاری کرتے ہیں۔ 162یعنی اس کی رحمت اور فضل و کرم کی امید بھی رکھتے ہیں اور اس کے عتاب و غضب اور مؤاخذہ و عذاب سے ڈرتے بھی ہیں۔ محض امید ہی امید نہیں رکھتے کہ عمل سے بےپرواہ ہوجائیں جیسے بےعمل اور بدعمل لوگوں کا شیوہ ہے اور نہ عذاب کا اتنا خوف طاری کرلیتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے ہی مایوس ہوجائیں کہ یہ مایوسی بھی کفر و ضلالت ہے۔ 163یعنی انفاق میں صدقات واجبہ (زکوٰۃ) اور عام صدقہ و خیرات دونوں شامل ہیں، اہل ایمان دونوں کا حسب استطاعت اہتمام کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١٨] اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ساری رات سوتے ہی نہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ جس طرح دنیا دار لوگ دن بھر محنت کرکے رات کو دادعیش دیتے ہیں۔ رقص و سرود کی محفلیں قائم کرتے ہیں۔ شراب نوشی کے دور چلتے ہیں۔ سینما اور کلب گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو ٹیوی پر ہی اپنا دل بہلا لیتے ہیں۔ اللہ کے بندے ان کے برعکس اپنا وقت اللہ کی یاد میں گزارتے ہیں۔ یہی ان کی تفریح طبع ہوتی ہے۔ وہ راتوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اور جتنا وقت دنیا دار اللہ کی نافرمانیوں میں گزارتے ہیں اللہ کے بندے اس کی فرمانبرداری اور عبادت میں گزارتے ہیں۔ وہ عذاب جہنم سے ڈر کر اور جنت کی امید رکھ کر اللہ کو پکارتے ہیں یا عبادت تو اللہ کی رحمت اور مہربانی کی امید رکھ کر کرتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اللہ سے ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ کہیں ان کے اس عمل میں کچھ تقصیر نہ رہ جائے۔ اور وہ اللہ کے ہاں مقبول ہی نہ ہو۔ تاہم ان میں اللہ سے حسن ظن یا اس کی رحمت اور مہربانی کا پہلا ہی غالب رہتا ہے۔ اور یہ پہلو زندگی بھر غالب رہتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس حال میں نہ مرے کہ وہ اللہ عزوجل سے حسن ظن نہ رکھتا ہو (مسلم۔ کتاب الجنۃ۔ باب الامر بحسن ظن باللہ تعالیٰ عند الموت)- اگرچہ اس آیت سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس آیت میں بستروں سے الگ رہنے اور اللہ کو پکارنے سے مراد نماز تہجد ہے۔ جس کی احادیث میں بہت فضیلت مذکور ہے۔ تاہم بعض علماء نے اس سے صبح کی نماز مراد لی ہے۔ بعض نے عشاء کی اور بعض نے نماز مغرب اور عشاء کے درمیان نوافل کی۔ تاہم راجح بات وہی معلوم ہوتی ہے جو اولاً مذکور ہوئی۔- [ ١٩] اس سے مراد صرف مال حلال ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حرام مال کی نسبت کبھی اپنی طرف نہیں کی۔ نہ ہی ایسے مال سے صدقہ قبول کرتا ہے۔ اور خرچ کرنے بھی مراد عیاشیوں پر خرچ کرنا نہیں بلکہ جائز طریقوں سے خرچ کرنا ہے خواہ وہ اپنی ذات پر وہ، اہل و عیال پر ہو، قرابتداروں اور دوسرے محتاجوں کی ضروریات اور حاجات پوری کرنے پر ہو۔ اور اگر حلال مال سے دوسروں پر خرچ کرنے کی توفیق میسر نہیں ہوتی تو بھی حرام کمائی سے بہرحال بچنا چاہئے اس پر قناعت اور اللہ کا شکر کرنا چاہئے۔ اور اس میں سے خواہ بہت تھوڑا ہی سہی، کچھ نہ کچھ ضرور خرچ کرنا چاہئے۔ کیونکہ غریبوں کو بھی تزکیہ نفس کی ضرورت ہوتی ہے۔ بخل کے مرض سے ان کا بھی دل پاک ہونا چاہئے اسی لئے رسول اللہ نے فرمایا : آگ سے اپنا بچاؤ کرو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی کرو (بخاری۔ کتاب الزکوٰ ۃ۔ باب اتقوالنار۔۔ تمرۃ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ۔۔ : یعنی وہ نماز اور ذکر الٰہی کی خاطر اپنے آرام دہ بستر اور لذیذ نیند چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا اعلیٰ درجہ تہجد ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ اٰخِذِيْنَ مَآ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِنِيْنَ كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ) [ الذاریات : ١٥ تا ١٨ ] ” بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ لینے والے ہوں گے جو ان کا رب انھیں دے گا، یقیناً وہ اس سے پہلے نیکی کرنے والے تھے۔ وہ رات کے بہت تھوڑے حصے میں سوتے تھے۔ اور رات کی آخری گھڑیوں میں وہ بخشش مانگتے تھے۔ “ اس کے علاوہ بھی قیام اللیل کی فضیلت میں بہت سی آیات و احادیث آئی ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف میں عبداللہ بن رواحہ (رض) نے کہا ہے ؂- یَبِیْتُ یُجَافِيْ جَنْبَہُ عَنْ فِرَاشِہِ- إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بالْمُشْرِکِیْنَ الْمَضَاجِعُ- ” وہ رات اس حال میں گزارتا ہے کہ اپنا پہلو اپنے بستر سے الگ رکھتا ہے، جب مشرکین کے بستر انھیں نہایت بوجھل کیے ہوتے ہیں۔ “ [ بخاري، التھجد، باب فضل من تعار من اللیل فصلّی : ١١٥٥ ] - مگر یہاں ایک سوال ہے کہ یہ جو فرمایا کہ ہماری آیات پر ایمان صرف وہی لوگ لاتے ہیں جن میں یہ صفات پائی جائیں، تو کیا جو شخص تہجد نہ پڑھے اس کا اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان نہیں ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بیشک ایمان کا اعلیٰ مرتبہ انھی لوگوں کا ہے جو فرائض کے علاوہ نفل قیام اللیل کا اہتمام کرتے ہیں، مگر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ جو شخص مغرب کے بعد عشاء کے انتظار میں نہیں سوتا بلکہ عشاء جماعت کے ساتھ ادا کرتا ہے، پھر فجر کے وقت آرام دہ بستر اور میٹھی نیند چھوڑ کر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے، وہ بھی اس فضیلت سے محروم نہیں رہتا۔ کیونکہ اس کا پہلو بھی نماز کی خاطر بستر سے جدا رہا ہے اور وہ سویا ہے تب بھی اس کے انتظار میں سویا ہے۔ عبدالرحمن بن ابی عمرہ کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان (رض) مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں داخل ہوئے اور اکیلے بیٹھ گئے، میں ان کے پاس جا بیٹھا تو انھوں نے کہا، بھتیجے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے : ( مَنْ صَلَّی الْعِشَاءَ فِيْ جَمَاعَۃٍ فَکَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّیْلِ وَمَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فِيْ جَمَاعَۃٍ فَکَأَنَّمَا صَلَّی اللَّیْلَ کُلَّہُ ) [ مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العشاء و الصبح في جماعۃ : ٦٥٦ ] ” جو شخص عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے نصف رات قیام کیا اور جو شخص صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا۔ “ انس بن مالک (رض) زیر تفسیر آیت : (۞تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ) کے بارے میں فرماتے ہیں : ( نَزَلَتْ فِي انْتِظَارِ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ الَّتِيْ تُدْعَی الْعَتَمَۃَ ) [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورة السجدۃ : ٣١٩٦، و صححہ الألباني ]” یہ آیت اس نماز کے بارے میں اتری جسے عتمہ (عشاء) کہا جاتا ہے۔ “ اور ابو برزہ (رض) بیان کرتے ہیں : ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کَانَ یَکْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِیْثَ بَعْدَھَا ) [ بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب ما یکرہ من النوم قبل العشاء : ٥٦٨ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عشاء سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ “- يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا : یعنی وہ اپنے رب کی گرفت کے خوف اور اس کی رحمت کی امید کے ساتھ اسے پکارتے ہیں۔ انھیں خوف ہے کہ ان کے اعمال رد نہ کردیے جائیں اور امید بھی کہ وہ قبولیت کا شرف حاصل کرلیں گے۔ (دیکھیے مومنون : ٥٧ تا ٦١) نہ بےجا امید، جو بےعمل یا بد عمل بنا دیتی ہے اور نہ اتنا خوف جو اللہ کی رحمت سے مایوس کر دے اور آدمی کو کفر تک پہنچا دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض صوفیوں نے جو کہا : ” میرا دل چاہتا ہے کہ میں جہنم کو بجھادوں اور جنت کو جلا دوں، تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کسی ڈر یا لالچ سے نہ کریں بلکہ محض اس کی رضا کے لیے کریں۔ “ اور بعض نے کہا : ” میں چاہتا ہوں کہ میرا رب مجھ سے راضی ہوجائے، پھر خواہ مجھے جنت میں بھیج دے خواہ جہنم میں پھینک دے۔ “ یہ فضول باتیں ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کی صفت ہی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں، پھر یہ بھی ان لوگوں کی جہالت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو جنت اور جہنم سے الگ کردیا، حالانکہ جنت اسے ملے گی جس پر وہ راضی ہوگا اور جہنم میں وہ جائے گا جس پر وہ ناراض ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی سے کہا : ( کَیْفَ تَقُوْلُ فِي الصَّلاَۃِ ؟ ) ” تم نماز میں کیا کہتے ہو ؟ “ اس نے کہا : ( أَ تَشَھَّدُ وَ أَقُوْلُ ، أَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْجَنَّۃَ وَ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ النَّارِ ، أَمَا إِنِّيْ لَا أُحْسِنُ دَنْدَنَتَکَ وَلَا دَنْدَنَۃَ مُعَاذٍ ) ” میں تشہد پڑھتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ اے اللہ میں تجھ سے جنت مانگتا ہوں اور آگ سے تیری پناہ مانگتا ہوں، ہاں میں آپ جیسی اچھی گنگناہٹ نہیں کرسکتا اور نہ معاذ جیسی گنگناہٹ کرسکتا ہوں۔ “ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( حَوْلَھَا نُدَنْدِنُ ) [ أبوداوٗد، الصلاۃ، باب تخفیف الصلاۃ : ٧٩٢، و صححہ الألباني ] ” ہم بھی اسی کے گرد گنگنا رہے ہیں۔ “ تو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کی ساری تگ و دو جہنم سے بچنے اور جنت کے حصول کے لیے ہے، تو پھر ان سے بڑھ کر اللہ کی رضا چاہنے والا کون ہوگا۔ ہمارے ایک شاعر نے جو کہا ہے ؂- واعظ کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد - سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے - دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے - او بیخبر ، جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے - تو یہ اسی تصوف سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے جس کی تعلیمات بنیادی طور پر اسلام ہی کے خلاف ہیں۔ اسلام نے تو ” رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ “ کہنے کی تعلیم دی ہے۔ مسلمانوں نے جہاد چھوڑ کر دنیا کفار کے سپرد کردی اور غلامی پر قانع ہوگئے، پھر عیش و عشرت میں پڑ کر عقبیٰ سے بھی گئے اور کچھ بےچارے راہبوں کی طرح رب کو راضی کرنے کے لیے دنیا کو چھوڑ کر خانقاہوں، جنگلوں اور کٹیاؤں میں ہُو، حق کے ورد کرتے رہے اور کفر کی یلغار اسلام اور مسلمانوں کو محکوم بناتی چلی گئی۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ]- وَّمِـمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (٣) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) تتجافی جنوبہم عن المضاجع یدعون ربہم خوفاً وطمعاً ، سابقہ آیات میں کفار و مشرکین و منکرین قیامت کو تنبہات تھیں۔ اس کے بعد (انما یومن بایتنا) سے مومنین مخلصین کی خاص صفات اور ان کے لئے درجات عظیمہ کا ذکر ہے۔ ان مومنین کی ایک صفت آیت مذکورہ میں یہ بتلائی گئی ہے کہ ان کے پہلو اپنے بستروں سے الگ ہوجاتے ہیں، اور بستروں سے اٹھ کر اللہ کے ذکر اور دعا میں مشغول ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اللہ کی ناراضی اور عذاب سے ڈرتے ہیں، اور اس کی رحمت اور ثواب کے امیدوار رہتے ہیں۔ یہی امید وبیم کی ملی جلی حالت ان کو ذکر و دعاء کیلئے مضطرب رکھتی ہے۔- نماز تہجد :- بستروں سے اٹھ کر دعاء میں مشغول ہوجانے سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک نماز تہجد اور نوافل ہیں جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جاتی ہیں (ہو قول الحسن و مجد ومالک وزاعی) اور روایات حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ - مسند احمد، ترمذی، نسائی وغیرہ میں حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں تھا۔ ایک روز میں دوران سفر میں صبح کے وقت آپ کے قریب ہوا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے کوئی ایسا عمل بتلا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرے اور جہنم سے دور کر دے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے ایک بڑی چیز کا سوال کیا مگر جس کے لئے اللہ تعالیٰ آسان کر دے اس کو وہ آسان ہوجاتی ہے۔ اور فرمایا کہ وہ عمل یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔ اور پھر فرمایا کہ لو اب میں تمہیں خیر یعنی نیکی کے ابواب بتلا دیتا ہوں (وہ یہ ہیں کہ) روزہ ڈھال ہے (جو عذاب سے بچاتا ہے) اور صدقہ آدمی کے گناہوں کی آگ بجھا دیتا ہے، اسی طرح آدمی کی نماز درمیان شب میں۔ اور یہ فرما کر قرآن مجید کی آیت مذکورہ تلاوت فرمائی۔ (آیت) تتجافی جنوبہم عن المضاجع۔- حضر ابو الدرداء اور قتادہ اور ضحاک نے فرمایا کہ پہلوؤں کے بستروں سے الگ ہوجانے کی یہ صفت ان لوگوں پر بھی صادق ہے جو عشاء کی نماز جماعت سے ادا کریں پھر صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھیں۔ اور ترمذی میں بسند صحیح حضرت انس سے روایت ہے کہ یہ تتجافی جنوبہم عشاء کی نماز سے پہلے سونے اور جماعت عشاء کا انتظار کرنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی۔- اور بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت ان لوگوں سے متعلق ہے جو مغرب اور عشاء کے درمیان نوافل پڑھتے ہیں۔ (رواہ محمد بن نصر) اور حضرت ابن عباس نے اس آیت کے متعلق فرمایا کہ جو لوگ جب آنکھ کھلے اللہ کا ذکر کریں لیٹے، بیٹھے اور کروٹ پر بھی وہ اس میں داخل ہیں۔- ابن کثیر اور دوسرے ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ ان سب اقوال میں کوئی تضاد نہیں، صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت ان سب کو شامل ہے۔ اور آخر شب کی نماز ان سب میں اعلیٰ و افضل ہے۔ بیان القرآن میں بھی اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔- اور حضرت اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ اولین و آخرین کو قیامت کے روز جمع فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک منادی کھڑا ہوگا جس کی آواز تمام مخلوقات سنیں گی وہ ندا دے گا کہ اہل محشر آج جان لیں گے کہ اللہ کے نزدیک کون لوگ عزت و اکرام کے مستحق ہیں۔ پھر وہ فرشتہ ندا دے گا کہ اہل محشر میں سے وہ لوگ اٹھ کھڑے ہوں جن کی صفت یہ تھی (آیت) تتجافی جنوبہم عن المضاجع یعنی ان کے پہلو بستروں سے الگ ہوجاتے ہیں، اس آواز پر یہ لوگ کھڑے ہوں گے جن کی تعداد قلیل ہوگی (ابن کثیر) اور اسی روایت کے بعض الفاظ میں ہے کہ یہ لوگ بغیر حساب کے جنت میں بھیج دیئے جائیں گے۔ اس کے بعد اور تمام لوگ کھڑے ہوں گے، ان سے حساب لیا جائے گا۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۝ ٠ ۡوَّمِـمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝ ١٦- تتجافی۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ تجافی ( تفاعل) مصدر سے جس کے معنی جگہ سے دور ہونے کے ہیں ۔ جگہ سے علیحدہ ہونا۔ الگ ہونا۔ کہتے ہیں۔ تجافی السرج عن ظھر الفرس۔ زین گھوڑے کی پیٹھ سے ہٹ گئی۔ تجافی جنبہ عن الفراش اس کا پہلو بستر ست دور رہا۔- جنب - أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال،- ( ج ن ب ) الجنب - اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ - المضاجع - ۔ اسم ظرف مکان جمع۔ المضجع واحد ۔ خوابگا ہیں۔ بستر۔ تتجافی جنوبھم عن المضاجع۔ ان کے پہلو اپنے بستروں سے دور رہتے ہیں۔ بمصداق ؎- بہ نیم سب کہ ہمہ مست خواب خوش باشد من و خیال تو و نالہ ہائے درد آلود - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية .- قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] ،- ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ - طمع - الطَّمَعُ : نزوعُ النّفسِ إلى الشیء شهوةً له، طَمِعْتُ أَطْمَعُ طَمَعاً وطُمَاعِيَةً ، فهو طَمِعٌ وطَامِعٌ.- قال تعالی: إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء 51] ، أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة 75] ، خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف 56] ،- ( ط م ع ) الطمع - کے معنی ہیں نفس انسانی کا کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ میلان ۔ طمع ( س ) طمعا وطماعیۃ کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ مائل ہونا طمع وطامع اس طرح مائل ہونے والا قرآن میں ہے : ۔ - إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء 51] ہمین امید ہے کہ ہمارا خدا ہمارے گناہ بخش دیگا ۔- أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة 75]( مومنوں ) کیا تم آرزو رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین کے قائل ہوجائیں گے ۔ خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف 56] وڑانے اور امید دلانے کیلئے - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مومن خواب غفلت میں نہیں ہوتا - قول باری ہے : (تتجافی جنوبھم عن المضاجع ۔ ان کے پہلو خوابگاہوں سے علیحدہ رہتے ہیں) ہمیں عبدالللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن ربیع ج زبانی نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے انہوں نے عاصم بن ابی النجود سے، انہوں نے ابو وائل سے انہوں نے حضرت معاذ (رض) بن جہیل سے آیت کی تفسیر میں روایت کی۔ وہ کہتے ہیں : ” میں ایک سفر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھا ۔ سفر کے دوران میں ایک دن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب آگیا اور عرض کیا۔ اللہ کے رسول مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جو مجھے جنت میں لے جانے اور جہنم کی آگ سے دور کردے۔ “ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” تم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے، تاہم اللہ جس کے لئے آسان کردے اس کے لئے یہ بات آسان ہے۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔ “- پھر فرمایا : ” میں تمہیں بھلائی کے دروازوں کی نشاندہی نہ کروں ؟ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کی آگ کو بجھادیتا ہے، نیزوہ نماز جو رات کو اٹھ کر ایک انسان ادا کرتا ہے۔ “ پھر آپ نے درج بالا آیت (جزاء بما کانوا یعملون) تک تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا : میں تمہیں تمام بھلائیوں کی جڑ۔ ان کے ستون اور ان کے کوہان کی چوٹی کی خبر نہ دوں ؟ “ میں نے عرض کیا ” اللہ کے رسول ضرور بتائیے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمام بھلائیوں کی جڑ اسلام، ان کا ستون نماز اور ان کے کوہان کی چوٹی جہادفی سبیل اللہ ہے۔ “- پھر فرمایا : کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتادوں جوان تمام امور کا سرا ہے ؟ “ میں نے عرض کیا۔” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرور بتائیے۔ “ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا : ” اسے اپنے قابو میں رکھو۔ “ میں نے عرض کیا۔” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم جو کچھ اپنی زبان سے کہتے ہیں کیا اس پر بھی ہمار گرفت ہوگی ؟ “ یہ سن کر آپ نے فرمایا : معاذ تمہاری ماں تمہیں گم کردے جہنم میں جو لوگ اوندھے منہ (یا یہ فرمایا ” یا نتھنوں کے بل “ ) گرائے جائیں گے وہ اپنی زبانوں کی کاٹی ہوئی فصل کی بنا پر ہی تو گرائے جائیں گے۔- ہمیں عبداللہ بن محمد اسحاق نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمہ سے کہ قتادہ نے آیت (ولا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین۔ ) کسی کو علم نہیں جو جو (سامان) آنکھوں کی ٹھنڈک کا ان کے لئے (خزانہ غیب میں) مخفی ہے کی تفسیر کرتے ہوئے کہا : ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی نعمتیں تیار کررکھی ہیں جن کا کسی آنکھ نے مشاہدہ نہیں کیا، نہ کسی کان تک ان کی خبر گئی اور نہ ہی کسی دل میں ان کا خیال تک گزرا۔- ابواسحاق نے ابوعبیدہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں ” ان لوگوں کے لئے جن کے پہلو، ان کی خوابگاہوں سے علیحدہ رہتے ہیں ایسی نعمتیں ہیں جن کا کسی آنکھ نے مشاہدہ نہیں کیا، نہ کسی کان تک ان کی خبر گئی اور نہ ہی کسی دل میں ان کا خیال تک گزرا۔ “ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی (فلا تعلم نفس مااخفی لھم من قرۃ اعین) ۔- مجاہد اور عطاء سے قول باری (تتجانی جنوبھم عن المضاجع) کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد عشاء کی نماز ہے ۔ حسن سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ لوگ مغرب اور عشاء کے درمیان نفلیں پڑھا کرتے تھے۔ ضحاک نے قول باری (یدعون ربھم خوفا وطمعنا۔ وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے رہتے ہیں) کہ تفسیر میں کہا ہے کہ وہ لوگ دعائوں میں اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور اس کی تعظیم بجالاتے ہیں۔- قتادہ نے کہا ہے ” وہ لوگ اپنے رب کو اس کے عذاب کے خوف سے اور اس کی رحمت کی امید کی بنا پر پکارتے رہتے ہیں، نیز اللہ نے انہیں جو رزق عطا کیا ہے اسے وہ اس کی طاعت میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ان کے پہلو رات میں سونے کے بعد تہجد کی نماز کے لیے خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں اور وہ اپنے پروردگار کی پانچوں نمازوں کے ذریعے عبادت کرتے ہیں اور اس کی رحمت کی امید سے اور اس کے عذاب کے خوف سے یا یہ مطلب ہے کہ جب تک یہ حضرات عشاء کی نماز نہیں پڑھ لیتے ان کے پہلو بستروں سے علیحدہ رہتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو مال دیا ہے اس میں سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں۔- شان نزول : تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ (الخ)- بزاز نے بلال سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے اور کچھ صحابہ کرام مغرب کی نماز کے بعد سے عشاء تک نماز پڑھنے میں مصروف رہتے تھے تب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔- اس روایت کی سند میں عبداللہ بن شبیب ضعیف راوی ہیں اور امام ترمذی نے تصحیح کے ساتھ حضرت انس سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت عشاء کی نماز کے انتظار کرنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ (تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ) - سورۃ الفرقان میں اللہ کے نیک بندوں کے اس خاص معمول کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے : (وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا ) اور وہ لوگ راتیں بسر کرتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام کرتے ہوئے۔ یعنی ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو ساری ساری رات غفلت کی نیند سوتے رہتے ہیں اور دوسری طرف اللہ کے یہ بندے ہیں جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کو یاد کرتے ہیں ‘ کبھی اس کے حضور قیام کر کے اور کبھی سجدے میں گر کر۔- (یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًاز) - ایک طرف تو وہ اللہ کی رحمت اور مغفرت کے بارے میں پر امید ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف اپنی کوتاہیوں پر پکڑے جانے کا خوف بھی انہیں لاحق رہتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :27 یعنی راتوں کو داد عیش دیتے پھرنے کے بجائے وہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں ۔ ان کا حال ان دنیا پرستوں کا سا نہیں ہے جنہیں دن کی محنتوں کی کلفت دور کرنے کے لیے راتوں کو ناچ گانے اور شراب نوشی اور کھیل تماشوں کی تفریحات درکار ہوتی ہیں ۔ اس کے بجائے ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ دن بھر اپنے فرائض انجام دے کر جب وہ فارغ ہوتے ہیں تو اپنے رب کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اس کی یاد میں راتیں گزارتے ہیں ۔ اس کے خوف سے کانپتے ہیں اور اسی سے اپنی ساری امیدیں وابستہ کرتے ہیں ۔ بستروں سے پیٹھیں الگ رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ راتوں کو سوتے ہی نہیں ہیں ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ راتوں کا ایک حصہ خدا کی عبادت میں صرف کرتے ہیں ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :28 رزق سے مراد ہے رزق حلال ۔ مال حرام کو اللہ تعالیٰ اپنے دیے ہوئے رزق سے تعبیر نہیں فرماتا ۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو تھوڑا یا بہت پاک رزق ہم نے انہیں دیا ہے اسی میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ اس سے تجاوز کر کے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے حرام مال پر ہاتھ نہیں مارتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: یعنی رات کے وقت وہ نمازیں پڑھتے ہیں۔ اس میں عشاء کی نماز بھی داخل ہے جو فرض ہے اور تہجد کی نماز بھی جو سنت ہے۔ 8: وہ اس بات سے ڈرتے بھی ہیں کہ ان کی عبادت میں جو قصور ہوا ہے، کہیں وہ نامنظور نہ ہوجائے، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ وہ اسے قبول فرما کر اجر و ثواب عطا فرمائے۔