1 7 1نفس نکرہ ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ان نعمتوں کو جو اس نے مذکورہ اہل ایمان کے لیے چھپا کر رکھی ہیں جن سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی۔ اس کی تفسیر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حدیث قدسی بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھیں کسی کان نے ان کو سنا نہیں نہ کسی انسان کے وہم و گمان میں ان کا گزر ہوا۔ 1 7 2اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رحمت کا مستحق بننے کے لئے اعمال صالحہ کا اہتمام ضروری ہے۔
[ ٢٠] ایسے لوگ جو رات کی تاریکیوں میں، لوگوں سے چھپ کر، ریا کاری سے بچتے ہوئے اللہ کو یاد کرتے اور اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ تو ان کا بدلہ بھی ایسی چیزیں ہوں گی جو اللہ نے ان کے لئے چھپا رکھی ہیں۔ وہ نعمتیں کیا ہوں گی وہ ایسے لوگوں کے دلوں اور ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں گی۔ ان کی صفات بیان کرنے سے انسان کو اس دنیا میں سمجھ بھی نہیں آسکے گی۔ جس طرح اگر کسی شخص نے آم کبھی نہ کھایا ہو تو خواہ اس کے مزے کی تفصیل کتنی ہی بیان کی جائے۔ ایسے کبھی نہیں ہوسکتی۔ جیسے کوئی شخص آم کھا کر محسوس یا معلوم کرسکتا ہے۔ اور جنت کی نعمتوں کا تو یہ حال ہے کہ نہ کبھی کسی نے دیکھیں، نہ سنیں، نہ چکھیں حتیٰ کہ کسی کے دل میں ان کا خیال تک بھی نہ آیا جب کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے پنے (نیک) بندوں کے لئے وہ نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں نہ کبھی کسی آنکھ نے دیھا، نہ کسی کان نے سنا، ہو اور نہ ہی کسی کے دل میں ان کا خیال تک آیا ہو حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ اگر تم چاہو تو (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھ لو۔ فلا ععلم نفس۔۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُن۔۔ : لفظ ” نَفْسٌ“ نکرہ ہے، جو عموم کا فائدہ دیتا ہے، یعنی کوئی نفس نہیں جانتا، خواہ انسان ہو یا جن یا فرشتہ، پھر خواہ ملک مقرب ہو یا نبی مرسل، غرض اللہ کے سوا کوئی ان نعمتوں کو نہیں جانتا جو اس نے مذکور اہل ایمان کے لیے چھپا کر رکھی ہیں، جن سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، ان کے ان اعمال کی جزا کے لیے جو وہ کیا کرتے تھے۔ ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( قَال اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِیْنَ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ ، وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ ، قَالَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ اقْرَؤُوْا إِنْ شِءْتُمْ : (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُن ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( فلا تعلم نفس ما أخفي۔۔ ) : ٤٧٧٩۔ مسلم : ٢٨٢٤ ] ” اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے، میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل میں اس کا خیال آیا۔ “ ابوہریرہ (رض) نے فرمایا، اگر چاہو تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھ لو : (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُن) [ السجدۃ : ١٧ ] اس مقام پر ابن کثیر (رض) نے جنت کی نعمتوں کے بیان میں کئی احادیث ذکر کی ہیں۔
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْيُنٍ ٠ ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١٧- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- قرر ( آنکھ ٹهنڈي کرنا)- صببت فيها ماء قَارّاً ، أي : باردا، واسم ذلک الماء الْقَرَارَةُ والْقَرِرَةُ. واقْتَرَّ فلان اقْتِرَاراً نحو : تبرّد، وقَرَّتْ عينه تَقَرُّ : سُرّت، قال : كَيْ تَقَرَّ عَيْنُها [ طه 40] ، وقیل لمن يسرّ به : قُرَّةُ عين، قال : قُرَّتُ عَيْنٍ لِي وَلَكَ [ القصص 9] ، وقوله : هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] ، قيل : أصله من القُرِّ ، أي : البرد، فَقَرَّتْ عينه، قيل : معناه بردت فصحّت، وقیل : بل لأنّ للسّرور دمعة باردة قَارَّةً ، وللحزن دمعة حارّة، ولذلک يقال فيمن يدعی عليه : أسخن اللہ عينه، وقیل : هو من الْقَرَارِ. والمعنی: أعطاه اللہ ما تسکن به عينه فلا يطمح إلى غيره، وأَقَرَّ بالحقّ : اعترف به وأثبته علی نفسه . وتَقَرَّرَ الأمرُ علی كذا أي :- حصل، والقارُورَةُ معروفة، وجمعها : قَوَارِيرُ قال : قَوارِيرَا مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 16] ، وقال : رْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل 44] ، أي : من زجاج .- قرت لیلتنا تقر رات کا ٹھنڈا ہونا ۔ یوم قر ٹھنڈا دن ) لیلۃ فرۃ ( ٹھنڈی رات ) قر فلان فلاں کو سردی لگ گئی اور مقرور کے معنی ٹھنڈا زدہ آدمی کے ہیں ۔ مثل مشہور ہے ۔ حرۃ تحت قرۃ یہ اس شخص کے حق میں بولتے ہیں جو اپنے ضمیر کے خلاف بات کرے ۔ قررت القدر اقرھا میں نے ہانڈی میں ٹھنڈا پانی ڈالا ۔ اور اس پانی کو قرارۃ قررہ کہا جاتا ہے ۔ اقتر فلان اقترار یہ تبرد کی طرح ہے جس کے معنی ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کے ہیں ۔ قرت عینہ ت قرآن کھ کا ٹھنڈا ہونا ۔ مراد خوشی حاصل ہونا ہے قرآن پاک میں ہے : كَيْ تَقَرَّ عَيْنُها [ طه 40] تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ اور جسے دیکھ کر انسان کو خوشی حاصل ہو اسے قرۃ عین کہاجاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : قُرَّتُ عَيْنٍ لِي وَلَكَ [ القصص 9] یہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہمیں بیویوں کی طرف سے دل کا چین اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں قر بمعنی سردی سے ہے لہذا قرت عینہ کے معنی آنکھ کے ٹھنڈا ہو کر خوش ہوجانے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ قرت عینہ کے معنی خوش ہونا اس لئے آتے ہیں کہ خوشی کے آنسو ٹھنڈے ہوتے ہیں اور غم کے آنسو چونکہ گرم ہونے ہیں اس لئے بددعا کے وقت اسخن اللہ عینہ کہاجاتا ہاے ۔ بعض نے کہا ہے کہ قرار س مشتق ہے مراد معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے وہ چیزبخشے جس سے اس کی آنکھ کی سکون حاصل ہو یعنی اسے دوسری چیز کی حرص نہ رہے ۔ اقر بالحق حق کا اعتراف کرنا ۔ تقر الامر علی ٰ کذا کسی امر کا حاصل ہوجانا ۔ القارودۃ شیشہ جمع قواریر قرآن میں ہے : قَوارِيرَا مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 16] اور شیشے بھی چاندی کے ۔ صبح ممرد من قواریر یہ ایسا محل ہے جس میں ( نیچے ) شیشے جڑے ہوئے ہیں یعنی شیشے کا بنا ہوا ہے ۔- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔
سو ان کو خبر نہیں جو جنت میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے سامان اور ثواب و اعزاز خزانہ غیب میں موجود ہے یہ ان کے نیک اعمال کا صلہ ہے جو انہوں نے دنیا میں کیے ہیں۔
آیت ١٧ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ج) - آخرت کی جن نعمتوں کا ذکر عمومی طور پر قرآن میں ملتا ہے اور جن کے بارے میں ہم کسی حد تک اندازہ بھی کرسکتے ہیں ان میں سے اکثر کا تعلق اہل جنت کی ابتدائی مہمانی (نُزُل) سے ہے ‘ جبکہ جنت کی اصل نعمتوں کا نہ تو کسی کو علم ہے اور نہ ہی ان کا تصور انسانی فہم و ادراک میں آسکتا ہے۔ اس آیت کی وضاحت حدیث میں بھی بیان ہوئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :- (قَال اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ : اَعْدَدْتُ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالاَ عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ ، فَاقْرَءُ وْا اِنْ شِءْتُمْ : فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ - قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ) (١)- اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے (جنت میں) وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ‘ نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا گمان ہی گزرا۔ (پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ) اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : پس کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ ان (اہل جنت) کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے۔
سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :29 بخاری ، مسلم ، ترمذی اور مسند احمد میں متعدد طریقوں سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قال اللہ تعالیٰ اعددت لعبادی الصالحین ما لا عین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علیٰ قلب بشرٍ ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ فراہم کر رکھا ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کبھی کسی کان نے سنا ، نہ کوئی انسان کبھی اس کا تصور کر سکا ہے ۔ یہی مضمون تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ حضرت ابو سعید خدری ، حضرت مغیرہ بن شُعْبہ اور حضرت سہَل بن سَعد ساعِدی نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے جسے مسلم ، احمد ، ابن جریر اور ترمذی نے صحیح سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے ۔
9: یعنی خزانہ غیب میں ایسے نیک لوگوں کے لیے جو نعمتیں چھپی ہوئی ہیں وہ انسان کے تصور سے بھی بلند ہیں