Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نیک وبد دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہوسکتے اللہ تعالیٰ کے عدل وکرم کا بیان ان آیتوں میں ہے کہ اس کے نزدیک نیک کار اور بدکاربرابر نہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ 21؀ۧ ) 45- الجاثية:21 ) یعنی کیا ان لوگوں نے جو برائیاں کررہے ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ایمان اور نیک عمل والوں کی مانند کردیں گے؟ ان کی موت زیست برابر ہے ۔ یہ کیسے برے منصوبے بنا رہے ہیں ۔ اور آیت میں ہے ( اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ 28؀ ) 38-ص:28 ) یعنی ایماندار نیک عمل لوگوں کو کیا ہم زمین کے فسادیوں کے ہم پلہ کردیں؟ پرہیزگاروں کو گنہگاروں کے برابر کردیں؟ اور آیت ( لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ 20؀ ) 59- الحشر:20 ) دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہوسکتے ۔ یہاں بھی فرمایا کہ مومن اور فاسق قیامت کے دن ایک مرتبہ کے نہیں ہوں گے ۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ اور عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ پھر ان دونوں قسموں کا تفصیلی بیان فرمایا کہ جس نے اپنے دل سے کلام اللہ کی تصدیق کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا تو انہیں وہ جنتیں ملیں گی جن میں مکانات ہیں بلند بالا خانے ہیں اور رہائش آرام کے تمام سامان ہیں ۔ یہ ان کی نیک اعمالی کے بدلے میں مہمانداری ہوگی ۔ اور جن لوگوں نے اطاعت چھوڑی ان کی جگہ جہنم میں ہوگی جس میں سے وہ نکل نہ سکیں گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِيْدُوْا فِيْهَا ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ 22؀ۧ ) 22- الحج:22 ) یعنی جب کبھی وہاں کے غم سے چھٹکارا چاہیں گے دوبارہ وہیں جھونک دئیے جائیں گے ۔ حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں واللہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہونگے آگ شعلے انہیں اوپر نیچے لے جا رہے ہونگے فرشتے انہیں سزائیں کررہے ہونگے اور جھڑک کر فرماتے ہونگے کہ اس جہنم کے عذاب کا لطف اٹھاؤ جسے تم جھوٹا جانتے تھے ۔ عذاب ادنی سے مراد دنیوی مصیبتیں آفتیں دکھ درد اور بیماریاں ہیں یہ اس لئے ہوتی ہیں کہ انسان ہوشیار ہوجائے اور اللہ کی طرف جھک جائے اور بڑے عذابوں سے نجات حاصل کرے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد گناہوں کی وہ مقرر کردہ سزائیں ہیں جو دنیا میں دی جاتی ہیں جنہیں شرعی اصطلاح میں حدود کہتے ہیں ۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے ۔ نسائی میں ہے کہ اس سے مراد قحط سالیاں ہیں ۔ حضرت ابی فرماتے ہیں چاند کا شق ہوجانا دھویں کا آنا اور پکڑنا اور برباد کن عذاب اور بدر والے دن ان کفار کا قید ہونا اور قتل کیا جانا ہے ۔ کیونکہ بدر کی اس شکست نے مکے کے گھر گھر کو ماتم کدہ بنادیا تھا ۔ ان عذابوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے جو اللہ کی آیتیں سن کر اس کی وضاحت کو پاکر ان سے منہ موڑلے بلکہ ان کا انکار کرجائے اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا ؟ حضرت قتادۃ فرماتے ہیں اللہ کے ذکر سے اعراض نہ کرو ایسا کرنے والے بےعزت بےوقعت اور بڑے گنہگار ہیں ۔ یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ ایسے گنہگاروں سے ہم ضرور انتقام لیں گے ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تین کام جس نے کئے وہ مجرم ہوگیا ۔ جس نے بےوجہ کوئی جھنڈا باندھا ، جس نے ماں باپ کا نافرمانی کی ، جس نے ظالم کے ظلم میں اس کا ساتھ دیا ۔ یہ مجرم لوگ ہیں اور اللہ کا فرمان ہے کہ ہم مجرموں سے باز پرس کریں گے اور ان سے پورا بدلا لیں گے ۔ ( ابن ابی حاتم )

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181یہ استفہام انکاری ہے یعنی اللہ کے ہاں مومن اور کافر برابر نہیں ہیں بلکہ ان کے درمیان بڑا فرق و تفاوت ہوگا مومن اللہ کے مہمان ہوں گے۔ اور اعزازو کرام کے مستحق اور فاسق و کافر تعزیر و عقوبت کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے جہنم کی آگ میں جھلسیں گے۔ اس مضمون کو دوسرے مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً (اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ ) 45 ۔ الجاثیہ :21) (اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ ) 38 ۔ ص :28) (لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ ) 59 ۔ الحشر :20) وغیرہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢١] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فاسق کو مومن کی عین ضد کے طور پر بیان فرمایا، یعنی مومن اور فاسق برابر کیا ہوں گے یہ تو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جیسے دن کے مقابلہ میں رات ہوتی ہے، یعنی مومن اگر ایماندار ہے تو فاسق بےایمان ہوگا۔ مومن اگر اللہ کا مطیع فرمان ہے تو فاسق اللہ کا باغی ہوگا۔ تو جس طرح یہ اپنے اعمال کے لحاظ سے ایک دوسرے کی عین ضد ہیں۔ اس طرح اخروی اجر کے لحاظ سے بھی ان کا معاملہ ایسا ہی ہوگا۔ چناچہ اگلی دو آیات میں انہی دونوں قسم کے لوگوں کا انجام اور ان کو ملنے والی جزاء و سزا کا ذکر کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ۔۔ : ” فِسْقٌ“ کا لفظ ” فَسَقَتِ الثَّمَرَۃُ “ سے نکلا ہے، جب پھل پھٹ کر چھلکے سے نکل جائے، پھر اطاعت سے نکل جانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ یہ لفظ نافرمان مومن پر بھی بولا جاتا ہے اور کافر پر بھی، جیسا کہ فرمایا : (وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) [ النور : ٥٥ ] ” جس نے اس کے بعد کفر کیا تو یہی لوگ نافرمان ہیں۔ “ اس آیت میں فاسق سے مراد کافر و مشرک ہے، کیونکہ مومن کے مقابلے میں آ رہا ہے۔ کفار کے لیے عذاب کی وعید اور مومنوں کے لیے نعمتوں کی نوید کا ذکر آیا تو اس پر کوئی کج بحث کہہ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں کیا کمی ہے، وہ چاہے تو جس طرح دنیا میں اس نے مومن و کافر سبھی کو اپنی نعمتیں دے رکھی ہیں، آخرت میں بھی دونوں کو نواز دے۔ فرمایا، یہ تو عدل و حکمت ہی کے خلاف ہے، بھلا ایک ماننے والا اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو نہ ماننے والا ہے ؟ ایک مطیع و فرماں بردار شخص اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو نافرمان اور باغی ہے ؟ دونوں کبھی برابر نہیں ہوسکتے، نہ دنیا میں ان کی زندگی کا انداز ایک ہے، نہ موت کے وقت اور نہ آخر ت میں ایک ہوگا۔ اس مضمون کی آیات کے لیے دیکھیے سورة صٓ (٢٨) ، حشر (٢٠) اور جاثیہ (٢١) یہ آخرت کے ثواب و عقاب کی نہایت عمدہ دلیل ہے، کیونکہ اگر اس دنیا کے بعد کوئی دوسری زندگی نہ ہو تو نیک و بد سب یکساں ہوجائیں اور نیک و بد کا یکساں ہوجانا پروردگار عالم کی حکمت کے بالکل خلاف ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا۝ ٠ ۭؔ لَا يَسْـتَوٗنَ۝ ١٨۬- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔- استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

لہذا اب بتا کہ جو شخص سچا مسلمان ہوگیا یعنی حضرت علی تو کیا وہ منافق یعنی ولید بن عقبہ بن ابی محی جیسا ہوجائے گا۔- شان نزول : اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا (الخ)- واحدی اور ابن عساکر نے سعید بن جبیر کے طریق سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ ولید بن عقبہ بن معیط نے حضرت علی سے کہا کہ میں آپ سے ہتھیار کے اعتبار سے بھی تیز اور زبان کے اعتبار سے بڑھ کر اور لشکر کے اعتبار سے بھی بڑا ہوں۔ حضرت علی نے اس سے فرمایا خاموش ہوجا تو فاسق ہے اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور ابن عدی اور خطیب نے اپنی تاریخ میں کلبی اور ابو صالح کے واسطے سے حضرت ابن عباس سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور خطیب اور ابن عساکر نے ابن لہیعہ، عمرو بن دینار کے واسطہ سے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت حضرت علی اور عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوگئی تھی۔- اور اسی طرح اس روایت میں ہے کہ یہ آیت عقبہ بن ولید کے بارے میں نازل ہوئی ہے ولید کے بارے میں نہیں نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :30 یہاں مومن اور فاسق کی دو متقابل اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں ۔ مومن سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنا رب واحد مان کر اس قانون کی اطاعت اختیار کر لے جو اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے بھیجا ہے ۔ اس کے برعکس فاسق وہ ہے جو فسق ( خروج از طاعت ، یا با الفاظ دیگر بغاوت ، خود مختاری اور اطاعت غیر اللہ ) کا رویہ اختیار کرے ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :31 یعنی نہ دنیا میں ان کا طرز فکر و طرز حیات یکساں ہو سکتا ہے اور نہ آخرت میں ان کے ساتھ خدا کا معاملہ یکساں ہو سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani