Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰي : ” الماوی “ ” أَوٰی یَأْوِيْ “ (ض) (جگہ پکڑنا، پناہ لینا، رہنا) سے ظرف یا مصدر میمی ہے، رہنے کی جگہ یا رہائش۔ یعنی جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے صالح عمل کیے ان کے لیے ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں، دنیا کی طرح نہیں جو دار زوال ہے اور نہ ہی جہنم کی طرح جو جائے فرار ہے۔- نُزُلًۢا بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : ” نُزُلًۢا “ مہمان کی آمد پر اس کی خاطر تواضع کے لیے جو کچھ پیش کیا جائے۔ جب مہمانی کا یہ عالم ہے تو مزید عنایتوں کا کیا حال ہوگا۔ ان کا کچھ اندازہ اس سے پہلی آیت : (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ) اور حدیث رسول : ( مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ ) [ مسلم : ٢٨٢٤ ] سے ہوسکتا ہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ وہ کسی کے نیک اعمال کو اس کے لیے جنت کی مہمانی کا سبب بنا دے، ورنہ کسی کا عمل اسے جنت میں داخل نہیں کرے گا، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَأَبْشِرُوْا، فَإِنَّہُ لَا یُدْخِلُ أَحَدًا الْجَنَّۃَ عَمَلُہُ ، قَالُوْا وَلَا أَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ یَّتَغَمَّدَنِيَ اللّٰہُ بِمَغْفِرَۃٍ وَ رَحْمَۃٍ ) [ بخاري، الرقاق، باب القصد و المداومۃ علی العمل : ٦٤٦٧ ]” سیدھے رہو، قریب رہو اور خوش خبری سنو، کیونکہ کسی کو بھی اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ “ لوگوں نے کہا : ” یا رسول اللہ کیا آپ کو بھی نہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے بھی نہیں، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے مغفرت اور رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰي۝ ٠ ۡنُزُلًۢا بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ١٩- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ - نزل ( ضيافت)- النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- والنُّزُلُ : ما يُعَدُّ للنَّازل من الزَّاد، قال : فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوى نُزُلًا - [ السجدة 19] وأَنْزَلْتُ فلانا : أَضَفْتُهُ.- ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں - النزل - ( طعام مہمانی ) وہ کھان جو آنے والے مہمان کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوى نُزُلًا[ السجدة 19] ان کے رہنے کے لئے باغ میں یہ مہمانی ۔- انزلت - فلانا کے معنی کسی کی مہمانی کرنے کے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اب پھر اللہ تعالیٰ ان دونوں جماعتوں کا مرنے کے بعد کیا ٹھکانا ہوگا اس کو یوں بیان فرما رہا ہے کہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے تو ان کے دنیاوی نیک اعمال کے صلہ میں ان کو آخرت میں ٹھہرے اور قیام کرنے کے لیے جنتیں ملیں گی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰی ز) - لغوی اعتبار سے نُزُلکا تعلق نازل ہونے یا اترنے سے ہے۔ جو کوئی مہمان آپ کے دروازے پر آیا اور اپنی سواری سے اترا وہ نَزِیل ہے اور آپ نے موسم اور رواج کے مطابق فوری طور پر جو کچھ اس کو پیش کیا وہ نُزُل (ابتدائی مہمان نوازی) ہے۔ جبکہ باقاعدہ مہمان نوازی کے لیے لفظ ضیافت استعمال ہوتا ہے جو نُزُل کے بعد کا مرحلہ ہے۔ ضیافت کا لفظ ضیف (مہمان) سے بنا ہے۔ یعنی جب آپ اپنے مہمان کے لیے باقاعدہ قیام کا بندوبست کریں گے اور اس کے آرام و طعام کا اہتمام کریں گے ‘ تب وہ ضیف کے درجے میں آئے گا۔ اس مرحلے میں آپ اس کی مہمان نوازی کے لیے جو خاطر مدارات کریں گے وہ ضیافت کہلائے گی۔ چناچہ آخرت کے حوالے سے جن باغوں اور نعمتوں کا ذکر قرآن میں عمومی طور پر آیا ہے ان کا درجہ دراصل اہل جنت کے لیے نُزُل (ابتدائی مہمان نوازی) کا ہے ‘ جبکہ ان کی اصل ضیافت اس کے بعد ہوگی۔ اس ضیافت کے دوران جو نعمتیں اور آسائشیں اہل جنت کو مہیا کی جائیں گی ان کے متعلق کوئی کچھ نہیں جانتا۔ جیسا کہ ابھی حدیث بیان ہوئی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :32 یعنی وہ جنتیں ان کی سیر گاہیں نہیں ہوں گی بلکہ وہی ان کی قیام گاہیں بھی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani