۔ 1یعنی جہنم کے عذاب کی شدت اور ہولناکی سے گھبرا کر باہر نکلنا چاہیں گے تو فرشتے پھر جہنم کی گہرائیں میں دھکیل دیں گے۔ 2 0 2یہ فرشتے کہیں گے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئے گی، بہرحال اس میں مکذبین کی ذلت و رسوائی کا جو سامان ہے وہ چھپا ہوا نہیں۔
[ ٢٢] برے عذاب سے مراد قیامت کے دن جہنم کا عذاب ہے اور عذاب الادبی سے مراد دنیا میں پہنچنے والے مصائب ہیں۔ جو انفرادی طور پر بھی ہر انسان کو دیکھنا پڑے ہیں۔ مثلاً بیماریاں، مالی نقصان، عزیز و اقرباء کی موت یا کئی دوسرے حادثے اور اجتماعی زندگی کے مصائب الگ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مثلاً قحط، زلزلے، وبا، فسادات اور لڑائیاں جن سے بیک وقت ہزاروں انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اللہ کی طرف سے ہلکے ہلکے عذاب ہیں نہیں بلکہ تنبیہات بھی ہیں کہ وہ بروقت سنبھل جائیں اور انھیں معلوم ہوجائے کہ ان سے بالاتر کوئی ہستی موجود ہے جو ان کی بداعمالیوں پر ان پر گرفت کرسکتی ہے۔ اور اس سے انھیں اپنا عقیدہ اور عمل درست کرنے میں مدد ملے۔ اس طرح شاید وہ بداعمالیوں سے اور آخرت میں ان کے برے انجام سے بچ جائیں۔
وَاَمَّا الَّذِيْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىهُمُ النَّارُ :” الَّذِيْنَ فَسَقُوْا “ سے مراد کفار ہیں، جیسا کہ پیچھے گزرا۔ ” مَاْوَاھُمْ “ کی خبر ” النار “ معرف باللّام آنے کی وجہ سے کلام میں حصر پید اہو گیا کہ ” ان کا ٹھکانا آگ ہی ہے۔ “ یعنی کفار کی جہنم سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں۔- كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْـرُجُوْا مِنْهَآ اُعِيْدُوْا فِيْهَا ۔۔ : ظاہر ہے جہنم سے کفار کے نکلنے کی تو کوئی صورت ہی نہیں، تو وہ آگ سے نکلنے کا ارادہ کیسے کریں گے۔ اس کا اندازہ سمرہ بن جندب (رض) سے مروی ایک لمبی حدیث سے ہوتا ہے، جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کئی چیزوں کا ذکر فرمایا، جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خواب میں دکھائیں۔ ان میں سے ایک چیز یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَانْطَلَقْنَا إِلٰی ثَقْبٍ مِثْلِ التَّنُّوْرِ أَعْلَاہُ ضَیِّقٌ وَ أَسْفَلُہُ وَاسِعٌ یَتَوَقَّدُ تَحْتَہُ نَارًا فَإِذَا اقْتَرَبَ ارْتَفَعُوْا حَتّٰی کَادَ أَنْ یَخْرُجُوْا، فَإِذَا خَمَدَتْ رَجَعُوْا فِیْھَا، وَ فِیْھَا رِجَالٌ وَنِسَاءٌ عُرَاۃٌ، فَقُلْتُ مَنْ ھٰذَا ؟ قَالَا انْطَلِقْ ۔۔ وَالَّذِيْ رَأَیْتَہُ فِي الثَّقْبِ فَھُمُ الزُّنَاۃُ ) [ بخاري، الجنائز، باب : ١٣٨٦ ] ” پھر ہم ایک سوراخ کی طرف چلے جو تنور کی طرح تھا، اس کا اوپر کا حصہ تنگ اور نیچے کا کھلا تھا۔ اس کے نیچے سے آگ بھڑک رہی تھی، جب وہ اوپر قریب آتی تو وہ اوپر اٹھ آتے، یہاں تک کہ نکلنے کے قریب ہوجاتے، جب وہ ماند پڑتی تو واپس اسی میں لوٹ جاتے۔ میں نے کہا : ” یہ کون ہیں ؟ “ تو دونوں فرشتوں نے کہا : ” آگے چلو۔ “۔۔ (تمام مشاہدات کے بعد ان فرشتوں نے بتایا) ” تم نے اس سوراخ میں جو کچھ دیکھا وہ زانی لوگ تھے۔ “ واضح رہے کہ ایک ہی حال میں رہنے میں تکلیف کی وہ شدت نہیں ہوتی جو بار بار اس کے دہرانے سے ہوتی ہے۔ جہنمیوں کے لیے آگ کے ماند ہونے پر ہر مرتبہ اس کی تیزی اور بڑھا دی جائے گی، جیسا کہ فرمایا : (كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا) [ بني إسرائیل : ٩٧ ] ” ان کا ٹھکانا جہنم ہے، جب کبھی بجھنے لگے گی ہم ان پر بھڑکانا زیادہ کردیں گے۔ “ اور فرمایا : (كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِيْدُوْا فِيْهَا) [ الحج : ٢٢ ] ” جب کبھی ارادہ کریں گے کہ سخت گھٹن کی وجہ سے اس سے نکلیں، اس میں لوٹا دیے جائیں گے۔ “
وَاَمَّا الَّذِيْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىہُمُ النَّارُ ٠ ۭ كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْـرُجُوْا مِنْہَآ اُعِيْدُوْا فِيْہَا وَقِيْلَ لَہُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِيْ كُنْتُمْ بِہٖ تُكَذِّبُوْنَ ٢٠- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - عود - الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] - ( ع و د ) العود ( ن)- کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔- ذوق - الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له :- الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] - ( ذ و ق ) الذاق ( ن )- کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے
اور منافقین کا ٹھکانا جہنم ہے۔- جب بھی یہ لوگ دوزخ سے باہر نکلنا چاہیں گے تو لوہے کے گرز مار کر پھر اسی کو دھکیل دیے جائیں گے اور داروغہ ان سے کہے گا کہ دوزخ کا وہ عذاب چکھو کہ جس کو تم دنیا میں جھٹلایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہمیں عذاب نہیں ہوگا۔
آیت ٢٠ (وَاَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰٹہُمُ النَّارُ ط) (کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَآ اُعِیْدُوْا فِیْہَا) جب بھی وہ اس میں سے نکلنا چاہیں گے تو انہیں اسی میں لوٹا دیا جائے گا