2 2 1یعنی اللہ کی آیتیں سن کر جو ایمان و اطاعت کی موجب ہیں، جو شخص ان سے اعراض کرتا ہے، اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ یعنی سب سے بڑا ظالم ہے۔
[ ٢٣] یعنی قیامت کا دن دراصل مجرمین سے بدلہ لینے کا دن ہے۔ اس دن کوئی بھی مجرم اپنے جرم کی سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ اور جو شخص اپنے کبرونخوت کی بنا پر اللہ کی آیات سننا تک گوارا نہیں کرتا بلکہ پہلے سے ہی منہ جوڑ کر چل دیتا ہے وہ تو سب سے بڑھ کر ظالم ہے۔ وہ بھلا اس دن انتقام سے کیسے بچ سکے گا ؟ واضح رہے کہ اللہ کی آیات کی بہت سی اقسام ہیں۔ مثلاً ایک تو وہ آیات ہیں جو کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی ہیں۔ جنہیں ہم آفاقی نشانیاں کہہ سکتے ہیں۔ اور ان میں سورج، چاند، ستارے، گردش لیل و نہار۔ زمین کی قوت روئیدگی۔ ہواؤں اور بارشوں کا نظام وغیرہ وغیرہ امور شامل ہیں۔ دوسری قسم وہ آیات ہیں جو انسان کے اندر کی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں۔ انسان کی تخلیق، جسم کی ساخت، اعضاء کا خود کار نظام، اور محیرالعقول قوتیں جو اللہ نے انسان کے اندر رکھ دی ہیں۔ اسی جسم میں بعض ایسے داعیے بھی موجود ہیں جو انسان کے تحت الشعور میں ہوتے ہیں۔ لیکن وقت پڑنے پر فوراً جاگ اٹھتے ہیں۔ جیسے جب موت سامنے کھڑی نظر آئے تو مشرکین کیا دہریے تک اللہ کو پکارنے لگتے ہیں۔ اس قسم کو قرآنی آیات انفس کا نام دیتا ہے تیسری قسم وہ تاریخی واقعات ہیں جن سے ہمیشہ ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قوم نے بھی اللہ کے مقابلہ میں سرکشی کی راہ اختیار کی اور اس کے رسول اور آیات کو جھٹلا دیا ہو۔ اللہ نے اسے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اس قسم کو شرعی اصطلاح میں تذکیر بایام اللہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ اصطلاح قرآن ہی کے الفاظ عععع وذکرھم بایام اللہ سے ماخوذ ہے اور چوتھی قسم وہ نشانیاں ہیں جو مصائب کی شکل میں تنبیہ کے طور پر انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر انسانوں پر بصورت عذاب ادنیٰ نازل کی جاتی ہیں۔ اور جن کا ذکر سابقہ آیت میں ہوا ہے۔ اور پانچویں قسم اللہ تعالیٰ کی وہ آیات ہیں جو اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے اپنے انبیاء پر وقتاً فوقتاً نازل کیں۔ ان آیات میں دراصل انسان سابقہ چاروں قسم کی آیات کو غور و فکر کے لئے انسان کے سامنے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اور عقلی اور عام فہم دلائل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اور یہی وہ دلائل یا آیات ہیں جن کے متعلق قرآن میں بار بار یہ مذکور ہوا ہے کہ یہ آیات بالکل واضح ہیں، روشن ہیں ان میں کوئی پیچیدگی نہیں، کوئی ابہام نہیں، کوئی ٹیڑھ نہیں بلکہ سیدھی سادی اور عام فہم دلیلیں ہیں۔ قرآن کی آیات باقی چاروں قسم کی آیات کی طرف توجہ دلاتی ہیں اور اسی کا نام ذکر اور تذکرہ ہے اور پہلی چاروں قسم کی آیات قرآن کی آیات کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ اور ان سب آیات کا ماحصل ایک ہی سامنے آتا ہے اور وہی دراصل انبیاء کی تعلیم کا نچوڑ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی تدبیر و تخلیق کرنے والی ہستی بڑی مقتدار اور حکیم ہستی ہے اور وہ صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اس میں دوئی یا کسی دوسرے کی شراکت کی کوئی گنجائش نہیں۔ دوسرے یہ کہ کائنات اور اس کی کوئی بھی چیز بےمقصد پیدا نہیں کی گئی۔ لہذا انسان جو اشرف المخلوقات ہے کہ زندگی کا بےمقصد ہونا ناممکنات سے ہے۔ تیسرے یہ کہ انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح وہ طبعی اور اضطراری امور میں اللہ کے قوانین کے سامنے مجبور محصن اور ان قوانین کا پابند ہے۔ اسی طرح وہ اپنے اختیاری امور میں بھی اللہ کے احکام کے سامنے سرتسلیم ختم کردے اور کائنات کی باقی تمام اشیاء کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے صرف ایک ہی اللہ کی عبادت اور تسبیح و تقدیس بیان کرے اور اسی کا ہو کر رہے۔ اور چوتھے یہ کہ جو شخص اللہ کا فرمانبردار بن کر رہے اسے ضرور اس کا اچھا بدلہ ملنا چاہئے اور جو نافرمان ہو اسے ضرور سزا مل کر رہے اور چونکہ یہ دنیا کی زندگی اور ہر انسان کی پوری مدت عمر امتحان کا عرصہ ہے لہذا اس عرصہ امتحان کے بعد کامیاب اور ناکام انسانوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے۔ اس لحاظ سے روز آخرت کا قیام نہایت ضروری ہوا۔ ورنہ یہ دنیا ایک اندھیر نگری قرار پاتی ہے۔ نیز انسان جیسی اشرف المخلوقات مخلوق کا مقصد حیات ہی فوت ہوجاتا ہے۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ ۔۔ : یہ استفہام انکاری ہے کہ ” اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ “ یعنی کوئی نہیں، وہی بڑا ظالم ہے جسے اس کے رب کی آیات کے ساتھ نصیحت کی گئی، پھر اس نے ان سے منہ پھیرلیا۔ ” ثم “ (پھر) کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات بہت بعید اور تعجب والی ہے کہ آیات الٰہی کے ساتھ نصیحت کے بعد بھی اس نے ان سے منہ پھیرلیا۔ وہ آیات (نشانیاں) جن کے ساتھ آدمی کو نصیحت ہوتی ہے، کئی طرح کی ہیں، ایک آفاقی نشانیاں، جو کائنات میں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں، مثلاً سورج، چاند، ستارے، دن رات، ہوا، بارش، سمندر، کشتیاں اور زمین کی نباتات وغیرہ۔ دوسری وہ جو خود انسان کے نفس میں موجود ہیں، یعنی اس کی ساخت، اس میں رکھی گئی عجیب و غریب قوتیں اور استعدادیں اور اس کے اعضا کا حیران کن خود کار نظام۔ ان دونوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ) [ حٰآ السجدۃ : ٥٣] ” عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں میں اور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہوجائے کہ یہی حق ہے۔ “ تیسری وہ تاریخی واقعات جن سے ہمیشہ ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جس قوم نے بھی اللہ کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی اور اس کے رسولوں اور اس کی آیات کو جھٹلایا، تو اللہ نے اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ سورة ابراہیم کی آیت (٥) : (وَذَكِّرْهُمْ ڏ بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ ) اور سورة یوسف کی آیت (١١١) : (لَقَدْ كَانَ فِيْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ) میں ایسے ہی واقعات کے ساتھ نصیحت اور عبرت مراد ہے۔ چوتھی جو آزمائشوں اور مصیبتوں کی شکل میں ہر شخص اور ہر قوم کے سامنے آتی ہیں، تاکہ وہ پلٹ آئیں، جن کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہے۔ پانچویں قسم اللہ تعالیٰ کی وہ آیات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے انبیاء پر نازل فرمائیں۔ ان آیات میں بھی گزشتہ چاروں قسم کی آیات پر غور و فکر کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ ، اس کے رسولوں اور اس کے احکام پر عمل کی دعوت دی جاتی ہے۔- اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ مُنْتَقِمُوْنَ : ” المجرمین “ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے ترجمہ ” ان مجرموں سے “ کیا گیا ہے، یعنی آیات الٰہی کے ساتھ نصیحت کے بعد منہ موڑ لینے والے ان مجرموں سے ہم یقیناً انتقام لینے والے ہیں، دنیا میں عذاب ادنیٰ اور آخرت میں عذاب اکبر کے ساتھ۔
بعض جرائم کی سزا آخرت سے پہلے دنیا میں بھی ملتی ہے :- انا من المجرمین منتقمون، بظاہر لفظ مجرمین میں ہر قسم کے مجرم شامل ہیں اور انتقام بھی عام ہے خواہ دنیا میں یا آخرت میں یا دونوں میں۔ مگر بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تین گناہ ایسے ہیں کہ ان کی سزا آخرت سے پہلے دنیا میں بھی ملی ہے۔ ایک حق کے خلاف جھنڈوں اور نعروں کے ساتھ اعلاناً کوشش کرنا، دوسرے والدین کی نافرمانی، تیسرے ظالم کی امداد۔ (رواہ ابن جریر عن معاذ بن جبل )
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْہَا ٠ ۭ اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ مُنْتَقِمُوْنَ ٢ ٢ۧ- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - ذكر ( نصیحت)- وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته .- الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ - جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ - نقم - نَقِمْتُ الشَّيْءَ ونَقَمْتُهُ «2» : إذا أَنْكَرْتُهُ ، إِمَّا باللِّسانِ ، وإِمَّا بالعُقُوبةِ. قال تعالی: وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] ، وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ، هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] . والنِّقْمَةُ : العقوبةُ. قال : فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] ، فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] ، فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] .- ( ن ق م )- نقمت الشئی ونقمتہ کسی چیز کو برا سمجھنا یہ کبھی زبان کے ساتھ لگانے اور کبھی عقوبت سزا دینے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی ۔ کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] اور انہوں نے ( مسلمانوں میں عیب ہی کو کونسا دیکھا ہے سیلا س کے کہ خدا نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا ۔ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو ۔ اور اسی سے نقمۃ بمعنی عذاب ہے قرآن میں ہے ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا گر ان کو در یا میں غرق کردیا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] سو جو لوگ نافر مانی کرتے تھے ہم نے ان سے بدلہ لے کر چھوڑا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔
اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جس کو اس کے رب کی آیات یاد دلائی جائیں اور پھر وہ ان کا انکار کرے تو ہم ایسے مشرکین پر عذاب نازل کریں گے یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ قرآن حکیم کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔
آیت ٢٢ (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْہَا ط) - اگر کوئی شخص کسی عام نصیحت کی پروا نہ کرے اور کسی شخصی فلسفہ ومنطق کو ٹھکرا دے تو اور بات ہے ‘ چہ جائیکہ کوئی بدنصیب اللہ کی آیات پر مبنی تذکیر و نصیحت کو نظر انداز کر دے۔
سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :34 رب کی آیات یعنی اس کی نشانیوں کے الفاظ بہت جامع ہیں جن کے اندر تمام اقسام کی نشانیاں آجاتی ہیں ۔ قرآن مجید کے جملہ بیانات کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشانیاں حسب ذیل چھ قسموں پر مشتمل ہیں : ۱ ۔ وہ نشانیاں جو زمین سے لے کر آسمان تک ہر چیز میں اور کائنات کے مجموعی نظام میں پائی جاتی ہیں ۔ ۲ ۔ وہ نشانیاں جو انسان کی اپنی پیدائش اور اس کی ساخت اور اس کے وجود میں پائی جاتی ہے ۔ ۳ ۔ وہ نشانیاں جو انسان کے وجدان میں ، اسکے لاشعور میں ، اور اس کے اخلاقی تصورات میں پائی جاتی ہیں ۔ ٤ ۔ وہ نشانیاں جو انسانی تاریخ کے مسلسل تجربات میں پائی جاتی ہیں ۔ ۵ ۔ وہ نشانیاں جو انسان پر آفات ارضی و سماوی کے نزول میں پائی جاتی ہیں ۔ ٦ ۔ اور ان سب کے بعد وہ آیات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعہ سے بھیجیں تاکہ معقول طریقے سے انسان کو انہی حقائق سے آگاہ کیا جائے جن کی طرف اوپر کی تمام نشانیاں اشارہ کر رہی ہیں ۔ یہ ساری نشانیاں پوری ہم آہنگی اور بلند آہنگی کے ساتھ انسان کو یہ بتا رہی ہیں کہ تو بے خدا نہیں ہے ، نہ بہت سے خداؤں کا بندہ ہے ، بلکہ تیرا خدا صرف ایک ہی ہے جس کی عبادت و اطاعت کے سوا تیرے لیے کوئی دوسرا راستہ صحیح نہیں ہے ۔ تو اس دنیا میں آزاد و خود مختار اور غیر ذمہ دار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ تجھے اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو کر جواب دہی کرنی ہے اور اپنے عمل کے لحاظ سے جزا اور سزا پانی ہے ۔ پس تیری اپنی خیر اسی میں ہے کہ تیرے خدا نے تیری رہنمائی کے لیے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے جو ہدایت بھیجی ہے اس کی پیروی کر اور خود مختاری کی روش سے باز آجا ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جس انسان کو اتنے مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا ہو ، جس کی فہمائش کے لیے طرح طرح کی اتنی بے شمار نشانیاں فراہم کی گئی ہوں ، اور جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں سننے کے لیے کان ، اور سوچنے سمجھنے کے لیے دل کی نعمتیں بھی دی گئی ہوں ، وہ اگر ان ساری نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے ، سمجھانے والوں کی تذکیر و نصیحت کے لیے بھی اپنے کان بند کر لیتا ہے ، اور اپنے دل و دماغ سے بھی اوندھے فلسفے ہی گھڑنے کا کام لیتا ہے ، اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہو سکتا ۔ وہ پھر اسی کا مستحق ہے کہ دنیا میں اپنے امتحان کی مدت ختم کرنے کے بعد جب وہ اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو تو بغاوت کی بھر پور سزا پائے ۔