شب معراج اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتا ہے ہم نے موسیٰ کو کتاب تورات دی تو اس کی ملاقات کے بارے میں شک وشبہ میں نہ رہ ۔ قتادۃ فرماتے ہیں یعنی معراج والی رات میں ۔ حدیث میں ہے میں نے معراج والی رات حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ گندم گوں رنگ کے لانبے قد کے گھونگریالے بالوں والے تھے ایسے جیسے قبیلہ شنواہ کے آدمی ہوتے ہیں ۔ اسی رات میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا وہ درمیانہ قد کے سرخ وسفید تھے سیدھے بال تھے ۔ میں نے اسی رات حضرت مالک کو دیکھا جو جہنم کے داروغہ ہیں اور دجال کو دیکھا یہ سب ان نشانیوں میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھائیں پس اس کی ملاقات میں شک وشبہ نہ کر ۔ آپ نے یقینا حضرت موسیٰ کو دیکھا اور ان سے ملے جس رات آپ کو معراج کرائی گئی ۔ حضرت موسیٰ کو ہم نے بنی اسرائیل کا ہادی بنادیا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کتاب کے ذریعہ ہم نے اسرائیلیوں کو ہدایت دی ۔ جیسے سورۃ بنی اسرائیل میں ہے آیت ( وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ وَكِيْلًا Ąۭ ) 17- الإسراء:2 ) یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور بنی اسرائیل کے لیے ہادی بنادیا کہ تم میرے سواکسی کو کار ساز نہ سمجھو ۔ پھر فرماتا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اس کی نافرمانیوں کے ترک اس کی باتوں کی تصدیق اور اس کے رسولوں کی اتباع وصبر میں جمے رہے ہم نے ان میں سے بعض کو ہدایت کے پیشوا بنادیا جو اللہ کے احکام لوگوں کو پہنچاتے ہیں بھلائی کی طرف بلاتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں ۔ لیکن جب ان کی حالت بدل گئی انہوں نے کلام اللہ میں تبدیلی تحریف تاویل شروع کردی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے یہ منصب چھین لیا ان کے دل سخت کردئیے عمل صالح اور اعتقاد صحیح ان سے دور ہوگیا ۔ پہلے تو یہ دنیا سے بچے ہوئے تھے حضرت سفیان فرماتے ہیں یہ لوگ پہلے ایسے ہی تھے لہذا انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی پیشوا ہو جس کی یہ اقتدا کرکے دنیا سے بچا ہوا رہے آپ فرماتے ہیں دین کے لئے علم ضروری ہے جیسے جسم کے لئے غذا ضروری ہے ۔ حضرت سفیان سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کے بارے میں سوال ہوا کہ صبر کی وجہ سے ان کو ایسا پیشوا بنادیا کہ وہ ہمارے حکم کی ہدایت کرتے تھے ۔ آپ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے تمام کاموں کو اپنے ذمہ لے لیا اللہ نے بھی انہیں پیشوا بنادیا ۔ چنانچہ فرمان ہے ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب حکمت اور نبوت دی اور پاکیزہ روزیاں عنایت فرمائیں اور جہاں والوں پر فضلیت دی ۔ یہاں بھی آیت کے آخر میں فرمایا کہ جن عقائد واعمال میں ان کا اختلاف ہے ان کا فیصلہ قیامت کے دن خود اللہ کرے گا ۔
2 3 1کہا جاتا ہے کہ اشارہ ہے اس ملاقات کی طرف جو معراج کی رات نبی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان ہوئی، جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نمازوں میں تخفیف کرانے کا مشورہ دیا تھاـ 2 3 2 اس سے مراد کتاب (تورات) ہے یا خود حضرت موسیٰ علیہ السلام۔
[ ٢٤] اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی آیات سے منہ موڑنے کا ذکر تھا۔ اسی نسبت سے یہاں تورات کا ذکر ہوا جو قرآن کے بعد سب الہامی کتابوں سے زیادہ مشہور ہے۔ تورات صرف بنی اسرائیل کے لئے ہدایت کی کتاب تھی جبکہ یہ قرآن پوری بنی نوع انسان کے لئے کتاب ہدایت ہے۔- [ ٢٥] اس جملہ میں خطاب اگرچہ رسول اللہ کو ہے مگر مخاطب سارے مومنین ہیں۔ کیونکہ نبی سب سے پہلے خود اپنی نبوت پر ایمان لاتا ہے۔ پھر دوسروں کو ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔ لہذا منزل من اللہ کلام ہر رسول کا شک کرنا حالات سے ہے۔ اور ایسا انداز خطاب عموماً تاکید مزید کے لئے آتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کو کسی قیمت پر بھی اس میں شک نہ کرنا چاہئے۔- بعض علماء نے اس آیت لقاءہ میں لا کی ضمیر کو موسیٰ کی طرف راجع سمجھا ہے اور اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ آپ کی موسیٰ سے اسی دنیا کی زندگی میں ضرور ملاقات ہوگی اور آپ کو اس ملاقات کے بارے میں شک میں رہنا چاہئے۔ کہ آپ کی حضرت موسیٰ سے یہ ملاقات معراج کے موقعہ پر چھٹے آسمان پر ہوئی تھی۔
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَلَا تَكُنْ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْ لِّــقَاۗىِٕهٖ : ” لِّــقَاۗىِٕهٖ “ کی ضمیر ” الکتب “ کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے اور لفظ ” موسیٰ “ کی طرف بھی۔ پہلی صورت میں وہی بات دہرائی ہے جو سورت کے شروع میں فرمائی تھی کہ اس لاریب کتاب کا نازل کرنا رب العالمین کی طرف سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی، اب آپ کو کتاب ملی ہے، تو آپ اس کتاب کے ملنے میں کسی قسم کے شک میں مبتلا نہ ہوں۔ ہماری طرف سے کتاب کا عطا کیا جانا کوئی نئی بات نہیں، ہم پہلے بھی رسولوں کو کتابیں عطا کرتے رہے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَآ اَدْرِيْ مَا يُفْعَلُ بِيْ وَلَا بِكُمْ ۭ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ وَمَآ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ) [ الأحقاف : ٩ ] ” کہہ دے میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا نہیں ہوں اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ (یہ کہ) - تمھارے ساتھ (کیا) ، میں تو بس اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے اور میں تو بس واضح ڈرانے والا ہوں۔ “ اس میں اگرچہ اول مخاطب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، مگر مراد ہر سننے والا ہے کہ کوئی بھی سننے والا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب ملنے میں کسی قسم کے شک میں نہ رہے، آپ کو کتاب ملنا ایسے ہی ہے جیسے ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی، یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ اس تفسیر کے مطابق ” الکتب “ سے مراد خاص تورات نہیں، جنس کتاب ہے، یعنی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تو آپ بھی کتاب ملتے ہی کوئی شک نہ کریں۔ اور ” لِقَاءٌ“ سے مراد کتاب کا ملنا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ ) [ النمل : ٦ ] ” اور بلاشبہ یقیناً تجھے قرآن ایک کمال حکمت والے، سب کچھ جاننے والے کے پاس سے عطا کیا جاتا ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے قریب ترین پیغمبر اگرچہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں، مگر ایک تو تمام بنی اسرائیل ان پر ایمان نہیں لائے اور ایک یہ کہ وہ بھی تورات ہی کے احکام پر عمل کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے بجائے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دینے کا ذکر فرمایا۔ بعض مفسرین نے ” الکتب “ کی طرف ضمیر لوٹانے کی صورت میں یہ معنی کیا ہے کہ آپ موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب ملنے کے بارے میں شک نہ کریں۔ - دوسری صورت میں یعنی جب ” لقائه “ کی ضمیر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف جا رہی ہو تو معنی یہ ہوگا کہ آپ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں کسی قسم کے شک میں نہ رہیں، جو معراج کی رات بیت المقدس میں اور چھٹے آسمان پر ہوئی، جیسا کہ صحیح بخاری اور دوسری کتب احادیث میں مذکور ہے۔ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( رَأَیْتُ لَیْلَۃَ أُسْرِيَ بِيْ مُوْسٰی رَجُلاً آدَمَ طُوَالاً جَعْدًا، کَأَنَّہُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْءَۃَ ، وَ رَأَیْتُ عِیْسٰی رَجُلاً مَرْبُوْعًا مَرْبُوْعَ الْخَلْقِ إِلَی الْحُمْرَۃِ وَ الْبَیَاضِ ، سَبْطَ الرَّأْسِ ، وَرَأَیْتُ مَالِکًا خَازِنَ النَّارِ وَ الدَّجَّالَ فِيْ آیَاتٍ أَرَاہُنَّ اللّٰہُ إِیَّاہُ ، فَلاَ تَکُنْ فِيْ مِرْیَۃٍ مِنْ لِّقَاءِہِ ) [ بخاري، بدء الخلق، باب إذا قال أحدکم آمین و الملائکۃ في السماء۔۔ : ٣٢٣٩ ] ” میں نے اس رات جب مجھے رات کو لے جایا گیا، موسیٰ ( (علیہ السلام) ) کو دیکھا، بہت لمبے گٹھے ہوئے جسم یا گھونگریالے بالوں والے، گویا وہ شنوءہ قبیلے کے آدمیوں سے ہیں اور میں نے عیسیٰ ( (علیہ السلام) ) کو دیکھا، میانہ قد، سرخی اور سفیدی کی طرف مائل سیدھے بالوں والے اور میں نے جہنم کے دربان مالک اور دجال کو دیکھا، من جملہ ان کئی اور نشانیوں کے جو اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھائیں۔ (سورۂ سجدہ میں اسی کا ذکر ہے کہ) پس تو اس کی ملاقات کے بارے میں کسی شک میں نہ رہ۔ “- وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ : ” جعلنہ “ میں ” ہٗ “ کی ضمیر کتاب کے لیے ہے، یعنی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دی جانے والی کتاب کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنادیا۔ پہلے اسی مضمون کی آیت سورة بنی اسرائیل (٢) میں گزر چکی ہے۔
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو (آپ ہی کی طرح) کتاب دی تھی (جس کی اشاعت میں ان کو تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں، اسی طرح آپ کو بھی برداشت کرنا چاہئے، ایک تسلی تو یہ ہوئی، پھر اسی طرح آپ کو بھی کتاب دی) سو آپ (اپنی) اس (کتاب) کے ملنے میں کچھ شک نہ کیجئے۔ (کقولہ تعالیٰ (آیت) وانک لتلقی القرآن، مطلب یہ کہ آپ صاحب کتاب صاحب خطاب ہیں پس جب آپ اللہ کے نزدیک ایسے مقبول ہیں تو اگر مشتے چند احمق آپ کو قبول نہ کریں تو کوئی غم کی بات نہیں، ایک تسلی کی بات یہ ہوئی) اور ہم نے اس (کتاب موسیٰ ) کو بنی اسرائیل کے لئے موجب ہدایت بنایا تھا (اسی طرح آپ کی کتاب سے بہتوں کو ہدایت ہوگی، آپ خوش رہئے، ایک تسلی یہ ہوئی) اور ہم نے ان (بنی اسرائیل) میں بہت سے (دین کے) پیشوا بنا دیئے تھے جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے، جبکہ وہ لوگ (تکلیف پر) صبر کئے رہے، اور ہماری آیتوں کا یقین رکھتے تھے (اس لئے ان کی اشاعت اور خلق کی ہدایت میں مشقت گوارا کرتے تھے، یہ تسلی ہے مومنین کو کہ تم لوگ صبر کرو، اور جب تم صاحب یقین ہو اور یقین کا مقتضا صبر کرنا ہے تو تم کو صبر ضروری ہے، اس وقت ہم تم کو بھی ائمہ دین بنادیں گے یہ تو تسلی دنیا کے اعتبار سے ہے اور ایک تسلی آخرت کے اعتبار سے تم کو رکھنا چاہئے اور وہ امر موجب تسلی یہ ہے کہ) آپ کا رب قیام کے روز ان سب کے آپس میں (عملی) فیصلہ ان امور میں کر دے گا جن میں یہ باہم اختلاف کرتے تھے (یعنی مومن کو جنت میں اور کفار کو دوزخ میں ڈال دے گا اور قیامت بھی کچھ دور نہیں، اس سے بھی تسلی حاصل کرنا چاہئے اور اس مضمون کو سن کر کفار دو شبہ کرسکتے تھے، ایک یہ کہ ہم اس کو نہیں مانتے کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارا کفر پسند ہے جیسا یفصل سے مفہوم ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم قیامت ہی کو ناممکن سمجھتے ہیں، آگے دونوں کے دفع کے لئے دو مضمون ہیں، اول یہ کہ ان کو جو کفر کے مبغوض ہونے میں شبہ ہے تو) کیا ان کو یہ امر موجب رہنمائی نہیں ہوا کہ ہم ان سے پہلے (ان کے کفر و شرک ہی کے سبب) کتنی امتیں ہلاک کرچکے ہیں (کہ ان کے طریق ہلاکت سے وہ نیز نبی کی پیشن گوئی کے بعد بطور خرق عادت کے واقع ہونے سے خدا کا غضب ٹپکتا تھا جس سے مبغوض ہونا کفر کا صاف واضح ہوتا ہے) جن کے رہنے کے مقامات میں یہ لوگ (اثنائے سفر شام میں) آتے جاتے (گزرتے) ہیں اس (امر) میں (تو) صاف نشانیاں (مبغوضیت کفر کی موجود) ہیں کیا یہ لوگ (ان گزشتہ امم کے قصص) سنتے نہیں ہیں (کہ مشہور ہیں اور زبانوں پر مذکور ہیں دوسرا مضمون یہ کہ ان کو جو قیامت میں شبہ عدم امکان کا ہے تو) کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ ہم (بادلوں یا نہروں وغیرہ کے ذریعہ سے) خشک زمین کی طرف پانی پہنچاتے ہیں پھر اس کے ذریعہ سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جس سے ان کے مواشی اور وہ خود بھی کھاتے ہیں تو کیا (اس بات کو شب وروز) دیکھتے نہیں ہیں (یہ صاف نمونہ ہے مر کز زندہ ہونے کا، جیسا کئی جگہ اس کی تقریر گزری ہے، پس دونوں شبہ رفع ہوگئے) اور یہ لوگ (قیامت اور فیصلہ کا ذکر سن کر بطور استعجال و استہزا کے یوں) کہتے ہیں کہ اگر تم (اس بات میں) سچے ہو تو (بتلاؤ) یہ فیصلہ کب ہوگا، آپ فرما دیجئے کہ (تم عبث اس کا تقاضا کرتے ہو تمہارے لئے تو وہ پوری مصیبت کا دن ہے کیونکہ) اس فیصلہ کے دن کافروں کو ان کا ایمان لانا (بالکل) نفع نہ دے گا (اور یہی ایک صورت ان کے بچاؤ کی تھی اور وہی مفقود ہے) اور (نفع نجات تو کیا ہوتا) ان کو مہلت بھی (تو) نہ ملے گی سو (اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی باتوں کا خیال نہ کیجئے (جن کے خیال سے غم ہوتا ہے) اور آپ (فیصلہ موعود کے) منتظر رہئے یہ بھی (اپنے زعم میں آپ کے ضرر کے) منتظر ہیں (کقولہم (آیت) نتربص بہ ریب المنون، مگر معلوم ہوجائے گا کس کا انتظار مطابق واقع کے ہے اور کس کا نہیں، کقولہ تعالیٰ فی جوابہم (آیت) قل تربصوا فانی معکم من المتربصین۔- معارف ومسائل - (آیت) فلاتکن فی مریة من لقاہ، لقاء کے معنی ملاقات کے ہیں، اس آیت میں کس کی ملاقات کس سے مراد ہے ؟ اس میں اہل تفسیر کے اقوال مختلف ہیں، ان میں ایک وہ ہے جس کو خلاصہ تفسیر میں اختیار کیا گیا ہے، کہ لقاہ کی ضمیر کتاب یعنی قرآن کی طرف راجع قرار دے کر مطلب یہ لیا گیا کہ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے کتاب دی آپ بھی اپنی کتاب کے آنے میں کوئی شک نہ کریں، جیسا کہ ایک دوسری آیت میں قرآن کے متعلق ایسے الفاظ آئے ہیں (آیت) و انک لتلقی القرآن۔- اور حضرت ابن عباس اور قتادہ سے اس کی تفسیر اس طرح منقول ہے کہ لقاہ کی ضمیر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے، اور اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ اور فرمایا ہے کہ آپ اس میں شک نہ کریں کہ آپ کی ملاقات موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوگی۔ چناچہ ایک ملاقات شب معراج میں ہونا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، پھر قیامت میں ملاقات ہونا بھی ثابت ہے۔- اور حضرت حسن بصری نے اس کی یہ تفسیر فرمائی ہے کہ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی گئی اور لوگوں نے اس کی تکذیب کی اور ان کو ستایا۔ آپ بھی یقین رکھیں کہ یہ سب چیزیں آپ کو بھی پیش آئیں گی۔ اس لئے آپ کفار کی ایذاؤں سے دلگیر نہ ہوں بلکہ اس کو سنت انبیاء سمجھ کر برداشت کریں۔
رکوع نمبر 16- وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَلَا تَكُنْ فِيْ مِرْيَۃٍ مِّنْ لِّــقَاۗىِٕہٖ وَجَعَلْنٰہُ ہُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ٢٣ۚ- آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - مری - المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34]- ( م ر ی) المریۃ - کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص - قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں ۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔
اور ہم نے حضرت موسیٰ کو توریت دی تھی تو آپ کی حضرت موسیٰ سے معراج کی شب میں جو بیت المقدس میں ملاقات ہوئی اس کے بارے میں کچھ شک نہ کیجیے اور ہم نے کتاب موسیٰ کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنایا تھا۔
آیت ٢٣ (وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ ) (فَلَا تَکُنْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْ لِّقَآءِہٖ ) - یہ ایک جملہ معترضہ ہے جو یہاں سلسلہ کلام کے درمیان میں آیا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شب معراج کے موقع پر ہونے والی ملاقات کی طرف اشارہ ہے۔ اس حوالے سے آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شب معراج میں آپ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے جو ملاقات کی تھی اس کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے ‘ وہ یقیناً موسیٰ (علیہ السلام) ہی تھے جو آپ کو وہاں ملے تھے۔ لیکن آیت کا زیادہ قرین قیاس مفہوم جو سیاق وسباق کے ساتھ بھی مناسبت رکھتا ہے وہ یہی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا کی تھی اور اس کتاب کا موسیٰ (علیہ السلام) کو ملنا ہماری ہی طرف سے تھا۔ اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کتاب یعنی قرآن کا ملنا بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اس بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ یہ انداز بیان سمجھنے کے لیے قرآن کا وہی اسلوب ذہن میں رکھئے جس کا ذکر قبل ازیں بار بار ہوچکا ہے کہ اکثر ایسے احکام جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صیغۂ واحد میں مخاطب کرکے دیے جاتے ہیں وہ دراصل امت کے لیے ہوتے ہیں۔ چناچہ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ میں گویا ہم سب مخاطب ہیں اور اس کا مفہوم دراصل یہ ہے کہ اے مسلمانو تم لوگوں کو اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو جو کتاب (تورات) ملی تھی وہ بھی انہیں اللہ ہی نے دی تھی اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کتاب (قرآن) کا ملنا بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :35 خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، مگر دراصل مخاطب وہ لوگ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں ، اور آپ کے اوپر کتاب اِلٰہی کے نازل ہونے میں شک کر رہے تھے ۔ یہاں سے کلام کا رخ اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جو آغاز سورہ ( آیات نمبر ۲ اور ۳ ) میں بیان ہوا تھا ۔ کفار مکہ کہہ رہے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر خدا کی طرف سے کوئی کتاب نہیں آئی ہے انہوں نے اسے خود گھڑ لیا ہے اور دعویٰ یہ کر رہے ہیں کہ خدا نے اسے نازل کیا ہے ۔ اس کا ایک جواب ابتدائی آیات میں دیا گیا تھا ۔ اب اس کا دوسرا جواب دیا جا رہا ہے ۔ اس سلسلے میں پہلی بات جو فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اے نبی یہ نادان لوگ تم پر کتاب الٰہی کے نازل ہو نے کو اپنے نزدیک بعید از امکان سمجھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہر دوسرا شخص بھی اگر اس کا انکار نہ کرے تو کم از کم اس کے متعلق شک ہی میں پڑ جائے ۔ لیکن ایک بندے پر خدا کی طرف سے کتاب نازل ہونا ایک نرالا واقعہ تو نہیں ہے جو انسانی تاریخ میں آج پہلی مرتبہ ہی پیش آیا ہو ۔ اس سے پہلے متعدد انبیاء پر کتابیں نازل ہو چکی ہیں جن میں سے مشہور ترین کتاب وہ ہے جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام ) کو دی گئی تھی ۔ لہٰذا اسی نوعیت کی ایک چیز آج تمہیں دی گئی ہے تو آج آخر اس میں انوکھی بات کیا ہے جس پر خواہ مخواہ شک کیا جائے ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :36 یعنی وہ کتاب بنی اسرائیل کے لئے رہنمائی کا ذریعہ بنائی گئی تھی اور یہ کتاب اسی طرح تم لوگوں کی رہنمائی کے لئے بھیجی گئی ہے جیسا کہ آیت نمبر ۳ میں پہلے بیان کیا جا چکا ہے ۔ اس ارشاد کی پوری معنویت اس کے تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے ہی سمجھ میں آسکتی ہے ۔ یہ بات تاریخ سے ثابت ہے اور کفار مکہ بھی اس سے ناواقف نہ تھے بنی اسرائیل کئی صدی تک مصر میں انتہائی ذلت و نکبت کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ اس حالت میں اللہ تعا لیٰ نے ان کے درمیان مو سیٰ ( علیہ السلام ) کو پیدا کیا ان کے ذریعہ سے اس قوم کو غلامی کی حالت سے نکالا پھر ان پر کتاب نازل کی اور اس کے فیض سے وہی دبی اور پسی ہوئی قوم ہدایت پاکر دنیا میں ایک نامور قوم بن گئی ۔ اس تاریخ کی طرف اشارہ کر کے اہل عرب سے فرمایا جا رہا ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے وہ کتاب بھیجی گئی ہے ، اسی طرح تمہاری ہدایت کے لئے یہ کتاب بھیجی گئ ہے ۔
11: اِس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات کے ملنے میں کوئی شک نہ کرو، اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی گئی تھی، اسی طرح آپ کو بھی کتاب دی گئی ہے، لہٰذا اس قرآن کے منجانب اللہ وصول کرنے میں آپ کوئی شک نہ کریں، اور جب آپ صاحب کتاب رسول ہیں تو اِن کافروں کی بنائی ہوئی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں۔ ایک تیسری تفسیر بعض حضرات نے یہ کی ہے کہ ’’اِس کے ملنے‘‘ سے مراد کافروں کو اس عذاب کا ملنا ہے جس کا ذکر پچھلی آیات میں آیا ہے۔