Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

241اس آیت سے صبر کی فضیلت واضح ہے، صبر کا مطلب اللہ کے اوامر کے بجا لانے اور اللہ کے رسولوں کی تصدیق اور ان کے پیروی میں جو تکلیفیں آئیں، انھیں خندہ پیشانی سے جھیلنا، اللہ نے فرمایا، ان کے صبر کرنے اور آیات الٰہی پر یقین رکھنے کی وجہ سے ہم نے ان کو دینی امامت اور پیشوائی کے منصب پر فائز کیا۔ لیکن جب انہوں نے اس کے برعکس تبدیل و تحریف کا ارتکاب شروع کردیا، تو ان سے یہ مقام سلب کرلیا گیا، چناچہ اس کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے، پھر ان کا عمل صالح رہا اور نہ اعتقاد صحیح۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢٦] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پیشوائی کے لئے لازمی صفات کا ذکر فرمایا : پہلی صفت یہ ہے کہ ان کا تازیست یہ طرز عمل ہونا چاہئے کہ وہ اللہ کے احکام کی دعوت دیتے رہیں اور لوگوں کی رہنمائی کرتے رہیں دوسرے یہ کہ یہ کام پورے صبر و استقلال سے سرانجام دیں۔ اور اس راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبر کریں اور تیسرے یہ کہ وہ اللہ کی آیات اور اس کے وعدوں پر پختہ یقین رکھتے ہوں۔ جتنا زیادہ یقین پختہ ہوگا اسی قدر وہ صبر کرسکیں گے اور اسی قدر زیادہ وہ امامت یا پیشوائی کے حقدار ہوں گے۔ اور بنی اسرائیل میں سے جو شخص ان صفات کے حامل تھے انھیں اللہ تعالیٰ نے امامت کے منصب پر سرفراز فرما دیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۚوَجَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا : اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے کچھ ایسے امام اور پیشوا بنائے جو لوگوں کی رہنمائی ہمارے حکم کے ساتھ کرتے تھے۔ ظاہر ہے اللہ کے حکم کے ساتھ رہنمائی وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس کا علم رکھتے ہوں، اس میں بنی اسرائیل کے انبیاء بھی شامل ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پہلے ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَاِقَام الصَّلٰوةِ وَاِيْتَاۗءَ الزَّكٰوةِ ۚ وَكَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَ ) [ الأنبیاء : ٧٣ ] ” اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے ساتھ رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف نیکیاں کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی وحی بھیجی اور وہ صرف ہماری عبادت کرنے والے تھے۔ “ اور بنی اسرائیل کے وہ علماء بھی جو ہدایت پر قائم تھے اور لوگوں کو اللہ کے حکم کے مطابق اس ہدایت کی طرف دعوت دیتے تھے۔ یہ ہدایت اللہ کی کتاب تھی اور اس پر ایمان لانے والے دو طرح کے لوگ تھے، ایک وہ ائمہ جو اللہ کے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے اور دوسرے ان کے وہ پیروکار جو اس رہنمائی پر عمل کرتے تھے۔ پہلی قسم کے لوگوں کا مقام نبوت کے بعد سب سے بلند ہے، فرمایا : ( يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ) [ المجادلۃ : ١١ ] ” اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا۔ “- لَمَّا صَبَرُوْا ڜ وَكَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يُوْقِنُوْنَ : یعنی ان ائمہ کو پیشوائی کا یہ مقام دو وجہ سے حاصل ہوا، ایک صبر کی وجہ سے کہ انھوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری پر باندھ کر اور اس کی منع کردہ چیزوں سے روک کر رکھا۔ وہ اللہ کے دین کی دعوت دیتے رہے اور اس کے لیے جہاد کرتے رہے اور انھوں نے اس راستے میں پیش آنے والی ہر مصیبت پر صبر کیا۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین کی وجہ سے کہ وہ دنیاوی فائدوں اور لذتوں میں پھسل جانے والے نہیں تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے وعدوں پر یقین رکھنے والے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امامت کا مقام وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو صبر اور اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین کے وصف سے آراستہ ہوں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

کسی قوم کا مقتداء و امام بننے کے لئے دو شرطیں :- (آیت) وجعلنا منہم ائمة تہدون بامرنا لما صبروا اوکانوا بایتنا یوقنون، ” یعنی ہم نے بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگوں کو امام اور پیشوا و مقتداء بنادیا جو اپنے پیغمبر کے نائب ہونے کی حیثیت سے باذن ربانی لوگوں کو ہدایت کیا کرتے تھے، جبکہ انہوں نے صبر کیا اور جبکہ وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ “- اس آیت میں علماء بنی اسرائیل میں سے بعض کو امامت و پیشوائی کا درجہ عطا فرمانے کے دو سبب ذکر فرمائے ہیں، اول صبر کرنا، دوسرے آیات الہیہ پر یقین کرنا۔ صبر کرنے کا مفہوم عربی زبان کے اعتبار سے بہت وسیع اور عام ہے۔ اس کے لفظی معنی باندھنے اور ثابت رہنے کے ہیں۔ اس جگہ صبر سے مراد احکام آلہیہ کی پابندی پر ثابت قدم رہنا اور جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام یا مکروہ قرار دیا ہے ان سے اپنے نفس کو روکنا ہے جس میں تمام احکام شریعت کی پابندی آجاتی ہے اور یہ بہت بڑا عملی کمال ہے۔ دوسرا سبب ان کا آیات آلہیہ پر یقین رکھنا ہے۔ اس میں آیات کے مفہوم کو سمجھنا پھر سمجھ کر اس پر یقین کرنا دونوں داخل ہیں، یہ بہت بڑا کمال علمی ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ امامت و پیشوائی کے لائق اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف وہ لوگ ہیں جو عمل میں بھی کامل ہوں اور علم میں بھی، اور یہاں عملی کمال کو علمی کمال سے مقدم بیان فرمایا ہے کہ ترتیب طبعی میں علم عمل سے مقدم ہوتا ہے۔ اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ اللہ کے نزدیک وہ علم قابل اعتبار ہی نہیں جس کے ساتھ عمل نہ ہو۔ - ابن کثیر نے بعض علماء کا قول اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ بالصبر والیقین تنال الامامہ فی الین، ” یعنی صبر اور یقین ہی کے ذریعہ دین میں کسی کی امامت کا درجہ مل سکتا ہے۔ “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَىِٕمَّۃً يَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا۝ ٠ ۣۭ وَكَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يُوْقِنُوْنَ۝ ٢٤- إِمام :- المؤتمّ به، إنسانا كأن يقتدی بقوله أو فعله، أو کتابا، أو غير ذلک محقّا کان أو مبطلا، وجمعه : أئمة . وقوله تعالی: يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ [ الإسراء 71] أي : بالذي يقتدون به، - الامام - وہ ہے جس کی اقتداء کی جائے خواہ وہ انسان ہو یا اس کے قول وفعل کی اقتداء کی جائے یا کتاب وغیرہ ہو اور خواہ وہ شخص جس کی پیروی کی جائے حق پر ہو یا باطل پر ہو اس کی جمع ائمۃ افعلۃ ) ہے اور آیت :۔ يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ( سورة الإسراء 71) جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے ۔ میں امام سے وہ شخص مراد ہے جس کی وہ اقتداء کرتے تھے ۔ - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں يقن - اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما .- ( ی ق ن ) الیقین - کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ - إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور بنی اسرائیل جب ایمان و اطاعت پر ثابت قدم رہے تو ہم نے ان میں بہت سے پیشوا بنا دیے تھے جو مخلوق کو ہمارے حکم کی طرف بلاتے تھے اور وہ لوگ اپنی کتاب کی پیش گوئی کی وجہ سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کا یقین رکھتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَءِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا ط) ۔- یعنی بنی اسرائیل کے ائمہ اور پیشواؤں کو تورات کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے کے لیے صبر کی روش پر کاربند رہنا پڑتا تھا۔ اس نکتے کو یوں سمجھئے کہ کتاب اللہ کی تعلیمات کو سیکھنے اور پھر لوگوں تک پہنچانے کے لیے وقت درکار ہے جو انسانی سطح پر بذات خود ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ دولت اور عیش و عشرت کے حصول کی حرص ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اگر کوئی شخص اپنا بیشتر وقت دنیا اور اس کی آسائشوں کے حصول کے لیے صرف کر دے گا تو اس کے شب وروز میں دعوت و تبلیغ اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کے لیے وقت کہاں سے آئے گا ؟ چناچہ اگر کسی کو اللہ کے راستے میں نکلنے کے لیے کمربستہ ہونا ہے تو صبر و استقامت کا دامن تھام کر اسے لازمی طور پر دنیا کی بہت سی آسائشوں کو خیرباد کہنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اس راستے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے بھی صبر درکار ہے۔ کتاب اللہ کی تعلیم و تبلیغ کے حوالے سے یہ دونوں فرائض گویا بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن جب بھی کوئی شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علمبردار بن کر نکلے گا تو لوگ اس کی مخالفت کریں گے ‘ اس راہ میں اسے گالیاں بھی سننا پڑیں گی ‘ جسمانی و ذہنی اذیتوں کا سامنا بھی کرنا ہوگا اور مال و جان کے نقصانات بھی برداشت کرنا پڑیں گے۔ بہر حال اس راستے پر جس پہلو سے بھی کوئی جدوجہد کرے گا ‘ اسے قدم قدم پر ایسے سنگ ہائے میل سے سابقہ پڑے گا جو صبر و استقامت اور ایثار و قناعت کے رنگا رنگ مطالبات سے عبارت ہوں گے۔- آج قرآن کی تبلیغ و ترویج کے میدان میں یہ آیت ہمارے لیے نشان منزل بن سکتی ہے۔ جس انداز میں یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ائمہ کی تعریف فرمائی ہے اس کے لطیف احساس سے ہمارے دلوں میں ترغیب و تشویق کے جذبات کی نئی نئی کو نپلیں پھوٹنی چاہئیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بنی اسرائیل کے ان ائمہ کے کردار اور خوش نصیبی سے متعلق اپنے دلوں میں رشک پیدا کریں اور پھر اللہ سے توفیق مانگیں کہ وہ ہمیں بھی اس کام کے لیے ُ چن لے۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ یہ رتبہ بلند محض دعاؤں اور تمناؤں کے سہارے نہیں ملا کرتا۔ اس کے لیے ہمیں صبر و استقامت اور ایثار و قناعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر عملی کوشش کرنا ہوگی۔ اپنی بہت سی خواہشات کو قربان کرنا ہوگا ‘ اپنے معیار زندگی ( ) کو کم سے کم سطح پر رکھنا ہوگا اور یوں اپنے تبلیغی بھائیوں کے بقول تفریغ الاوقات (دینی جدوجہد کے لیے وقت نکالنا) کو ممکن بنانا ہوگا۔ - اس سلسلے میں ہم میں سے ہر ایک کو سنجیدہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ایک دفعہ اپنا بیشتر وقت پیسہ کمانے اور معیار زندگی بلند کرنے کی کوششوں میں صرف کرنے کی روش کو اپنا لیا تو یوں سمجھیں کہ ہم نے خود کو ایک کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں ڈال لیا۔ یعنی خود کو ایک نام نہاد معیار زندگی کے سراب کو پالینے اور پھر اس کو برقرار رکھنے کی خواہشات کا اسیر بنا لیا۔ اگر خدانخواستہ ہم نے اپنی زندگی اسی دنیاداری میں گزار دی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ایک خاص معیار زندگی کو اپنے معبود کا درجہ دے کر گویا ساری عمر اسی کی پوجا میں گزار دی ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم اللہ کی توفیق سے قرآن کا دامن مضبوطی سے تھام لیں ‘ اپنی زندگی کے لیے راہنمائی صرف اور صرف قرآن سے حاصل کرنے کا تہیہ کرلیں تو اللہ کے راستے پر چلنے کے لیے ہمارے سامنے ان شاء اللہ اسباب کے نت نئے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ یاد رکھیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مسجودِملائک بنایا ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا نقطۂعروج ( ) ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جب یہ عزم صمیم کا زاد سفر لے کر کسی راہ پر چل پڑتا ہے تو مشکلات اس سے کنی کترا نے لگتی ہیں اور منزلیں خود آگے بڑھ کر اس کے قدم چومتی ہیں۔- (وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ ) ۔- بنی اسرائیل کے ائمہ جو کتاب کی تعلیم و تبلیغ میں مصروف تھے وہ صبر کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی آیات پر پختہ یقین بھی رکھتے تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین رکھنا ‘ اس کے وعدوں کو من و عن سچ ماننا اور اس پر توکل کرنا راہ حق کی جدوجہد کی لازمی شرائط ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :37 یعنی بنی اسرائیل کو اس کتاب نے جو کچھ بنایا اور جن مدارج پر ان کو پہنچایا وہ محض ان کے درمیان کتاب کے آ جانے کا کرشمہ نہ تھا گویا یہ کوئی تعویذ ہو جو باندھ کر اس قوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا ہو اور اس کے لٹکتے ہی قوم نے بام عروج پر چڑھنا شروع کر دیا ہو بلکہ یہ ساری کرامت اس یقین کی تھی جو وہ اللہ کی آیات پر لائے اور اس صبر اور ثابت قدمی کی تھی جو انہوں نے احکام الہٰی کی پیروی میں دکھائی ۔ خود بنی اسرائیل کے اندر بھی پیشوائی انہی کو نصیب ہوئی جو ان میں سے کتاب اللہ کے سچے مومن تھے اور دنیوی فائدوں اور لذتوں کی طمع میں پھسل جانے والے نہ تھے ۔ انہوں نے جب حق پرستی میں ہر خطرے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہر نقصان اور ہر تکلیف کو بر داشت کیا اور اپنے نفس کی شہوات سے لے کر باہر کے اعدائے دین تک ہر ایک کے خلاف مجاہدہ کا حق ادا کر دیا تب ہی وہ دنیا کے امام بنے اس سے مقصود کفار عرب کو متنبہ کرنا ہے کہ جس طرح خدا کی کتاب کے نزول نے بنی اسرائیل کے اندر قسمتوں کے فیصلے کیے تھے اسی طرح اب اس کتاب کا نزول تمہارے درمیان بھی قسمتوں کا فیصلہ کر دے گا ۔ اب وہی لوگ امام بنیں گے جو اس کو مان کر صبر و ثبات کے ساتھ حق کی پیروی کریں گے اس سے منہ موڑنے والوں کی تقدیر گردش میں آ چکی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani