Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51آسمان سے، جہاں اللہ کا عرش اور لوح محفوظ ہے، اللہ تعالیٰ زمین پر احکام نازل فرماتا ہے یعنی تدبیر کرتا اور زمین پر ان کا نفاذ ہوتا ہے۔ جیسے موت اور زندگی، صحت اور مرض، عطا اور منع، غنا اور فقر، جنگ اور صلح، عزت اور ذلت، وغیرہ، اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر سے اپنی تقدیر کے مطابق یہ تدبیریں اور تصرفات کرتا ہے۔ 52یعنی پھر اس کی یہ تدبیر یا امر اس کی طرف واپس لوٹتا ہے ایک ہی دن میں جسے فرشتے لے کر جاتے ہیں اور صعود کا یا آنے جانے کا فاصلہ اتنا ہے کہ غیر فرشتہ ہزار سال میں طے کرے۔ یا اس سے قیامت کا دن مراد ہے کہ اس دن انسانوں کے سارے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔ اس یوم کی تعیین و تفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے امام شوکانی نے1516اقوال اس ضمن میں ذکر کیے ہیں اس لیے حضرت ابن عباس نے اس کے بارے میں توقف کو پسند فرمایا اور اس کی حقیقت کو اللہ کے سپرد کردیا ہے۔ صاحب ایسر التفاسیر لکھتے ہیں کہ قرآن میں یہ تین مقامات پر آیا ہے اور تینوں جگہ الگ الگ دن مراد ہے۔ (وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَمْلَيْتُ لَهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذْتُهَا ۚ وَاِلَيَّ الْمَصِيْرُ ) 22 ۔ الحج :48) میں یوم کا لفظ عبارت ہے اس زمانہ اور مدت سے جو اللہ کے ہاں اور سورة معارج میں جہاں یوم کی مقدار پچاس ہزار سال بتلائی گئی ہے یوم حساب مراد ہے اور اس مقام زیر بحث میں یوم سے مراد دنیا کا آخری دن ہے جب دنیا کے تمام معاملات فنا ہو کر اللہ کی طرف لوٹ جائیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٦] اس کے تخلیقی کارناموں کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک کام کا ارادہ کرتا ہے یا اس کی اسکیم بناتا ہے تو تدبیر امور پر مامور فرشتوں کو اس کی خبر دیتا ہے۔ جو اللہ کے حکم کے مطابق نیچے اترے ہیں۔ تمام اسباب ظاہری و باطنی خواہ زمین سے متعلق سے ہوں یا آسمان سے سب کے سب خود بخود جمع ہو کر اس کام کی تکمیل کے احترام میں لگ جاتے ہیں۔ اور ایک دن میں جب یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو فرشتے اللہ کے حضور حاضر ہو کر اس کی روئداد پیش کردیتے ہیں۔ اور یہ ایک دن اہل دنیا کے حساب کے مطابق ایک ہزار سال کی مدت ہوتی ہے۔ گویا فرشتوں کو ایک ہزار سالہ پروگرام اللہ تعالیٰ دے دیتے ہیں۔ جب سے کام سرانجام پاچکتا ہے تو پھر اگلا ایک ہزارسالہ پروگرام مدبرات امر فرشتوں کے حوالہ کردیا جاتا ہے۔- اسی آیت میں دراصل ان مشرکوں کے اس اعتراض کا جواب دیا جارہا ہے جو اس بات پر مصر تھے اور نبیوں سے کہتے رہتے تھے کہ جس عذاب کی تم دھمکی دیتے ہو وہ آکیوں نہیں جاتا ؟ یا تم اسے ابھی ہم پر لے کیوں نہیں آتے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس ہزار سالہ پروگرام میں کسی قوم پر عذاب آنے کا پروگرام بھی شامل ہوتا ہے۔ اور وہ پروگرام کے مطابق اپنے وقف مقررہ پر ہی آتا ہے اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ جو عذاب کسی قوم کے مقدر ہوچکا ہے وہ اس پر نہ آئے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے سارے کام سوچے سمجھے پروگرام کے مطابق بروئے کار لاتا ہے۔ تمہارے جلدی مچانے یا نہ مچانے کیا کچھ فائدہ یا اثر نہیں ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ ۔۔ : اس آیت کی تفسیر میں اہل علم کا بہت اختلاف ہے، حتیٰ کہ بعض نے اس کی تفصیل اللہ کے علم کے سپرد کرتے ہوئے خاموشی اختیار فرمائی ہے، کیونکہ ہر تفسیر میں ایک طرح کی کمی اور اعتراض کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ یہاں ان میں سے دو تفسیریں نقل کی جاتی ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ جو فیصلہ فرماتا ہے اسے آسمان سے زمین کی طرف نافذ فرماتا ہے، پھر اس کے نافذ ہونے کی خبر اوپر اس کی طرف ایک ایسے دن میں جاتی ہے جس کی مقدار آسمان سے زمین پر اترنے اور پھر اس کی طرف چڑھنے میں دنیا کے ہزار سال کے برابر ہے، کیونکہ آسمان و زمین کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، چناچہ اترنے اور اوپر جانے کا فاصلہ ہزار سال ہے۔ ابن جریر طبری نے فرمایا : ” یہ سب اقوال سے بہتر ہے، کیونکہ یہ اس کے معانی میں سب سے ظاہر اور قرآن کے ظاہر الفاظ سے زیادہ ملتا ہے۔ “ ابن کثیر (رض) نے اس کے ساتھ مجاہد، قتادہ اور ضحاک کا قول نقل فرمایا ہے : ”(اللہ تعالیٰ کا حکم لے کر) فرشتے کا اترنا پانچ سو سال کے فاصلے میں ہوتا ہے اور اس کا چڑھنا بھی پانچ سو سال کے فاصلے میں ہوتا ہے، لیکن وہ اسے آنکھ جھپکنے میں طے کرلیتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗٓ اَلْفَ سَـنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) [ السجدۃ : ٥ ] ” ایک ایسے دن میں جس کی مقدار ہزار سال ہے، اس (حساب) سے جو تم شمار کرتے ہو۔ “ (ابن کثیر) قاسمی، ابن جزی صاحب التسہیل، بغوی، سعدی اور بہت سے مفسرین نے یہی معنی بیان فرمایا ہے، یا اس کو ترجیح دی ہے۔ - واضح رہے کہ قرآن مجید میں ” یَومٍ “ کا لفظ پچاس ہزار سال کی مدت کے لیے بھی آیا ہے اور ہزار سال کے لیے بھی، دنیا کے عام دنوں کے لیے بھی اور وقت کے چھوٹے سے چھوٹے جز کے لیے بھی، جیسا کہ فرمایا : (يَسْـَٔـلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ) [ الرحمٰن : ٢٩ ] ” اس سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، ہر دن وہ ایک نئی شان میں ہے۔ “ یہاں ” ہر دن “ سے مراد ہر لمحہ ہے۔ مقصد اس آیت کا یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ ان سے لاتعلق نہیں ہوگیا کہ اس کے چلانے کا کام کوئی اور کر رہا ہو، بلکہ آسمان سے لے کر زمین تک، بڑے سے لے کر چھوٹے تک، ہر کام کی تدبیر وہ خود کرتا ہے۔ وہ اپنے ہر حکم پر عمل کی بھی مکمل خبر رکھتا ہے اور زمین و آسمان کے درمیان ہزار برس کے فاصلے کے باوجود اس کے حکم سے یہ سب کچھ لمحوں میں ہوجاتا ہے۔- اس آیت میں ان جاہل صوفیوں اور مشرکین کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عالم کا نظام اپنے پیاروں کو دے کر فارغ ہوچکا ہے اور اب سارا نظام وہی چلا رہے ہیں۔ پھر ان حضرات نے اس کے لیے باقاعدہ عہدے بنا رکھے ہیں، جن کے مطابق ان کا کوئی ولی قیّوم کے مرتبے پر ہے، کوئی قطب ہے، کوئی غوث ہے، کچھ ابدال ہیں اور کچھ اوتاد، اور یہی حضرات دنیا کا نظام چلا رہے ہیں۔ اس کے مطابق انھوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی کو غوث اعظم (سب سے بڑا مددگار) کا عہدہ دے رکھا ہے۔ ایک اللہ کو پکارنے کے بجائے یہ لوگ کبھی کسی کو مدد کے لیے پکارتے ہیں اور کبھی کسی کو۔ دراصل ان کی گمراہی کے پیچھے وہی فاسد عقیدہ ہے جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمائی ہے کہ جو مالک لمحوں میں ہزار سال کے فاصلے سے ہر معاملے کی تدبیر کرتا اور اس کی پوری خبر رکھتا ہے، اس اکیلے کی عبادت اور اسی سے مانگنے کے بجائے کسی ایسے کی عبادت اور اس سے فریاد کیوں کی جائے جس کا کسی کام کی تدبیر میں کوئی دخل ہی نہیں۔- 3 دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کو پیدا کرنے کے وقت سے لے کر آسمان سے اپنی مخلوق اور زمین کے ہر معاملے کی تدبیر کر رہا ہے اور یہ سلسلہ ان کے فنا ہونے تک جاری رہے گا۔ پھر یہ تمام معاملات اس کی طرف اوپر جاتے ہیں، تاکہ وہ ان کے بارے میں ایک ایسے دن کے اندر فیصلہ فرمائے جس کی مقدار ہزار برس ہے، ان دنوں سے جو تم شمار کرتے ہو۔ مفسر المراغی، ابن عاشور، ابوبکر الجزائری صاحب ایسر التفاسیر، ابراہیم القطان صاحب تیسیر التفسیر اور دوسرے کئی مفسرین نے یہی معنی بیان کرنے پر اکتفا فرمایا ہے اور کئی دوسرے مفسرین نے اسے ترجیح دی ہے۔ اس معنی کو ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر معاملے کے اور ہر انسان کے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے کا ذکر فرمایا ہے، فرمایا : (وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ ) [ آل عمران : ٢٨ ] ، (ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ) [ البقرۃ : ٢٨ ] ، (وَاِلَيْهِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ ) [ ھود : ١٢٣ ] ، (ثُمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) [ الأنعام : ٦٠ ] اور فرمایا : (اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا ۭوَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا ۭ اِنَّهٗ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ ) [ یونس : ٤ ]- اس تفسیر میں ایک اشکال ہے کہ سورة معارج (٤) میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کی مقدار پچاس ہزار سال بتائی ہے، جب کہ یہاں ایک ہزار سال کا ذکر ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہزار سال سے مراد محض کثرت ہے، کیونکہ عربی زبان میں سب سے بڑا عدد ” أَلْفٌ“ (ہزار) ہی ہے۔ اس سے زیادہ عدد کی ضرورت ہو تو دوسرے عدد ساتھ ملائے جاتے ہیں، مثلاً ” خَمْسُوْنَ أَلْفًا “ یا ” مِاءَۃُ أَلْفٍ “ اور بعض اوقات کثرت کے اظہار کے لیے ” أَلْفٌ“ ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اس لیے ” خمْسِیْنَ اَلْفَ سَـنَةٍ “ اور ” اَلْفَ سَـنَةٍ “ دونوں سے قیامت ہی کا دن مراد ہے اور دونوں عددوں سے کثرت کا اظہار مقصود ہے۔ ہوسکتا ہے اصل مدت اس سے کہیں زیادہ ہو جسے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ (واللہ اعلم) بعض مفسرین نے یہ حل بیان فرمایا ہے کہ مصیبت کے ایام لمبے ہوتے ہیں، چناچہ پچاس ہزار سال کی لمبائی کفار کے لیے ہوگی، جیسے فرمایا : (فَذٰلِكَ يَوْمَىِٕذٍ يَّوْمٌ عَسِيْرٌ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ غَيْرُ يَسِيْرٍ ) [ المدثر : ٩، ١٠ ] ” تو وہ اس دن، ایک مشکل دن ہے۔ کافروں پر آسان نہیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - روز قیامت کا طول :- (آیت) فی یوم کان مقدار الف سنة مما تعدون، ” یعنی اس دن کی مقدار تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی ہوگی “ اور سورة معارج کی آیت میں ہے (آیت) فی یوم کان مقدار خمسین الف سنة، ” یعنی اس دن کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی “- اس کا ایک سیدھا سا جواب تو وہ ہے جو بیان القرآن میں اختیار کیا گیا ہے کہ اس دن کے ہولناک ہونے کے سبب یہ ان لوگوں کو بہت دراز محسوس ہوگا۔ اور یہ درازی بمقدار اپنے ایمان و اعمال کے ہوگی۔ جو بڑے مجرم ہیں ان کو زیادہ جو کم ہیں ان کو کم محسوس ہوگی، یہاں تک کہ جو دن بعض کو ایک ہزار سال کا معلوم ہوگا وہ دوسروں کے نزدیک پچاس ہزار سال کا ہوگا۔- تفسیر روح المعانی میں اور بھی متعدد توجیہات علماء اور صوفیاء کرام سے نقل کی گئی ہیں، مگر وہ سب کے سب قیاسات ہی ہیں۔ ایسی چیز جس کو قرآن کا مدلول کہا جاسکے یا جس پر یقین کیا جاسکے کوئی نہیں۔ اس لئے اسلم وہی طریقہ ہے جو سلف صالحین صحابہ وتابعین نے اختیار کیا، کہ اس ایک پچاس کے فرق کو علم الٰہی کے حوالہ کیا اور خود اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ ہمیں معلوم نہیں۔- حضرت ابن عباس نے اس کے متعلق فرمایا ہما یومان ذکرہما اللہ تعالیٰ فی کتابہ اللہ تعالیٰ اعلم بھما واکرہ ان اقول فی کتاب اللہ مالا اعلم (اخرجہ عبدالرزاق والحاکم وصححہ) ” یعنی یہ دو دن ہیں جن کا ذکر اللہ نے اپنی کتاب میں کیا ہے اور اللہ ہی ان کی حقیقت کو جانتا ہے اور میں اس کو برا سمجھتا ہوں کہ قرآن میں وہ بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْہِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَـنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۝ ٥- دبر - والتدبیرُ : التفکّر في دبر الأمور، قال تعالی: فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً- [ النازعات 5] ، يعني : ملائكة موكّلة بتدبیر أمور،- ( د ب ر ) دبر ۔- التدبیر ( تفعیل ) کسی معاملہ کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے اس میں غور و فکر کرنا قرآن میں ہے :۔ فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] پھر دنیا کے ) کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ یعنی وہ فرشتے جو امور دینوی کے انتظام کیلئے مقرر ہیں ۔ - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - عرج - العُرُوجُ : ذهابٌ في صعود . قال تعالی: تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] ، فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر 14] ، والمَعَارِجُ : المصاعد . قال : ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 3] ، ولیلة المِعْرَاجُ سمّيت لصعود الدّعاء فيها إشارة إلى قوله : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] ، وعَرَجَ عُرُوجاً وعَرَجَاناً : مشی مشي العَارِجِ. أي : الذاهب في صعود، كما يقال : درج : إذا مشی مشي الصاعد في درجه، وعَرِجَ : صار ذلک خلقة له «4» ،- ( ع ر ج ) العروج - کے معنی اوپر چڑھنا کے ہیں قرآن میں ہے : تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] جس کی طرف روح ( الامین ) اور فرشتے چڑھتے ہیں ۔ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر 14] اور وہ اس میں چڑھنے بھی لگیں ۔ اور معارج کے معنی سیڑھیوں کے ہیں اس کا مفرد معرج ( اور معراج ) ہے ۔ قرآن میں ہے :- ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 3] سیڑھیوں والے خدا کی طرف سے ( نازل ہوگا ) ۔ اور شب معراج کو بھی لیلۃ المعراج اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں دعائیں اوپر چڑھتی ہیں جیسا کہ آیت کریمہ ؛- إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ - عد - العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ- [يونس 5] ، وقوله تعالی: فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً- [ الكهف 11] ، فَذِكْرُهُ للعَدَدِ تنبيه علی کثرتها .- والعَدُّ ضمُّ الأَعْدَادِ بعضها إلى بعض . قال تعالی: لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا - [ مریم 94] ، فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون 113] ، أي : أصحاب العَدَدِ والحساب . وقال تعالی: كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون 112] ، وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج 47] ،- ( ع د د ) العدد - ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ہم نے غار میں کئی سال تک ان کانوں پر ( نیند کا ) بردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ کے لفظ سے کثرت تعداد کی طرف اشارہ ہے ۔ العد کے معنی گنتی اور شمار کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم 94] اس نے ان سب کا اپنے علم سے احاطہ اور ایک ایک کو شمار کر رکھا ہے ۔ اور آیت ۔ فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون 113] کے معنی یہ ہیں کہ حساب دانوں سے پوچھ دیکھو ۔ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون 112] زمین میں کتنے برس رہے ۔ وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج 47] بیشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے :

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

وہ آسمان سے لیکر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے وحی فرشتوں کو دے کر بھیجتا ہے اور پھر فرشتے اسی کے حضور میں واپس ہوجاتے ہیں ایک ہی دن میں جس کی مقدار دنیاوی سالوں میں ہزار سال کے برابر ہے کہ فرشتوں کے علاوہ دوسروں کو اترنے اور چڑھنے کے لیے ہزار سال کا زمانہ چاہیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ ) - کائنات کے انتظامی امور کی منصوبہ بندی اللہ تعالیٰ کے ہاں ہزار سال کے حساب سے کی جاتی ہے ‘ جیسا کہ اگلے جملے میں واضح کیا جا رہا ہے کہ اللہ کا ایک دن ہمارے ہزار سال کے عرصے کے برابر ہے۔ اس منصوبہ بندی کے اندر لیلۃ القدر گویا انسانی کیلنڈر کے حساب سے متعلقہ سال کے بجٹ سیشن کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سالانہ بجٹ میں فیصلے کیے جاتے ہیں کہ متعلقہ سال کے اندر دنیا میں انسانوں کے لیے کون کون سے امور کس کس طرح نمٹائے جائیں گے۔ انہی فیصلوں کی تعمیل و تنفیذ کے لیے آسمانوں سے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے جس کا ذکر سورة القدر میں آیا ہے۔- (ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ ) - پھر فرشتے ان احکام کی تعمیل سے متعلق اپنی اپنی رپورٹس اللہ کے حضور پیش کرتے ہیں۔- (فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٓٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) ۔- یہ مضمون اپنی اہمیت کے پیش نظر قرآن حکیم میں دو دفعہ آیا ہے۔ چناچہ سورة الحج میں کفار کی طرف سے عذاب کی جلدی مچانے کے جواب میں یوں وضاحت فرمائی گئی : (وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) اور یقیناً ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کے نزدیک ایک ہزار برس کی طرح ہے جیسے تم لوگ گنتی کرتے ہو۔ جبکہ یہاں اللہ تعالیٰ کی تدبیر امر کے سلسلے میں ایک بنیادی اصول کے طور پر بتایا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں جو فیصلے ہوتے ہیں ان کی منصوبہ بندی ایک ہزار سال کے عرصے کے مطابق کی جاتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :8 یعنی تمہارا اصل خدا تو خالق زمین و آسمان ہے ۔ تم کس خیال خام میں مبتلا ہو کہ کائنات کی اس عظیم الشان سلطنت میں اس کے سوا دوسروں کو کار ساز سمجھ بیٹھے ہو ۔ اس پوری کائنات کا اور اس کی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے ۔ اس کی ذات کے سوا ہر دوسری چیز جو یہاں پائی جاتی ہے ، مخلوق ہے ۔ اور اللہ اس دنیا کو بنا دینے کے بعد کہیں جا کر سو بھی نہیں گیا ہے ، بلکہ اپنی اس سلطنت کا تخت نشین اور حاکم و فرماروا بھی وہ آپ ہی ہے ۔ پھر تمہاری عقل آخر کہاں چرنے چلے گئی ہے کہ تم مخلوقات میں سے چند ہستیوں کو اپنی قسمتوں کا مالک قرار دے رہے ہو ؟ اگر اللہ تمہاری مدد نہ کرے تو ان میں سے کس کی یہ طاقت ہے کہ تمہاری مدد کر سکے ؟ اگر اللہ تمہیں پکڑے تو ان میں سے کس کا یہ زور ہے کہ تمہیں چھڑا سکے ؟ اگر اللہ سفارش نہ سنے تو ان میں سے کون یہ بل بوتا رکھتا ہے کہ اس سے اپنی سفارش منوا لے ؟ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :9 یعنی تمہارے نزدیک جو ایک ہزار برس کی تاریخ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گویا ایک دن کا کام ہے جس کی اسکیم آج کارکنان قضا و قدر کے سپرد کی جاتی ہے اور کل وہ اس کی روداد اس کے حضور پیش کرتے ہیں تاکہ دوسرے دن ( یعنی تمہارے حساب سے ایک ہزار برس ) کا کام ان کے سپرد کیا جائے ۔ قرآن مجید میں یہ مضمون دو مقامات پر اور بھی آیا ہے جنہیں نگاہ میں رکھنے سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے ۔ کفار عرب کہتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو نبوت کا دعویٰ لے کر سامنے آئے کئی برس گزر چکے ہیں ۔ وہ بار بار ہم سے کہتے ہیں کہ اگر میری اس دعوت کو تم لوگ قبول نہ کرو گے اور مجھے جھٹلاؤ گے تو تم پر خدا کا عذاب آ جائے گا ۔ مگر کئی برس سے وہ اپنی یہ بات دوہرائے جا رہے ہیں اور آج تک عذاب نہ آیا ، حالانکہ ہم ایک دفعہ نہیں ہزاروں مر تبہ انہیں صاف صاف جھٹلا چکے ہیں ۔ ان کی یہ دھمکیاں واقعی سچی ہوتیں تو ہم پر نہ معلوم کبھی کا عذاب آ چکا ہوتا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ سُورۂ حج میں فرماتا ہے : وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِفَ اللہُ وَعْدَہٗ وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ ( آیت ٤۷ ) یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ۔ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا ۔ مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تم لوگوں کے شمار سے ہزار برس جیسا ہوا کرتا ہے ۔ دوسری جگہ اسی بات کا جواب یہ دیا گیا ہے : سَاَلَ سَآئِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ ( لا ) لِلْکٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَہٗ دَافِعٌ ( لا ) مِّنَ اللّٰہ ذِی الْمَعَارِجِ تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ والرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیلاً ا ِنَّھُمْ یَرَوْنَہ بَعِیْدًا ( لا ) وَّنَرٰہ قَرِیْباً ط ( المعارج ۔ آیات ۱ ۔ ۷ ) پوچھنے والا پوچھتا ہے اس عذاب کو جو واقع ہونے والا ہے کافروں کے لیے جس کو دفع کرنے والا کوئی نہیں ہے ، اس خدا کی طرف سے جو چڑھتے درجوں والا ہے ( یعنی درجہ بدرجہ کام کرنے والا ) ۔ چڑھتے ہیں اس کی طرف ملائکہ اور روح ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے ۔ پس اے نبی صبر جمیل سے کام لو ۔ یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں ۔ ان تمام ارشادات سے جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے دنیا کی گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے ۔ کسی قوم سے اگر کہا جائے کہ تم فلاں روش اختیار کرو گے تو اس کا انجام تمہیں یہ کچھ دیکھنا ہو گا ، تو وہ قوم سخت احمق ہو گی اگر اس کا مطلب سمجھے کہ آج وہ روش اختیار کی جائے اور کل اس کے برے نتائج سامنے آجائیں ۔ ظہور نتائج کے لیے دن اور مہینے اور سال تو کیا چیز ہیں ، صدیاں بھی کوئی بڑی مدت نہیں ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے ایک ہزار سال کے برابر ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کی صحیح تشریح تو اﷲ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہ نے اسے متشابہات میں بھی شمار کیا ہے، لیکن دوسرے مفسرین کے مطابق اِس آیت کی ایک تفسیر تو یہ ہے کہ اُس دن سے مراد قیامت کا دن ہے جو ایک ہزار سال کے برابر ہوگا، اور مطلب یہ ہے کہ جتنی مخلوقات کا انتظام اُس وقت اﷲ تعالیٰ فرما رہے ہیں، وہ سب آخر کار قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ جن اُمور کا فیصلہ فرماتے ہیں، اُن کی تنفیذ اپنے اپنے طے شدہ وقت پر ہوتی ہے، چنانچہ بعض اُمور کی تنفیذ میں اِنسانوں کی گنتی کے مطابق ایک ہزار سال بھی لگ جاتے ہیں، لیکن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک یہ ایک ہزار سال بھی کوئی بڑی مدّت نہیں ہے، بلکہ ایک دن کے برابر ہے، چنانچہ جیسا کہ سورۂ حج (۲۳:۴۷) میں فرمایا گیا ہے، کفار کے سامنے جب یہ کہا جاتا تھا کہ اُن کے کفر کے نتیجے میں اُن پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دُنیا یا آخرت میں عذاب آئے گا تو وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے، اور کہتے تھے کہ اِتنے دن گذر گئے، لیکن کوئی عذاب نہیں آیا، اگر واقعی عذاب آنا ہے تو ابھی کیوں نہیں آجاتا؟ اِس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جو وعدہ کر رکھا ہے، وہ تو ضرور پورا ہوگا۔ رہا اُس کا وقت، تو وہ اﷲ تعالیٰ کی اپنی حکمت کے مطابق متعین ہوگا۔ اور تم جو سمجھ رہے ہو کہ اس کے آنے میں بہت دیر ہوگئی ہے تو در حقیقت تم جس مدت کو ایک ہزار سال سمجھتے ہو، وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے برابر ہے۔ اس آیت کی کچھ مزید تفصیل ان شا اللہ سورۂ معارج (۷۰:۳) میں آئے گی۔