Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

۔1یعنی منی کے قطرے سے، مطلب یہ ہے کہ ایک انسانی جوڑا بنانے کے بعد، اس کی نسل کے لئے ہم نے یہ طریقہ مقرر کردیا کہ مرد اور عورت آپس میں نکاح کریں، ان کے جنسی ملاپ سے جو قطرہ آب، عورت کے رحم میں جائے گا، اس سے ہم ایک انسانی پیکر تراش کر باہر بھیجتے رہیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٩] ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دو اہم تخلیقی کارناموں کی طرف توجہ دلائی ہے پہلا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کو مختلف مراحل سے گزار کر انسان کا پتلا اپنے ہاتھ سے تیار کیا پھر اس میں اپنے ہاں سے روح پھونکی تو ایک محیرالعقول اور عظیم الشان چیز وجود میں آگئی۔ جس میں عقل و شعور، قوت ارادہ و اختیار اور قوت تمیز و استنباط سب کچھ موجود تھا اور وہ اس قابل بنادیا گیا کہ وہ خلافت ارضی کا بار اٹھا سکے۔ اور اللہ کا دوسرا محیرالعقول تخلیقی کارنامہ یہ ہے کہ پھر انسان کی نسل کو نطفہ اور توالد و تناسل سے چلا دیا۔ جس سے کروڑوں انسان پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ نطفہ کیا ہے ؟ حکما کہتے ہیں کہ یہ چوتھے ہضم کے نتیجہ میں ظہور میں آتا ہے جبکہ خون تیسرے ہضم کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس نطفہ کے ہر قطرہ میں ہزاروں جرثومے ہوتے ہیں اور ایک ایک جرثومہ میں اصل انسان کی شکل و صورت، اس کی عادات اور اس کے خضائل موجود ہوتے ہیں۔ گویا نطفہ کا ایک ایک جرثومہ اس چیز کا چھوٹے سے چھوٹا اور مکمل ترین عکس ہوتا ہے جو صرف طاقتور خوردبین کے ذریعہ سے ہی نظر آسکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ : اس کے لیے دیکھیے سورة مومنون (١٢ تا ١٤) اور سورة حج (٥) یعنی پھر اس کی نسل کو نطفہ اور توالد و تناسل سے آگے چلا دیا، جس سے لاتعداد انسان آگے پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ نطفہ کو خلاصہ اس لیے فرمایا کہ اطباء کے مطابق یہ غذا کے چوتھے ہضم کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے، جب کہ خون تیسرے ہضم کے بعد پیدا ہوتا ہے اور اعضائے بول سے نکلنے کی وجہ سے اسے ” مَّهِيْنٍ “ قرار دیا۔ پھر منی کے اس قطرے میں لاکھوں جرثومے ہوتے ہیں جو طاقت ور خوردبین کے بغیر نظر نہیں آتے، جن میں سے ہر جرثومہ رحم میں مکمل انسان بننے کی استعداد رکھتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّہِيْنٍ۝ ٨ۚ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- نسل - النَّسْلُ : الانفصالُ عن الشیءِ. يقال : نَسَلَ الوَبَرُ عن البَعيرِ ، والقَمِيصُ عن الإنسان، قال الشاعر۔ فَسُلِّي ثِيَابِي عَنْ ثِيَابِكِ تَنْسِلي والنُّسَالَةُ : ما سَقَط من الشَّعر، وما يتحاتُّ من الریش، وقد أَنْسَلَتِ الإبلُ : حَانَ أن يَنْسِلَ وَبَرُهَا، ومنه : نَسَلَ : إذا عَدَا، يَنْسِلُ نَسَلَاناً : إذا أسْرَعَ. قال تعالی: وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ [ الأنبیاء 96] . والنَّسْلُ : الولدُ ، لکونه نَاسِلًا عن أبيه . قال تعالی: وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] وتَنَاسَلُوا : تَوَالَدُوا، ويقال أيضا إذا طَلَبْتَ فَضْلَ إنسانٍ : فَخُذْ ما نَسَلَ لک منه عفواً.- ( ن س ل ) النسل ۔ کے معنی کسی چیز سے الگ ہوجانے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نسل الوا بر عن البعیر اون اونٹ سے الگ ہوگئی ۔ اور نسل القمیص عن الانسان کے معنی قمیص کے بدن سے الگ ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( 422 ) فسلی ثیا بی عن ثیا بک تنسلی تو اپنے کپڑوں سے کھینچ لے تاکہ جدا ہوجائیں ۔ النسا لۃ داڑھی سے گرے ہوئے بال یا پرندہ کے پر جو جھڑ کر گر پڑتے ہیں ۔ انسلت الابل اونٹوں کی اون جھڑنے کا وقت آگیا اسی سے نسل ینسل نسلانا ہے جس کے معنی تیز دوڑ نے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ [ الأنبیاء 96] اور وہ ہر بلند ی سے دوڑ رہے ہوں گے ۔ النسل اولاد کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی اپنے باپ سے جدا ہوئی ہوتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو ( بر باد ) اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کر دے ۔ اور تنا سلو ا کے معنی تو الد وا کے ہیں نیز جب کوئی انسان دوسرے سے خیرات طلب کرے تو کہا جاتا ہے : ۔ فخذ ما سنل لک منہ عفوا کہ جو کچھ ملے وہی لے لو ۔- سل - سَلُّ الشیء من الشیء : نزعه، كسلّ السّيف من الغمد، وسَلُّ الشیء من البیت علی سبیل السّرقة، وسَلُّ الولد من الأب، ومنه قيل للولد : سَلِيلٌ. قال تعالی: يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، وقوله تعالی: مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ [ المؤمنون 12] ، أي : من الصّفو الذي يُسَلُّ من الأرض، وقیل : السُّلَالَةُ كناية عن النطفة تصوّر دونه صفو ما يحصل منه . والسُّلُّ «1» : مرض ينزع به اللّحم والقوّة، وقد أَسَلَّهُ الله، وقوله عليه السلام : «لا إِسْلَالَ ولا إغلال» «2» . وتَسَلْسَلَ الشیء اضطرب، كأنه تصوّر منه تَسَلُّلٌ متردّد، فردّد لفظه تنبيها علی تردّد معناه، ومنه السِّلْسِلَةُ ، قال تعالی: فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُها سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة 32] ، وقال تعالی: سَلاسِلَ وَأَغْلالًا وَسَعِيراً [ الإنسان 4] ، وقال : وَالسَّلاسِلُ يُسْحَبُونَ [ غافر 71] ، وروي : «يا عجبا لقوم يقادون إلى الجنّة بالسّلاسل» «3» . وماء سَلْسَلٌ:- متردّد في مقرّه حتی صفا، قال الشاعر :۔ أشهى إليّ من الرّحيق السَّلْسَلِ- «4» وقوله تعالی: سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] ، أي : سهلا لذیذا سلسا حدید الجرية، وقیل : هو اسم عين في الجنّة، وذکر بعضهم أنّ ذلک مركّب من قولهم : سل سبیلا «5» ، نحو : الحوقلةوالبسملة ونحوهما من الألفاظ المرکّبة، وقیل : بل هو اسم لكلّ عين سریع الجرية، وأسلة اللّسان : الطّرف الرّقيق .- ( س ل ل ) سل ( ن ) الشی من الشی کے معنی ایک چیز کے دوسری سے کھینچ لینے کے ہیں جیسے تلوار کا نیام سے سونتنا ۔ یا گھر سے کوئی چیز چوری کھسکا لینا ۔ قرآن میں ہے ۔ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ۔ اسی مناسبت سے باپ کے نطفہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے : ۔ جیسے فرمایا :۔ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ [ المؤمنون 12] خلاصے سے ( یعنی ) حقیر پانی سے پیدا کی ۔ یعنی وہ ہر جوہر جو غذا کا خلاصہ ہوتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں بطور کنایہ نطفہ مراد ہے ۔ اور نطفہ پر اس کا اطلاق اس جوہر کے لحاظ سے ہے جس سے نطفہ بنتا ہے ۔ السل : سل کی بیماری کیونکہ یہ انسان سے گوشت اور قوت کو کھینچ لیتی ہے اور اسلہ اللہ کے معنی ہیں " اللہ تعالیٰ نے اسے سل کی بیماری میں مبتلا کردیا " ۔ حدیث میں ہے لا اسلال ولا اغلال کہ چوری اور خیانت نہیں ہے ۔ تسلسل الشئی کے معنی کسی چیز کے مضطرب ہونے کے ہیں گویا اس میں بار بار کھسک جانے کا تصور کر کے لفظ کو مکرر کردیا ہے تاکہ تکرار لفظ تکرار معنی پر دلالت کرے اسی سے سلسلۃ ہے جس کے معنی زنجیر کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُها سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة 32]( پھر ) زنجیر سے جس کی ناپ ستر گز ہے ( جکڑ دو ) ۔ سلسلہ کی جمع سلاسل آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَلاسِلَ وَأَغْلالًا وَسَعِيراً [ الإنسان 4] زنجیریں اور طوق اور دہکتی آگ ( تیار کر رکھی ہے ) وَالسَّلاسِلُ يُسْحَبُونَ [ غافر 71] اور زنجیر میں ہوں گی اور گھسیٹے جائیں گے ۔ ایک حدیث میں ہے «يا عجبا لقوم يقادون إلى الجنّة بالسّلاسل» اس قوم پر تعجب ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنت کی طرف کھینچنے جا رہے ہیں ۔ اور ماء سلسل اس پانی کو کہتے ہیں جو اپنی قرار گاہ میں مضطرب ہو کر صاف ہوجائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 232 ) أشهى إليّ من الرّحيق السَّلْسَلِ اور آیت سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] میں سلسبیل کے معنی تیزی سے بہتے ہوئے صاف لذیذ اور خوشگوار پانی کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ جنت کے ایک چشمہ کا نام ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ سل اور سبیل سے بنا ہے اور حوقلۃ و بسملۃ وغیرہ کی طرح الفاظ مرکبہ کے قبیل سے ہے ۔ بعض کا خیال ہے کہ ہر تیز رو چشمے کو سلسبیل کہا جاتا ہے ۔ اور زبان کے باریک سرے کو اسلۃ اللسان کہتے ہیں ۔- ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - هين - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ- [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

پھر ان کی نسل کو نطفہ یعنی مرد و عورت کے ایک بےقدر پانی سے بنایا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّہِیْنٍ ) ۔- یعنی پہلے مرحلے میں مٹی سے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق ہوئی ‘ جبکہ دوسرے مرحلے میں نوع انسانی کے تناسل ( ) کا عمل اس طریقے سے ممکن بنایا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :14 یعنی پہلے اس نے براہ راست اپنے تخلیقی عمل ( ) سے انسان کو پیدا کیا ، اور اس کے بعد خود اسی انسان کے اندر تناسل کی یہ طاقت رکھ دی کہ اس کے نطفہ سے ویسے ہی انسان پیدا ہوتے چلے جائیں ۔ ایک کمال یہ تھا کہ زمین کے مواد کو جمع کر کے ایک تخلیقی حکم سے اس میں وہ زندگی اور وہ شعور و تعقل پیدا کر دیا جس سے انسان جیسی ایک حیرت انگیز مخلوق وجود میں آ گئی ۔ اور دوسرا کمال یہ ہے کہ آئندہ مزید انسانوں کی پیدائش کے لیے ایک ایسی عجیب مشینری خود انسانی ساخت کے اندر رکھ دی جس کی ترکیب اور کارگزاری کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ یہ آیت قرآن مجید کی ان آیات میں سے ہے جو انسان اول کی براہ راست تخلیق کی تصریح کرتی ہیں ۔ ڈارون کے زمانہ سے سائنس داں حضرات اس تصور پر بہت ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور بڑی حقارت کے ساتھ وہ اس کو ایک غیر سائنٹیفک نظریہ قرار دے کر گویا پھینک دیتے ہیں ۔ لیکن انسان کی نہ سہی ، تمام انواع حیوانی کی نہ سہی ، اولین جرثومۂ حیات کی براہ راست تخلیق سے تو وہ کسی طرح پیچھا نہیں چھڑا سکتے ۔ اس تخلیق کو نہ مانا جائے تو پھر یہ انتہائی لغو بات ماننی پڑے گی کہ زندگی کی ابتدا محض ایک حادثہ کے طور پر ہوئی ہے ، حالانکہ صرف ایک خُلیّہ ( ) والے حیوان میں زندگی کی سادہ ترین صورت بھی اتنی پیچیدہ اور نازک حکمتوں سے لبریز ہے کہ اسے حادثہ کا نتیجہ قرار دینا اس سے لاکھوں درجہ غیر سائنٹیفک بات ہے جتنا نظریۂ ارتقاء کے قائلین نظریۂ تخلیق کو ٹھہراتے ہیں ۔ اور اگر ایک دفعہ آدمی یہ مان لے کہ حیات کا پہلا جرثومہ براہ راست تخلیق سے وجود میں آیا تھا ، پھر آخر یہی ماننے میں کیا قباحت ہے کہ ہر نوع حیوانی کا پہلا فرد خالق کے تخلیقی عمل سے پیدا ہوا ہے ، اور پھر اس نسل تناسل ( ) کی مختلف صورتوں سے چلی ہے ۔ اس بات کو مان لینے سے وہ بہت سی گتھیاں حل ہو جاتی ہیں جو ڈارونیت کے علمبرداروں کی ساری سائنٹیفک شاعری کے باوجود ان کے نظریۂ ارتقاء میں غیر حل شدہ رہ گئی ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل ، صفحات ۲۵۹ ۔ ۳۱۹ ۔ ۵٦٦ ۔ جلد دوم ، صفحات ۱۰ ۔ ۱۱ ۔ ۱۰٦ ۔ ۵۰٤ ۔ جلد سوّم ، صفحات ۲۰۱ ۔ ۲٦۹ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani