بہترین خالق بہترین مصور ومدور فرماتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر چیز کو قرینے سے بہترین طور سے ترکیب پر خوبصورت بنائی ہے ۔ ہر چیز کی پیدائش کتنی عمدہ کیسی مستحکم اور مضبوط ہے ۔ آسمان و زمین کی پیدائش کیساتھ ہی خود انسان کی پیدائش پر غور کرو ۔ اس کا شروع دیکھو کہ مٹی سے پیدا ہوا ہے ۔ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام مٹی سے پیدائے ہوئے ۔ پر ان کی نسل نطفے سے جاری رکھی جو مرد کی پیٹھ اور عورت کے سینے سے نکلتا ہے ۔ پھر اسے یعنی آدم کو مٹی سے پیدا کرنے کے بعد ٹھیک ٹھاک اور درست کیا اور اس میں اپنے پاس کی روح پھونکی ۔ تمہیں کان آنکھ سمجھ عطا فرمائی ۔ افسوس کہ پھر بھی تم شکر گذاری میں کثرت نہیں کرتے ۔ نیک انجام اور خوش نصیب وہ شخص ہے جو اللہ کی دی ہوئی طاقتوں کو اسی کی راہ میں خرچ کرتا ہے ۔ جل شانہ وعزاسمہ
7 1یعنی جو چیز بھی اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے، وہ چوں کہ اس کی حکمت و مصلحت کا اعتدال ہے، اس لئے اس میں اپنا ایک حسن اور انفرادیت ہے۔ یوں اس کی بنائی ہوئی ہر چیز حسین ہے اور بعض نے اَ حْسَنَ کے معنی اَتْکُنَ و اَحْکَمَ کے کئے ہیں، یعنی ہر چیز مضبوط اور پختہ بنائی۔ بعض نے اسے اَ لْھَمَ کے مفہوم میں لیا یعنی ہر مخلوق کو ان چیزوں کا الہام کردیا جس کی وہ محتاج ہے۔ 7 2یعنی انسان اول آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا جن سے انسانوں کا آغاز ہوا اور اس کی زوجہ حضرت حوا کو آدم (علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا کردیا جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔
[ ٨] یعنی اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی بنائی اور جس مقصد یا مقاصد کے لئے بنائی تو اسے ایسی شکل و صورت عطا فرمائی جس سے بہتر شکل و صورت کا تصور میں آنا محال ہے۔ اس شکل و صورت پر کوئی بھی حرف گیری نہیں کرسکتا۔ مثلاً پانی اور ہوا میں اس نے جو جو خواص رکھے ہیں اور جن مقاصد کے لئے یہ چیزیں پیدا کی گئی ہیں۔ ان کے لئے یہی شکل و صورت سب سے بہتر تھی۔ یہی صورت ہر جاندار چیز اور نباتات کی ہے۔ کسی بھی چیز کی شکل و صورت بےدھنگی اور بےتکی نہیں ہے۔ انسان کے پورے جسم اور اس کے ایک ایک عضو کا یہی حال ہے۔ مثلاً اللہ نے آنکھ دیکھنے کے لئے اور کان سننے کے لئے بنائے ہیں۔ تو اس مقصد کے لئے جو شکل اللہ نے آنکھ اور کان کی بنادی ہے۔ یہی اس کے لئے بہتر بھی ہے اور خوبصورت بھی۔
ۙالَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ : یعنی اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان کائنات میں بیحد و حساب جتنی چیزیں پیدا فرمائی ہیں اور جس مقصد کے لیے بنائی ہیں، انھیں اس کے لیے ایسی شکل و صورت عطا فرمائی ہے جس سے زیادہ خوب صورت اور عمدہ صورت کا تصور میں آنا محال ہے۔- وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ : اپنی پیدا کردہ ہر چیز کے حسن کے مشاہدے کے لیے انسان کو خود اس کی ذات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی کہ اس کے لیے تمہیں کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی ابتدا حقیر مٹی سے کی، جس میں زندگی کا نام و نشان نہ تھا۔ پوری زمین سے ایک مٹھی لے کر اپنے ہاتھوں سے ُ پتلا بنا کر پہلا انسان پیدا فرما دیا۔ ” طِيْنٍ “ میں تنوین تحقیر کی ہے۔
دنیا کی ہر چیز اپنی ذات میں حسن اور اچھی ہے برائی اس کے غلط استعمال سے آتی ہے :- (آیت) الذی احسن کل شئی خلقہ، یعنی اللہ وہ ذات ہے جس نے ہر چیز کی خلقت کو حسین اور بہتر بنایا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس عالم میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا فرمایا وہ حکمت اور مصالح عالم کے اقتضا سے بنایا ہے۔ اس لئے ہر چیز اپنی ذات کے اعتبار سے ایک حسن رکھتی ہے۔ اور ان سب سے زیادہ حسین اور بہتر انسان کو بنایا ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا : (آیت) لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ ” یعنی ہم نے انسان کو سب سے زیادہ حسین تقویم اور بہتر شکل و صورت میں پیدا کیا ہے “- اور دوسری مخلوقات خواہ وہ ظاہر میں کتنی ہی قبیح اور بری سمجھی جاتی ہوں، کتا، خنزیر، سانپ، بچھو، شیر اور بھیڑیا یہ سب زہریلے اور درندے جانور عام نظروں میں برے سمجھے جاتے ہیں، مگر مجموعہ عالم کے مصالح کے اعتبار سے ان میں سے کوئی برا نہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے - نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں - کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں - حضرت حکیم الامة نے فرمایا کہ کل شئی میں تمام جواہر اور اعراض داخل ہیں یعنی وہ چیزیں بھی جو وجود جوہری رکھتی ہیں جیسے حیوانات، نباتات، جمادات وغیرہ اور اعراض بھی جن میں اخلاق و اعمال بھی داخل ہیں۔ یہاں تک کہ جو اخلاق برے بتلائے جاتے ہیں جیسے غصہ، حرص، شہوت وغیرہ یہ بھی اپنی ذات میں برے نہیں، ان کی برائی غیر مصرف میں صرف کرنے اور بےمحل استعمال کرنے سے ہوتی ہے۔ اپنے محل میں رہیں تو ان میں کوئی چیز بری نہیں۔ لیکن مراد اس سے ان اشیاء کی جہت تخلیق وتکوین ہے کہ وہ خیر ہی خیر اور حسن ہی حسن ہے۔ اور اعمال کی دوسری جہت انسان کا کسب و اکتساب ہے، یعنی اپنے اختیار کو کسی کے کام کے کرنے میں صرف کرنا، تو اس حیثیت سے سب حسن نہیں، بلکہ ان میں تفصیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن کی اجازت نہیں دی وہ حسن نہیں، قبیح ہیں۔ واللہ اعلم۔- (آیت) وبد اخلق الانسان من طین : اس سے پہلے یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عالم کی ہر چیز کو حسن بنایا ہے، اس کے بعد انسان کا ذکر فرمایا جو ان سب میں زیادہ حسین ہے۔ اس کے ساتھ کمال قدرت کے اظہار کے لئے یہ بھی بتلا دیا کہ جس انسان کو ہم نے سب مخلوق سے زیادہ بہتر بنایا ہے وہ یہ نہیں کہ اس کا مادہ تخلیق کچھ سب سے زیادہ اشرف و اعلیٰ اور بہتر لیا گیا، اس لئے سب سے بہتر ہوگیا۔ بلکہ مادہ تخلیق تو اس کا سب سے کمتر چیز یعنی منی کو بنایا گیا، پھر قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ نے اس کمترین چیز کو کہاں سے کہاں پہنچایا کہ اشرف المخلوقات قرار دیا گیا۔
الَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَہٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ ٧ۚ- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - بدأ - يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة 7] - ( ب د ء ) بدء ات - بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔ - إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- طين - الطِّينُ : التّراب والماء المختلط، وقد يسمّى بذلک وإن زال عنه قوّة الماء قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] ، يقال : طِنْتُ كذا، وطَيَّنْتُهُ. قال تعالی: خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] ، وقوله تعالی: فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] .- ( ط ی ن ) الطین - ۔ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے اور طنت کذا وطینتہ کے معنی دیوار وغیرہ کو گارے سے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] چپکنے والی مٹی سے ۔ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] ہامان امیر لئے گارے کو آگ لگو اکر اینٹیں تیار کرواؤ
اس نے جو چیز بنائی وہ خوب اور مضبوط بنائی اور انسان یعنی آدم (علیہ السلام) کی پیدائش مٹی سے شروع کی۔
آیت ٧ (الَّذِیْٓ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْءٍ خَلَقَہٗ ) - اس نے جو چیز بھی بنائی ہے بہت عمدہ بنائی ہے۔ اس کی تخلیق میں کہیں کوئی نقص یا کوتاہی نہیں ہے۔- (وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ ) - اس سے حضرت آدم ( علیہ السلام) کی تخلیق بھی مراد ہے ‘ جس کے مختلف مراحل کا ذکر قرآن حکیم میں متعدد بار ہوا ہے اور ہر انسان کی تخلیق بھی ‘ کیونکہ انسان کی تخلیق جس مادے سے ہوتی ہے وہ بنیادی طور پر زمینی اجزا سے حاصل شدہ غذا سے ہی بنتا ہے۔ اس بارے میں تفصیلی گفتگو سورة المؤمنون کی آیت ١٢ کے ضمن میں ہوچکی ہے۔
سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :13 یعنی اس عظیم الشان کائنات میں اس نے بے حد و حساب چیزیں بنائی ہیں ، مگر کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو بے ڈھنگی اور بے تکی ہو ۔ ہر شے اپنا ایک الگ حسن رکھتی ہے ۔ ہر شے اپنی جگہ متناسب اور موزوں ہے ۔ جو چیز جس کام کے لیے بھی اس نے بنائی ہے اس کے لیے موزوں ترین شکل پر ، مناسب ترین صفات کے ساتھ بنائی ہے ۔ دیکھنے کے لیے آنکھ اور سننے کے لیے کان کی ساخت سے زیادہ موزوں کسی ساخت کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا ۔ ہوا اور پانی جن مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں ان کے لئے ہوا ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی ہونی چاہیے ، اور پانی وہی اوصاف رکھتا ہے جیسے ہونے چاہییں ۔ تم خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے تقشے میں کسی کوتاہی کی نشاندہی نہیں کر سکتے ہو ۔