Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جہاد سے منہ موڑنے والے ایمان سے خالی لوگ اللہ تعالیٰ اپنے محیط علم سے انہیں خوب جانتا ہے جو دوسروں کو بھی جہاد سے روکتے ہیں ۔ اپنے ہم صحبتوں سے یار دوستوں سے کنبے قبیلے والوں سے کہتے ہیں کہ آؤ تم بھی ہمارے ساتھ رہو اپنے گھروں کو اپنے آرام کو اپنی زمین کو اپنے بیوی بچوں کو نہ چھوڑو ۔ خود بھی جہاد میں آتے نہیں یہ اور بات ہے کہ کسی کسی وقت منہ دکھاجائیں اور نام لکھوا جائیں ۔ یہ بڑے بخیل ہیں نہ ان سے تمہیں کوئی مدد پہنچے نہ ان کے دل میں تمہاری ہمدردی نہ مال غنیمت میں تمہارے حصے پر یہ خوش ۔ خوف کے وقت تو ان نامردوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑجاتے ہیں ۔ آنکھیں چھاچھ پانی ہوجاتی ہے مایوسانہ نگاہوں سے تکتے لگتے ہیں ۔ لیکن خوف دور ہوا کہ انہوں نے لمبی لمبی زبانیں نکال ڈالیں اور بڑھے چڑھے دعوے کرنے لگے اور شجاعت ومرومی کا دم بھرنے لگے ۔ اور مال غنیمت پر بےطرح گرنے لگے ۔ ہمیں دو ہمیں دو کا غل مچا دیتے ہیں ۔ ہم آپ کے ساتھی ہیں ۔ ہم نے جنگی خدمات انجام دی ہیں ہمارا حصہ ہے ۔ اور جنگ کے وقت صورتیں بھی نہیں دکھاتے بھاگتوں کے آگے اور لڑتوں کے پیچھے رہاکرتے ہیں دونوں عیب جس میں جمع ہوں اس جیسا بےخیر انسان اور کون ہوگا ؟ امن کے وقت عیاری بد خلقی بد زبانی اور لڑائی کے وقت نامردی روباہ بازی اور زنانہ پن ۔ لڑائی کے وقت حائضہ عورتوں کی طرح الگ اور یکسو اور مال لینے کے وقت گدھوں کی طرح ڈھینچو ڈھینچو ۔ اللہ فرماتا ہے بات یہ ہے کہ ان کے دل شروع سے ہی ایمان سے خالی ہیں ۔ اس لئے ان کے اعمال بھی اکارت ہیں ۔ اللہ پر یہ آسان ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181یہ کہنے والے منافقین تھے، جو اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہونے سے روکتے تھے۔ 182کیونکہ وہ موت کے خوف سے پیچھے ہی رہتے تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢٣] یعنی نہ صرف یہ کہ خود جہاد سے فرار کے بہانے سوچتے رہتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس پیغمبر کا اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑو۔ یہ ایمان اور صداقت کے کس چکر میں پڑے ہو۔ اور خواہ مخواہ اپنی زندگی کو تلخ بنا رکھا ہے۔ مصائب اور خطرات میں پڑنے کی بجائے وہی امن و عافیت کی راہ اختیار کرو جو ہم نے اختیار کر رکھی ہے۔ اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ کبھی کبھار محض ظاہری وضع داری اور دکھاوے کے لئے میدان عمل میں آکھڑے ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِيْنَ مِنْكُمْ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کو جانتا ہے جو دوسروں کو بھی جہاد سے روکتے ہیں اور اپنے یار دوست لوگوں اور کنبے قبیلے کے لوگوں سے کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو خطرات میں ڈالنے کے بجائے ہمارے پاس چلے آؤ اور ہماری طرح آرام سے گھروں میں رہو۔ مراد اس سے منافقین ہیں۔- وَلَا يَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِيْلًا : یعنی کبھی کبھار دکھاوے اور نام لکھوانے کے لیے چلے آتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَدْ يَعْلَمُ اللہُ الْمُعَوِّقِيْنَ مِنْكُمْ وَالْقَاۗىِٕلِيْنَ لِاِخْوَانِہِمْ ہَلُمَّ اِلَيْنَا۝ ٠ ۚ وَلَا يَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِيْلًا۝ ١ ٨ۙ- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - عوق - العَائِقُ : الصارف عمّا يراد من خير، ومنه :- عَوَائِقُ الدّهر، يقال : عَاقَهُ وعَوَّقَهُ واعْتَاقَهُ. قال تعالی: قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِينَ- [ الأحزاب 18] ، أي : المثبّطين الصّارفین عن طریق الخیر، ورجل عَوْقٌ وعَوْقَةٌ: يَعُوقُ النّاسَ عن الخیر، ويَعُوقُ : اسم صنم .- ( ع و ق ) العائق وہ جو لوگوں کو خیر اور بھلائی سے روکنے والا ہو لوگوں کو ان کے مقاصد سے روک کر اپنی طرف متوجہ کرلیں اور عاقۃ عوقۃ واعتا قہ اس نے اسے روک دیا قرآن پاک میں ہے : ۔ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِينَ [ الأحزاب 18] خدا تم میں سے ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو لوگوں کو منع کرتے ہیں ۔ یعنی جو لوگوں کو بھلے کاموں سے روکتے اور منع کرتے ہیں رجل عوق وعوقۃ جو لوگوں کو بھلے کاموں سے روکے ۔ ويَعُوقُ قبیلہ بنی کنانہ اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے ( ایک بت کا نام ( تھا )- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- هلم - هَلُمَّ دعاء إلى الشیء، وفيه قولان : أحدهما : أنّ أصله هَا لُمَّ «1» . من : قولهم :- لممت الشیء . أي : أصلحته، فحذف ألفها فقیل : هلمّ.- وقیل أصله هل أمّ «2» ، كأنه قيل : هل لک في كذا أمّه . أي : قصده، فركّبا . قال عزّ وجلّ :- وَالْقائِلِينَ لِإِخْوانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنا [ الأحزاب 18] ، فمنهم من تركه علی حالته في التّثنية والجمع، وبه ورد القرآن، ومنهم من قال : هَلُمَّا، وهَلُمُّوا، وهَلُمِّي، وهَلْمُمْنَ «3» .- ( ھ ل م ) ھلم ( اسم فعل ) کے معنی کسی چیز کی طرف بلانے کے ہیں بعض کے نزدیک اس کی اصل ھا لم ہے ۔ اور یہ لممت الشئیء سے مشتق ہے جس کے معنی اصلاح کرنے کے ہیں ھا کا الفحزف ہونے کے بعد ھلم بن گیا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اس کی اصل ھل الم ہے گویا یہ اصل میں ھل لک فی کذا امہ بمعنی قصد کا مخفف ہے قرآن پاک میں ہے : وَالْقائِلِينَ لِإِخْوانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنا [ الأحزاب 18] اور بھائیو سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ ۔ بعض اسے فعل غیرمتصرف مانتے ہیں اور تثنیہ جمع ( نیز تذکیر وتانیث میں اسے ایک ہی حالت پر رہنے دیتے ہیں اور قرآن پاک بھی اسی کے مطابق نازل ہوا ہے اور بعض فعل متصرف مانتے ہیں اور آخر میں ضما ئر کا الحاق کرتے ہیں جیسے علما ھلمو ا ھلمی ھلمن - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله :- فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر :- 5-- أتيت المروءة من بابها - «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ ان منافقین میں سے ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو دوسروں کو لڑائی میں جانے سے منع کرتے ہیں اور جو منافقین اپنے ساتھیوں سے کہتے ہیں کہ تم مدینہ میں ہمارے پاس آجاؤ اور یہ عبداللہ بن ابی بن سلول، جد بن قیس معتب بن قشیر تھے اور ان کی تو یہ حالت ہے کہ لڑائی میں دکھاوے کے لیے آتے ہیں اور اگر آتے بھی ہیں تو تمہارے حق میں بخیلی لیے ہوئے بری نیت کے ساتھ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْکُمْ ” اللہ خوب جانتا ہے تم میں سے ان لوگوں کو جو روکنے والے ہیں “- جیسا کہ قبل ازیں وضاحت کی جا چکی ہے کہ مدینہ کی دو اطراف تو قدرتی رکاوٹوں کی وجہ سے محفوظ تھیں ‘ جبکہ عقب میں بنو قریظہ کی گڑھیاں تھیں اور جب تک انہوں نے معاہدے کی اعلانیہ خلاف ورزی نہیں کی تھی تب تک ان کی طرف سے بھی بظاہر کوئی خطرہ نہیں تھا۔ چناچہ مسلمانوں کی اکثریت حملہ آور لشکر کے سامنے خندق کی اندرونی جانب مورچہ بند تھی اور جنگ کا اصل محاذ وہی مقام تھا۔ منافقین نہ صرف خود اس محاذ کی طرف جانے سے کتراتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی روکتے تھے کہ اس طرف مت جائو۔- وَالْقَآئِلِیْنَ لِاِخْوَانِہِمْ ہَلُمَّ اِلَیْنَاج ” اور اپنے بھائیوں سے یہ کہنے والے ہیں کہ ہماری طرف آ جائو “- وہ اپنے دوسرے بھائی بندوں کو بھی ناصحانہ انداز میں سمجھاتے تھے کہ ہمارے پاس آ جائو اور ہماری طرح تم بھی اپنے گھروں میں چھپے رہو اور محاذ کی طرف مت جائو۔- وَلَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًا ” اور وہ نہیں آتے جنگ کی طرف مگر بہت تھوڑی دیر کے لیے۔ “- اگر وہ دکھاوے کے لیے محاذ جنگ پر آتے بھی تھے تو حیلے بہانوں سے واپس جانے کی فکر میں رہتے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :29 یعنی چھوڑو اس پیغمبر کا ساتھ ۔ کہاں دین و ایمان اور حق و صداقت کے چکر میں پڑے ہو؟ اپنے آپ کو خطرے اور مصائب میں مبتلا کرنے کے بجائے وہی عافیت کوشی کی پالیسی اختیار کرو جو ہم نے اختیار کر رکھی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

16: یہ ایک منافق کی طرف اشارہ ہے جو اپنے گھر میں کھانے پینے میں مشغول تھا اور اس کا مخلص مسلمان بھائی جو جنگ میں جانے کے لئے تیار تھا، اس سے کہہ رہا تھا کہ اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے کیوں جارہے ہو؟ یہاں میرے پاس آؤ اور اطمینان سے میرے ساتھ کھانے میں شریک ہو۔ (ابن جریر طبری)۔