Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

221یعنی منافقین نے دشمن کی کثرت تعداد اور حالات کی سنگینی دیکھ کر کہا تھا کہ اللہ اور رسول کے وعدے فریب تھے، ان کے برعکس اہل ایمان نے کہا کہ اللہ اور رسول نے جو وعدہ کیا ہے کہ امتحان سے گزارنے کے بعد تمہیں فتح و نصرت سے ہمکنار کیا جائے گا، وہ سچا ہے۔ 222یعنی حالات کی شدت اور ہولناکی نے ان کے ایمان کو متزلزل نہیں کیا، بلکہ ان کے ایمان میں جذبہ اطاعت اور تسلیم و رضا میں مذید اضافہ کردیا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں اور ان کے مختلف احوال کے اعتبار سے ایمان اور اس کی قوت میں کمی بیشی ہوتی ہے جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٣١] آپ کا بنو غطفان کو اتحادیوں سے توڑنے کا خیال اور انصار کا جواب :۔ منافقوں کے کردار پر تبصرہ کرنے کے بعد اللہ نے مسلمانوں کا کردار بیان فرمایا۔ کہ جوں جوں ان پر مشکلات پڑتی ہیں اور حالات سنگین ہوتے جاتے ہیں توں توں ان کا حوصلہ بڑھتا جاتا ہے۔ ان کے اللہ پر توکل اور ان کے ایمان میں بھی مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ انھیں خوب معلوم ہوتا ہے کہ ان مشکلات کا مقابلہ ہم نے ہی کرنا ہے۔ پھر جو کام ہماری بساط سے باہر ہو تو اس وقت ضرور اللہ کی مدد ہمارا ساتھ دے گی۔ پھر جب اللہ کی مدد فی الواقع ان کو پہنچ جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اور بھی زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ چناچہ جب بنو قریظہ بھی عہد شکنی کرکے اتحادی لشکروں سے مل گئے اور مسلمانوں کے لئے اندر بھی اور باہر بھی خطرہ پیدا ہوگیا تو اس وقت رسول اللہ کے ذہن میں ایک تجویز آئی جو محض انصار کی دلجمعی کی خاطر تھی۔ وہ تجویز یہ تھی کہ بنو غطفان۔۔ جو ایک انتہائی لالچی اور حریص قبیلہ تھا اور ان کی سیاست کا سنہری اصول محض پیسہ کا حصول تھا ان کو مدینہ کی تہائی پیداوار کا لالچ دے کر انھیں اتحادیوں سے کاٹ دیا جائے اور وہ اپنا قبیلہ لے کر واپس چلے جائیں۔ چونکہ یہ قبیلہ سخت جنگجو تھا لہذا اس کی واپسی سے باقی سارے لشکر میں عام بددلی پھیل جانے کا امکان تھا۔ چناچہ اس سلسلہ میں آپ نے قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ اور قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو بلا کر ان سے مشورہ کیا۔ دونوں نے یک زبان ہو کر پوچھا : یہ اللہ کا حکم ہے یا آپ ہماری رائے لینا چاہتے ہیں ؟ اگر اللہ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر اور اگر آپ یہ کچھ ہماری خاطر کرنا چاہتے تو ہمیں یہ بات قطعاً منظور نہیں۔ واللہ ہم نے شرک کی حالت میں بھی ان لوگوں کو ایک دانہ تک نہ دیا۔ اب مسلمان ہو کر کیوں دیں گے۔ ان کے لئے ہمارے پاس صرف تلوار ہے انصاری سرداروں کے اس جواب سے آپ خوش ہوگئے اور فرمایا : یہ اللہ کا حکم نہیں یہ تو میں نے صرف تمہاری دلجمعی کی خاطر سوچا تھا (الرحیق المختوم اردو ص ٤٨٧)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ ۔۔ : کفار کے لشکروں کی کثرت تعداد، محاصرے کی سختی، سردی اور بھوک کی شدت اور بنو قریظہ کی عہد شکنی کی وجہ سے جب حالات نہایت سنگین ہوگئے تو اس وقت منافقوں کا اور شکوک و شبہات کے مریض مسلمانوں کا حال اوپر بیان ہوا کہ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدے محض فریب تھے، اب مخلص مومنوں کا حال بیان ہوتا ہے کہ انھوں نے ان سختیوں کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو آزمائش، تنگی اور تکلیف کے وہی مرحلے ہیں جن کے آنے کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے پہلے ہی خبر دے رکھی ہے اور جن پر صبر کے بعد اس کی نصرت کا وعدہ ہے، جیسا کہ فرمایا : اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ) [ البقرۃ : ٢١٤ ] ” یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ وہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی ؟ سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔ “- وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ : یعنی اللہ اور اس کے رسول نے آزمائش کا جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا اور اس پر صبر کے بعد مسلمانوں کی فتح و نصرت اور کفار کی شکست کا وعدہ بھی سچا تھا، جو سورة بقرہ (٢١٤) میں ” اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ“ کے الفاظ کے ساتھ کیا گیا اور اس سے پہلے مکہ میں نازل ہونے والی سورة قمر (٤٥) میں ” سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ “ کے الفاظ کے ساتھ کیا گیا تھا۔- وَمَا زَادَهُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا : یعنی وہ پہلے سے بھی زیادہ ایمان میں پختہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام ماننے والے بن گئے۔ یہ آیت دلیل ہے کہ آدمی کے ایمان میں زیادتی اور کمی ہوتی ہے۔ امام بخاری (رض) نے صحیح بخاری میں آٹھ آیات اور متعدد احادیث سے یہ بات مدلل فرمائی ہے۔ ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو صریح آیات و احادیث کے باوجود مصر ہیں کہ ایمان میں نہ کمی ہوتی ہے، نہ زیادتی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ۝ ٠ ۙ قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ۝ ٠ ۡوَمَا زَادَہُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِــيْمًا۝ ٢ ٢ۭ- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - حزب - الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] - ( ح ز ب ) الحزب - وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مومن کا ایمان آزمائشوں میں مزید پختہ ہوتا ہے - قول باری ہے (ولمارای المومنون الاحزاب قالوا ھذا ما وعد نا اللہ ورسولہ۔ اور جب اہل ایمان نے لشکروں کو دیکھا تو کہنے لگے کہ یہی وہ (موقع) ہے جس کی ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے خبر دی تھی)- ایک قول کے مطابق مسلمانوں سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ جب مشرکین کے مقابلہ پر اتریں گے انہیں ان پر کامیابی حاصل ہوجائے گی اور وہ ان پر چھا جائیں گے ۔ جس طرح یہ قول باری ہے (لیظھرہ علی السلاین کلد تاکہ وہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے) ۔- قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ وعدہ ہے جو اس قول باری میں ان سے کیا گیا تھا (ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولما یاتکم مثل الذین خلوا مین قبلکم کیا تم نے یہ خیال کیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجائو گے جبکہ ابھی تمہارے پاس ان لوگوں کی مثال نہیں آئی ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں)- قول باری ہے (ومازادھم الا ایمانا وتسلیما۔ اور اس سے ان کے ایمان وطاعت میں ترقی ہی ہوئی) آزمائش کے موقعہ پر صحابہ کرام کی کیفیت کی اس آیت میں عکاسی کی گئی ہے۔ اس آزمائش کی گھڑی میں ان کا یقین اور پختہ ہوگیا اور ان کی بصیرت میں چمک پیدا ہوگی۔ اللہ پر ایمان رکھنے والے اصحاب بصیرت کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اب اللہ تعالیٰ بااخلاص مومنین کا ذکر فرماتے ہیں کہ جب ان حضرات نے کفار مکہ یعنی ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے لشکروں کو دیکھا تو کہنے لگے یہ وہی موقع ہے جس کی چند دنوں پہلے اللہ اور اس کے رسول نے خبر دی تھی کہ تقریبا دس دن کے اندر اندر کفار کی چڑھائی ہوگی اور کفار کے لشکروں کو دیکھنے کے بعد ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فرمان پر ان کے یقین میں اور اضافہ ہوگیا اور اللہ اور رسول کی اطاعت میں اور ترقی ہوگئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ ” اور جب اہل ِایمان نے دیکھا ان لشکروں کو “- قَالُوْا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ ” تو انہوں نے کہا کہ یہی تو ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا تھا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ‘ اور بالکل سچ فرمایا تھا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے۔ “- ان کے دلوں نے فوراً ہی گواہی دے دی کہ یہ وہی صورت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بہت پہلے ہمیں ان الفاظ میں متنبہ ّکر دیا تھا : وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ (البقرۃ : ١٥٥) ” اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے ‘ اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے۔ “ بلکہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو ہمیں یہاں تک خبردار کردیا تھا : لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْقف وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا (آل عمران : ١٨٦) ” (مسلمانو یاد رکھو ) تمہیں لازماً آزمایا جائے گا تمہارے مالوں میں بھی اور تمہاری جانوں میں بھی ‘ اور تمہیں لازماً سننا پڑیں گی بڑی تکلیف دہ باتیں ‘ ان لوگوں سے بھی جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور مشرکین سے بھی۔ “ - یہاں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ محاصرے کی جس صورت حال پر منافقین نے مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا۔ کے الفاظ میں تبصرہ کیا تھا اسی صورت حال پر مومنین کا تبصرہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ یعنی ایک ہی صورت حال میں دونوں فریقوں کا رد عمل مختلف بلکہ متضاد تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی انسان کے عمل اور اس کے رویے ّکا انحصار اس کے دل کی کیفیت پر ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو سورة البقرۃ کی آیت ٢٦ میں قرآن کریم کے حوالے سے یوں واضح کیا گیا ہے : یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًالا وَّیَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًاط یعنی اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا کرتا ہے۔ - وَمَا زَادَہُمْ اِلَّآ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا ” اور اس (واقعہ) نے ان میں کسی بھی شے کا اضافہ نہیں کیا مگر ایمان اور فرمانبرداری کا۔ “- یعنی یہ آزمائش مسلمانوں کے ایمان اور جذبہ تسلیم و رضا میں مزید اضافہ کرگئی۔ محاصرے کے پورے عرصے کے دوران میں ہر قسم کی مصیبت اور پریشانی کے سامنے وہ ع ” سر ِتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے “ کے نعرئہ مستانہ کی عملی تصویر بنے رہے۔ گویا مومن تو ہر حال میں خوش اور مطمئن رہتا ہے۔ اللہ کے راستے میں اس کی کوششیں دنیا میں ہی بار آور ہوں یا اس جدوجہد میں اس کی جان چلی جائے ‘ وہ دونوں صورتوں میں سرخرو ٹھہرتا ہے۔ سورة التوبہ کی آیت ٥٢ میں ان دونوں صورتوں کو اَلْحُسْنَـیَیْن (دو بھلائیاں) قرار دیا گیا ہے : قُلْ ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلآَّ اِحْدَی الْحُسْنَـیَیْنِط ” (اے مسلمانو ان منافقین سے) کہو کہ تم ہمارے بارے میں کس شے کا انتظار کرسکتے ہو ؟ سوائے دو بھلائیوں میں سے ایک کے “ یعنی تبوک کی اس مہم کے دوران میں جو صورت بھی ہمارے درپیش ہو ہمارے لیے اس میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اگر فتح یاب ہو کر لوٹے تو دنیا کی کامیابیاں پائیں گے اور اگر شہید ہوگئے تو جنت کی ابدی نعمتوں سے نوازے جائیں گے۔ (سورۃ التوبہ ٩ ہجری میں سورة الاحزاب کے چار سال بعد نازل ہوئی۔ )- یہ راستہ دراصل عشق کا راستہ ہے اور اس راستے کے مسافروں کی نظر ظاہری مفاد کے بجائے اپنے محبوب کی رضا پر ہوتی ہے۔ حالات موافق و سازگار ہوں یا مخدوش و نامساعد ‘ وہ اس کی پروا کیے بغیر اپنے محبوب کی خوشنودی کے لیے سر گرم عمل رہتے ہیں۔ بقول غالب : ؎- ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے - بے نیازی تری عادت ہی سہی

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :36 رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب اللہ تعالیٰ صحابۂ کرام کے طرز عمل کو نمونے کے طور پر پیش فرماتا ہے تاکہ ایمان کے جھوٹے مدعیوں اور سچے دل سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے والوں کا کردار ایک دوسرے کے مقابلہ میں پوری طرح نمایاں کر دیا جائے ۔ اگرچہ ظاہری اقرار ایمان میں وہ اور یہ یکساں تھے ۔ مسلمانوں کے گروہ میں دونوں کا شمار ہوتا تھا اور نمازوں میں دونوں شریک ہوتے تھے ۔ لیکن آزمائش کی گھڑی پیش آنے پر دونوں ایک دوسرے سے چھٹ کر الگ ہو گئے اور صاف معلوم ہو گیا کہ اللہ اور اس کے رسول کے مخلص وفادار کون ہیں اور محض نام کے مسلمان کون ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :37 اس موقع پر آیت نمبر ۱۲ کو نگاہ میں رکھنا چاہیے ۔ وہاں بتایا گیا تھا کہ جو لوگ منافق اور دل کے روگی تھے انہوں نے دس بارہ ہزار کے لشکر کو سامنے سے اور بنی قریظہ کو پیچھے سے حملہ آور ہوتے دیکھا تو پکار پکار کر کہنے لگے کہ سارے وعدے جو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم سے کیے تھے محض جھوت اور فریب نکلے کہا تو ہم سے یہ گیا تھا کہ دین خدا پر ایمان لاؤ گے تو خدا کی تائید تمہاری پشت پر ہو گی ، عرب و عجم پر تمہارا سکہ رواں ہو گا ، اور قیصر و کسریٰ کے خزانے تمہارے لیے کھل جائیں گے ۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ سارا عرب ہمیں مٹا دینے پر تل گیا ہے اور کہیں سے فرشتوں کی وہ فوجیں آتی نظر نہیں آرہیں جو ہمیں اس سیلاب بلا سے بچا لیں ۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدوں کا ایک مطلب تو وہ تھا جو ان جھوٹے مدعیان ایمان نے سمجھا تھا ۔ دوسرا مفہوم وہ ہے جو ان صادق الایمان مسلمانوں نے سمجھا ۔ خطرات امنڈتے دیکھ کر اللہ کے وعدے تو ان کو بھی یاد آئے ، مگر یہ وعدے نہیں کہ ایمان لاتے ہی انگلی ہلائے بغیر تم دنیا کے فرمانروا ہو جاؤ گے اور فرشتے آ کر تمہاری تاجپوشی کی رسم ادا کریں گے ، بلکہ یہ وعدے کہ سخت آزمائشوں سے تم کو گزرنا ہو گا ، مصائب کے پہاڑ تم پر ٹوٹ پڑیں گے ، گراں ترین قربانیاں تمہیں دینی ہوں گی ، تب کہیں جا کر اللہ کی عنایات تم پر ہوں گی اور تمہیں دنیا اور آخرت کی وہ سرفرازیاں بخشی جائیں گی جن کا وعدہ اللہ نے اپنے مومن بندوں سے کیا ہے : اَمْ حَسِبْتُمْ اَن تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ ۔ ط مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ مَتٰی نَصْرُاللہِ ۔ ط ۔ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ ( البقرہ ۔ آیت ۲۱٤ ) کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں بس یونہی داخل ہو جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی وہ حالات تو تم پر گزرے ہی نہیں جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکے ہیں ۔ ان پر سختیاں اور مصیبتیں آئیں اور وہ ہلا مارے گئے یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھی پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد ۔ ۔ سنو ، اللہ کی مدد قریب ہے ۔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوُلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ ( العنکبوت: ۲ ۔ ۳ ) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس یہ کہنے پر وہ چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور انہیں آزمایا نہ جائیگا ؟ حالانکہ ہم نے ان سب لوگوں کو آزمایا ہے جو ان سے پہلے گزرے ہیں ۔ اللہ کو تو یہ ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :38 یعنی اس سیلاب بلا کو دیکھ کر ان کے ایمان متزلزل ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ گئے ، اور اللہ کی فرماں برداری سے بھاگ نکلنے کے بجائے وہ اور زیادہ یقین و اطمینان کے ساتھ اپنا سب کچھ اس کے حوالے کر دینے پر آمادہ ہو گئے ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ایمان و تسلیم دراصل نفس کی ایک ایسی کیفیت ہے جو دین کے ہر حکم اور ہر مطالبے پر امتحان میں پڑ جاتی ہے ۔ دنیا کی زندگی میں ہر ہر قدم پر آدمی کے سامنے وہ مواقع آتے ہیں جہاں دین یا تو کسی چیز کا حکم دیتا ہے ، یا کسی چیز سے منع کرتا ہے ، یا جان اور مال اور وقت اور محنت اور خواہشات نفس کی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے ۔ ایسے ہر موقع پر جو شخص اطاعت سے انحراف کرے گا اس کے ایمان و تسلیم میں کمی واقع ہو گی ، اور جو شخص بھی حکم کے آگے سر جھکا دے گا اس کے ایمان و تسلیم میں اضافہ ہو گا ۔ اگرچہ ابتداءً آدمی صرف کلمۂ اسلام کو قبول کر لینے سے مومن و مسلم ہو جاتا ہے ۔ لیکن یہ کوئی ساکن و جامد حالت نہیں ہے جو بس ایک ہی مقام پر ٹھہری رہتی ہو ، بلکہ اس میں تنزل اور ارتقاء دونوں کے امکانات ہیں ۔ خلوص اور اطاعت میں کمی اس کے تنزل کی موجب ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ ایک شخص پیچھے ہٹتے ہٹتے ایمان کی اس آخری سرحد پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے یک سر مو بھی تجاوز کر جائے تو مومن کے بجائے منافق ہو جائے اس کے برعکس خلوص جتنا زیادہ ہو ، اطاعت جتنی مکمل ہو اور دین حق کی سر بلندی کے لیے لگن اور دھن جتنی بڑھتی چلی جائے ، ایمان اسی نسبت سے بڑھتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ آدمی صدّیقیّت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے لیکن یہ کمی و بیشی جو کچھ بھی ہے اخلاقی مراتب میں ہے جس کا حساب اللہ کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا بندوں کے لیے ایمان بس ایک ہی اقرار تصدیق ہے جس سے ہر مسلمان داخل اسلام ہوتا ہے اور جب تک اس پر قائم رہے ۔ مسلمان مانا جاتا ہے ۔ اس کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آدھا مسلمان ہے اور یہ پاؤ ، یا یہ دوگنا مسلمان ہے اور یہ تین گنا ۔ اسی طرح قانونی حقوق میں سب مسلمان یکساں ہیں ، یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کو ہم زیادہ مومن کہیں اور اس کے حقوق زیادہ ہوں ، اور کسی کو کم مومن قرار دیں اور اس کے حقوق کم ہوں ۔ ان اعتبارات سے ایمان کی کمی و بیشی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور دراصل اسی معنی میں امام ابو حنیفہ نے یہ فرمایا ہے کہ الایمان لا یزید ولا ینقص ، ایمان کم و بیش نہیں ہوتا ۔ ( مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد۲ ، الانفال ، حاشیہ ۲ ، جلد پنجم ، الفتح ، حاشیہ ۷ ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani