Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ٹھوس دلائل اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لازم قرادتیے ہیں یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس امر پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال افعال احوال اقتدا پیروی اور تابعداری کے لائق ہیں ۔ جنگ احزاب میں جو صبر وتحمل اور عدیم المثال شجاعت کی مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی ۔ مثلا راہ الہ کی تیاری شوق جہاد اور سختی کے وقت بھی رب سے آسانی کی امید اس وقت آپ نے دکھائی یقینا یہ تمام چیزیں اس قابل ہیں کہ مسلمان انہیں اپنی زندگی کا جزوِ اعظم بنالیں اور اپنے پیارے پیغمبر اللہ کے حبیب احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے بہترین نمونہ بنالیں اور ان اوصاف سے اپنے تئیں بھی موصوف کریں ۔ اسی لیے قرآن کریم ان لوگوں کو جو اس وقت سٹ پٹا رہے تھے اور گھبراہٹ اور پریشانی کا اظہار کرتے تھے فرماتا ہے کہ تم نے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کیوں نہ کی؟ میرے رسول تو تم میں موجود تھے ان کا نمونہ تمہارے سامنے تھا تمہیں صبرو استقلال کی نہ صرف تلقین تھی بلکہ ثابت قدمی استقلال اور اطمینان کا پہاڑ تمہاری نگاہوں کے سامنے تھا ۔ تم جبکہ اللہ پر قیامت پر ایمان رکھتے ہو پھر کوئی وجہ نہ تھی کہ تم اپنے رسول کو اپنے لئے نمونہ اور نظیر نہ قائم کرتے ؟ پھر اللہ کی فوج کے سچے مومنوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ساتھیوں کے ایمان کی پختگی بیان ہو رہی ہے کہ انہوں نے جب ٹڈی دل لشکر کفار کو دیکھا تو پہلی نگاہ میں ہی بول اٹھے کہ انہی پر فتح پانے کی ہمیں خوشخبری دی گئی ہے ۔ ان ہی کی شکست کا ہم سے وعدہ ہوا ہے اور وعدہ بھی کس کا اللہ کا اور اس کے رسول کا ۔ اور یہ ناممکن محض ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ غلط ہو یقینا ہمارا سر اور اس جنگ کی فتح کا سہرا ہوگا ۔ ان کے اس کامل یقین اور سچے ایمان کو رب نے بھی دیکھ لیا اور دنیا آخرت میں انجام کی بہتری انہیں عطا فرمائی ۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ کے جس وعدہ کی طرف اس میں اشارہ ہے وہ آیت یہ ہو جو سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہے ۔ آیت ( اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ Ą۝ ) 29- العنكبوت:2 ) یعنی کیا تم نے یہ سمجھ لیا ؟ کہ بغیر اس کے کہ تمہاری آزمائش ہو تم جنت میں چلے جاؤگے؟ تم سے اگلے لوگوں کی آزمائش بھی ہوئی انہیں بھی دکھ درد لڑائی بھڑائی میں مبتلا کیا گیا یہاں تک کہ انہیں ہلایا گیا کہ ایماندار اور خود رسول کی زبان سے نکل گیا کہ اللہ کی مدد کو دیر کیوں لگ گئی ؟ یاد رکھو رب کی مدد بہت ہی قریب ہے یعنی یہ صرف امتحان ہے ادھر تم نے ثابت قدمی دکھائی ادھر رب کی مدد آئی ۔ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچا ہے فرماتا ہے کہ ان اصحاب پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان اپنے مخالفین کی اس قدر زبردست جمعیت دیکھ کر اور بڑھ گیا ۔ یہ اپنے ایمان میں اپنی تسلیم میں اور بڑھ گئے ۔ یقین کامل ہو گیا فرمانبرداری اور بڑھ گئی ۔ اس آیت میں دلیل ہے ایمان کی زیادتی ہونے پر ۔ بہ نسبت اوروں کے ان کے ایمان کے قوی ہونے پر جمہور ائمہ کرام کا بھی یہی فرمان ہے کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے ۔ ہم نے بھی اس کی تقریر شرح بخاری کے شروع میں کردی ہے وللہ الحمد والمنہ ۔ پس فرماتا ہے کہ اس کی تنگی ترشی نے اس سختی اور تنگ حالی نے اس حال اور اس نقشہ نے انکا جو ایمان اللہ پر تھا اسے اور بڑھا دیا اور جو تسلیم کی خو ان میں تھی کہ اللہ رسول کی باتیں ماناکرتے تھے اور ان پر عامل تھے اس اطاعت میں اور بڑھ گئے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

211یعنی اے مسلمانو اور منافقو تم سب کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے اندر بہترین نمونہ ہے، پس تم جہاد میں اور صبر ثبات میں اسی کی پیروی کرو۔ ہمارا یہ پیغمبر جہاد میں بھوکا رہا حتی کہ اسے پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے، اس کا چہرہ زخمی ہوگیا اس کا رباعی دانت ٹوٹ گیا، خندق اپنے ہاتھوں سے کھودی اور تقریبا ایک مہینہ دشمن کے سامنے سینہ سپر رہا۔ یہ آیت اگرچہ جنگ احزاب کے ضمن میں نازل ہوئی ہے جس میں جنگ کے موقعے پر بطور خاص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھنے اور اس کی اقتدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن یہ حکم عام ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام اقوال افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لیے آپ کی اقتدا ضروری ہے چاہے ان کا تعلق عبادات سے یا معاشرت سے، معیشت سے یا سیاست سے، زندگی کے ہر شعبے میں آپ کی ہدایات واجب الاتباع ہیں۔ ( ۭ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا) 59 ۔ الحشر :7) (اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 3 ۔ آل عمران :31) ، کا بھی یہی مفاد ہے۔ 212اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اسوہ رسول کو وہی اپنائے گا جو آخرت میں اللہ کی ملاقات پر یقین رکھتا اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ آجکل مسلمان بھی بالعموم ان دونوں وصفوں سے محروم ہیں، اس لئے اسوہ رسول کی بھی کوئی اہمیت ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ ان میں جو اہل دین ہیں ان کے پیشوا پیر اور مشائخ ہیں اور جو اہل دنیا و سیاست ہیں ان کے مرشد و رہنما آقایان مغرب ہیں۔ رسول اللہ سے عقیدت کے زبانی دعوے بڑے ہیں لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مرشد اور پیشوا ماننے کے لیے ان میں سے کوئی بھی آمادہ نہیں ہے۔ فالی اللہ المشتکی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢٩] جنگ کے دوران آپ کا کردار۔ آپ سب مسلمانوں کے لئے واجب الاتباع نمونہ ہیں :۔ جنگ کی سب سے زیادہ ذمہ داری سپہ سالار پر ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے سپہ سالار خود رسول اللہ تھے۔ دشمن کی کثرت تعداد خوراک کی شدید قلت، حالات کی سنگینی اس نبی کے پائے ثبات پر ذرہ بھر بھی لغزش پیدا نہیں کرسکی۔ وہ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھنے اور اللہ کی طرف سے پرامید اور اس کی مدد کے منتظر ہیں۔ مگر ساتھ ساتھ پوری جانفشانی سے تمہارے دوش بدوش جنگ کے ایک ایک کام تمہارے ساتھ مل کر کر رہے ہیں۔ مسلمانو تمہارا کردار بھی ایسا ہی ہونا چاہئے اور رسول اللہ کی ذات کو بطور نمونہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس جملہ کا یہی مطلب ہے مگر یہ حکم عام ہے صرف جنگ میں ہی نہیں بلکہ ہر حالت میں اور صرف جنگی احکام و تدابیر میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں رسول کی ذات کو بطور نمونہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے۔ گویا اس ایک مختصر سے جملہ میں رسول اللہ کی اطاعت اور اتباع دونوں کو تمام مسلمانوں پر لازم اور واجب قرار دیا گیا ہے۔- [ ٣٠] کس طرح کے لوگ آپ کی اتباع نہیں کرتے ؟:۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتادیا کہ رسول کی اتباع صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جن میں تین شرائط پائی جاتی ہوں ایک یہ کہ وہ اللہ پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہوں دوسرے یوم آخرت پر ایمان بھی رکھتے ہوں اور اپنے اعمال کے اچھے بدلہ کی اللہ سے امید بھی رکھتے ہوں اور ہر وقت اللہ کو یاد رکھتے ہوں۔ بالفاظ دیگر جو لوگ رسول کی ذات کو اپنے لئے نمونہ نہیں بناتے یا اس کے کسی قول یا عمل سے انحراف کرتے ہیں یا اس کی اطاعت و اتباع کو لازم و واجب نہیں سمجھتے فی الحقیقت نہ ان کا اللہ پر ایمان ہے اور نہ یوم آخرت پر۔ یہ آیت رسول اللہ کی غیر مشروط اطاعت اور اتباع کے وجوب پر صریح اور قوی دلیل ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ۔۔ :” اُسْوَةٌ“ اور ” قُدْوَۃٌ“ جس کی پیروی کی جائے، نمونہ۔ اس میں لڑائی سے پیچھے رہنے والوں پر عتاب ہے، یعنی تمہارا فرض تھا کہ جس طرح اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس موقع پر جان لڑا رہے تھے اور تمام تکلیفوں اور مشقتوں کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے تھے، تم بھی جان لڑاتے۔ ایسا تو نہیں تھا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں تو خطرے میں جھونک دیا ہو اور خود کسی پناہ میں آرام کرنے بیٹھ گئے ہوں اگر وہ ایسا کرتے تو تمہارے لیے وجہ جواز ہوسکتی تھی، مگر وہ تو ہر کام میں پیش پیش تھے۔ خندق کھودنے میں، کدال چلانے میں، مٹی ڈھونے میں، بلکہ صحابہ کے ساتھ جنگی ترانے پڑھنے میں، بھوکے اور بیدار رہنے میں، پوری جنگ میں بہ نفس نفیس محاذ پر رہنے میں سب کے ساتھ، بلکہ آگے آگے تھے۔ ” کَان “ کا لفط استمرار کے لیے ہے، یعنی اس سے بھی پہلے مکہ اور طائف میں کفار کی طرف سے آنے والی تکلیفیں برداشت کرنے میں، ہجرت کے پرخطر سفر میں، احد میں پیش آنے والے زخم اور صدمے اٹھانے میں، غرض پوری زندگی میں ہر مشکل مرحلے پر وہ سب سے آگے اور تمہارے لیے نمونہ تھے۔ پھر تمہارا بزدلی دکھانا اور کسی کام سے بچنے کی فکر کرنا کسی بھی لحاظ سے معقول قرار نہیں دیا جاسکتا۔- 3 یہ آیت گو جہاد کے بارے میں نازل ہوئی، مگر اس کے لفظ عام ہیں، اس لیے یہ ہر موقع اور محل کے لیے عام ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے تمام اقوال، افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہیں، جن پر انھیں چلنا لازم ہے اور ان کے لیے جائز نہیں کہ اپنی انفرادی یا اجتماعی زندگی کے کسی معاملہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی سے گریز کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْم) [ آل عمران : ٣١ ] ” کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہیں تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بیحد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ “ اور دیکھیے سورة اعراف کی آیات (١٥٦ تا ١٥٨) اور سورة حشر (٧) ۔- اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ : اُسوہ (نمونہ) دو طرح کا ہے، ایک اسوۂ حسنہ (اچھا نمونہ) اور دوسرا اسوۂ سیۂ (برا نمونہ) ۔ اسوۂ حسنہ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، کیونکہ آپ کی پیروی کرنے والا صراط مستقیم پر چل کر عزت و نعمت کی جنت تک پہنچ جائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جو بھی ہے وہ اسوۂ سیۂ ہے، جیسا کہ کفار کو جب رسولوں نے اپنی پیروی کا حکم دیا تو انھوں نے کہا : (اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِهِمْ مُّهْتَدُوْنَ ) [ الزخرف : ٢٢ ]” بیشک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راستے پر پایا ہے اور بیشک ہم انھی کے قدموں کے نشانوں پر راہ پانے والے ہیں۔ “- لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ ۔۔ : اس اسوۂ حسنہ پر وہی لوگ چلتے ہیں اور انھی کو اس کی توفیق ملتی ہے جن میں تین وصف ہوں، ایک اللہ پر ایمان، اس سے ملاقات اور اس کے دیدار کی امید، دوسرا آخرت پر ایمان اور اس کے ثواب کی امید اور تیسرا کثرت سے اللہ کو یاد کرنا۔ ان لوگوں کو یہ تینوں چیزیں رسول کی پیروی کے لیے ہر وقت آمادہ اور مستعد رکھتی ہیں، بخلاف کافر اور منافق کے جس کا نہ اللہ پر ایمان ہے، نہ آخرت پر اور نہ کبھی اس نے اپنے مالک کو یاد کیا، تو ان لوگوں کے سامنے دنیا کی زندگی اور اس کی لذتوں کے سوا کچھ ہے ہی نہیں، اس لیے وہ رسول کو نمونہ بنانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 19- لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًا۝ ٢ ١ۭ- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - أسَو - الأُسْوَة والإِسْوَةُ کالقدوة والقدوة، وهي الحالة التي يكون الإنسان عليها في اتباع غيره إن حسنا وإن قبیحا، وإن سارّا وإن ضارّا، ولهذا قال تعالی: لَقَدْ كانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [ الأحزاب 21] ، فوصفها بالحسنة، ويقال : تَأَسَّيْتُ به، والأَسَى: الحزن . وحقیقته :- إتباع الفائت بالغم، يقال : أَسَيْتُ عليه وأَسَيْتُ له، قال تعالی: فَلا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكافِرِينَ [ المائدة 68] ، وقال الشاعر : أسيت لأخوالي ربیعة وأصله من الواو، لقولهم : رجل أَسْوَان ، أي : حزین، والأَسْوُ : إصلاح الجرح، وأصله :إزالة الأسى، نحو : کر بت النخل : أزلت الکرب عنه، وقد أَسَوْتُهُ آسُوهُ أَسْواً ، والآسِي : طبیب الجرح، جمعه : إِسَاة وأُسَاة، والمجروح مَأْسِيٌّ وأَسِيٌّ معا، ويقال : أَسَيْتُ بين القوم، أي : أصلحت ، وآسَيْتُهُ. قال الشاعر :- آسی أخاه بنفسه وقال آخر : فآسی وآداه فکان کمن جنی وآسي هو فاعل من قولهم : يواسي، وقول الشاعر : يکفون أثقال ثأي المستآسي فهو مستفعل من ذلك، فأمّا الإساءة فلیست من هذا الباب، وإنما هي منقولة عن ساء .- ( ا س و ) الاسوۃ والاسوۃ قدوۃ اور قدوۃ کی طرح ) انسان کی اس حالت کو کہتے ہیں جس میں وہ دوسرے کا متبع ہوتا ہے خواہ وہ حالت اچھی ہو یا بری ، سرور بخش ہو یا تکلیف وہ اس لئے آیت کریمہ ؛ ۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( سورة الأحزاب 21) تمہارے لئے پیغمبر خدا میں اچھا اسوہ ہے ۔ میں اسوۃ کی صفت حسنۃ لائی گئی ہے ۔ تاسیت بہ میں نے اس کی اقتداء کی ۔ الاسٰی بمعنی حزن آتا ہے اصل میں اس کے معنٰی کسی فوت شدہ چیز پر غم کھانا ہوتے ہیں ۔ اسیت علیہ اسی واسیت لہ ۔ کسی چیز پر غم کھانا قرآن میں ہے ۔ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ( سورة المائدة 68) تو تم قوم کفار پر افسوس نہ کرو ۔ شاعر نے کہا ہے ع (16) اسیت الاخوانی ربعیہ میں نے اپنے اخوال بنی ربعیہ پر افسوس کیا ۔ یہ اصل میں ( ناقص) وادی سے ہے کیونکہ محاورہ میں غمگین آدمی کو اسوان ( بالفتح ) کہا جاتا ہے ۔ الاسو کے معنی زخم کا علاج کرنے کے ہیں ۔ اصل میں اس کے معنی ازالہ غم کے ہیں اور یہ کر بت میں اس کے معنی ازالہ غم کے ہیں اور یہ کر بت النخل کی طرح ہے جس کے معنی کھجور کے درخت کی شاخوں کی جڑوں کو دور کرنے کے ہیں کہا جاتا ہے اسوتہ اسوءہ اشوار از باب نصرا یعنی میں نے اس کا غم دور کیا اس کو تسلی دی ۔ الاٰسی صالح ۔ مر ہم پٹی کرنے والا اس کی جمیع اساعہ واساۃ ہے اور زخمی آدمی کو ماسی وآسی کہا جاتا ہے ۔ اسیت بین القوم باہم صلح کرانا ۔ اٰسیتہ ( مفاعلہ ) کسی کے ساتھ ہمدردی کرنا ۔ ( مال وغیرہ کے ذریعہ ۔ شاعر نے کہا ہے ع (17) ، ، آسیٰ اخاہ بنفسہ ( طویل ) ، ، جس نے خود کو اپنے بھائی پر نثار کردیا ہو ۔ اور دو سرے شاعر نے کہا ہے (18) فآسی و آداہ فکان کمن جنٰی ، ، اس نے ہمدردی کی اور سامان حرب دیا تو گویا اس جنایت کی ۔ یہاں آسیٰ بروزن فاعل یو اسی سے ہے اسی طرح شاعر کے قول ع (19) یکفون اثقال ثای المستاسی ، ، المستای بروزن مستفعل بھی اسی مادہ سے مگر الاساءۃ ( افعال ) جس کے معنی تکلیف پہنچانے کے ہیں اس مادہ سے نہیں ہے بلکہ ساء ( س و ء ) سے منقول ہے ۔- حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - رَّجَاءُ- ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :- إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل - ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء .- اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہترین نمونہ عمل ہیں - قول باری ہے (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔ تمہارے لئے اللہ کے رسول کا ایک عمدہ نمونہ موجود ہے) بعض حضرات نے اس آیت سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال میں آپ کے اسوہ پر چلنے کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔ ان کے مخالفین بھی اس آیت سے آپ کے افعال کے ایجاب کی نفی پر استدلال کرتے ہیں۔- پہلے گروہ کا مسلک یہ ہے کہ آپ کے اسوہ پر چلنا آپ کی اقتدا کے ہم معنی ہے اور یہ آپ کے قول وفعل دونوں کے لئے عام ہے جب اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ہی فرمادیا (لمن کان یرجوا اللہ والیوم الاخر۔ اس کے لئے جو اللہ اور یوم آخر سے ڈرتا ہو) یہ قول باری اس پر دال ہوگیا کہ آپ کے اسوہ پر چلنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان کی شرط قرار دیا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (واتقوا اللہ ان کنتم مومنین۔ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو) اور اسی طرح کے الفاظ جنہیں ایمان کے ساتھ مقرون کردیا گیا ہے۔ یہ بات وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ - مخالفین کی استدلال یہ ہے کہ قول باری (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ) ظاہری طور پر استحباب کا مقتضی ہے، ایجاب کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (لکم) اس کی مثال قائل کا یہ قول ہے ۔” لک ان تصلی، لک ان تتصدق ۔ “ (تمہیں نماز پڑھنے کا) اختیار ہے تمہیں صدقہ دینے کا اختیار ہے۔ اس میں وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے بلکہ اس قول کا ظاہر اس پر دلالت کرتا ہے کہ اسے اس کام کے کرلینے اور نہ کرنے کا اختیار ہے۔ ایجاب پر اس کی دلالت ہوتی اگر آپ کے الفاظ یہ ہوتے ” علیکم التاسی بالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (تم پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ پر چلنا واجب ہے) ۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ درست بات یہ ہے کہ آیت میں وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ بلکہ استحباب پر اس کی دلالت ایجاب پر دلالت کی بہ نسبت زیادہ واضح ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اسکے باوجود اگر آیت امر کے صیغہ کی صورت میں وارد ہوتی تو پھر بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال میں وجوب پر اس کی دلالت نہ ہوتی اس لئے کہ آپ کے اسوہ پر چلنے کا مفہوم یہ ہے کہ ہم بھی اسی طرح کریں جس طرح آپ نے کیا اور اگر ہم کسی فعل کے اعتقاد یا اس کے مفہوم کے سلسلے میں آپ کے خلاف کریں گے تو یہ آپ کے اسوہ پر چلنا نہ ہوگا۔- آپ نہیں دیکھتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اگر ایک عمل استحباب کی بنا پر کیا ہو اور ہم اسے وجوب کی بنا پر کرلیں تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ پر چلنے والے قرار نہیں پائیں گے۔ اگر آپ نے کوئی عمل کیا ہو تو ہمارے لئے اس وقت تک وجوب کے اعتقاد کے ساتھ اسے اپنانا جائز نہیں ہوگا جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ آپ نے یہ عمل وجوب کی بنا پر کیا تھا۔- جب ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ آپ نے یہ عمل وجوب کی بنا پر کیا تھا تو ہم پر اس عمل کو اس علم کی وجہ سے کرنا واجب ہوگا آیت کی جہت سے واجب نہیں ہوگا۔ کیونکہ آیت میں تو وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے، ہم پر اس کا وجوب اس جہت سے ہوگا کہ دوسری آیات میں ہمیں آپ کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

تم لوگوں میں سے ایسے شخص کے لیے جو اللہ سے اور عذاب آخرت سے ڈرتا ہو اور ثواب و انعام کی امید رکھتا ہو اور زبان و دل کے ساتھ کثرت سے ذکر الہی کرتا ہو رسول اکرم کا ایک عمدہ نمونہ اور آپ کے ساتھ غزوہ خندق میں حاضری میں ایک بہترین اقتدا موجود تھی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

جیسا کہ قبل ازیں ذکر ہوچکا ہے ‘ غزوئہ احزاب کا واقعہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی ‘ جس کا مقصد کھرے اور کھوٹے کو پرکھنا تھا۔ چناچہ اس آزمائش کے نتیجے میں انسانی کردار کی دو تصاویر سامنے آئیں۔ ایک اندھیرے کی تصویر تھی اور دوسری اجالے کی۔ ان میں سے اندھیرے کی تصویر کا تذکرہ گزشتہ آیات میں ہوا جبکہ دوسری تصویر کی جھلک آئندہ آیات میں دکھائی جا رہی ہے۔ اجالے کی اس تصویر میں خورشید ِعالم تاب کی علامت چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کردار ہے اس لیے مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا گیا :- آیت ٢١ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ” (اے مسلمانو ) تمہارے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایک بہترین نمونہ ہے “- بظاہر ہمارے ہاں اس آیت کی تفہیم وتعلیم بہت عام ہے۔ سیرت کا کوئی سیمینار ہو ‘ میلاد کی کوئی محفل ہو یا کسی واعظ رنگین بیان کا وعظ ہو ‘ اس آیت کی تلاوت لازمی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سیرت و کردار کا نمونہ اپنانے کی جو صورت آج مسلمانوں کے ہاں عموماً دیکھنے میں آتی ہے اس کا تصور بہت محدود نوعیت کا ہے اور جن سنتوں کا تذکرہ عام طور پر ہمارے ہاں کیا جاتا ہے وہ محض روز مرہ کے معمولات کی سنتیں ہیں ‘ جیسے مسواک کی سنت یا مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دایاں پائوں اندر رکھنے اور باہر نکلتے ہوئے بایاں پائوں باہر رکھنے کی سنت۔ یقینا ان سنتوں کو اپنانے کا بھی ہمیں اہتمام کرنا چاہیے اور ہمارے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہر سنت یقینا منبع خیر و برکت ہے۔ لیکن اس آیت کے سیاق وسباق کو مدنظر رکھ کر غور کریں تو یہ نکتہ بہت آسانی سے سمجھ میں آجائے گا کہ یہاں جس اسوہ کا ذکر ہوا ہے وہ طاقت کے نشے میں بدمست باطل کے سامنے بےسروسامانی کے عالم میں جان ہتھیلی پر رکھ کر ڈٹ جانے کا اسوہ ہے۔ اور اسوہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہی وہ پہلو ہے جو آج ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے۔ دراصل اس آیت میں خصوصی طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس کردار کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جس کا نظارہ چشم ِفلک نے غزوہ خندق کے مختلف مراحل کے دوران کیا۔ اس دوران اگر کسی مرحلے پر فاقوں سے مجبور صحابہ (رض) نے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹوں پر پتھر بندھے ہوئے دکھائے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنی قمیص اٹھا کر اپنا پیٹ دکھایا جہاں دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ اس وقت اگر صحابہ (رض) خندق کی کھدائی میں لگے ہوئے تھے تو ان کے درمیان حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی بڑے بڑے پتھر اپنے کندھوں پر اٹھا اٹھا کر باہر پھینکنے میں مصروف تھے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ کوئی سنگلاخ چٹان صحابہ (رض) کی ضربوں سے ٹوٹ نہ سکی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دی گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنفس ِ نفیس اپنے ہاتھوں سے ضرب لگا کر اسے پاش پاش کیا۔ اس مشکل گھڑی میں ایسا نہیں تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے پر آسائش خیمہ نصب کردیا گیا ہو ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں محو استراحت ہوں ‘ خدام ّمورچھل لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کو موجود ہوں اور باقی لوگ خندق کھودنے میں لگے ہوئے ہوں۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو عملی طور پر اپنائے جانے کے معاملے کو سمجھانے کے لیے عام طور پر میں معاشیات کی دو اصطلاحات اور کی مثال دیا کرتا ہوں۔ یعنی جس طرح کا تعلق بہت بڑی سطح کے معاشی منصوبوں یا کسی ملک کے معاشی نظام کے مجموعی خدوخال سے ہے ‘ اور چھوٹے پیمانے پر معمول کی معاشی سرگرمیوں کے مطالعے کے لیے کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ‘ اسی طرح اگر ہم اور کی اصطلاحات استعمال کریں اور اس حوالے سے اپنا اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ آج ہماری اکثر یت ” مائیکرو سنت “ سے تو خوب واقف ہے ‘ اکثر لوگ روز مرہ معمول کی سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ‘ بلکہ بعض اوقات جذبات کی رو میں بہہ کر اس بنا پر دوسروں کے ساتھ جھگڑے بھی مول لیتے ہیں ‘ لیکن ” میکرو سنت “ کی اہمیت و ضرورت کا کسی کو ادراک ہے اور نہ ہی اس کی تعمیل کی فکر (اِلاَّ مَا شَا ئَ اللّٰہ) ۔ مثلاً حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سب سے بڑی ( ) سنت تو یہ ہے کہ وحی کے آغاز یعنی اپنی چالیس سال کی عمر کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پوری زندگی میں کوئی ایک لمحہ بھی معاشی جدوجہد کے لیے صرف نہیں کیا اور نہ ہی اپنی زندگی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی جائیداد بنائی۔ بعثت سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک خوشحال اور کامیاب تاجر تھے ‘ لیکن سورة المدثر کی ان آیات کے نزول کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی یکسر بدل گئی : یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ۔ ” اے چادر اوڑھنے والے اُٹھیے ‘ اور (لوگوں کو) خبردار کیجیے ‘ اور اپنے رب کی تکبیرکیجیے “۔ اس حکم کی تعمیل میں گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ہر مصروفیت کو ترک کردیا ‘ ہر قسم کی معاشی جدوجہد سے پہلو تہی اختیار فرمالی ‘ اور اپنی پوری قوت و توانائی ‘ تمام تر اوقات اور تمام تر تگ و دو کا رخ دعوت دین ‘ اقامت ِدین اور تکبیر رب کی طرف پھیر دیا۔ یہ وہ ” میکرو سنت “ ہے جس سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا ایک لمحہ بھی خالی نظر نہیں آتا۔- آج اس درجے میں نہ سہی مگر اس میکرو سنت کے رنگ کی کچھ نہ کچھ جھلک تو بحیثیت مسلمان ہماری زندگیوں میں نظر آنی چاہیے ‘ اور اس رنگ کے ساتھ ساتھ مائیکرو قسم کی سنتوں کا بھی اہتمام کیا جائے تو وہ یقینا نورٌ علیٰ نور والی کیفیت ہوگی۔ لیکن اگر ہم اپنی ساری توانائیاں صرف چھوٹی چھوٹی سنتوں کے اہتمام میں ہی صرف کرتے رہیں ‘ برش کے بجائے مسواک کا استعمال کرکے سو شہیدوں کے برابر ثواب کی امید بھی رکھیں اور اتباعِ سنت کے اشتہار کے طور پر ہر وقت مسواک اپنی جیب میں بھی لیے پھریں ‘ لیکن اپنی زندگیوں کا عمومی رخ متعین کرنے میں ” میکرو سنت “ کا بالکل بھی لحاظ نہ کریں تو ہمیں خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمارا یہ طرز عمل اسوہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کس قدر مطابقت اور مناسبت رکھتا ہے - لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ ” (یہ اسوہ ہے) ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات اور آخرت کی امید رکھتا ہو “- وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا ” اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہو۔ “- یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسوہ صرف اس شخص کے لیے ہے جو ان تین شرائط کو پورا کرے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا متمنی ہو ‘ یعنی اللہ سے محبت کرتا ہو۔ دوسری شرط یہ کہ وہ شخص یوم آخرت کی بھی امید رکھتا ہو ‘ یعنی بعث بعد الموت پر اس کا یقین ہو۔ اور تیسری شرط یہ کہ وہ اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرتا ہو۔ گویا ہر وقت اللہ کو یاد رکھتا ہو۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ کے حوالے سے ان شرائط کے فلسفے کو سورة البقرۃ کی آیت ٢ اور آیت ١٨٥ کی روشنی میں سمجھئے۔ سورة البقرۃ کی آیت ١٨٥ میں قرآن کو ہُدًی لِّلنَّاسِ (تمام نوع انسانی کے لیے ہدایت) قرار دیا گیا ہے۔ لیکن آیت ٢ میں اس ہدایت سے استفادہ کو ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کی شرط سے مشروط کردیا گیا ہے کہ قرآن سے صرف وہی لوگ ہدایت حاصل کرسکتے ہیں جو تقویٰ کی روش پر کاربند ہیں۔ اس اصول کی روشنی میں آیت زیرمطالعہ کا مفہوم یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسوہ تو اپنی جگہ کامل و اکمل اور منبع ِرشد و ہدایت ہے لیکن اس سے استفادہ صرف وہی لوگ کرسکیں گے جو ان تین شرائط پر پورا اترتے ہوں۔ - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ کے ذکر کے بعد آگے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) کے کردار کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ یہ گویا وہی ترتیب ہے جو سورة الفتح کی آخری آیت میں آئی ہے : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ … ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ - کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ‘ اور وہ لوگ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہیں…“ یعنی پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر اور پھر اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :34 جس سیاق و سباق میں یہ آیت ارشاد ہوئی ہے اس کے لحاظ سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کو اس جگہ نمونہ کے طور پر پیش کرنے سے مقصود ان لوگوں کو سبق دینا تھا جنہوں نے جنگ احزاب کے موقع پر مفاد پرستی و عافیت کوشی سے کام لیا تھا ۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم ایمان و اسلام اور اتباع رسول کے مدعی تھے ۔ تم کو دیکھنا چاہیے تھا کہ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروؤں میں تم شامل ہوئے ہو اس کا اس موقع پر کیا رویہ تھا ۔ اگر کسی گروہ کا لیڈر خود عافیت کوش ہو ۔ خود آرام طلب ہو ، خود اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کو مقدم رکھتا ہو ، خطرے کے وقت خود بھاگ نکلنے کی تیاریاں کر رہا ہو ، پھر تو اس کی پیروؤں کی طرف سے ان کمزوریوں کا اظہار معقول ہو سکتا ہے ۔ مگر یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ ہر مشقت جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں سے مطالبہ کیا ، اسے برداشت کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سب کے ساتھ شریک تھے ، بلکہ دوسروں سے بڑھ کر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حصہ لیا ، کوئی تکلیف ایسی نہ تھی جو دوسروں نے اٹھائی ہو اور آپ صلی اللہ علی ہوسلم نے نہ اٹھائی ہو ۔ خندق کھودنے والوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود شامل تھے ۔ بھوک اور سردی کی تکلیفیں اٹھانے میں ایک ادنیٰ مسلمان کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ بالکل برابر کا تھا ۔ محاصرے کے دوران میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت محاذ جنگ پر موجود رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی دشمن کے مقابلے سے نہ ہٹے ۔ بنی قریظہ کی غداری کے بعد جس خطرے میں سب مسلمانوں کے بال بچے مبتلا تھے اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال بچے بھی مبتلا تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حفاظت اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لیے کوئی خاص اہتمام نہ کیا جو دوسرے مسلمانوں کے لیے نہ ہو ۔ جس مقصد عظیم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں سے قربانیوں کا مطالبہ کر رہے تھے اس پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنا سب کچھ قربان کر دینے کو تیار تھے ۔ اس لیے جو کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کا مدعی تھا اسے یہ نمونہ دیکھ کر اس کی پیروی کرنی چاہیے تھی ۔ یہ تو موقع و محل کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم ہے ۔ مگر اس کے الفاظ عام ہیں اور اس کے منشا کو صرف اسی معنی تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ صرف اسی لحاظ سے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے ، بلکہ مطلقاً اسے نمونہ قرار دیا ہے ۔ لہٰذا اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہر معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی سیرت و کردار کو ڈھالیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :35 یعنی اللہ سے غافل آدمی کے لیے تو یہ زندگی نمونہ نہیں ہے مگر اس شخص کے لیے ضرور نمونہ ہے جو کبھی کبھار اتفاقاً خدا کا نام لے لینے والا نہیں بلکہ کثرت سے اس کو یاد کرنے اور یاد رکھنے والا ہو ۔ اسی طرح یہ زندگی اس شخص کے لیے تو نمونہ نہیں ہے جو اللہ سے کوئی امید اور آخرت کے آنے کی کوئی توقع نہ رکھتا ہو ، مگر اس شخص کے لیے ضرور نمونہ ہے جو اللہ کے فضل اور اس کی عنایات کا امیدوار ہو اور جسے یہ بھی خیال ہو کہ کوئی آخرت آنے والی ہے جہاں اس کی بھلائی کا سارا انحصار ہی اس پر ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کا رویہ رسُولِ خُدا ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے رویے سے کس حد تک قریب تر رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani