اللہ عزوجل کفار سے خود نپٹے اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ اس نے طوفان باد وباراں بھیج کر اور اپنے نہ نظر آنے والے لشکر اتار کر کافروں کی کمر توڑی دی اور انہیں سخت مایوسی اور نامرادی کیساتھ محاصرہ ہٹانا پڑا ۔ بلکہ اگر رحمۃ اللعالمین کی امت میں یہ نہ ہوتے تو یہ ہوائیں ان کے ساتھ وہی کرتیں جو عادیوں کے ساتھ اس بےبرکت ہوا نے کیا تھا ۔ چونکہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ تو جب تک ان میں ہے اللہ انہیں عام عذاب نہیں کرے گا لہذا انہیں صرف ان کی شرارت کا مزہ چکھا دیا ۔ ان کے مجمع کو منتشر کرکے ان پر سے اپنا عذاب ہٹالیا ۔ چونکہ ان کا یہ اجتماع محض ہوائے نفسانی تھا اس لئے ہوا نے ہی انہیں پراگندہ کردیا جو سوچ سمجھ کر آئے تھے سب خاک میں مل گیا کہاں کی غنیمت ؟ کہاں کی فتح؟ جان کے لالے پڑے گئے اور ہاتھ ملتے دانت پیستے پیچ وتاب کھاتے ذلت و رسوائی کے ساتھ نامرادی اور ناکامی سے واپس ہوئے ۔ دنیا کا خسارہ الگ ہوا اور آخرت کا وبال الگ ۔ کیونکہ جو کوئی شخص کسی کام کا قصد کرتا ہے اور وہ اپنے کام کو عملی صورت بھی دے دے پھر وہ اس میں کامیاب نہ ہو تو گنہگار تو وہ ہو ہی گیا ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل اور آپ کے دین کو فنا کرنے کی آرزو پھر اہتمام پھر اقدام سب کچھ انہوں نے کر لیا ۔ لیکن قدرت نے دونوں جہان کا بوجھ ان پر لادھ کر انہیں جلے دل سے واپس کیا اللہ تعالیٰ نے خود ہی مومنوں کی طرف سے ان کا مقابلہ کیا ۔ نہ مسلمان ان سے لڑے نہ انہیں ہٹایا ۔ بلکہ مسلمان اپنی جگہ رہے اور وہ بھاگتے رہے ۔ اللہ نے اپنے لشکر کی لاج رکھ لی اور اپنے بندے کی مدد کی اور خود ہی کافی ہوگیا اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی اپنے لشکر کی عزت کی تمام دشمنوں سے آپ ہی نمٹ لیا اور سب کو شکست دے دی ۔ اس کے بعد اور کوئی بھی نہیں ( بخاری مسلم ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب کے موقعہ پر جناب باری تعالیٰ سے جو دعا کی تھی وہ بھی بخاری مسلم میں مروی ہے کہ آپ نے فرمایا دعا ( اللھم منزل الکتاب سرع الحساب اھزم الا حزاب وزلزلھم ) اے اللہ اے کتاب کے اتارنے والے جلد حساب لینے والے ان لشکروں کو شکست دے اور انہیں ہلا ڈال ۔ اس فرمان آیت ( وَكَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْقِتَالَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ قَوِيًّا عَزِيْزًا 25ۚ ) 33- الأحزاب:25 ) یعنی اللہ نے مومنوں کی کفایت جنگ سے کردی ۔ اس میں نہایت لطیف بات یہ ہے کہ نہ صرف اس جنگ سے ہی مسلمان چھوٹ گئے بلکہ آئندہ ہمیشہ ہی صحابہ اس سے بچ گئے کہ مشرکین ان پر چڑھ دوڑیں ۔ چنانچہ آپ تاریخ دیکھ لیں جنگ خندق کے بعد کافروں کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ مدینے پر یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی جگہ خود چڑھائی کرتے ۔ ان کے منحوس قدموں سے اللہ نے اپنے نبی کے مسکن وآرام گاہ کو محفوظ کرلیا فالحمد للہ ۔ بلکہ برخلاف اس کے مسلمان ان پر چڑھ چڑھ گئے یہاں تک کہ عرب کی سرزمین سے اللہ نے شرک وکفر ختم کردیا ۔ جب اس جنگ سے کافر لوٹے اسی وقت رسول اکرم صلی اللہ علہ وسلم نے بطور پیشن گوئی فرمادیا تھا کہ اس سال کے بعد قریش تم سے جنگ نہیں کریں گے بلکہ تم ان سے جنگ کرو گے چنانچہ یہی ہوا ۔ یہاں تک کہ مکہ فتح ہوگیا ۔ اللہ کی قوت کا مقابلہ بندے کے بس کا نہیں ۔ اللہ کو کوئی مغلوب نہیں کرسکتا ۔ اسی نے اپنی مدد وقوت سے ان بپھرے ہوئے اور بکھرے ہوئے لشکروں کو پسپا کیا ۔ انہیں برائے نام بھی کوئی نفع نہ پہنچا ۔ اس نے اسلام اور اہل اسلام کو غالب کیا اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور اپنے عبد و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی ۔ فالحمد للہ ۔
2 5 1یعنی مشرک جو مختلف طرفوں سے جمع ہو کر آئے تھے تاکہ مسلمانوں کا نشان مٹا دیں۔ اللہ نے انھیں اپنے غیظ و غضب سمیت واپس لوٹا دیا۔ نہ دنیا کا مال متاع ان کے ہاتھ لگا اور نہ آخرت میں ہی اجر وثواب کے مستحق ہوں گے، کسی بھی قسم کی خیر انھیں حاصل نہیں ہوئی۔ 2 5 2یعنی مسلمانوں کو ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہوا اور فرشتوں کے ذریعے سے اپنے مومن بندوں کی مدد کا سامان بہم پہنچا دیا۔ اسلئے نبی نے فرمایا (لَا اِلَہَ اَلَّا للّٰہُ وَحْدَہُ ، صَدَقَ وَعْدَۃُ ، نَصَرَ عَبْدَہُ ، وَ اَعَزَّ جُنْدَہُ ، وَحَزَمَ الاَّحْزَابَ وَحْدَہَ ، فَلَا شَیْءٍ بَعْدَ ہُ ) (صحیح بخاری) ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اپنے لشکر کو سرخرو کیا، اور تمام گروہوں کو اکیلے اس نے ہی شکست دے دی، اس کے بعد کوئی شئ نہیں یہ دعا حج عمرہ، جہاد اور سفر سے واپسی پر پڑھنی چاہئے۔
[ ٣٤] عبد ودّ کی لاش کا عوضانہ :۔ یعنی اتحادیوں کا لشکر نہایت ذلت، ناکامی اور غصہ سے پیچ و تاب کھاتا ہوا بےنیل و مرام میدان چھوڑ کر واپسی پر مجبور ہوگیا اور مسلمانوں کے لئے اپنا بہت سامان چھوڑ گیا۔ اسی جنگ میں عمرو بن عبدودّ نے، جو ایک ہزار سواروں پر بھاری سمجھا جاتا تھا، مسلمانوں کو دعوت مبارزت دی اور سیدنا علی اس کے مقابلے میں اترے اور اس کا کام تمام کردیا۔ مشرکوں نے درخواست کی کہ دس ہزار درہم کے عوض اس کی لاش انھیں دے دی جائے۔ آپ نے انھیں فرمایا : لاش تم مفت ہی لے جاو ہم مردوں کی قیمت نہیں کھایا کرتے۔- [ ٣٥] حیی بن اخطب نے بنو قریظہ کو کیسے بد عہدی پر آمادہ کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے عام لڑائی کی نوبت ہی نہ آنے دی اور ان کے محاصرہ کو اٹھانے کے لئے یخ بستہ ہوا اور فرشتے بھیج دیئے۔ یہود میں اور اتحادیوں میں پھوٹ ڈال دی۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن سخت بدحواس ہو کر بھاگ کھڑا ہوا۔ بھلا اللہ کی زبردست قوت کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے ؟
وَرَدَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوْا خَيْرًا : ان آیات میں غزوۂ احزاب کا انجام بیان فرمایا کہ کفار اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دینے کے جس ارادے سے آئے تھے اس میں انھیں کوئی کامیابی نہ ہوئی، نہ مسلمانوں کو مٹا سکے، نہ مدینہ فتح ہوا اور نہ مال غنیمت یا اسیر حاصل کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دل کی جلن اور غصے سے بھرے ہونے کی حالت میں کوئی بھی فائدہ حاصل کیے بغیر واپس لوٹا دیا۔- وَكَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْقِتَالَ : یعنی مسلمانوں کو لڑنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ اللہ تعالیٰ نے لڑائی اپنے ذمے لے لی اور آندھی اور فرشتوں کے لشکروں کے ساتھ کفار کے لشکروں کو مار بھگایا۔ اس کی تفصیل اسی سورت کی آیت (٩) کی تفسیر میں ملاحظہ کریں۔- وَكَان اللّٰهُ قَوِيًّا عَزِيْزًا : چونکہ اتنی تعداد اور تیاری کے باوجود کفار کا بھاگ جانا عقل سے بعید اور نہایت حیران کن واقعہ تھا، اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے بیحد قوت والا، سب پر غالب ہے، اس کے لیے یہ کچھ مشکل نہیں۔
وَرَدَّ اللہُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِغَيْظِہِمْ لَمْ يَنَالُوْا خَيْرًا ٠ ۭ وَكَفَى اللہُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْقِتَالَ ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ قَوِيًّا عَزِيْزًا ٢ - رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- غيظ - الغَيْظُ : أشدّ غضب، وهو الحرارة التي يجدها الإنسان من فوران دم قلبه، قال : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران 119] ، لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح 29] ، وقد دعا اللہ الناس إلى إمساک النّفس عند اعتراء الغیظ . قال : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] .- قال : وإذا وصف اللہ سبحانه به فإنه يراد به الانتقام . قال : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ- [ الشعراء 55] ، أي : داعون بفعلهم إلى الانتقام منهم، والتَّغَيُّظُ : هو إظهار الغیظ، وقد يكون ذلک مع صوت مسموع کما قال : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان 12] .- ( غ ی ظ ) الغیظ کے معنی سخت غصہ کے ہیں ۔ یعنی وہ حرارت جو انسان اپنے دل کے دوران خون کے تیز ہونے پر محسوس کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران 119] کہدو کہ ( بدبختو) غصے میں مرجاؤ ۔ غاظہ ( کسی کو غصہ دلانا ) لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح 29] تاکہ کافروں کی جی جلائے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے سخت غصہ کے وقت نفس کو روکنے کا حکم دیا ہے اور جو لوگ اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں انکی تحسین فرمائی ہے چناچہ فرمایا : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] اور غصے کو روکتے ۔ اور اگر غیظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو تو اس سے انتقام لینا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ [ الشعراء 55] اور یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں ۔ یعنی وہ اپنی مخالفانہ حرکتوں سے ہمیں انتقام پر آمادہ کر رہے ہیں اور تغیظ کے معنی اظہار غیظ کے ہیں جو کبھی ایسی آواز کے ساتھ ہوتا ہے جو سنائی دے جیسے فرمایا : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان 12] تو اس کے - جو ش غضب اور چیخنے چلانے کو سنیں گے ۔- نيل - النَّيْلُ : ما يناله الإنسان بيده، نِلْتُهُ أَنَالُهُ نَيْلًا . قال تعالی: لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران 92] ، وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة 120] ، لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب 25] والنَّوْلُ : التّناول . يقال : نِلْتُ كذا أَنُولُ نَوْلًا، وأَنَلْتُهُ : أولیته، وذلک مثل : عطوت کذا :- تناولت، وأعطیته : أنلته . ونِلْتُ : أصله نَوِلْتُ علی فعلت، ثم نقل إلى فلت . ويقال : ما کان نَوْلُكَ أن تفعل کذا . أي : ما فيه نَوَال صلاحک، قال الشاعر :- 455-- جزعت ولیس ذلک بالنّوال - «1» قيل : معناه بصواب . وحقیقة النّوال : ما يناله الإنسان من الصلة، وتحقیقه ليس ذلک مما تنال منه مرادا، وقال تعالی: لَنْ يَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَلا دِماؤُها وَلكِنْ يَنالُهُ التَّقْوى مِنْكُمْ- [ الحج 37] .- ( ن ی ل ) النیل ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسان اپنے ہاتھ سے پکڑلیتا ہے ۔ اور یہ نلتہ الالہ نیلا کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران 92] تم کبھی نیکی حاصل نہیں کرسکو گے ۔ وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة 120] یا دشمنوں سے کوئی چیز لیتے ۔ لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب 25] کچھ بھلائی حاصل نہ کرسکے ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- كفى- الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ- [ الأحزاب 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل .- ( ک ف ی ) الکفایۃ - وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ :- ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزۃ - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )
اور اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ یعنی ابو سفیان اور اس کے لشکروں کو غصہ میں بھرا ہوا ہٹا دیا کہ ان کی کچھ بھی مراد پوری نہ ہوئی اور نہ ان کو غنیمت اور خوشی حاصل ہوئی۔- اور آندھی اور فرشتوں کا لشکر بھیج کر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے لڑائی کی مشقت کو دور کردیا۔- اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد فرمانے میں بڑی قوت والا اور کفار کو سزا دینے میں زبردست ہے۔
آیت ٢٥ وَرَدَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِغَیْظِہِمْ ” اور لوٹا دیا اللہ نے کافروں کو ان کے غصے کے ساتھ ہی “- کفارو مشرکین بہت بڑا لشکر اکٹھا کر کے فتح کے زعم میں مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ناکام و نامراد پسپا کردیا۔ نہ تو جنگ کی نوبت آئی اور نہ ہی وہ اپنا ہدف حاصل کرسکے۔ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف غصے کی جو آگ بھڑک رہی تھی اسے بھی ٹھنڈا کرنے کا انہیں موقع نہ ملا اور اپنے غیظ و غضب سمیت ہی انہیں بےنیل ِمرام واپس جانا پڑا۔- لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا ” وہ کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ “- اس مہم میں انہیں ناکامی و حسرت کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ نہ تو وہ کسی قسم کا کوئی کارنامہ سرانجام دے سکے اور نہ ہی کوئی مفاد حاصل کرسکے۔ - وَکَفَی اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ ” اور اللہ کافی رہا اہل ِایمان کی طرف سے قتال کے لیے ۔ “- اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے کھلی جنگ کی نوبت ہی نہ آنے دی اور اپنی تدابیر اور اپنے لشکروں کے ذریعے سے ہی کفار کو شکست دے دی۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایک کڑے امتحان سے تو گزارا مگر انہیں کوئی گزند نہ پہنچنے دی۔- وَکَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیْزًا ” اور یقینا اللہ بڑی طاقت والا ‘ سب پر غالب ہے۔ “- اب آئندہ آیات میں غزوئہ بنی قریظہ کا ذکر ہے۔ یہ غزوہ گویا غزوئہ احزاب کا ضمیمہ ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ جب کفار کے لشکر چلے گئے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خندق سے پلٹ کر گھر تشریف لائے اور اپنی زرہ اور ہتھیار اتارے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہتھیار اتار دیے ہیں ‘ جبکہ ہم نے تو ابھی نہیں اتارے اس لیے کہ ابھی بنی قریظہ کو ان کی بد عہدی کی سزا دینا باقی ہے۔ یہ ظہر کا وقت تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فوراً اعلان فرمایا کہ ” جو کوئی سمع وطاعت پر قائم ہو وہ عصر کی نماز اس وقت تک نہ پڑھے جب تک دیار بنی قریظہ پر نہ پہنچ جائے “ ساتھ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو ایک دستے کے ساتھ ُ مقدمۃ ُ الجیش کے طور پر بنوقریظہ کی طرف روانہ فرما دیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیادت میں پورا اسلامی لشکر وہاں پہنچ گیا اور ان کی بستی کا محاصرہ کرلیا۔ یہ اپنے مضبوط قلعوں اور گڑھیوں میں محصور ہوگئے۔ دو تین ہفتوں کے محاصرے کے بعد بالآخر یہودیوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیے کہ حضرت سعد بن معاذ (رض) ان کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے وہ انہیں قبول ہوگا۔ حضرت سعد (رض) بن معاذ قبیلہ اوس کے رئیس تھے اور قبیلہ اوس کے ساتھ ماضی میں بنی قریظہ کے حلیفانہ تعلقات رہ چکے تھے۔ اس لیے بنی قریظہ کو امید تھی کہ وہ ان کے حق میں نرم فیصلہ کریں گے اور انہیں بھی اسی طرح مدینہ سے نکل جانے دیں گے جس طرح قبل ازیں بنو قینقاع اور بنونضیر کو نکل جانے دیا گیا تھا۔ لیکن حضرت سعد (رض) دیکھ چکے تھے کہ پہلے جن دو یہودی قبیلوں کو مدینہ سے نکل جانے کا موقع دیا گیا تھا وہ کس طرح سارے گرد و پیش کے قبائل کو بھڑکا کر مدینہ پر بارہ ہزار کا لشکر چڑھا لائے تھے۔ اور یہ معاملہ بھی حضرت سعد (رض) کے سامنے تھا کہ بنوقریظہ نے عین بیرونی حملے کے موقع پر بدعہدی کر کے مسلمانوں کی تباہی کا سامان کیا تھا۔ چناچہ حضرت سعد (رض) نے تورات کے احکام کے عین مطابق فیصلہ سنایا اور تورات میں بد عہدی کی جو سزا تھی وہی سزا ان کے لیے تجویز کی۔ اس فیصلے کے مطابق بنی قریظہ کے ان تمام َمردوں کو قتل کردیا گیا جو جنگ کے قابل تھے۔ عورتوں ‘ بچوں اور بوڑھوں کو غلام بنا لیا گیا اور ان کے اموال و املاک پر قبضہ کرلیا گیا۔ اس طرح مدینہ سے اس آخری یہودی قبیلے کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ اس سے پہلے دو یہودی قبائل (بنو قینقاع اور بنو نضیر ) کو بد عہدی ہی کی سزا کے طور پر مدینہ سے جلا وطن کیا جا چکا تھا۔ بہر حال ان تینوں قبائل میں سے بنی قریظہ کو بد ترین سزا کا سامنا کرنا پڑا۔ جب مسلمان بنو قریظہ کی گڑھیوں میں داخل ہوئے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان غداروں نے جنگ احزاب میں حصہ لینے کے لیے بہت بڑی تعداد میں تلواریں ‘ نیزے ‘ ڈھالیں اور زرہیں تیار رکھی تھیں۔