Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کفار نے عین موقعہ پر دھوکہ دیا ۔ اتنا ہم پہلے لکھ چکے ہیں جب مشرکین ویہود کے لشکر مدینے پر آئے اور انہوں نے گھیرا ڈالا تو بنو قریظہ کے یہودی جو مدینے میں تھے اور جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد وپیمان ہوچکا تھا انہوں نے بھی عین موقعہ پر بیوفائی کی اور عہد توڑ کر آنکھیں دکھانے لگے ان کا سردار کعب بن اسد باتوں میں آگیا اور حی بن اخطب خبیث نے اسے بدعہدی پر آمادہ کردیا پہلے تو یہ نہ مانا اور اپنے عہد پر قائم رہا حی نے کہا کہ دیکھ تو سہی میں تو تجھے عزت کا تاج پہنانے آیا ہوں ۔ قریش اور انکے ساتھی غطفان اور ان کے ساتھی اور ہم سب ایک ساتھ ہیں ۔ ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک ایک ایک مسلمان کا قیمہ نہ کرلیں یہاں سے نہیں ہٹنے کے کعب چونکہ جہاندیدہ شخص تھا اس نے جواب دیا کہ محض غلط ہے ۔ یہ تمہارے بس کے نہیں تو ہمیں ذلت کا طوق پہنانے آیا ہے ۔ تو بڑا منحوس شخص ہے میرے سامنے سے ہٹ جا اور مجھے اپنی مکاری کا شکار نہ بنا لیکن حی پھر بھی نہ ٹلا اور اسے سمجھاتا بجھاتا رہا ۔ آخر میں کہا سن اگر بالفرض قریش اور غطفان بھاگ بھی جائیں تو میں مع اپنی جماعت کے تیری گڑھی میں آجاؤں گا اور جو کچھ تیرا اور تیری قوم کا حال ہوگا ۔ وہی میرا اور میری قوم کا حال ہوگا ۔ بالآخر کعب پر حی کا جادو چل گیا اور بنو قریظہ نے صلح توڑ دی جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور صحابہ کو سخت صدمہ ہوا اور بہت ہی بھاری پڑا پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے غلاموں کی مدد کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم مع اصحاب کے مظفر ومنصور مدینے شریف کو واپس آئے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہتھیار کھول دئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہتھیار اتاکر حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں گرد وغبار سے پاک صاف ہونے کے لئے غسل کرنے کو بیٹھے ہی تھے جو حضرت جبرائیل ظاہر ہوئے آپ کے سر پر ریشمی عمامہ تھا خچر پر سوار تھے جس پر ریشمی گدی تھی فرمانے لگے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ نے کمر کھول لی ؟ آپ نے فرمایا ہاں حضرت جبرائیل نے فرمایا لیکن فرشتوں نے اب تک اپنے ہتھیار الگ نہیں کئے ۔ میں کافروں کے تعاقب سے ابھی ابھی آرہا ہوں سنئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بنو قریظہ کی طرف چلئے اور ان کی پوری گوشمالی کیجئے ۔ مجھے بھی اللہ کا حکم مل چکا ہے کہ میں انہیں تھرادوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے تیار ہو کر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کو حکم دیا اور فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک عصر کی نماز بنو قریظہ میں ہی پڑھے ۔ ظہر کے بعد یہ حکم ملا تھا بنو قریظہ کا قلعہ یہاں سے کئی میل پر تھا ۔ نماز کا وقت صحابہ کو راستہ میں آگیا ۔ تو بعض نے تو نماز ادا کرلی اور کہا کہ حضور کا فرمان اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم تیز چلیں ۔ اور بعض نے کہا ہم تو وہاں پہنچے بغیر نماز نہیں پڑھیں گے جب آپ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے دونوں میں سے کسی کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی ۔ آپ نے مدینہ پر حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ بنایا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ لشکر کا جھنڈادیا اور آپ بھی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے پیچھے پیچھے بنو قریظہ کی طرف چلے اور جاکر ان کے قلعہ کو گھیر لیا ۔ یہ محاصرہ پچیس روز تک رہا ۔ جب یہودیوں کے ناک میں دم آگیا اور تنگ حال ہوگئے تو انہوں نے اپنا حاکم حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا جو قبیلہ اوس کے سردار تھے ۔ بنو قریظہ میں اور قبیلہ اوس میں زمانہ جاہلیت میں اتفاق ویگانگت تھی ایک دوسرے کے حلیف تھے اس لئے ان یہودیوں کو یہ خیال رہا کہ حضرت سعد ہمارا لحاظ اور پاس کریں گے جیسے کہ عبداللہ بن ابی سلول نے بنو قینقاع کو چھڑوایا تھا ادھر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حالت تھی کہ جنگ خندق میں انہیں اکحل کی رگ میں ایک تیر لگا تھا جس سے خون جاری تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زخم پر داغ لگوایا تھا اور مسجد کے خیمے میں ہی انہیں رکھا تھا کہ پاس ہی پاس عیادت اور بیمار پر سی کرلیا کریں ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو دعائیں کیں ان میں ایک دعا یہ تھی کہ اے پروردگار اگر اب بھی کوئی ایسی لڑائی باقی ہے جس میں کفار قریش تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھ آئیں تو تو مجھے زندہ رکھ کہ میں اس میں شرکت کرسکوں اور اگر تو نے کوئی ایک لڑائی بھی ایسی باقی نہیں رکھی تو خیر میرا زخم خوب بہاتا رہے لیکن اے میرے رب جب تک میں بنو قریظہ قبیلے کی سرکشی کی سزا سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی نہ کرلوں تو میری موت کو موخر فرمانا ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے مستجاب الدعوات کی دعا کی قبولیت کی شان دیکھئے کہ آپ دعا کرتے ہیں ادھر یہودان بنو قریظہ آپ کے فیصلے پر اظہار رضامندی کرکے قلعے کو مسلمانوں کے سپرد کرتے ہیں ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدمی بھیج کر آپ کو مدینہ سے بلواتے ہیں کہ آپ آکر ان کے بارے میں اپنا فیصلہ سنادیں ۔ یہ گدھے پر سوار کرالئے گیے اور سارا قبیلہ ان سے لپٹ گیا کہ دیکھئے حضرت خیال رکھئے گا بنو قریظہ آپ کے آدمی ہیں انہوں نے آپ پر بھروسہ کیا ہے وہ آپ کے حلیف ہیں آپ کے قوم کے دکھ کے ساتھی ہیں ۔ آپ ان پر رحم فرمائیے گا ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئیے گا ۔ دیکھئے اس وقت ان کا کوئی نہیں وہ آپ کے بس میں ہیں وغیرہ لیکن حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ محض خاموش تھے کوئی جواب نہیں دیتے تھے ۔ ان لوگوں نے مجبور کیا کہ جواب دیں پیچھا ہی نہ چھوڑا ۔ آخر آپ نے فرمایا وقت آگیا ہے کہ سعد رضی اللہ اس بات کا ثبوت دے کہ اسے اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں ۔ یہ سنتے ہی ان لوگوں کے تو دل ڈوب گئے اور سمجھ لیا کہ بنو قریظہ کی خیر نہیں ۔ جب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سواری اس خیمے کے قریب پہنچ گئی جس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو آپ نے فرمایا لوگو اپنے سردار کے استقبال کے لئے اٹھو چنانچہ مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کو عزت واکرام وقعت واحترام سے سواری سے اتارا یہ اس لئے تھا کہ اس وقت آپ حاکم کی حیثیت میں تھے ان کے فیصلے پورے ناطق ونافذ سمجھے جائیں ۔ آپ کے بیٹھتے ہی حضور نے فرمایا کہ یہ لوگ آپ کے فیصلے پر رضامند ہو کر قلعے سے نکل آئیں ہیں اب آپ ان کے بارے میں جو چاہیں حکم دیجئے ۔ آپ نے کہا جو میں ان پر حکم کروں وہ پورا ہوگا ؟ حضور نے فرمایا ہاں کیوں نہیں؟ کہا اور اس خیمے والوں پر بھی اس کی تعمیل ضروری ہوگی؟ آپ نے فرمایا یقینا پوچھا اور اس طرف والوں پر بھی ؟ اور اشارہ اس طرف کیا جس طرف خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ لیکن آپ کی طرف نہیں دیکھا آپ کی بزرگی اور عزت وعظمت کی وجہ سے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں اس طرف والوں پر بھی ۔ آپ نے فرمایا اب میرا فیصلہ سنئے میں کہتا ہوں بنو قریظہ میں جتنے لوگ لڑنے والے ہیں انہیں قتل کردیا جائے اور ان کی اولاد کو قید کرلیا جائے ان کے مال قبضے میں لائے جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے سعد رضی اللہ تم نے ان کے بارے میں وہی حکم کیا جو اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان کے اوپر کیا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم نے سچے مالک اللہ تعالیٰ کا جو حکم تھا وہی سنایا ہے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے خندقیں کھائی کھدوا کر انہیں بندھا ہوا بلوا کر ان کی گردنیں ماری گئیں ۔ یہ گنتی میں سات آٹھ سو تھے ان کی عورتیں نابالغ بچے اور مال لے لئے گئے ۔ ہم نے یہ کل واقعات اپنی کتاب السیر میں تفصیل سے لکھ دئیے ہیں ۔ والحمد للہ ۔ پس فرماتا ہے کہ جن اہل کتاب یعنی یہودیوں نے کافروں کے لشکروں کی ہمت افزائی کی تھی اور ان کا ساتھ دیا تھا ان سے بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے قلعے خالی کرا دئیے ۔ اس قوم قریظہ کے بڑے سردار جن سے ان کی نسل جاری ہوئی تھی اگلے زمانے میں آکر حجاز میں اسی طمع میں بسے تھے کہ نبی آخر الزمان کی پیش گوئی ہماری کتابوں میں ہے وہ چونکہ یہیں ہونے والے ہیں تو ہم سب پہلے آپ کی اتباع کی سعادت سے مسعود ہونگے ۔ لیکن ان ناحلقوں نے جب اللہ کی وہ نبی آئے ان کی تکذیب کی جس کی وجہ سے اللہ کی لعنت ان پر نازل ہوئی ۔ صیاصی سے مراد قلعے ہیں اسی معنی کے لحاظ سے سینگوں کو بھی صیاصی کہتے ہیں اس لئے کہ جانور کے سارے جسم کے اوپر اور سب سے بلند یہی ہوتے ہیں ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا انہوں نے ہی مشرکین کو بھڑکا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھائی کرائی تھی ۔ عالم جاہل برابر نہیں ہوتے ۔ یہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو جڑوں سے اکھیڑ دینا چاہا تھا لیکن معاملہ برعکس ہوگیا پانسہ پلٹ گیا قوت کمزوری سے اور مراد نامرادی سے بدل گئی ۔ نقشہ بگڑ گیا حمایتی بھاگ کھڑے ہوئے ۔ یہ بےدست وپا رہ گئے ۔ عزت کی خواہش نے ذلت دکھائی مسلمانوں کے برباد کرنے اور پیس ڈالنے کی خواہش نے اپنے تئیں پسوا دیا ۔ اور ابھی آخرت کی محرومی باقی ہے ۔ کچھ قتل کردئیے گئے باقی قیدی کر دیئے گئے ۔ عطیہ فرظی کا بیان ہے کہ جب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو میرے بارے میں حضور کو کچھ تردد ہوا ۔ فرمایا اسے الگ لے جاؤ دیکھو اگر اس کے ناف کے نیچے بال ہوں تو قتل کردو ورنہ قیدیوں میں بٹھادو دیکھا تو میں بچہ ہی تھا زندہ چھوڑ دیا گیا ۔ ان کی زمین گھر ان کے مال کے مالک مسلمان بن گئے بلکہ اس زمین کے بھی جو اب تک پڑی تھی اور جہاں مسلمان کے نشان قدم بھی نہ پڑے تھے یعنی خیبر کی زمین یا مکہ شریف کی زمین ۔ یا فارس یا روم کی زمین اور ممکن ہے کہ یہ کل خطے مراد ہوں اللہ بڑی قدرتوں والا ہے ۔ مسند احمد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ خندق والے دن میں لشکر کا کچھ حال معلوم کرنے نکلی ۔ مجھے اپنے پیچھے سے کسی کے بہت تیز آنے کی آہٹ اور اس کے ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی میں راستے سے ہٹ کر ایک جگہ بیٹھ گئی دیکھا کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لشکر کی طرف جا رہے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے بھائی حارث بن اوس تھے جن کے ہاتھ میں ان کی ڈھال تھی ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھے لیکن بڑے لانبے چوڑے تھے زرہ پورے بدن پر نہیں آئی تھی ہاتھ کھلے تھے اشعار رجز پڑھتے ہوئے جھومتے جھامتے چلے جا رہے تھے میں یہاں سے اور آگے بڑھی اور ایک باغیچے میں چلی گئی وہاں کچھ مسلمان موجود تھے جن میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے اور ایک اور صاحب جو خود اوڑھے ہوئے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے دیکھ لیا پس پھر کیا تھا ؟ بڑے ہی بگڑے اور مجھ سے فرمانے لگے یہ دلیری؟ تم نہیں جانتیں لڑائی ہو رہی ہے؟ اللہ جانے کیا نتیجہ ہو؟ تم کیسے یہاں چلی آئیں وغیرہ وغیرہ ۔ جو صاحب مغفر سے اپنا منہ چھپائے ہوئے تھے انہوں نے عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ باتیں سن کر اپنے سر سے لوہے کا ٹوپ اتارا دیکھا اب میں پہچان گئی کہ وہ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خاموش کیا کہ کیا ملامت شروع کر رکھی ہے نتیجے کا کیا ڈر ہے؟ کیوں تمہیں اتنی گھبراہٹ ہے؟ کوئی بھاگ کے جائے گا کہاں؟ سب کچھ اللہ کے ہاتھ ہے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک قریشی نے تاک کر تیر لگایا اور کہا لے میں ابن عرقہ ہوں ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رگ اکحل پر وہ تیر پڑا اور پیوست ہوگیا ۔ خون کے فوارے چھوٹ گئے اسی وقت آپ نے دعا کی کہ اے اللہ مجھے موت نہ دینا جب تک بنو قریظہ کی تباہی اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لو ۔ اللہ کی شان سے اسی وقت خون تھم گیا ۔ مشرکین کو ہواؤں نے بھگادیا اور اللہ نے مومنوں کی کفایت کردی ابو سفیان اور اسکے ساتھی تو بھاگ کر تہامہ میں چلے گئے عینیہ بن بدر اس کے ساتھی نجد میں چلے گئے ۔ بنو قریظہ اپنے قلعہ میں جاکر پنا گزین ہوگئے ۔ میدان خالی دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں واپس تشریف لے آئے ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے مسجد میں ہی چمڑے کا ایک خیمہ نصب کیا گیا اسی وقت حضرت جبرائیل آئے آپ کا چہرہ گرد آلود تھا فرمانے لگے آپ نے ہتھیار کھول دئیے؟ حالانکہ فرشتے اب تک ہتھیار بند ہیں ۔ اٹھئے بنو قریظہ سے بھی فیصلہ کر لیجئے ان پر چڑھائی کیجئے حضور نے فوراً ہتھیار لگا لئے اور صحابہ میں بھی کوچ کی منادی کرادی ۔ بنو تمیم کے مکانات مسجد نبوی سے متصل ہی تھے راہ میں آپ نے ان سے پوچھا کیوں بھئی؟ کسی کو جاتے ہوئے دیکھا ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ابھی ابھی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ گئے ہیں ۔ حالانکہ تھے تو وہ حضرت جبرائیل لیکن آپ کی ڈاڑھی چہرہ وغیرہ بالکل حضرت دحیہ کلبی سے ملتاجلتا تھا ۔ اب آپ نے جاکر بنو قریظہ کے قلعہ کا محاصرہ کیا پچیس روز تک یہ محاصرہ جاری رہا ۔ جب وہ گھبرائے اور تنگ آگئے تو ان سے کہا گیا کہ قلعہ ہمیں سونپ دو اور تم اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے بارے میں جو چاہیں گے فیصلہ فرمادیں گے ۔ انہوں نے حضرت ابو لبابہ بن عبدالمنذر سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا اس صورت میں تو اپنی جان سے ہاتھ دھولینا ہے ۔ انہوں نے یہ معلوم کرکے اسے تو نامنظور کردیا اور کہنے لگے ہم قلعہ خالی کردیتے ہیں آپ کی فوج کو قبضہ دیتے ہیں ہمارے بارے کا فیصلہ ہم حضرت سعد بن معاذ کو دیتے ہیں ۔ آپ نے اسے بھی منظور فرمالیا ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا آپ تشریف لے آئے گدھے پر سوار تھے جس پر کجھور کے درخت کی چھال کی گدی تھی آپ اس پر بمشکل سوار کرادیئے گئے تھے آپ کی قوم آپ کو گھیرے ہوئے تھی اور سمجھارہی تھی کہ دیکھو بنو قریظہ ہمارے حلیف ہیں ہمارے دوست ہیں ہماری موت زیست کے شریک ہیں اور ان کے تعلقات جو ہم سے ہیں وہ آپ پر پوشیدہ نہیں ۔ آپ خاموشی سے سب کی باتیں سنتے جاتے تھے جب ان کے محلہ میں پہنچے تو ان کی طرف نظر ڈالی اور کہا وقت آگیا کہ میں اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی مطلقا پرواہ نہ کروں ۔ جب حضور کے خیمے کے پاس ان کی سواری پہنچی تو حضور نے فرمایا اپنے سید کی طرف اٹھو اور انہیں اتارو ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہمارا سید تو اللہ ہی ہے ۔ آپ نے فرمایا اتارو ۔ لوگوں نے مل جل کر انہیں سواری سے اتارا حضور نے فرمایا سعد رضی اللہ ان کے بارے میں جو حکم کرنا چاہو کر دو ۔ آپ نے فرمایا ان کے بڑے قتل کردئیے جائیں اور ان کے چھوٹے غلام بنائیے جائیں ان کا مال تقسیم کر لیا جائے ۔ آپ نے فرمایا سعد رضی اللہ تم نے اس حکم میں اللہ اور اس کے رسول کی پوری موافقت کی ۔ پھر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعا مانگی کہ اے اللہ اگر تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قریش کی کوئی اور چڑھائی ابھی باقی ہو تو مجھے اس کی شمولیت کے لئے زندہ رکھ ورنہ اپنی طرف بلالے ۔ اسی وقت زخم سے خون بہنے لگا حالانکہ وہ پورا بھر چکا تھا یونہی سا باقی تھا چنانچہ انہیں پھر اسی خیمے میں پہنچا دیا گیا اور آپ وہیں شہد ہوگئے رضی اللہ عنہ ۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی عنہ وغیرہ بھی آئے سب رو رہے تھے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی آواز عمر رضی اللہ کی آواز میں پہچان بھی ہو رہی تھی میں اس وقت اپنے حجرے میں تھی ۔ فی الواقع اصحاب رسول اللہ ایسے ہی تھے جیسے اللہ نے فرمایا آیت ( رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ 29؀ۧ ) 48- الفتح:29 ) آپس میں ایک دوسرے کی پوری محبت اور ایک دوسرے سے الفت رکھنے والے تھے ۔ حضرت علقمہ رضی اللہ نے پوچھا ام المومنین یہ تو فرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح رویا کرتے تھے؟ فرمایا آپ کی آنکھیں کسی پر آنسو نہیں بہاتی تھیں ہاں غم ورنج کے موقعہ پر آپ داڑھی مبارک اپنی مٹھی میں لے لیتے تھے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٣٦] یہ یہود بنو قریظہ تھے جو مسلمانوں کے معاہد تھے۔ بنو قینقاع اور بنی نضیر کی جلاوطنی کے بعد مدینہ میں یہود کا یہی قبیلہ باقی رہ گیا تھا۔ کیونکہ یہ قیبلہ دوسروں کی نسبت قدرے شریف اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والا تھا۔ جب بنو نضیر کو خیبر کی طرف جلا وطن کردیا گیا اور جنگ احزاب کی تیاریاں شروع ہوگئیں تو بنونضیر کا رئیس حیی بن اخطب رات کی تاریکیوں میں بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا۔ کعب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ حیی مجھے مسلمانوں سے عہد شکنی پر آمادہ کرنے کے لئے آیا ہے۔ لہذا اس نے دروازہ ہی نہ کھولا۔ حیی نے اس سے کچھ چکنی چپڑی باتیں کیں تو آخر اس نے دروازہ کھول دیا۔ حیی کہنے لگا : کعب میں تمہارے پاس زمانے کی عزت اور چڑھتا ہوا سمندر لے کر آیا ہوں۔ ان لوگوں نے مجھ سے عہدو پیمان کیا ہے کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کا صفایا کئے بغیر یہاں سے نہ ٹلیں گے اس کے جواب میں جو کچھ کعب نے کہا : وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ اس نے کہا : حیی واللہ تم میرے پاس زمانے کی ذلت اور برسا ہوا بادل لے کر آئے ہو جو صرف گرج چمک رہا ہے۔ تم پر افسوس۔ تم مجھے میرے حال پر چھوڑ دو ۔ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں صدق و صفا کے سوا کچھ نہیں دیکھا (ابن ہشام ٢: ٢٢٠ ٢٢١) مگر حیی نے کعب کو سبز باغ دکھا دکھا کر با لآخر بدعہدی پر مجبور کر ہی لیا وہ کہنے لگا : اگر قریش محمد کا خاتمہ کئے بغیر ہی واپس چلے گئے تو میں بھی تمہارے ساتھ قلعہ بند ہوجاؤں گا اور واپس نہیں جاؤں گا پھر جو انجام تمہارا ہوگا وہی میرا ہوگا۔ اس شرط پر کعب بھی اتحادیوں میں شامل ہوگیا۔- خ مدینہ میں اندرونی خطرات :۔ اس صورت حال کی تحقیق کے لئے آپ نے انصار کے سرداروں (سعد بن عبادہ سعد بن معاذ عبداللہ بن رواحہ اور خوّات بن جبیر (رض) کو تحقیق حال کے لئے بھیجا اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کردی کہ اگر بنوقریظہ کی بدعہدی کی خبر درست ہو تو دوسروں کی موجودگی میں مجھے نہ بتائیں بلکہ صرف اشارہ سے کام چلا لیں۔ جب انہوں نے واپس آکر رسول اللہ کو اشارہ سے بتایا کہ یہ خبر درست ہے تو اس سے آپ کو سخت صدمہ ہوا۔ اس خبر کے اخفاء کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔ مسلمان کم از کم مدینہ کی اندرونی حفاظت کی طرف سے مطمئن تھے مگر اس صورت حال سے مدینہ کے اندر بھی خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ خندق)- [ ٣٧] بنو قریظہ کا محاصرہ :۔ تقریباً ایک ماہ کے محاصرہ کے بعد جب اتحادی لشکر بھاگ نکلا تو اب بنوقریظہ کو ان کی عہد شکنی کی سزا دینے کا وقت بھی آن پہنچا۔ جنگ خندق سے فراغت کے بعد رسول اللہ سیدہ ام سلمہ (رض) کے ہاں غسل فرما رہے تھے کہ جبرئیل آئے اور کہا کہ آپ نے ہتھیار اتار دیئے ہیں حالانکہ فرشتوں نے ابھی تک نہیں اتارے رسول اللہ نے اسی وقت منادی کرا دی کہ مجاہدین عصر کی نماز بنوقریظہ کے ہاں جاکر ادا کریں (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرجع النبی من الاحزاب الٰی بنی قریظہ ومحاصرتہ ایاھم)- چناچہ چند گھنٹوں کے اندر اندر تین ہزار مسلح مجاہدین نے بنوقریظہ کے ہاں پہنچ کر ان کا محاصرہ کرلیا۔ بنو قریظہ قلعہ بند ہوگئے (حیی بن اخطب بھی حسب وعدہ ان کے ساتھ قلعہ بند ہوا تھا) ان کے سردار کعب بن اسد نے قوم کے سامنے تین تجاویز رکھیں :- خ یہود کی سپر اندازی :۔ ١۔ اسلام قبول کرلو۔ اس صورت میں تمہارا مال و جان سب کچھ محفوظ رہے گا اور تم پر یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ یہ وہی نبی برحق ہے جس کی بشارت تم اپنی کتاب میں پاتے ہو۔ - ٢۔ اپنے بیوی بچوں کو خود اپنے ہاتھوں سے قتل کردو۔ پھر خود مردانہ وار لڑائی لڑو۔ پھر مرجاؤ یا فتح پاؤ۔- ٣۔ یا پھر مکروفریب کی راہ اختیار کرو۔ مسلمانوں پر ہفتہ کے دن حملہ کردو۔ کیونکہ انھیں اطمینان ہوگا کہ آج لڑائی نہیں ہوگی۔- مگر بنو قریظہ نے اپنے سردار کی ایک تجویز بھی نہ مانی تو وہ جھنجھلا کر کہنے لگا : تم میں سے کسی نے آج تک ایک رات بھی ہوشمندی کے ساتھ نہیں گزاری۔ (الرحیق المختوم۔ اردو ص ٤٩٤) اب ان کے سامنے بس ایک ہی راستہ باقی رہ گیا تھا اور وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیں۔- [ ٣٨] یہود کا سیدنا سعد بن معاذ کو حکم تسلیم کرنا :۔ بدعہدی اور عہد شکنی قوم کو انتہا درجہ کا بزدل بنا دیتی ہے۔ ان کے پاس وافر مقدار میں راشن موجود تھا اور انہوں نے مسلمانوں کے استیصال کے لئے ڈیڑھ ہزار تلواریں، دو ہزار نیزے تین سو زرہیں اور پانچ سو ڈھالیں بھی تیار کر رکھی تھیں۔ مگر وقت پر کوئی چیز بھی ان کے کام نہ آئی۔ انہوں نے صرف ٢٥ دن کے محاصرہ کے بعد اس شرط پر ہتھیار ڈال دیئے کہ ان کے حق میں جو بھی فیصلہ ان کے حلیف سیدنا سعد بن معاذ کریں گے وہ انھیں منظور ہوگا۔ ان کے پاس قلعہ میں جس قدر راشن موجود تھا اگر وہ چاہتے تو سال بھر قلعہ بند رہ کر آسانی سے گزر بسر کرسکتے تھے مگر ان کے مجرم ضمیر نے انھیں جلد ہی بےچین کردیا اور اللہ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی۔- [ ٣٩] بنو قریظہ کا انجام :۔ سیدنا سعد بن معاذ کو جنگ احزاب میں ایک کاری زخم لگا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے :- سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جنگ خندق میں سعد بن معاذ کو ہفت اندام کی رگ میں تیر لگ گیا تو آپ نے مسجد میں ہی ان کے لئے خیمہ لگا دیا۔ تاکہ قریب سے عیادت کرسکیں۔ مسجد میں بنو غفار کا خیمہ بھی تھا۔ جب (سیدنا معاذ کا) خون بہہ بہہ کر ان کے خیمہ کی طرف آنے لگا تو وہ ڈر گئے، کہنے لگے : اے خیمہ والو یہ کیا ہے جو تمہاری طرف سے بہہ کر ہمارے پاس آرہا ہے۔ دیکھا تو سعد کے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔ آخر اسی زخم سے وہ چل بسے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الخیمۃ فی المسجد للمرضیٰ وغیرھم)- لہذا وہ غزوہ بنوقریظہ میں شامل نہ ہوسکے۔ فیصلہ کے لئے انھیں گدھے پر سوار کرکے موقعہ پر لایا گیا تو آپ نے اپنے عہد شکن حلیف کی کوئی رو رعایت نہیں کی۔ اور یہ فیصلہ دیا کہ : (ا) سب مردوں کو قتل کردیا جائے (٢) عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے، (٣) ان کے اموال مجاہدین میں تقسیم کردیئے جائیں رسول اللہ نے یہ فیصلہ سن کر فرمایا : تم نے وہی فیصلہ کیا جو سات آسمانوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرجع النبی من الاحزاب الیٰ بنی قریظۃ ومحاصرتہ ایاھم)- چناچہ اس فیصلہ کے مطابق چھ سو سے کچھ زائد مردان جنگی کو قتل کردیا گیا اور ان مقتولین میں حیی بن اخطب بھی تھا۔ جس نے بنوقریظہ کو عہد شکنی پر مجبور کرکے ان پر یہ مصیبت ڈھائی تھی۔ یہ مقتولین صرف اس بنا پر قتل نہیں کئے گئے کہ وہ جنگی قیدی تھے بلکہ ان کے جرائم اور بھی تھے مثلاً :- (١) تجدید معاہدہ کے باوجود انہوں نے نہایت نازک موقعہ پر عہد شکنی کرکے مسلمانوں کو اندرونی خطرات سے دوچار کردیا تھا۔- (٢) انہوں نے مردانہ وار سامنے آنے کی بجائے عورتوں اور بچوں کے قلعوں پر حملہ کی کوشش کی تھی۔- (٣) جنگ احزاب کے بعد بھی حیی بن اخطب کو ساتھ ملا کر مدینہ میں اشتعال انگیزی شروع کردی تھی اور بجائے اس کے کہ اپنی عہد شکنی پر پشیمان ہوتے انہوں نے مقابلہ کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَنْزَلَ الَّذِيْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَيَاصِيْهِمْ : ” صَیَاصِيْ “ ” صِیْصِیَۃٌ“ کی جمع ہے۔ جولا ہے کا تانے اور بانے کے دھاگوں کو سیدھا کرنے والا آلہ، مُرغ کا کانٹا جو اس کی ٹانگ کے ایک طرف نکلا ہوتا ہے، گائے اور ہرن وغیرہ کا سینگ، قلعہ اور ہر وہ چیز جس کے ساتھ کوئی اپنا دفاع اور حفاظت کرتا ہے۔ (قاموس) قریش، بنو غطفان اور ان کے ساتھ آنے والوں کے واپس جانے کے ساتھ ہی معرکۂ احزاب ختم ہوگیا، مگر بنو قریظہ کے ساتھ معرکہ ختم نہیں ہوا، جنھوں نے اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ توڑ ڈالا تھا۔ جس میں یہ عہد کیا گیا تھا کہ باہر سے آنے والے حملہ آور کے مقابلے میں مسلمان اور یہودی ایک دوسرے کی مدد کریں گے، لیکن یہودیوں نے یہ عہد توڑ ڈالا اور قریش اور اتحادی لشکروں کے ساتھ اس بات پر اتفاق کرلیا کہ وہ مسلمانوں کے پیچھے سے مدینہ پر حملہ آور ہوں گے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم ہوا تو آپ نے سعد بن معاذ، سعد بن عبادہ اور ایک اور انصاری صحابی (رض) کو اس بات کی تحقیق کے لیے بھیجا اور فرمایا : ” اگر وہ صلح پر قائم ہوں تو سب کے سامنے بیان کردینا اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو اشارے سے سمجھا دینا۔ “ وہ ان کے پاس گئے تو دیکھا کہ انھوں نے معاہدہ بری طرح توڑ ڈالا ہے۔ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بھی نازیبا الفاظ کہے اور کہنے لگے : ” محمد کون ہے ؟ ہمارے اور محمد کے درمیان کوئی عہد ہے نہ پیمان۔ “ سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ (رض) نے آ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اشارے سے حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ بنو قریظہ کے ارادے نہایت خطرناک تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں ناکام و نامراد کردیا۔ قریش اور ان کے درمیان بےاعتمادی پیدا ہوگئی اور ان کے قریش کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی نوبت نہیں آئی۔ آخر وہ قلعوں میں بند ہو کر مقابلے پر آمادہ ہوگئے۔- وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خندق سے فارغ ہو کر مدینہ واپس آئے تو ہتھیار اتار کر ابھی غسل ہی کیا تھا کہ جبریل (علیہ السلام) آئے اور کہنے لگے : ” آپ نے ہتھیار رکھ دیے، مگر ہم فرشتوں نے ابھی ہتھیار نہیں رکھے، بنوقریظہ کی طرف چلیں۔ “ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا یُصَلِّیَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلاَّ فِيْ بَنِيْ قُرَیْظَۃَ ) [ بخاري، المغازي، باب مرجع النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من الأحزاب۔۔ : ٤١١٩، ٤١١٧ ] ” کوئی شخص عصر کی نماز نہ پڑھے، مگر بنو قریظہ کے پاس جا کر۔ “ چناچہ آپ نے جا کر بنو قریظہ کا محاصرہ کرلیا۔ یہ محاصرہ ایک ماہ کے قریب جاری رہا، حتیٰ کہ وہ مقابلے سے عاجز آگئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، آخر کار وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کرنے پر آمادہ ہوگئے، اس شرط پر کہ ان کے بارے میں سعدبن معاذ (رض) جو فیصلہ کریں انھیں قبول ہوگا۔ سعد بن معاذ (رض) کو خندق کے دوران بازو کی رگ میں تیر لگا تھا، جس کے نتیجے میں آخر کار وہ شہید بھی ہوگئے۔ ان کے سامنے یہ بات بھی تھی کہ اگر بنو قریظہ قریش کے ساتھ بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق کامیاب ہوجاتے تو مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیتے، یہ تو اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ اس نے مسلمانوں کو محفوظ رکھا۔ - فَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ وَتَاْسِرُوْنَ فَرِيْقًا : ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ اہل قریظہ سعد بن معاذ (رض) کے فیصلے پر اتر آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد کی طرف پیغام بھیجا۔ وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے، جب مسجد کے قریب آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار سے فرمایا : ( قُوْمُوْا إِلٰی سَیِّدِکُمْ أَوْ خَیْرِکُمْ ) ” اپنے سردار یا (فرمایا ) اپنے بہترین آدمی کی طرف اٹھو۔ “ پھر آپ نے فرمایا : ( ھٰؤُلَاءِ نَزَلُوْا عَلٰی حُکْمِکَ ) ” یہ لوگ تیرے فیصلے پر اترے ہیں۔ “ سعد (رض) نے کہا : ( تُقْتَلُ مُقَاتِلَتَہُمْ وَ تُسْبٰی ذَرَارِیُّہُمْ ) ” ان کے لڑائی کے قابل مرد قتل کردیے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی و غلام بنا لیا جائے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( قَضَیْتَ بِحُکْمِ اللّٰہِ وَرُبَّمَا قَالَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ ) ” تو نے اللہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ “ یا یہ فرمایا : ” بادشاہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا۔ “ [ بخاري، المغازي، باب مرجع النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من الأحزاب۔۔ : ٤١٢١ ] بنو قریظہ کے عطیہ قرظی (رض) بیان کرتے ہیں : ” میں بنو قریظہ کے قیدیوں میں سے تھا، مسلمان دیکھتے تھے جس کے (زیر ناف) بال اگے ہوتے اسے قتل کردیتے اور جس کے نہ اگے ہوتے اسے قتل نہ کرتے، چناچہ میں ان میں سے تھا جن کے بال نہیں اگے تھے۔ “ [ أبوداوٗد، الحدود، باب في الغلام یصیب الحد : ٤٤٠٤ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَنْزَلَ الَّذِيْنَ ظَاہَرُوْہُمْ مِّنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَيَاصِيْہِمْ وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ فَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ وَتَاْسِرُوْنَ فَرِيْقًا۝ ٢٦ۚ- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - ظَاهَرَ ( مدد)- وَظَهَرَ عليه : غلبه، وقال : إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف 20] ، وظاهَرْتُهُ :- عاونته . قال تعالی: وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة 9] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ- [ التحریم 4] ، أي : تعاونا، تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة 85] ، وقرئ : ( تَظَّاهَرَا) «2» ، الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ- ظھر علیہ کے معنی ہیں وہ اس پر غالب آگیا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں ۔ ظاھرتہ : میں نے اس کی مدد کی ( اور ظاھر علیہ کے معنی ہیں اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی ) قرآن پاک میں ہے : ۔ وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة 9] اور انہوں نے تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ [ التحریم 4] اور اگر پیغمبر کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کروگی ۔ ایک قرات میں تظاھر ا ہے ( یعنی تار کو ظاء میں ادغام کیسا تھ ) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ [ الأحزاب 26] اور اہل کتاب میں سے جہنوں نے ان کی مدد کی ۔ تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة 85] تم ان کے خلاف گناہ اور زیادتی سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - صيص - قوله تعالی: وَأَنْزَلَ الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ مِنْ صَياصِيهِمْ [ الأحزاب 26] ، أي : حصونهم، وكلّ ما يتحصّن به يقال له : صِيصَةٌ ، وبهذا النّظر قيل لقرن البقر : صِيصَةٌ ، وللشّوكة التي يقاتل بها الدّيك : صِيصَةٌ ، والله أعلم بمراده وأسرار کتابه .- ( ص ی ص ) الصیصۃ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اپنے آپ کو محفوظ کیا جائے ( مثلا حفاظت گاہ اور قلعہ ) اس کی جمع الصیاصی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْزَلَ الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ مِنْ صَياصِيهِمْ [ الأحزاب 26] اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کی مدد کی تھی ان کو ان کے قلعوں سے ( جن میں وہ محفوظ ہوگئے تھے ) اتار دیا ۔ پھر معنی حفاظت کے اعتبار سے گائے کے سینگ کو صیصۃ کہاجاتا ہے ۔ نیز اس کے معنی خار خروس بھی آتے ہیں کیونکہ وہ اس کے ذریعہ اپنے آپ کی حفاظت کرتا ہے اور دوسروں سے لڑتا ہے ۔- قذف - الْقَذْفُ : الرّمي البعید، ولاعتبار البعد فيه قيل : منزل قَذَفٌ وقَذِيفٌ ، وبلدة قَذُوفٌ: بعیدة، وقوله : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه 39] ، أي : اطرحيه فيه، وقال : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] ، بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء 18] ، يَقْذِفُ بِالْحَقِر عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ 48] ، وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] ، واستعیر القَذْفُ للشّتم والعیب کما استعیر الرّمي .- ( ق ذ ف ) القذف ( ض ) کے معنی دور پھیکنا کے ہیں پھر معنی بعد کے اعتبار سے دور دراز منزل کو منزل قذف وقذیف کہاجاتا ہے اسی طرح دور در ازشہر کو بلدۃ قذیفۃ بول لیتے ہیں ۔۔۔ اور آیت کریمہ : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه 39] پھر اس ( صندوق ) کو دریا میں ڈال دو ۔ کے معنی دریا میں پھینک دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء 18] بلک ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں ۔ يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ 48] وہ اپنے اوپر حق اتارتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینکے جاتے ہیں ( یعنی ) وہاں سے نکال دینے کو ۔ اور رمی کی طرح قذف کا لفظ بھی بطور استعارہ گالی دینے اور عیب لگانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - رعب - الرُّعْبُ : الانقطاع من امتلاء الخوف، يقال : رَعَبْتُهُ فَرَعَبَ رُعْباً ، فهو رَعِبٌ ، والتِّرْعَابَةُ :- الفروق . قال تعالی: وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] ، وقال : سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ [ آل عمران 151] ، وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْباً [ الكهف 18] ، ولتصوّر الامتلاء منه قيل : رَعَبْتُ الحوص : ملأته، وسیل رَاعِبٌ: يملأ الوادي،- ( ر ع ب ) الرعب - ۔ اس کے اصل معنی خوف سے بھر کر کٹ جانے کے ہیں کہا جاتا ہے : ۔ رعبتہ فرعب رعبا ۔ میں نے اسے خوف زدہ کیا تو وہ خوف زدہ ہوگیا ۔ اور خوف زدہ شخص کو رعب کہا جاتا ہے ۔ الترعابۃ ( صیغہ صفت ) بہت زیادہ ڈر پوک ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] ہم عنقریب تمہاری ہیبت کافروں کے دلوں میں بیٹھا دیں گے ۔ وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْباً [ الكهف 18] اور ان کی ( صورت حال سے ) تجھ میں ایک دہشت سما جائے پھر کبھی یہ صرف بھرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے رعبت الحوض میں نے حوض کو پانی سے پر کردیا ۔ سیل راعب : سیلاب جو وادی کو پر کر دے ۔ اور جاریۃ رعبوبۃ کے معنی جوانی سے بھرپور اور نازک اندام دو شیزہ کے ہیں اس کی جمع رعابیب آتی ہے ۔- فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- أسر - الأَسْر : الشدّ بالقید، من قولهم : أسرت القتب، وسمّي الأسير بذلک، ثم قيل لكلّ مأخوذٍ ومقيّد وإن لم يكن مشدوداً ذلك «1» . وقیل في جمعه : أَسَارَى وأُسَارَى وأَسْرَى، وقال تعالی: وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] .- ويتجوّز به فيقال : أنا أسير نعمتک، وأُسْرَة الرجل : من يتقوّى به . قال تعالی: وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] إشارة إلى حکمته تعالیٰ في تراکيب الإنسان المأمور بتأمّلها وتدبّرها في قوله تعالی: وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ [ الذاریات 21] . والأَسْر : احتباس البول، ورجل مَأْسُور : أصابه أسر، كأنه سدّ منفذ بوله، والأسر في البول کالحصر في الغائط .- ( ا س ر ) الاسر کے معنی قید میں جکڑ لینے کے ہیں ۔ یہ اسرت القتب سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں میں نے پالان کو مضبوطی سے باندھ دیا اور قیدی کو اسیر اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ رسی وغیرہ سے باندھا ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :َ وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ( سورة الإِنْسان 8) اور یتیموں اور قیدیوں کو ۔ پھر اس شخص کو جو گرفتار اور مقید ہوکر آئے الاسیر کہہ دیا جاتا ہے گو وہ باندھا ہوا نہ ہوا سیر کی جمع اسارٰی و اساریٰ واسریٰ ہے اور مجازا ۔ انا اسیر نعمتک کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی تیرے احسان کی رسی میں بندھا ہوا ہوں ۔ اور اسرۃ الرجل کے معنی افراد خادندان کے ہیں جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ ( سورة الإِنْسان 28) اور ان کی بندش کو مضبوطی سے باندھ دیا ۔ میں اس حکمت الہی کی طرف اشارہ ہے جو انسان کی بئیت ترکیبی میں پائی جاتی ہے جس پر کہ آیت وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ( سورة الذاریات 21) میں غور فکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ الاسر ۔ کے معنی ہیں پیشاب بند ہوجانا ۔ اور جو شخص اس بماری میں مبتلا ہوا سے عاسور کہا جاتا ہے گو یا اس کی پیشاب کی نالی بند کردی گئی ہے اس کے مقابلہ میں پاخانہ کی بندش پر حصر کا لفظ بولا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

اہل کتاب سے کیا سلوک کیا جائے ؟- قول باری ہے (وانزل الذین ظاھروھم من اھلی الکتاب من صیاصیھم اور جن اہل کتاب نے ان کی مدد کی تھی اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا) ایک قول کے مطابق صباصی وہ قلعے تھے جن میں یہ اہل کتاب یعنی یہود مدینہ مورچہ بند تھے۔ صیصہ دراصل گانے کے سینگ کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنا دفاع کرتی ہے۔ مرغ کے خار کو بھی صیصہ کہتے ہیں کیونکہ وہ اس کے ذریعے اپنا دفاع کرتا ہے۔ اسی مفہوم کی بنا پر قلعوں کو صیاصی کہا گیا ہے۔- ایک روایت کے مطابق اس سے بنو قریضہ مراد ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیے ہوئے اپنے عہد کو توڑا کر مدینہ پر حملہ آور گروہوں کی مدد کی تھی ۔ جس کا قول ہے کہ اس بےبنو نضیر مراد ہیں۔- تاہم تمام راویوں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ بنو قریظ تھے۔ ظاہر آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ قول باری (فریقا تقتلون وتاسرون فریقا۔ پھر تم ایک گروہ کو قتل کرنے لگے اور ایک گروہ کو قید کرلیا) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کو نہ تو قتل کرنے کا حکم دیا تھا نہ گرفتار کرنے کا بلکہ انہیں جلا وطن کردیا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور بنو قریظہ اور نضیر بن کعب بن اشرف اور حی بن اخطب وغیرہ نے جو کفار مکہ کی مدد کی تھی اللہ تعالیٰ نے ان سب اہل کتاب کو ان کے قلعوں اور محلوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا خوف بٹھا دیا۔- اس سے پہلے یہ لوگ صحابہ کرام سے ڈرتے نہ تھے بلکہ ان سے لڑنے پر آمادہ رہتے تھے اور ان کے لڑاکا لوگوں کو تم قتل کرنے لگے اور بچوں اور عورتوں کو قید کرلیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ وَاَنْزَلَ الَّذِیْنَ ظَاہَرُوْہُمْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مِنْ صَیَاصِیْہِمْ ” اور اللہ نے اتار لیا - اہل ِکتاب میں سے ان لوگوں کو جنہوں نے ان (مشرکین) کی مدد کی تھی ‘ ان کے قلعوں سے “- بنو قریظہ کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے مسلمانوں سے بد عہدی کر کے حملہ آور قبائل کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا تھا۔ چناچہ اللہ کی مشیت کے مطابق انہیں اپنے قلعوں اور گڑھیوں سے نکل کر مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑے۔- وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ ” اور ان کے دلوں میں اس نے رعب ڈال دیا “- فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ وَتَاْسِرُوْنَ فَرِیْقًا ” تو اب ان میں سے کچھ کو تم قتل کر رہے ہو اور کچھ کو تم قیدی بنا رہے ہو۔ “- یعنی حضرت سعد بن معاذ (رض) کے فیصلے کے مطابق جنگ کے قابل مرد قتل کردیے گئے ‘ جبکہ بوڑھوں ‘ عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا گیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :40 یعنی یہود بنی قریظہ ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

21: اس سے مراد بنو قریظہ ہیں۔ یہ یہودیوں کا قبیلہ تھا، اور اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاہدہ کیا ہوا تھا۔ لیکن جنگ احزاب کے موقع پر عہد شکنی کر کے حملہ آوروں سے ساز باز کی، اور مسلمانوں کی پشت سے خنجر گھونپنے کا منصوبہ بنایا۔ اس لیے جنگ احزاب سے فارغ ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے ان پر حملہ کیا، یہ لوگ اپنے قلعے میں محصور ہوگئے، ایک مہینے تک محاصرہ جاری رہا۔ اور آخر کار یہ اپنے قلعے سے اتر آئے، اور اس بات پر راضی ہوگئے کہ حضرت سعد بن معاذ (رض) ان کے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں گے وہ انہیں منظور ہوگا۔ حضرت سعد بن معاذ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے لڑنے والے مردوں کو قتل کیا جائے، اور عورتوں اور نابالغ بچوں کو قیدی بنایا جائے۔ چنانچہ اسی فیصلہ پر عمل ہوا۔