2 7 1اس میں غزہ بنی قریظہ کا ذکر ہے جیسے کہ پہلے گزرا کہ اس قبیلے نے نقص عہد کر کے جنگ احزاب میں مشرکوں اور دوسرے یہودیوں کا ساتھ دیا۔ چناچہ جنگ احزاب سے واپس آکر رسول اللہ ابھی غسل ہی فرما سکے تھے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آگئے اور کہا کہ آپ نے ہتھیار رکھ دیئے ؟ ہم فرشتوں نے تو نہیں رکھے ہیں چلئے، اب بنو قریظہ کے ساتھ نمٹنا ہے، مجھے اللہ نے اس لئے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ چناچہ آپ نے مسلمانوں میں اعلان فرما دیا بلکہ ان کو تاکید کردی کہ عصر کی نماز وہاں جاکر پڑھنی ہے۔ ان کی آبادی مدینے سے چند میل کے فاصلے پر تھی۔ یہ اپنے قلعوں میں بند ہوگئے، باہر سے مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کرلیا جو کم و بیش پچیس روز جاری رہا۔ بالآخر انہوں نے سعد بن معاذ کو اپنا (ثالث) تسلیم کرلیا کہ وہ فیصلہ ہماری بات پر دیں گے، ہمیں منظور ہوگا۔ چناچہ انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان میں سے لڑنے والے لوگوں کو قتل کردو اور بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کا مال مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے، نبی نے یہ فیصلہ سن کر فرمایا کہ یہی فیصلہ آسمانوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کا بھی ہے، اس کے مطابق ان کے جنگجو افراد کی گردنیں اڑا دی گئیں اور مدینے کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کردیا گیا (صحیح بخاری) دیکھئے صحیح بخاری باب غزوہ خندق انزل قلعوں سے نیچے اتار دیا، ظاہروھم کافروں کی انہوں نے مدد کی 2 7 2بعض نے اس سے خیبر کی زمین مراد لی ہے کیونکہ اس کے بعد ہی 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں نے خیبر فتح کیا ہے بعض نے کہا کہ مکہ ہے اور بعض نے ارض فارس و روم کو اس کا مصداق قرار دیا ہے اور بعض کے نزدیک تمام وہ زمینیں ہیں جو قیامت تک مسلمان فتح کریں گے۔ (فتح القدیر)
وَاَوْرَثَكُمْ اَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ : غزوۂ بنو قریظہ میں ان کے مردوں کو قتل کرنے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی و غلام بنانے کے علاوہ ان کے کھیت، باغات، مکانات، قلعے، مویشی، ہتھیار اور درہم و دینار وغیرہ سب مسلمانوں کی ملکیت میں آگئے، جو خمس نکال کر مسلمانوں میں تقسیم کردیے گئے۔- وَاَرْضًا لَّمْ تَـــطَـــــُٔـوْهَا : ” وَطِئَ یَطَأُ وَطْأً “ ” اَلشَّيْءَ بِرِجْلِہِ “ کسی چیز کو پاؤں سے روندنا۔ یعنی اس زمین کا بھی مالک بنادیا جس پر تم نے قدم نہیں رکھا تھا۔ مراد اس سے بنو قریظہ کی زمین ہی ہے، یعنی ان کی وہ زمین جہاں ان کی قوت و شوکت کی وجہ سے تم قدم تک نہ رکھ سکتے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری میراث بنادی۔ بعض مفسرین نے اس سے بنو قریظہ کے بعد فتح ہونے والے علاقے، مثلاً خیبر، پھر مکہ، حنین، تبوک، فارس، روم، غرض قیامت تک مسلمانوں کی ملکیت میں آنے والے تمام علاقے مراد لیے ہیں۔ مگر اس صورت میں ” وَاَوْرَثَكُمْ اَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ “ کے بعد ” وَیُوَرِّثُکُمْ أَرْضًا لَمْ تَطَءُوْھَا “ ہونا چاہیے تھا، یعنی یہ کہنا چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بنو قریظہ کی زمین، ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنادیا اور وہ تمہیں ایسی زمین کا وارث بھی بنائے گا جس پر تم نے قدم نہیں رکھا۔ اگرچہ اس کا جواب دیا گیا ہے کہ قرآن میں آئندہ ہونے والے واقعات کو یقینی ہونے کی وجہ سے ماضی کے صیغے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، مگر ایک ہی ماضی کے صیغے ” وَاَوْرَثَكُمْ “ کے ساتھ ماضی اور مستقبل دونوں مراد لینا بہرحال قابل غور ہے۔- وَكَان اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا : یعنی یہ سب کچھ تمہاری بہادری یا مہارت کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ محض اللہ کی مدد سے ہوا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر ہمیشہ سے پوری طرح قادر ہے، اس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔
وَاَوْرَثَكُمْ اَرْضَہُمْ وَدِيَارَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ وَاَرْضًا لَّمْ تَطَـــــُٔـوْہَا ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا ٢٧ۧ- ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي :- أصله وبقيّته، قال الشاعر :- 461-- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ- «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً :- قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً- [ النساء 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ- الآية [ الأعراف 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً- [ النساء 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ- [ مریم 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة- ( ور ث ) الوارثۃ - ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔- وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے - يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔- وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے - وطأ - وَطُؤَ الشیءُ فهو وَطِيءٌ بيّن الوَطَاءَةِ ، والطَّأَةِ والطِّئَةِ ، والوِطَاءُ : ما تَوَطَّأْتَ به، ووَطَأْتُ له بفراشه . ووَطَأْتُهُ برجلي أَطَؤُهُ وَطْأً ووَطَاءَةً ، وتَوَطَّأْتُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] وقرئ : وِطَاءً وفي الحدیث : «اللهمّ اشدد وَطْأَتَكَ علی - مضر» أي : ذلّلهم . ووَطِئَ امرأتَهُ كناية عن الجماع، صار کالتّصریح للعرف فيه، والمُوَاطَأَةُ : الموافقة، وأصله أن يَطَأَ الرجل برجله مَوْطِئَ صاحبه . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّمَا النَّسِيءُ إلى قوله : لِيُواطِؤُا عِدَّةَ ما حَرَّمَ اللَّهُ [ التوبة 37] - ( و ط ء ) وطوء الشئی فھواوطییء : کے معنی کسی چیز کے پامال ہونے کے ہیں ۔ الوطاء ہر اس شے کو کہتے ہیں جو پاؤں کے نیچے روندی جائے جیسے فراش وغیرہ ۔ وطات لہ بفرشہ کسی کے لئے فراش بچھا نا ۔ وطا تہ ( ف ) برجل وطا ووطا ۃ ووطا ءۃ وتوطاحہ کسی چیز کو پاوں سے روند نا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] کچھ شک نہیں کہ رات کا اٹھنا ( نفس بہیمی کو ) سخت پامال کرتا ہے ۔ ایک قرات میں وطاء ہے اور حدیث میں ہے ( اللھم اشدد وطاتک علی مضر) اے اللہ مضر پر اپنی گرفت کو سخت کر یعنی انہیں ذلیل کر وطی امراء تہ عورت سے ہمبستری کرنا یہ لفظ اگر چہ اپنے اصل معنی کے لحاظ سے جماع کے معنی میں بطو ر کنایہ استعمال ہوتا ہے لیکن عرف میں بمنزلہ لفظ صریح کے ہیں ۔ المواطاۃ ۔ اس کے معنی موافقت کے آتے ہیں اور اصل معنی دوسرے کے نشان قدم پر اپنا قدم رکھنے کے ہیں چناچہ آیت آخر میں فرمایا ۔ لِيُواطِؤُا عِدَّةَ ما حَرَّمَ اللَّهُ [ التوبة 37] تاکہ ادب کے مہینوں کی جو خدا نے مقرر کئے ہیں ۔ گنتی پوری کرلیں ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے
مفتوحہ زمینوں کے بارے میں فیصلہ - قول باری ہے (واورثکم ارضھم ودیارھم واموالھم وارضالم تطوھا اور تمہیں ان کی زین کا، ان کے گھروں کا اور ان کے اموال کا اور اس زمین کا بھی مالک بنادیا جس پر تم نے اب تک قدیم نہیں رکھتا تھا) یعنی بنو قریظہ کی سرزمین کا یا بنو نضیر کی سر زمین کا جیسا کہ بعض حضرات نے آیت سے بنو نضیر مراد لیا ہے۔- قول باری (وارضنا لم تطوھا) کی تفسیر میں حسن کا قول ہے کہ اس سے ارض فارس وروم مراد ہیں۔- قتادہ کے اقوال کے مطابق اس سے مراد ارض مکہ ہے۔ یزید بن رومان نے کہا ہے کہ یہ ارض خیبر ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ کافروں کی جس سرزمین پر مسلمانوں کا غلبہ ہوجائے اور مسلمان بزور شمشیر اسے فتح کرلیں امام المسلمین اس سر زمین کو فاتحین کی ملکیت میں دے دے گا۔- امام کے لئے وہاں کے باشندوں کو اس سرزمین پر مالکانہ طور پر برقرار رہنے کی اجازت دینا جائز نہیں ہوگا کیونکہ ارشاد باری ہے (واورثکم ارضھم) حالانکہ ظاہر آیت اس سرزمین کے اصل باشندوں کی ملکیت کے ایجاب کا مقتضی ہے اس میں ان حضرات کے قول پر کوئی دلالت نہیں ہے اس لئے کہ قول باری (واورثکم) ط اوراً ملکیت کے ایجاب کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اس میں غالب آجانے فتحیاب ہوجانے اور قبضہ کرلینے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی مفہوم اگر وجود میں آجائے گا لفظ کا استعمال درست ہوجائے گا۔- قول باری ہے (ثم اور ثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا ۔ پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث بنادیا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں منتخب کرلیا تھا) یہاں ملکیت مراد نہیں ہے اگر یہ بات درست بھی ہوتی کہ اس سے ملکیت مراد لی جائے تو یہ بنو قریظہ کی سرزمین کے بارے میں ہوتی۔ اور اس کا تعلق قول باری (واورثکم ارضھم) سے ہوتا۔ لیکن قول باری (وارضا لم تغثوھا) صرف ایک سر زمین کا مقتضی ہے تمام سر زمینوں کا مقتضی نہیں ہے۔- اگر اس سے خیبر مراد ہے تو مسلمان اس کے مالک بن گئے تھے۔ اگر ارض فارس وروم مراد ہے تو مسلمان ان سر زمینوں کے بعض حصوں کے مالک ہوگئے تھے۔ اس طرح آیت کا مقتضیٰ وجود میں آگیا تھا اور اس میں یہ دلالت نہیں تھی کہ مسلمان تمام زمینوں کے مالک ہوجاتے۔ کیونکہ قول باری (و ارضا لم تطوھا) صرف ایک سر زمین کو شامل تھا اس لئے مخالف کے قول پر اس میں کوئی دلالت نہیں ہے۔
اور ان کے گھروں اور مالوں کو تمہیں غنیمت میں دلوا دیا اور سرزمین خیبر کا بھی تمہیں مالک بنا دے گا جو ابھی تک تمہاری ملکیت میں نہیں آئی اور اللہ تعالیٰ فتح و نصرت ہر ایک چیز پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔
آیت ٢٧ وَاَوْرَثَکُمْ اَرْضَہُمْ وَدِیَارَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ ” اور اس نے تمہیں وارث بنا دیا ان کی زمینوں ‘ ان کے گھروں اور ان کے اموال کا “- وَاَرْضًا لَّمْ تَطَئُوْہَا ” اور اس زمین کا بھی جس پر ابھی تم نے قدم نہیں رکھے۔ “- اس فقرے میں ان تمام فتوحات کی طرف اشارہ موجود ہے جو بعد میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔ اس لحاظ سے غزوئہ احزاب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدوجہد کے سفر میں ایک فیصلہ کن موڑ ( ) ثابت ہوا۔ اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل ایمان کو خوشخبری بھی سنا دی تھی کہ : (لَنْ تَغْزُوْکُمْ قُرَیْشٌ بَعْدَ عَامِکُمْ ھٰذَا وَلٰـکِنَّـکُمْ تَغْزُوْنَھُمْ ) (١) یعنی ” اس سال کے بعد قریش کبھی بھی تم پر حملہ آور نہیں ہو سکیں گے ‘ بلکہ آئندہ تم ان پر چڑھائی کرو گے۔ “- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کی صداقت اگلے ہی سال یعنی ٦ ہجری میں اس وقت ظاہر ہوگئی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چودہ سو صحابہ (رض) کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے مکہ روانہ ہوئے۔ اس سفر میں مسلمانوں نے احرام باندھ رکھے تھے۔ تلواروں کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور ہتھیار بھی نہیں تھا اور تلواریں بھی نیاموں میں تھیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے قافلے کے ساتھ جب مکہ کے قریب پہنچے تو یہ صورت حال گویا مشرکین مکہ کے گلے میں ایک ایسی ہڈی کی طرح پھنس کر رہ گئی جسے نہ وہ اگل سکتے تھے اور نہ نگل سکتے تھے۔ ایک طرف ان کی صدیوں پرانی روایات تھیں جن کے مطابق کسی بد ترین دشمن کو بھی حج یا عمرے سے روکا نہیں جاسکتا تھا اور دوسری طرف ان کی انا تھی جس کے تحت وہ مسلمانوں کو کسی قیمت پر بھی مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ ان کے لیے یہ دونوں صورتیں ہی مشکل تھیں۔ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکیں تو کس جواز کے تحت روکیں اور اگر آنے کی اجازت دیں تو کس منہ سے ایسا کریں - اس صورت حال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے مقام پر پڑائو کرنے کا حکم دیا اور حضرت عثمان (رض) کو حالات کا جائزہ لینے کے لیے مکہ بھیجا۔ حضرت عثمان (رض) کو مکہ میں کچھ زیادہ دیر رکنا پڑا تو مسلمان لشکر میں کسی طرح یہ افواہ پھیل گئی کہ مشرکین نے انہیں شہید کردیا ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ (رض) کے خون کا بدلہ لینے کے لیے صحابہ (رض) سے بیعت لینے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ چناچہ موقع پر موجود تمام صحابہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر حضرت عثمان (رض) کے خون کا بدلہ لینے کے لیے آخری دم تک لڑنے کا عہد کیا تھا۔ یہ بیعت علی الموت تھی اور تاریخ میں اسے ” بیعت ِرضوان “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جب اس بیعت کی خبر مکہ پہنچی تو مشرکین کے چھکے ّچھوٹ گئے۔ انہوں نے سفارتی مہم کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صلح کی پیش کش کی اور طویل مذاکرات کے بعدبالآخر فریقین کے مابین صلح حدیبیہ کا تاریخی معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورة الفتح میں بایں الفاظ تبصرہ فرمایا : اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ” یقینا ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح مبین عطا فرمائی ہے۔ “- اس فرمانِ الٰہی کے اثرات وثمرات فوری طور پر ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔ اگلے ہی سال ٧ ہجری میں مسلمانوں نے یہودیوں کا مضبوط گڑھ خیبر فتح کرلیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کی فتوحات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا اور بیس سال کے اندر اندر اسلامی سلطنت کی حدود تین براعظموں تک وسیع ہوگئیں۔ آیت زیر نظر میں انہی فتوحات کے بارے میں پیشین گوئی کی گئی ہے۔- وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرًا ” اور اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔ “
22: اس زمین سے مراد خیبر ہے۔ خیبر میں یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے، اور وہیں سے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔ اس موقع پر اس آیت نے مسلمانوں کو یہ خوشخبری دی کہ خیبر بھی کچھ عرصے میں مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوجائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہجرت کے ساتویں سال خیبر بھی فتح ہوگیا۔