Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

امہات المومنین سے پرسش دین یا دنیا ؟ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ اپنی بیویوں کو دو باتوں میں سے ایک کی قبولیت کا اختیار دیں ۔ اگر تم دنیا پر اور اس کی رونق پر مائل ہوئی ہو تو آؤ میں تمہیں اپنے نکاح سے الگ کر دیتا ہوں اور اگر تم تنگی ترشی پر یہاں صبر کر کے اللہ کی خوشی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی چاہتی ہو اور آخرت کی رونق پسند ہے تو صبر و سہار سے میرے ساتھ زندگی گذارو ۔ اللہ تمہیں وہاں کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا ۔ اللہ آپ کی تمام بیویوں سے جو ہماری مائیں ہیں خوش رہے ۔ سب نے اللہ کو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور دار آخرت کو ہی پسند فرمایا جس پر رب راضی ہو اور پھر آخرت کے ساتھ ہی دنیا کی مسرتیں بھی عطا فرمائیں ۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ اس آیت کے اترتے ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمانے لگے کہ میں ایک بات کا تم سے ذکر کرنے والا ہوں تم جواب میں جلدی نہ کرنا اپنے ماں باپ سے مشورہ کر کے جواب دینا ۔ یہ تو آپ جانتے ہی تھے کہ ناممکن ہے کہ میرے والدین مجھے آپ سے جدائی کرنے کا مشورہ دیں ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی ۔ میں نے فوراً جواب دیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ماں باپ سے مشورہ کرنے کی کونسی بات ہے ۔ مجھے اللہ پسند ہے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند ہیں اور آخرت کا گھر پسند ہے ۔ آپ کی اور تمام بیویوں نے بھی وہی کیا جو میں نے کیا تھا اور روایت میں ہے کہ تین دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ دیکھو بغیر اپنے ماں باپ سے مشورہ کئے کوئی فیصلہ نہ کر لینا پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا جواب سنا تو آپ خوش ہوگئے اور ہنس دیئے ، پھر آپ دوسری ازواج مطہرات کے حجروں میں تشریف لے گئے ان سے پہلے ہی فرما دیتے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تو یہ جواب دیا ہے وہ کہتی تھیں یہی جواب ہمارا بھی ہے ۔ فرماتی ہیں کہ اس اختیار کے بعد جب ہم نے آپ کو اختیار کیا تو اختیار طلاق میں شمار نہیں ہوا ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو بکر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا لوگ آپ کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے اور آپ اندر تشریف فرما تھے اجازت ملی نہیں ۔ اتنے میں حضرت عمر بھی آگئے اجازت چاہی لیکن انہیں بھی اجازت نہ ملی تھوڑی دیر میں دونوں کو یاد فرمایا گیا ۔ گئے دیکھا کہ آپ کی ازواج مطہرات آپ کے پاس بیٹھی ہیں اور آپ خاموش ہیں ۔ حضرت عمر نے کہا دیکھو میں اللہ کے پیغمبر کو ہنسا دیتا ہوں ۔ پھر کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ آپ دیکھتے میری بیوی نے آج مجھ سے روپیہ پیسہ مانگا میرے پاس تھا نہیں جب زیادہ ضد کرنے لگیں تو میں نے اٹھ کر گردن ناپی ۔ یہ سنتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمانے لگے یہاں بھی یہی قصہ ہے دیکھو یہ سب بیٹھی ہوئی مجھ سے مال طلب کر رہی ہیں؟ ابو بکر حضرت عائشہ کی طرف لپکے اور عمر حضرت حفصہ کی طرف اور فرمانے لگے افسوس تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ۔ وہ تو کہئے خیر گذری جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک لیا ورنہ عجب نہیں دونوں برگ اپنی اپنی صاحبزادیوں کو مارتے ۔ اب تو سب بیویاں کہنے لگیں کہ اچھا قصور ہوا اب سے ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز اس طرح تنگ نہ کریں گی ۔ اب یہ آیتیں اتریں اور دنیا اور آخرت کی پسندیدگی میں اختیار دیا گیا ۔ سب سے پہلے آپ حضرت صدیقہ کے پاس گئے انہوں نے آخرت کو پسند کیا جیسے کہ تفصیل وار بیان گذر چکا ۔ ساتھ ہی درخواست کی کہ یارسول اللہ آپ اپنی کسی بیوی سے یہ نہ فرمائیے گا کہ میں نے آپ کو اختیار کیا ۔ آپ نے جواب دیا کہ اللہ نے مجھے چھپانے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ میں سکھانے والا آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھ سے تو جو دریافت کرے گی میں صاف صاف بتا دوں گا ۔ حضرت علی کا فرمان ہے کہ طلاق کا اختیار نہیں دیا گیا تھا بلکہ دنیا یا آخرت کی ترجیح کا اختیار دیا تھا لیکن اس کی سند میں بھی انقطاع ہے اور یہ آیت کے ظاہری لفظوں کے بھی خلاف ہے کیونکہ پہلی آیت کے آخر میں صاف موجود ہے کہ آؤ میں تمہارے حقوق ادا کردوں اور تمہیں رہائی دے دوں اس میں علماء کرام کا گو اختلاف ہے کہ اگر آپ طلاق دے دیں تو پھر کسی کو ان سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ جائز ہے تاکہ اس طلاق سے وہ نتیجہ ملے یعنی دنیا طلبی اور دنیا کی زینت و رونق وہ انہیں حاصل ہو سکے واللہ اعلم ۔ جب یہ آیت اتری اور جب اس کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات امہات المومنین رضوان اللہ علیہن کو سنایا اس وقت آپ کی نوبیویاں تھیں ۔ پانچ تو قریش سے تعلق رکھتی تھیں عائشہ ، حفصہ ، سودہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن اور صفیہ بنت جی قبیلہ نضر سے تھیں ، میمونہ بنت حارث ہلالیہ تھیں ، زینب بنت حجش اسدیہ تھیں اور جویریہ بنت حارث جو مصطلقیہ تھیں رضی اللہ عنہن وارضاھن اجمعین ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٤٠] بیویوں کا آپ سے خرچ کا مطالبہ :۔ یہاں سے ایک بالکل نیا موضوع شروع ہوتا ہے۔ اموال غنیمت سے جب مسلمانوں میں کچھ آسودگی آگئی۔ تو ازواج مطہرات نے بھی آپ سے کچھ زائد اخراجات کا مطالبہ کردیا۔ حالات کے مطابق ان کا یہ مطالبہ کچھ ایسا ناجائز بھی نہ تھا۔ کیونکہ دوسرے سب مسلمان آسودہ ہو رہے تھے۔ مگر آپ کی فقرپسند طبیعت پر بیویوں کا یہ مطالبہ سخت شاق گزرا۔ اور آپ نے اسی کبیدگی طبع کی بنا پر ایک ماہ کے لئے اپنی بیویوں سے کنارہ کش رہنے کا ارادہ کرلیا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے :- ١۔ سیدنا جابر (رض) کہتے ہیں کہ : سیدنا عمر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں آئے اور اجازت چاہی، آپ نے انھیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔ سیدنا عمر نے دیکھا کہ آپ کے پاس آپ کی بیویاں غمگین اور خاموش بیٹھی ہیں۔ آپ نے فرمایا : یہ میرے گرد بیٹھی خرچ کا مطالبہ کر رہی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو پھر آپ نے ان سے ایک مہینہ کے لئے علیحدگی اختیار کرلی۔ (بخاری۔ کتاب النکاح باب موعظۃ الرجل ابنتہ)- خ واقعہ ایلاء کی تفصیل :۔ ٢۔ سیدنا عمر کہتے ہیں میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی بنی امیہ بن زید کے گاؤں میں جو مدینہ کے بالائی دیہات میں سے ایک گاؤں ہے، رہا کرتے۔ اور باری باری آپ کے پاس آیا کرتے۔ ایک دن وہ آتا اور ایک دن میں۔ جب میں آتا تو اس دن کی ساری خبر وحی جو آپ پر نازل ہوتی اسے بتاتا اور جس دن وہ آتا تو وہ بھی ایسا ہی کرتا ایک دن میرا انصاری ساتھی اپنی باری کے دن آیا تو واپس آکر زور سے میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا : عمر ہیں ؟ میں گھبرا کر باہر آیا تو کہنے لگا : آج ایک بڑا حادثہ ہوگیا، (آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی) میں حفصہ (رض) کے پاس گیا تو وہ رو رہی تھی۔۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب التناؤب فی العلم)- ٣۔ سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ : مجھے میرے ایک انصاری ہمسایہ نے ایک دن خبر دی کہ رسول اکرم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں حفصہ (رض) کے پاس گیا تو وہ رو رہی تھی۔ میں نے اسے پوچھا : کیا رسول اللہ نے تمہیں طلاق دے دی ؟ وہ کہنے لگیں : میں نہیں جانتی اور وہ اس جھروکے میں الگ ہو بیٹھے ہیں میں وہاں سے (مسجد میں) چلا گیا اور اسود (دربان) سے کہا کہ عمر کے لئے اندر آنے کی اجازت حاصل کرو لڑکا اندر گیا پھر باہر آکر کہنے لگا : میں نے آپ کا ذکر کیا تھا مگر آپ نے کوئی جواب نہیں دیا میں پھر مسجد کی طرف چلا گیا۔ لوگ وہاں منبر کے اردگرد بیٹھے رو رہے تھے۔ میں ان کے پاس بیٹھ گیا، مگر مجھ پر پھر وہی فکر غالب آئی۔ میں لڑکے کے پاس آیا اور کہا : عمر کے لئے اجازت حاصل کرو لڑکا اندر گیا۔ پھر اس نے باہر آکر مجھے کہا : میں نے آپ کا ذکر کیا تھا۔ مگر آپ نے کوئی جواب نہیں دیا میں پھر مسجد میں آیا اور بیٹھ گیا۔ پھر مجھ پر وہی فکر غالب ہوئی۔ میں لڑکے پاس آیا اور کہا : عمر کے لئے اجازت مانگ لڑکا اندر گیا، پھر باہر آکر کہنے لگا : میں نے آپ کا ذکر کیا کوئی جواب نہیں دیا جب میں وہاں سے لوٹ آیا تو اس وقت لڑکے نے مجھے پکارا کہ آجاؤ۔ تمہارے لئے اجازت مل گئی میں اندر گیا تو اس وقت آپ ایک بوریے پر تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ کے پہلوؤں میں بوریے کے نشان پڑگئے ہیں۔ میں نے پوچھا : یارسول اللہ آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں میں نے اللہ اکبر پکارا۔ پھر کہا : یارسول اللہ آپ دیکھئے۔ ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں کو دبا کر رکھتے تھے پھر جب ہم مدینہ آئے تو ایسے لوگ دیکھے جنہیں ان کی بیویاں دبا کر رکھتی ہیں۔ ہماری عورتیں بھی ان کی عادات سیکھنے لگیں۔ میں ایک دن اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو وہ مجھے جواب دینے لگی جو مجھے برا لگا تو وہ کہنے لگی : برا کیوں مناتے ہو۔ اللہ کی قسم آپ کی بیویاں آپ کو جواب دیتی ہیں۔ اور کئی تو رات تک خفا رہتی ہیں۔ میں نے حفصہ (رض) سے پوچھا : کیا تو بھی آپ کو جواب دیتی ہے ؟ وہ کہنے لگیں ہاں اور ہم میں سے کوئی تو رات بھر آپ سے خفا رہتی ہے میں نے کہا : تم میں سے جس نے یہ کام کیا وہ نامراد ہوئی اور نقصان اٹھایا۔ کیا تم اس بات سے ڈرتی نہیں کہ رسول اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ بھی ان سے ناراض ہوجائے گا اور وہ تباہ ہوجائے گی اس بات پر نبی اکرم مسکرائے۔ پھر اپنی بیٹی حفصہ (رض) سے کہا حفصہ تم رسول اللہ کو کبھی جواب نہ دینا اور نہ ہی ان سے کچھ مطالبہ کرو۔ بلکہ جو تم چاہو مجھ سے مانگ لیا کرو اور کسی دھوکہ میں نہ رہنا کیونکہ تمہاری ساتھی عائشہ (رض) تم سے خوبصورت اور رسول اللہ کی چہیتی ہے اس بات پر رسول اللہ دوبارہ مسکرائے۔ پھر میں نے آپ سے کہا : یارسول اللہ میں آپ کا جی بہلاؤں ؟ آپ نے فرمایا : ٹھیک ہے، میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو مجھے اس گھر میں کچھ نظر نہ آیا۔ بجز تین چمڑوں کے، میں نے کہا : یارسول اللہ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کی امت کو کشادگی بخشے۔ اللہ نے روم اور فارس کو کشادگی دی ہے۔ حالانکہ وہ اس کی عبادت بھی نہیں کرتے۔ یہ سن کر آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا : خطاب کے بیٹے کیا تم ابھی تک شک میں پڑے ہو۔ ان لوگوں کو تو ان کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں ہی مل گیا ہے سیدنا عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ ایک مہینہ بھر اپنی بیویوں کے پاس نہ گئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر عتاب اور قسم کے کفارہ کا حکم دیا۔ سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب انتیس دن گزر گئے تو آپ ہمارے پاس آئے۔ (ترمذی۔ باب التفسیر۔ سورة تحریم)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۧيٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ ۔۔ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے اور مال غنیمت میں سے خمس کا اختیار رکھنے کے باوجود سب کچھ ضرورت مندوں پر خرچ کردیتے۔ نتیجہ اس کا گھر میں تنگی و ترشی کے ساتھ گزارا تھا۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ( مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ مِنْ طَعَامِ بُرٍّ ثَلَاثَ لَیَالٍ تِبَاعًا حَتّٰی قُبِضَ ) [ بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و أصحابہ۔۔ : ٦٤٥٤ ] ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والوں نے، جب سے آپ مدینہ میں آئے، تین دن پے در پے گندم کا کھانا سیر ہو کر نہیں کھایا، یہاں تک کہ آپ فوت ہوگئے۔ “ عائشہ (رض) ہی نے بیان فرمایا : ( مَا أَکَلَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ أَکْلَتَیْنِ فِيْ یَوْمٍ إِلَّا إِحْدَاھُمَا تَمْرٌ ) [ بخاري، الرقاق، کیف کان عیش النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ : ٦٤٥٥ ] ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والوں نے کسی دن دو دفعہ کھانا نہیں کھایا، مگر ان میں سے ایک دفعہ صرف کھجور ہوتی تھی۔ “ عائشہ (رض) نے اپنے بھانجے عروہ سے فرمایا : ( ابْنَ أُخْتِيْ إِنْ کُنَّا لَنَنْظُرُ إِلَی الْہِلاَلِ ثَلاَثَۃَ أَہِلَّۃٍ فِيْ شَہْرَیْنِ ، وَمَا أُوْقِدَتْ فِيْ أَبْیَاتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ نَارٌ فَقُلْتُ مَا کَانَ یُعِیْشُکُمْ ؟ قَالَتِ الْأَسْوَدَان التَّمْرُ وَ الْمَاءُ إِلاَّ أَنَّہُ قَدْ کَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ جِیْرَانٌ مِنَ الْأَنْصَارِ کَانَ لَہُمْ مَنَاءِحُ ، وَکَانُوْا یَمْنَحُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مِنْ أَبْیَاتِہِمْ ، فَیَسْقِیْنَاہُ ) [ بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ : ٦٤٥٩ ] ” بھانجے ہم چاند دیکھتے تھے، دو مہینوں میں تین چاند، اس حال میں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں میں آگ نہیں جلی ہوتی تھی۔ “ میں نے کہا : ” پھر تمہیں کیا چیز زندہ رکھتی تھی ؟ “ کہا : ” دو سیاہ چیزیں، کھجور اور پانی، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انصار میں سے کچھ پڑوسی تھے جن کے پا س دودھ والے جانور تھے اور وہ اپنے گھروں سے (کچھ دودھ ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بطور تحفہ دے دیا کرتے تھے اور آپ ہمیں وہ پلا دیتے۔ “ - ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یَبِیْتُ اللَّیَالِيَ الْمُتَتَابِعَۃَ طَاوِیًا وَ أَھْلُہُ لَا یَجِدُوْنَ عَشَاءً ) [ ترمذي، الزھد، باب ما جاء في معیشۃ النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و أھلہ : ٢٣٦٠، وقال الألبانی حسن ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کئی راتیں خالی پیٹ گزار دیتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والوں کو شام کا کھانا نہیں ملتا تھا۔ “ عائشہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بستر کے متعلق بتایا : ( کَانَ فِرَاشُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مِنْ أَدَمٍ ، وَحَشْوُہُ مِنْ لِیْفٍ ) [ بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ : ٦٤٥٦ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بستر چمڑے کا تھا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ “ لطف یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حال پر خوش تھے اور آپ نے اسے اللہ تعالیٰ سے مانگ کرلیا تھا۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا ) [ مسلم، الزکاۃ، باب في الکفاف و القناعۃ : ١٠٥٥ ] ” اے اللہ آل محمد کا رزق گزارے کے برابر کر دے۔ “ - انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَللّٰہُمَّ أَحْیِنِيْ مِسْکِیْنًا وَ أَمِتْنِيْ مِسْکِیْنًا وَاحْشُرْنِيْ فِيْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَقَالَتْ عَاءِشَۃُ لِمَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ إِنَّھُمْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ أَغْنِیَاءِھِمْ بِأَرْبَعِیْنَ خَرِیْفًا ) [ ترمذي، الزھد، باب ما جاء أن فقراء المھاجرین۔۔ : ٢٣٥٢ ] ” اے اللہ مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھنا، مسکین ہونے کی حالت میں موت دے اور مسکینوں کی جماعت سے اٹھا۔ “ عائشہ (رض) نے پوچھا : ” یا رسول اللہ یہ کیوں ؟ “ آپ نے فرمایا : ” وہ جنت میں اپنے اغنیاء سے چالیس (٤٠) سال پہلے جائیں گے۔ “ ظاہر ہے زندگی کا یہ معیار نہایت صبر آزما اور مشکل ہے، اس معیار زندگی میں آپ کے ساتھ ازواج مطہرات بھی شریک تھیں۔- قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ : بنوقریظہ کے اموال اور دوسری فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت کچھ بہتر ہوگئی تو انصار و مہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں نے بھی نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کردیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی صورت اپنی زہد و قناعت کی زندگی ترک کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بیویوں کے اصرار پر آپ کو سخت رنج اور صدمہ ہوا اور آپ نے قسم کھالی کہ میں ایک ماہ تک تمہارے پاس نہیں آؤں گا۔ اسے ” ایلاء “ کہتے ہیں۔ (دیکھیے بقرہ : ٢٢٦، ٢٢٧) پھر آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ابوبکر (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہونے کی اجازت لینے کے لیے آئے تو دیکھا کہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر بیٹھے ہیں، ان میں سے کسی کو اجازت نہیں ملی۔ خیر ابوبکر (رض) کو اجازت مل گئی، وہ اندر آگئے، پھر عمر (رض) اجازت کے لیے آئے، انھیں بھی اجازت مل گئی۔ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہیں اور آپ کے گرد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں ہیں، آپ غمگین اور خاموش ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا : ” میں ضرور کوئی ایسی بات کروں گا جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہنساؤں گا۔ “ چناچہ وہ کہنے لگے : ” یا رسول اللہ کبھی آپ خارجہ کی بیٹی (میری بیوی) کو دیکھتے، اس نے مجھ سے خرچہ مانگا تو میں نے اٹھ کر اس کی گردن دبا دی۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے اور فرمانے لگے : ” یہ سب میرے اردگرد بیٹھی ہیں، جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، یہ مجھ سے خرچہ مانگتی ہیں۔ “ تو ابوبکر (رض) عائشہ (رض) کی گردن دبانے کے لیے کھڑے ہوگئے اور عمر (رض) حفصہ (رض) کی گردن دبانے کے لیے اٹھے۔ دونوں کہہ رہے تھے کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ وہ دونوں کہنے لگیں : ” اللہ کی قسم ہم کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ چیز نہیں مانگیں گی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہ ہو۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے ایک ماہ یا انتیس دن علیحدہ رہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل ہوئی : (یٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ) [ الأحزاب : ٢٨ ] [ مسلم، الطلاق، باب بیان أن تخییرہ امرأتہ۔۔ : ١٤٧٥ ]- اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا : صحیح بخاری میں عمر (رض) سے مروی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ بیویوں سے ایک ماہ تک علیحدہ رہنے کی قسم کا ایک باعث حفصہ (رض) کا عائشہ (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راز بتانا بھی تھا، جس کا ذکر سورة تحریم میں ہے۔ اسی حدیث میں ہے کہ جب انتیس دن گزر گئے تو سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عائشہ (رض) کے پاس تشریف لائے۔ انھوں نے آپ سے کہا : ” آپ نے تو ہمارے ہاں ایک ماہ تک نہ آنے کی قسم کھائی تھی اور ابھی انتیس راتیں گزری ہیں، میں انھیں اچھی طرح گنتی رہی ہوں۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ مہینا انتیس دنوں کا ہے۔ “ اور وہ مہینا تھا بھی انتیس دنوں کا۔ عائشہ (رض) نے کہا : ” پھر اللہ تعالیٰ نے اختیار دینے کی آیت نازل فرمائی تو سب بیویوں سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا، فرمایا : ” میں تم سے ایک بات کہنے لگا ہوں، کوئی حرج نہیں کہ اس کے جواب میں جلدی نہ کرو اور اپنے ماں باپ سے مشورہ کرلو۔ “ عائشہ (رض) نے کہا : ” میں خوب جانتی تھی کہ میرے ماں باپ مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا ہونے کی رائے کبھی نہیں دیں گے۔ “ پھر آپ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ ۔۔ اجرا عظیما) [ الأحزاب : ٢٨، ٢٩ ] میں نے کہا : ” کیا میں اس کے متعلق اپنے ماں باپ سے مشورہ کروں گی ؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی باقی بیویوں کو بھی اختیار دیا، انھوں نے بھی وہی بات کہی جو عائشہ (رض) نے کہی تھی۔ [ بخاري، المظالم، باب الغرفۃ و العلیۃ ۔۔ : ٢٤٦٨ ]- 3 ابن کثیر نے عکرمہ کا قول نقل فرمایا ہے کہ اس وقت آپ کے نکاح میں نو (٩) بیویاں تھیں، پانچ قریش سے تھیں : عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ اور ام سلمہ (رض) اور بنو نضیر سے صفیہ بنت حیی، بنو ہلال سے میمونہ بنت حارث، بنو اسد سے زینب بنت جحش اور بنو المصطلق سے جویریہ بنت الحارث (رض) ۔ - 3 عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ” ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختیار دیا، ہم نے اللہ اور اس کے رسول کو پسند کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے ہم پر کچھ شمار نہیں کیا۔ “ [ بخاري، الطلاق، باب من خیّر أزواجہ۔۔ : ٥٢٦٢ ] اس سے معلوم ہوا اختیار دینے کے بعد بیوی خاوند کے پاس رہنا پسند کرے تو اس سے کسی قسم کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔- فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ : ” تَعَالَیْنَ “ (آؤ) ” عَلَا یَعْلُوْ “ سے باب تفاعل میں سے جمع مؤنث امر حاضر کا صیغہ ہے۔ اصل اس کا یہ ہے کہ کوئی شخص اونچی جگہ کھڑا ہو کر کسی سے کہے اوپر آؤ، پھر کسی کو بھی بلانے کے لیے ” تَعَالَ “ (آؤ) استعمال ہونے لگا۔- اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا : آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے لیے دو چیزوں میں سے ایک چیز پسند کرلو، پہلی یہ کہ اگر تم دنیا کی زندگی، اس کی زیب و زینت اور آرائش کو پسند کرتی ہو تو میرے ساتھ تمہارے رہنے کی کوئی صورت نہیں، پھر آؤ میں تمہیں کچھ سامان دے دیتا ہوں (جس کا طلاق دیتے وقت اپنی حیثیت کے مطابق دینے کا حکم ہے، جسے ” متعہ طلاق “ کہتے ہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ : ٢٣٦ تا ٢٤١) اور تمہیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیتا ہوں، یعنی کوئی طعن و تشنیع کیے یا کوئی تکلیف دیے بغیر طلاق دے کر آزاد کردیتا ہوں۔ دوسری چیز کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنی بیبیوں سے فرما دیجئے (تم سے دو ٹوک بات کہی جاتی ہے تاکہ ہمیشہ کے لئے قصہ ایک طرف ہو وہ بات یہ ہے کہ) تم اگر دنیوی زندگی (کی عیش) اور اس کی بہار چاہتی ہو تو آؤ (یعنی لینے کے لئے متوجہ ہو) میں تم کو کچھ (مال و) متاع (دنیوی) دے دوں (یا تو مراد اس سے وہ جوڑا ہے جو مطلقہ مدخولہ کو بوقت طلاق دینا مستحب ہے یا مراد نان نفقہ عدت کا ہے، یا دونوں کو شامل ہے) اور (متاع دے کر) تم کو خوبی کے ساتھ رخصت کروں (یعنی موافق سنت کے طلاق دے دوں تاکہ جہاں چاہو جا کر دنیا حاصل کرو) اور اگر تم اللہ کو چاہتی ہو اور (مطلب اللہ کو چاہنے کا اس جگہ یہ ہے کہ) اس کے رسول کو (چاہتی ہو، یعنی فقر و افلاس کی موجودہ حالت کے ساتھ رسول کے نکاح میں رہنا چاہتی ہو) اور عالم آخرت (کے درجات عالیہ) کو (چاہتی ہو جو کہ زوجیت رسول پر مرتب ہونے والے ہیں) تو (یہ تمہاری نیک کرداری ہے اور) تم میں نیک کرداروں کے لئے اللہ تعالیٰ نے (آخرت میں) اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے (یعنی وہ ثواب جو مخصوص ہی زوجات نبی کے لئے کہ اور نیک بیبیوں کے اجر سے وہ عظیم ہے۔ اور جس سے زوجیت نبی کو اختیار نہ کرنے کی صورت میں محرومی ہوگی، گو عموم دلائل سے مطلق ایمان و اعمال صالحہ کے ثمرات اس صورت میں بھی حاصل ہوں گے۔ یہاں تک تو مضمون تخییر کا ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ازواج کو اختیار دیا گیا کہ موجودہ حالت پر قناعت کر کے آپ کی زوجیت میں رہنا پسند کریں، یا پھر آپ سے طلاق حاصل کرلیں، آگے حق تعالیٰ ان کو خود خطاب کر کے وہ احکام فرماتے ہیں جو بصورت اختیار زوجیت واجب الاہتمام ہوں گے۔ ارشاد ہے کہ) اے نبی کی بیبیو جو تم میں کھلی ہوئی بےہودگی کرے گی (مراد اس سے وہ معاملہ ہے جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تنگ و پریشان ہوں تو) اس کو (اس پر آخرت میں) دوہری سزا دی جائے گی (یعنی دوسرے شخص کو اس عمل پر جتنی سزا ملتی اس سے دوہری سزا ہوگی) اور یہ بات اللہ کو (بالکل) آسان ہے (یہ نہیں کہ دنیوی حکام کی طرح احیاناً سزا بڑھانے سے کسی کی عظمت اس کو مانع ہوجاوے، اور اس سزا کے بڑھنے کی وجہ ابھی تضعیف اجر کی تقریر میں آتی ہے) اور جو کوئی تم میں اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گی (یعنی جن امور کو اللہ تعالیٰ نے واجب فرمایا ہے ان کو ادا کرے گی اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زوج ہونے کے جو حقوق اطاعت وغیرہ واجب ہیں وہ ادا کرے گی کیونکہ حیثیت رسالت کے حقوق اللہ کی اطاعت میں داخل ہوگئے) اور (امور غیر واجبہ میں سے جو) نیک کام (ہیں ان کو) کرے گی تو ہم اس کو اس کا ثواب (بھی) دوہرا دیں گے اور ہم نے اس کے لئے (علاوہ دوہرے اجر موعود کے) ایک (خاص) عمدہ روزی (جو جنت میں ازواج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہے اور جو صلہ عمل سے زائد ہے) تیار کر رکھی ہے (اطاعت کی صورت میں دوہرے اجر اور ترک اطاعت پر دوہرے عذاب کی وجہ شرف زوجیت نبی ہے جس پر ینساء النبی دال ہے۔ کیونکہ اہل خصوصیت کی کوتاہی بھی اوروں کی کوتاہی سے اشد ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کی اطاعت بھی اوروں کی اطاعت سے زیادہ مقبول ہوتی ہے۔ پس وعدہ وعید دونوں ہیں وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ اور خصوصاً مقام کلام میں یہ کہنا ممکن ہے کہ حضرات امہات المومنین سے خدمت اور اطاعت کا صدور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب کو راحت افزا زیادہ ہوگا پس آپ کی راحت رسانی موجب زیادتی اجر ہوگئی، علیٰ ھذا اس کی ضد میں سمجھنا چاہئے، یہاں تک ازواج سے آپ کے حقوق کے متعلق خطاب تھا آگے عام احکام کے متعلق زیادہ اہتمام کے لئے خطاب ہے کہ) اے نبی کی بیبیو (محض اس بات پر مت بھول جانا کہ ہم نبی کی بیبیاں ہیں اور اس لئے عام عورتوں سے ممتاز ہیں، یہ نسبت اور شرف ہمارے لئے بس ہے، سو یہ وسوسہ مت کرنا یہ بات صحیح ہے کہ) تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو (بیشک ان سے ممتاز ہو مگر مطلقاً نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ایک شرط بھی ہے وہ یہ کہ) اگر تم تقویٰ اختیار کرو (تب تو واقعی اس نسبت کے سبب تم کو اوروں سے فضیلت حاصل ہے، حتیٰ کہ ثواب مضاعف ملے گا اور اگر یہ شرط مستحق نہیں تو یہی نسبت بالعکس دوہرے عذاب کا سبب بن جائے گی، جب یہ بات ہے کہ نسبت بلا تقویٰ ہیچ ہے) تو (تم کو احکام شرعیہ کی پوری پابندی کرنا چاہئے عموماً اور ان احکام مذکورہ آیت آئندہ کی خصوصاً ، اور وہ احکام یہ ہیں کہ) تم (نامحرم مرد سے) بولنے میں (جب کہ بضرورت بولنا پڑے) نزاکت مت کرو (اس کا مطلب یہ نہیں کہ قصداً نزاکت مت کرو کیونکہ اس کا برا ہونا تو بدیہی ہے دوسری مخاطب یعنی ازواج مطہرات میں اس کا احتمال نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جیسے عورتوں کے کلام کا فطری انداز ہوتا ہے کہ کلام میں نرمی اور نزاکت طبعی ہوتی ہے، اس انداز کو مت برتو) کہ (اس سے) ایسے شخص کو (طبعاً ) خیال (فاسد پیدا) ہونے لگتا ہے، جس کے قلب میں خرابی (اور بدی) ہے (بلکہ ایسے موقع پر تکلف اور اہتمام سے اس فطری انداز کو بدل کر گفتگو کرو) اور قاعدہ (عفت) کے موافق بات کو (یعنی ایسے انداز سے جس میں خشکی اور روکھا پن ہو کہ یہ حافظ عفت ہے، اور یہ بد اخلاقی نہیں ہے۔ بد اخلاقی وہ ہے جس سے کسی کے قلب کو ایذاء پہنچے اور طمع فاسد کے روکنے سے ایذاء لازم نہیں آتی۔ اس میں تو بولنے کے متعلق حکم فرمایا) اور (آگے پردہ کے متعلق ارشاد ہے اور امر مشترک دونوں میں فقط عفت ہے یعنی) تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو (مراد اس سے یہ ہے کہ محض کپڑا اوڑھ لپیٹ کر پردہ کرلینے پر کفایت مت کرو بلکہ پردہ اس طریقہ سے کرو کہ بدن مع لباس نظر نہ آئے، جیسا کہ آج کل شرفاء میں پردہ کا طریقہ متعارف ہے کہ عورتیں گھروں ہی سے نہیں نکلتیں، البتہ مواقع ضرورت دوسری دلیل سے مستثنیٰ ہیں) اور (آگے اسی حکم کی تاکید کے لئے ارشاد ہے کہ) قدیم زمانہ جہالت کے دستور کے موافق مت پھرو (جس میں بےپردگی رائج تھی گو بلافحش ہی کیوں نہ ہو، اور قدیم جاہلیت سے مراد وہ جاہلیت ہے جو اسلام سے پہلے تھی، اور اس کے مقابلہ میں ایک مابعد کی جاہلیت ہے کہ بعد تعلیم و تبلیغ احکام اسلام کے ان پر عمل نہ کیا جائے۔ پس جو تبرج بعد اسلام ہوگا وہ جاہلیت اخرٰی ہے، اس لئے تشبیہ میں تخصیص جاہلیت اولیٰ ہی ظاہر ہے، کیونکہ مشبہ و مشتبہ بہ کا تغائر ضروری ہے۔ مطلب یہ کہ جاہلیت اخریٰ جاری کر کے جاہلیت اولیٰ کا اقتداء نہ کرو جس کے مٹانے کو اسلام آیا ہے۔ یہاں تک احکام متعلقہ عفت کے تھے) اور (آگے دوسرے شرائع کا ارشاد ہے کہ) تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکوٰة (اگر نصاب کی مالک ہو) دیا کرو (کہ دونوں اعظم شعائر سے ہیں، اس لئے ان کی تخصیص کی گئی) اور (بھی جتنے احکام ہیں اور تم کو معلوم ہیں سب میں) اللہ کا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہنا مانو (اور ہم نے جو تم کو ان احکام کے اس التزام اور اہتمام کا مکلف فرمایا ہے تو تمہارا ہی نفع ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ کو (ان احکام کے بتانے سے تشریعاً ) یہ منظور ہے کہ اے (پیغمبر کے) گھر والو تم سے (معصیت و نافرمانی کی) آلودگی کو دور رکھے، اور تم کو (ظاہراً و باطناً وعملاً وخلقاً بالکل) پاک صاف رکھے (کیونکہ علم بالا حکام کے سبب مخالفت سے جو کہ موجب آلودگی اور مانع تطہیر ہے بچنا ممکن ہے) اور (چونکہ ان احکام پر عمل واجب ہے اور عمل موقوف ہی احکام کے جاننے اور ان کے یاد رکھنے پر اس لئے) تم ان آیات آلہیہ (یعنی قرآن) کو اور اس علم (احکام) کو یاد رکھو جس کا تمہارے گھروں میں چرچا رہتا ہے (اور یہ بھی پیش نظر رکھو کہ) بیشک اللہ تعالیٰ راز داں ہے (کہ اعمال قلوب کو بھی جانتا ہے اور) پورا خبردار ہے (کہ پوشیدہ اعمال کو بھی جانتا ہے، اس لئے ظاہراً و باطناً سراً و علانیةً امتثال اور امر اور اجتناب نواہی کا اہتمام واجب ہے)- معارف ومسائل - اس سورة کے مقاصد میں سے اہم مقصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء سے اور ہر ایسی چیز سے بچنے کی تاکید ہے جس سے آپ کو تکلیف پہنچے، نیز آپ کی اطاعت اور رضا جوئی کے موکد احکام ہیں۔ غزوہ احزاب کا تفصیلی واقعہ جو اوپر گزرا ہے اس میں کفار و منافقین کی طرف سے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذائیں پہنچیں ان کا ذکر اور اس کے ساتھ انجام کار موذی کفار و منافقین کا ذلیل و خوار ہونا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر موقع پر فتح مند اور کامیاب ہونا ذکر کیا گیا ہے، اور اس کے ساتھ ہی مومنین مخلصین جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم و اشارہ پر اپنا سب کچھ قربان کردیا، ان کی مدح وثناء اور درجات آخرت کا بیان تھا۔- مذکورہ الصدر آیات میں خاص ازواج مطہرات کو تعلیم ہے کہ وہ خصوصاً اس کا اہتمام کریں کہ آپ کو ان کے کسی قول و فعل سے ایذا نہ پہنچے، اور یہ جبھی ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مکمل اطاعت میں لگ جائیں۔ اس سلسلے کے چند احکام ازواج مطہرات کو خطاب کر کے بتلائے گئے ہیں۔- شروع آیات میں جو ازواج مطہرات کو طلاق لینے کا اختیار دینا مذکور ہے، اس کا ایک یا چند واقعات ہیں جو ازواج مطہرات کی طرف سے پیش آئے، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منشاء کے خلاف تھے، جن سے بلا قصد و اختیار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچی۔- ان واقعات میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت جابر کی روایت سے مفصل آیا ہے، اس میں مذکور ہے کہ ازواج مطہرات نے جمع ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا مطالبہ کیا کہ ان کا نان نفقہ بڑھایا جائے۔ تفسیر بحر محیط میں ابوحیان نے اس کی تشریح یہ بیان کی ہے کہ غزوہ احزاب کے بعد بنو نضیر پھر بنو قریظہ کی فتوحات اور اموال غنیمت کی تقسیم نے عام مسلمانوں میں ایک گونہ خوشحالی پیدا کردی تھی۔ ازواج مطہرات کو اس وقت یہ خیال ہوا کہ ان اموال غنیمت میں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابھی اپنا حصہ رکھا ہوگا، اس لئے انہوں نے جمع ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ، یہ کسریٰ و قیصر کی بیبیاں طرح طرح کے زیورات اور قیمتی لباسوں میں ملبوس ہیں، اور ان کی خدمت کے لئے کنیزیں ہیں، اور ہمارا حال فقر وفاقہ کا آپ دیکھتے ہیں، اس لئے اب کچھ توسیع سے کام لیا جائے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے یہ مطالبہ سنا کہ ان کے ساتھ وہ معاملہ کیا جائے جو بادشاہوں اور دنیا داروں میں ہوتا ہے تو آپ کو اس سے بہت رنج ہوا کہ انہوں نے بیت نبوت کی قدر نہ پہچانی۔ ازواج مطہرات کو خیال نہ تھا کہ اس سے آپ کو ایذا پہنچے گی، عام مسلمانوں میں مالی وسعت دیکھ کر اپنے لئے بھی وسعت کا خیال دل میں آ گیا تھا۔ ابوحیان نے فرمایا کہ اس واقعہ کو غزوہ احزاب کے واقعہ کے بعد بیان کرنے سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ ازواج کا یہ مطالبہ ہی تخییر طلاق کا سبب بنا۔ بعض روایات حدیث میں حضرت زینب کے گھر میں شہد پینے کا واقعہ جو آگے سورة تحریم میں مفصل آئے گا اس میں ازواج کی باہمی غیرت کے سبب جو صورت پیش آئی وہ تخییر طلاق کی سبب بنی۔ اگر یہ دونوں چیزیں قریبی زمانے میں پیش آئی ہوں تو یہ بعید نہیں کہ دونوں ہی سبب ہوں، لیکن آیت تخییر کے الفاظ سے زیادہ تائید اسی کی ہوتی ہے کہ ازواج مطہرات کی طرف سے کوئی مالی مطالبہ اس کا سبب بنا ہے۔ کیونکہ اس آیت میں فرمایا ہے۔ (آیت) ان کنتن تردن الحیوٰة الدنیا وزینتہا الاٰیة۔- اس آیت نے سب ازواج مطہرات کو اختیار دے دیا کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودہ حالت یعنی معاشی عسرت و تنگی کے ساتھ آپ کی زوجیت میں رہنا قبول کریں یا پھر آپ سے طلاق کے ساتھ آزاد ہوجائیں۔ پہلی صورت میں ان کو عام عورتوں کی نسبت سے بہت زیادہ اجر عظیم اور آخرت کے خاص درجات عالیہ عطا ہوں گے، اور دوسری صورت یعنی طلاق لینے میں بھی ان کو دنیا کے لوگوں کی طرح کسی تلخی و تکلیف کی نوبت نہیں آئے گی، بلکہ سنت کے مطابق کپڑوں کا جوڑا وغیرہ دے کر عزت کے ساتھ رخصت کیا جائے گا۔- ترمذی نے ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت تخییر نازل ہوئی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے اظہار و اعلان کی ابتداء مجھ سے فرمائی اور آیت سنانے سے پہلے فرمایا کہ میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، مگر تم اس کے جواب میں جلدی نہ کرنا، بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کر کے جواب دینا۔ صدیقہ فرماتی ہیں کہ یہ مجھ پر خاص عنایت تھی کہ مجھے والدین سے مشورہ کے بغیر اظہار رائے سے آپ نے منع فرمایا کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ میرے والدین مجھے کبھی یہ رائے نہ دیں گے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مفارقت اختیار کرلوں۔ میں نے جب یہ آیت سنی تو فوراً عرض کیا کہ کیا میں اس معاملے میں والدین سے مشورہ لینے جاؤ ں ؟ میں تو اللہ کو اور اس کے رسول کو اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہوں۔ پھر میرے بعد سب ازواج مطہرات کو قرآن کا یہ حکم سنایا گیا سب نے وہی کہا جو میں نے اول کہا تھا (کسی نے بھی دنیا کی فراخی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کے مقابلے میں قبول نہ کیا (قال الترمذی ہذا حدیث حسن صحیح)- فائدہ :- اختیار طلاق کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ طلاق کا اختیار عورت کے سپرد کردیا جائے، اگر وہ چاہے تو خود اپنے نفس کو طلاق دے کر آزاد ہوجائے۔ دوسرے یہ کہ طلاق شوہر ہی کے ہاتھ میں رہے کہ اگر عورت چاہے تو وہ طلاق دے دے۔- آیت مذکورہ میں بعض مفسرین نے پہلی صورت کو اور بعض نے دوسری کو اختیار کیا ہے۔ سیدی حکیم الامة نے بیان القرآن میں فرمایا کہ صحیح بات یہ ہے کہ آیت کے الفاظ میں دونوں احتمال ہیں، جب تک صریح نص سے ایک کی تعیین نہ ہوجائے اپنی طرف سے کسی صورت کو متعین کرنے کی ضرورت نہیں۔- مسئلہ :- اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب زوجین کی طبیعتوں میں مناسبت نہ ہو تو مستحب یہ ہے کہ بیوی کو اختیار دیا جائے کہ شوہر کی موجودہ حالت پر قناعت کر کے ساتھ رہنا چاہے تو رہے ورنہ سنت کے مطابق طلاق دے کر کپڑے کے جوڑے دے کر عزت کے ساتھ رخصت کردیا جائے۔- آیت مذکورہ سے اس معاملہ کا استحباب ہی ثابت کیا جاسکتا ہے وجوب پر کوئی دلیل نہیں۔ بعض ائمہ فقہاء نے اس آیت سے وجوب پر استدلال کیا ہے، اور اسی بناء پر ایسے مفلس آدمی کی بیوی کو عدالت کی طرف سے طلاق دینے کا حق دیا ہے جو بیوی کو نفقہ دینے پر قادر نہیں۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل احکام القرآن حزب خامس میں اسی آیت کے تحت میں بزبان عربی مذکور ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 20- يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَہَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا۝ ٢٨- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی:- فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] - ( ز و ج ) الزوج - جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] ،- دنا - اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔- زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی:- وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] ،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔- سرح - السَّرْحُ : شجر له ثمر، الواحدة : سَرْحَةٌ ، وسَرَّحْتُ الإبل، أصله : أن ترعيه السَّرْحَ ، ثمّ جعل لكلّ إرسال في الرّعي، قال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ- [ النحل 6] ، والسَّارِحُ : الرّاعي، والسَّرْحُ جمع کا لشّرب «2» ، والتَّسْرِيحُ في الطّلاق، نحو قوله تعالی: أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقوله : وَسَرِّحُوهُنَّ سَراحاً جَمِيلًا - [ الأحزاب 49] ، مستعار من تَسْرِيحِ الإبل، کالطّلاق في كونه مستعارا من إطلاق الإبل، واعتبر من السّرح المضيّ ، فقیل : ناقة سَرْحٌ: تسرح في سيرها، ومضی سرحا سهلا . والْمُنْسَرِحُ : ضرب من الشّعر استعیر لفظه من ذلك .- ( س ر ح) السرح - ایک قسم کا پھلدار درخت ہے اس کا واحد سرحۃ ہے اور سرحت الابل کے اصل معنی تو اونٹ کو سرح ، ، درخت چرانے کے ہیں بعدہ چراگاہ میں چرنے کے لئے کھلا چھوڑ دینے پر اس کا استعمال ہونے لگا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ [ النحل 6] اور جب شام کو انہیں ( جنگل سے ) لاتے ہو اور جب صبح کو ( جنگل ) چرانے لے جاتے ہو تو ان سے تمہاری عزت وشان ہے ۔ اور چروا ہے کو ، ، سارح کہاجاتا ہے اس کی جمع سرح ہے جیسے شارب کی جمع شرب ( اور راکب کی جمع رکب ) آتی ہے اور تسریح کا لفظ طلاق دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا : أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔ اور اسی طرح آیت : وَسَرِّحُوهُنَّ سَراحاً جَمِيلًا[ الأحزاب 49] اور ان کو کچھ فائدہ ( یعنی خرچ ) دے کر اچھی طرح سرے رخصت کردو ۔ میں بھی سرحوھن کے معنی طلاق دینے کے ہیں اور یہ تسریح سے مستعار ہے جس کے معنی جانوروں کو چرنے کے لئے چھوڑ دینا کے ہیں ۔ جیسا کہ خود طلاق کا لفظ اطلاق الابل ( اونٹ کا پائے بند کھولنا) کے محاورہ سے مستعا رہے ۔ اور کبھی سرح ، ، میں تیز روی کے معنی کا اعتبار کر کے تیز رو اور سہل رفتار اونٹنی کو ناقۃ سرح کہاجاتا ہے اور اسی سے بطور ستعارہ شعر کے ایک بحر کا نام منسرح رکھا گیا ہے ۔- جمیل - الجَمَال : الحسن الکثير، وذلک ضربان :- أحدهما : جمال يخصّ الإنسان في نفسه أو بدنه أو فعله .- والثاني : ما يوصل منه إلى غيره . وعلی هذا الوجه ما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ اللہ جمیل يحبّ الجمال» «2» تنبيها أنّه منه تفیض الخیرات الکثيرة، فيحبّ من يختص بذلک . وقال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل 6] ، ويقال : جَمِيلٌ وجَمَال علی التکثير . قال اللہ تعالی: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف 83]- ( ج م ل ) الجمال - کے معنی حسن کثیر کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے ۔- (1) وہ خوبی جو خاص طور پر بدن یا نفس یا عمل میں پائی جاتی ہے ۔ (2) وہ خوبی جو دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے اسی معنی میں مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا (66) ان اللہ جمیل يحب الجمال ۔ کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو محبوب رکھتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے خیرات کثیرہ کا فیضان ہوتا ہے لہذا جو اس صفت کے ساتھ متصف ہوگا ۔ وہی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا ۔ اور قرآن میں ہے :۔ وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل 6] اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو ۔۔ تو ان سے تمہاری عزت و شان ہے ۔ اور جمیل و جمال وجمال مبالغہ کے صیغے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔- فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف 83] اچھا صلہ ( کہ وہی ) خوب ( ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج کو اختیار دے دیا کہ چاہیں نکاح ہی میں رہیں یا طلاق لے لیں - قول باری ہے (یایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا و زینتھا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی بہار کو مقصود رکھتی ہو) تاآخر آیت۔- ہمیں عبداللہ بن محمد المروزی نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن ابی الربیع الجر جانی نے ، انہیں معمر نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے، وہ فرماتی ہیں کہ جب آیت (وان کنتن تردن اللہ ورسولہ۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو مقصود رکھتی ہو) نازل ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے پہلے میرے پاس آئے اور فرمایا : عائشہ (رض) میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، اس کے متعلق جلد بازی سے کام نہ لینا بلکہ اپنے والدین سے مشوروہ کرلینا۔ “ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اللہ کو یہ معلوم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا ہوجانے کا کبھی مشورہ نہیں دیں گے۔- بہرحال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بات مکمل کرکے (یایھا النبی قل لازواجک) تا اخر آیت مجھے سنائی۔ میں نے عرض کیا : میں کیوں اپنے والدین سے مشورہ لوں، میں تو اللہ ، اس کے رسول اور دار آخرت کو مقصود رکھتی ہوں۔ “- حسن بن ابی الربیع جرجانی کے علاوہ دوسرے راوی نے عبدالرزاق سے روایت کی ہے کہ معمر نے کہا مجھے ایوب نے خبر دی کہ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا۔” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنی بیویوں کو اختیار دیں گے تو میں آپ کی رفاقت اختیار کروں گی۔ “ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ تکلیف پہنچانے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت میں اختیار دینے کا جو حکم مذکور ہے اس کے مفہوم کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا اور آخرت میں سے ایک کے انتخاب کا اختیار دیا تھا کیونکہ قول باری ہے (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا) تا قول باری (وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والداء الاخرۃ) ۔- دوسرا حضرات کا قول ہے کہ یہ بات نہیں بلکہ انہیں طلاق کے انتخاب کا اختیار دیا گیا تھا اور شرط یہ تھی کہ اگر وہ دنیا اور اس کی زیب وزینت کو پسند کرلیں تو گویا انہوں نے طلاق کا انتخاب کرلیا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسر حکن سراحا جمیلا) اگر تم دنیوی زندگی اور اس کو بہار کو مقصود رکھتی ہو تو آئو میں تمہیں کچھ متاع دنیوی دے دلا کر خوبی کے ساتھ رخصت کردوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے دنیا اختیار کرنے کا طلاق اختیار کرنا قرار دیا۔- یہ حضرات اس پر اس روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں جو مسروق نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کی ہے کہ جب ان سے ایک شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو اختیار دے دیا تھا تو انہوں نے فرمایا : ہمیں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختیار دیا تھا ، کیا یہ اختیار طلاق کی صورت میں تبدیل ہوگیا تھا ؟ “ بعض طرق کے الفاظ یہ ہیں ” ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار کرلیا تھا۔ آپ نے اسے طلاق شمار نہیں کیا تھا۔ “- ان حضرات نے مزید کہا ہے کہ یہ بات ثابت نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اس اختیار کے سوا اور کوئی اختیار دیا ہو جس کا آیت میں حکم دیا گیا تھا۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب زیر بحث آیت نازل ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : عائشہ (رض) میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، اس کے متعلق جلد بازی نہ کرنا بلکہ اپنے والدین سے اس بارے میں مشورہ کرلینا۔ “ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اللہ کو یہ معلوم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ سے علیحدگی کا کبھی مشورہ نہیں دیں گے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بات ختم کرکے آیت تلاوت کی۔ اس پر حضرت عائشہ (رض) نے کہا : ” میں تو اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دار آخرت کو مقصود رکھتی ہوں۔ “- ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس روایت میں بھی کئی وجوہ سے اس بات پر دلالت ہورہی ہے کہ آپ نے انہیں دنیا اور آخرت میں سے ایک کے انتخاب کا نیز طلاق لینے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقد میں باقی رہنے میں سے ایک کو پسند کرلینے کا اختیار دیا تھا۔ کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا تھا : اس معاملہ میں جلد بازی نہ کرنا بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کرلینا۔ “ اور یہ بات تو واضح ہے کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو اختیار کرلینے کے لئے باہمی مشورے نہیں ہوتے۔- اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مشورہ طلب کرنے کے معاملہ طلاق لے لینے یا عقد نکاح میں باقی رہنے میں سے ایک کے انتخاب کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔ پھر حضرت عائشہ (رض) کا یہ قول کہ ” اللہ کو علم تھا کہ میرے ماں باپ مجھے آپ سے علیحدگی اختیار کرنے کا کبھی مشورہو نہیں دیں گے۔ “ نیز یہ قول کہ ” میں اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دار آخرت کو مقصود رکھتی ہوں۔ “- یہ تمام باتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ آیت طلاق اور نکاح کے درمیان تخییر کی مقتضی ہے جن حضرات کے نزدیک آیت میں طلاق کی تخییر نہیں ہے وہ قول باری (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلا) سے استدلال کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے نبی کو صرف انہیں طلاق دینے کا حکم دیا ہے بشرطیکہ وہ دنیا کا انتخاب کرلیں۔ لیکن یہ بات دنیا کے انتخاب کی صورت میں ان پر وقوع طلاق کی موجب نہیں ہے جس طرح مثلاً کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے ” اگر تو فلاں چیز کا انتخاب کرلے تو تجھے طلاق “ اس کی مراد اس سے یہ ہوتی ہے کہ بیوی جب اس چیز کا انتخاب کرلے گی تو وہ نئے سرے سے اسے طلاق دے گا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت لامحالہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی اور آپ کے عقد میں رہنے کے درمیان تخییر کی مقتضی ہے کیونکہ قول باری (وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدار الاخرۃ) اس پر دلالت کررہا ہے کہ قول باری (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا) میں ان کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی اختیار کرنے کی بات بھی پوشیدہ تھی۔ کیونکہ مذکورہ بالا پہلی آیت میں جس اختیار کر ذکر ہے اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت اور دارآخرت کو اختیار کرنا مراد ہے۔- اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سلسلہ تلاوت میں پہلی دفعہ جس اختیار کا ذکر ہے وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی کا اختیار تھا۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (فتعالین امتعکن) اور ظاہر ہے کہ بیوی کو متعہ کی صورت میں نقد وجنس اسی صورت میں دی جاتی ہے جب وہ طلاق کا انتخاب کرلے اور مطلقہ بن جائے۔- قول باری (واسرحکن) سے طلاق کے بعد انہیں ان کے گھروں سے رخصت کردینا مراد ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (اذا نکحتم المومنات ثم طلقتموھن۔ جب تم مومنات سے نکاح کرو اور پھر انہیں طلاق دے دو ) تاقول باری (سراجاً جمیلا۔ اچھی طرح رخصت کردو) یہاں طلاق کے بعد متعہ دینے کا ذکر ہوا اور تشریح کے لفظ سے انہیں اچھی طرح گھر سے رخصت کرنا مرا د لیا گیا ہے۔- کوئی شخص اپنی بیوی کو اختیار دے کر میرے نکاح میں رہنا ہے یا نہیں،- تو کیا طلاق واقع ہوگی ؟- ایک شخص اگر اپنی بیوی کو اختیار دے دیتا ہے تو اس مسئلے میں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی (رض) کا قول ہے کہ اگر عورت نے شوہر کا انتخاب کرلیا یعنی اس کے عقد میں رہنے کا ارادہ ظاہر کیا تو اس پر ایک رجعی طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر شوہر کے مقابلہ میں اپنی ذات کا انتخاب کرلیا تو ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی۔ حضرت علی (رض) سے زادان نے یہی روایت کی ہے۔ - ابوجعفر نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ پہلی صورت میں اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور دوسری صورت میں ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی۔- حضرت عمر (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) کا قول ہے کہ اگر شوہر بیوی کو اختیار دے دے اور اس سے کہے کہ ” امرک بیدک “ (اب تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے) اگر وہ اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو اس پر ایک رجعی طلاق واقع ہوگی اور اگر شوہر کا انتخاب کرے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ حضرت زید بن ثابت (رض) نے خیار کے مسئلے میں فرمایا کہ اگر وہ شوہر کا انتخاب کرے گی تو اس پر کوئی طلاق نہیں ہوگی لیکن اگر وہ اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو اس پر تین طلاق واقع ہوجائے گی۔ اگر شوہر نے اسے ” امرک بیدک “ کہا ہو اور اس نے اپنی ذات کا انتخاب کرلیا ہو تو اس صورت میں اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔- اس مسئلے میں فقہاء امصار کے مابین بھی اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف امام محمد اور امام زفر کا قول ہے کہ اگر وہ شوہر کو اختیار کرلے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی بشرطیکہ شوہر نے تخییر کے اندر طلاق کا ارادہ کیا ہو۔- تاہم تین طلاق واقع نہیں ہوگی خواہ شوہر اس تعداد کا ارادہ کیوں نہ کرچکا ہو۔ ان حضرات نے ” امرک بیدک “ کی صورت میں بھی یہی کہا ہے البتہ اس صورت میں اگر شوہر تین طلاق کا ارادہ کرے گا تو بیوی پر تین طلاق واقع ہوجائے گی۔- ابن ابی لیلیٰ ، سفیان ثوری اوزاعی کا قول ہے کہ خیار کی صورت ہیں اگر وہ اپنے شوہر کو اختیار کرے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو اس پر ایک طلاق واقع ہوجائے گی اور شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار ہوگا۔- امام مالک کا قول ہے کہ خیار کی صورت میں اگر عورت اپنی ذات کا انتخاب کرلیتی ہے تو اس پر تین طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر وہ اپنی ذات کو ایک طلاق دے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ امام مالک نے ” امرک بیدک “ کی صورت میں کہا ہے کہ اگر عورت یہ کہے کہ میرا ارادہ ایک طلاق کا ہے تو اس پر ایک طلاق واقع ہوجائے گی تاہم شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار باقی رہے گا لیکن خیار کی صورت میں اگر شوہر کہے کہ اس نے صرف، ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس کے اس قول کی تصدیق نہیں کی جائے گی۔ اگر شوہر نے یہ کہا ہو۔ ” اختاری تطلیقۃ “ (ایک طلاق کا انتخاب کرلو) پھر عورت نے طلاق دے دی ہو تو یہ ایک طلاق رجعی ہوگی۔- لیث بن سعد نے خیار کی صورت کے متعلق کہا ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کو اختیار کرے تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر اپنی ذات کا انتخاب کرلے تو اس پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔- امام شافعی نے ” اختادی “ نیز ” امرک بیدک “ کی صورت میں کہا ہے کہ اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی الا یہ کہ شوہر اس سے طلاق کا ارادہ کرچکا ہو۔ اگر شوہر نے طلاق کا ارادہ کیا ہو اور بیوی کہے کہ میں نے اپنی ذات کا انتخاب کرلیا ہے یہ کہتے ہوئے بیوی بھی اگر طلاق کا ارادہ کرے گی تو اس پر طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر بیوی طلاق کا ارادہ نہیں کرے گی تو اس پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ تخییر فی نفسہٖ طلاق نہیں ہے نہ صریحاً نہ کنایۃً ۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ تخییر کی صورت میں تین طلاقیں واقع نہیں ہوتیں خواہ شوہر نے ان کا ارادہ کیوں نہ کیا ہو۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات کو اختیار دیا تھا سب نے آپ کی ذات کو اختیار کرلیا لیکن یہ اختیار طلاق نہیں کہلایا۔ نیز خیار صرف طلاق کے ساتھ خاص نہیں ہوتا اس میں دوسری باتیں بھی شامل ہوتی ہیں اس لئے خیار طلاق پر دلالت نہیں کرتی۔- مخالفین کے نزدیک اس کی حیثیت اس فقرے جیسی نہیں ہے جو شوہر اپنی بیوی سے کہتا ہے یعنی ” اعتدی “ (تو عدت گزار) اس فقرے سے اگر شوہر طلاق کا ارادہ کرتا ہے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے کیونکہ عدت طلاق کی بنا پر واجب ہوتی ہے اس لئے اس لفظ میں طلاق پر دلالت موجود ہے۔- فقہاء نے خیار کو بالاتفاق اس وقت طلاق قرار دیا ہے جب عورت اپنی ذات کا انتخاب کرے ۔- فقہاء کے اتفاق کے علاوہ اس کی یہ دلیل بھی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ازواج مطہرات کو اختیار دیا تھا تو سب جانتے ہیں کہ یہ اختیار علیحدگی اختیار کرنے اور عقد نکاح میں باقی رہنے کے درمیان تھا۔ اگر اس صورت میں ازواج مطہرات اپنی ذات کا انتخاب کرلیتیں تو علیحدگی واقع ہوجاتی۔ اگر اپنی ذات کا انتخاب کرلینے کے بعد بھی علیحدگی واقع نہ ہوتی تو تخییر بےمعنی ہوتی۔- نکاح کے اندر پیدا ہونے والے خیار کی تمام صورتوں مثلاً نامرد اور محبوب (مقطوع الذکر) کی بیویوں کے خیار کے ساتھ درج بالا خیار کو تشبیہ دے کر یہ مسئلہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر اس خیار میں عورت اپنی ذات کا انتخاب کرلے تو علیحدگی واقع ہوجائے گی۔ اسی بنا پر اس خیار کے نتیجے میں فقہاء کے نزدیک تین طلاق واقع نہیں ہوتی کیونکہ اصول کے اندر پیدا ہونے والے خیار کی صورتوں میں تین طلاق واقع نہیں ہوتی۔- فصل - نا ونفقہ مہیا نہ کر سکنا اس زمرے میں نہیں آتا - ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بعض حضرات اس آیت سے ایجاب خیار اور اس عورت کی علیحدگی پر استدلال کرتے ہیں جس کا شوہر نان ونفقہ دینے سے عاجز ہوگیا ہو کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا گیا اور آپ نے آخرت اور فقر کو اختیار کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی بیویوں کی تخییر کا حکم دیا۔- چنانچہ ارشاد ہوا (یایھا النبی قل لا زواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا) تا آخر آیت۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ان حضرات نے آیت سے جو استدلال کیا ہے اس پر آیت کی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ازواج مطہرات سے علیحدگی کا جو اختیار دیا تھا وہ اس شرط پر معلق رکھا گیا تھا کہ ازواج مطہرات دنیاوی زندگی اور اس کی بہار کا انتخاب کرلیں۔- اب یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہماری عورتوں میں اگر کوئی دنیاوی زندگی اور اس کی بہار کا انتخاب کرلے تو یہ بات اس کے شوہر سے اس کی علیحدگی کی موجب نہیں بنتی۔ جب وہ سبب جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکور تخییر کو واجب کردیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا دوسرے شوہروں کی بیویوں میں تخییر کا موجب نہیں ہے تو اس صورت میں یہ سبب ایک عورت اور اس کے نان ونفقہ دینے سے عاجز شوہر کے درمیان تفریق پر دلالت نہیں کرے گا۔- نیزحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دنیا کی بجائے آخرت اور دولتمندی کی بجائے فقر کو اختیار کرلینے سے یہ بات واجب نہیں ہوتی کہ آپ زاواج مطہرات کے نان ونفقہ سے عاجز تھے کیونکہ ایک شخص فقیر ہونے کے باوجود اپنی بیویوں کے نان ونفقہ پر قدرت رکھتا ہے۔ کسی اہل علم نے یہ دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی اس قسم کی کوئی روایت موجود ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ازواج مطہرات کوئی نان ونفقہ مہیا کرنے سے عاجز تھے۔- اس کے برعکس یہ روایات موجود ہیں کہ آپ ازواج مطہرات کے لئے سال بھر کی خوراک کا ذخیرہ کرلیتے تھے۔ اس لئے جس شخص نے بھی اپنے مذکورہ قول پر اس آیت سے استدلال کیا ہے وہ دراصل آیت کے حکم سے ہی ناواقف ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے نبی آپ اپنی بیویوں سے فرما دیجیے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی بہار چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں مطلقہ جوڑہ دے دوں اور تمہیں سنت کے مطابق طلاق دے دوں۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ (الخ)- امام مسلم، امام احمد اور امام نسائی نے ابو الزبیر کے واسطہ سے حضرت جابر سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رسول اکرم کی خدمت میں باریابی کی اجازت لینے کے لیے حاضر ہوئے انہیں اجازت نہیں دی گئی پھر حضرت عمر نے حاضر ہو کر اجازت طلب کی مگر ان کو بھی نہ ملی اس کے بعد دونوں حضرات کو اجازت مل گئی۔ چناچہ دونوں اند حاضر ہوئے رسول اکرم تشریف فرما تھے اور آپ کے چاروں طرف ازواج مطہرات بیٹھی ہوئی تھیں اور آپ خاموش تھے۔ حضرت عمر نے اپنے دل میں کہا کہ میں حضور سے کوئی ایسی بات کرتا ہوں کہ ممکن ہے آپ کو ہنسی آجائے، چناچہ حضرت عمر اپنی بیوی کے بارے میں کہنے لگے یا رسول اللہ اگر زید کی بیٹی مجھ سے نفقہ کا مطالبہ کرے تو میں اس کی گردن توڑ دوں یہ سن کر رسول اکرم مسکرانے لگے حتی کہ آپ کے سامنے کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔ آپ نے فرمایا یہ سب جو میرے اردگرد بیٹھی ہیں یہ نفقہ ہی کی درخواست کر رہی ہیں۔- یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق، حضرات عائشہ کو مارنے کے لیے اور حضرت عمر حضرت حفصہ کو مارنے کے لیے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ تم رسول اکرم سے ایسی چیز مانگ رہی ہو جو آپ کے پاس نہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اختیار کی آیت نازل فرمائی۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ سے ابتدا فرمائی اور فرمایا کہ میں تم سے ایک بات کہتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ تم اس میں جلدی نہ کرو۔ جب تک کہ اپنے والدین سے اس بارے میں مشورہ نہ کرلو۔- حضرت عائشہ نے عرض کیا وہ کیا بات ہے آپ نے ان کے سامنے آیت مبارکہ تلاوت فرمائی۔ یہ سن کو وہ بولیں کیا اس چیز کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں گی بلکہ میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی کو پسند کرتی ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس رکوع کے مضمون کا ربط پہلے رکوع کے مضمون کے ساتھ ہے۔ دراصل یہ پورا مضمون معاشرتی اصلاحات سے متعلق ہے جس کی پہلی قسط کے طور پر کچھ احکام یہاں اس سورت میں بیان ہوئے ہیں جبکہ ان احکام کی دوسری قسط سورة النور میں ہے جو ایک سال بعد ٦ ہجری میں نازل ہوئی۔ ان اصلاحات میں عورتوں کے پردے کے بارے میں احکام بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے عرب میں عورتوں کے پردے کا رواج نہیں تھا۔ باہر نکلتے ہوئے عورتیں اگرچہ ایک بڑی سی چادر لپیٹ کر نکلتی تھیں لیکن وہ سر ڈھانپنے اور چہرہ چھپانے کا اہتمام نہیں کرتی تھیں۔ اسی طرح گھروں کے اندر بھی غیر محرم مردوں کا بےتکلف آنا جانا رہتا تھا اور گھر کی خواتین ان مردوں سے پردہ نہیں کرتی تھیں۔ چناچہ اس معاملے میں تدریجاً اصلاحی احکام دیے گئے اور کے اصول کے مطابق پردے کے ابتدائی حکم میں سب سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواجِ مطہرات (رض) کو مخاطب کیا گیا۔- قبل ازیں آیت ٢١ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات میں ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ گویا ایک باپ کی حیثیت سے ‘ ایک بیٹے کی حیثیت سے ‘ داماد کی حیثیت سے ‘ سسر کی حیثیت سے ‘ قاضی القضاۃ کی حیثیت سے ‘ سپہ سالار کی حیثیت سے ‘ سربراہ مملکت کی حیثیت سے ‘ امام ‘ خطیب ‘ ّمعلم ‘ مربی ‘ مزکی ‘ غرض ہر قابل ذکر حیثیت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور زندگی میں ایک کامل نمونہ ہے۔ لیکن بنیادی طور پر یہ نمونہ مردوں کے لیے ہے۔ مرد ہونے کی حیثیت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں عورتوں اور عورتوں کے نسوانی معاملات کے لیے تو مکمل نمونہ دستیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے عورتوں کی راہنمائی کے لیے ضروری تھا کہ کسی عورت کے کردار کو بطور نمونہ پیش کیا جاتا۔ چناچہ یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اُسوئہ مبارک کا ذکر فرمانے کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواجِ مطہرات (رض) کو خصوصی طور پر مخاطب کر کے گویا ان کے کردار کو دنیا بھر کی عورتوں کے لیے اسوہ بنانا مقصود ہے۔ یعنی جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات امت کے لیے اسوہ ہے عین اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواجِ مطہرات (رض) خصوصی طور پر خواتین ِاُمت کے لیے مثال اور نمونہ ہیں۔ اسی بنا پر انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ اگر تم نیکی کرو گی تو دوگنا اجر پائو گی ‘ اور اگر (خدانخواستہ) تم سے کوئی غلطی سرزد ہوئی تو اس کی سزا بھی تمہیں دوگنا ملے گی۔ اس لیے کہ اب تم لوگوں کی زندگیاں دنیا بھر کی مسلمان خواتین کے لیے اسوہ ہیں اور مسلمان خواتین کو رہتی دنیا تک تمہاری پیروی کرنا ہے ۔- آیت ٢٨ یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو “- فَتَعَالَـیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَاُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا ” تو آئو میں تمہیں کچھ مال و متاع دے کر اچھے طریقے سے رخصت کر دوں۔ “- یہ آیات واقعہ ایلاء سے متعلق ہیں۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ جب فتوحات کے باعث مدینہ میں کثرت سے مال غنیمت آنا شروع ہوا تو مجموعی طور پر مسلمانوں کے ہاں خوشحالی آنا شروع ہوگئی۔ ان حالات میں بربنائے طبع بشری ازواجِ مطہرات (رض) کی طرف سے بھی تقاضا آیا کہ اب ان کے نفقات بھی بڑھائے جائیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مطالبے کو سخت ناپسند فرمایا اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد کے ساتھ ایک بالا خانے میں منتقل ہوگئے اور ایک ماہ تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی کسی بھی اہلیہ محترمہ کے پاس نہ جانے کی قسم کھالی۔ جونہی یہ خبر لوگوں تک پہنچی تو مدینے میں گویا ایک کہرام مچ گیا۔ ہر کوئی پریشان تھا اور ہر کسی کے ذہن میں سوال تھا کہ اب کیا ہوگا ؟ کیا حضرت ابوبکر (رض) کی بیٹی حضرت عائشہ (رض) کو طلاق ہوجائے گی ؟ کیا حضرت عمر (رض) کی بیٹی حضرت حفصہ (رض) کو طلاق ہوجائے گیـ؟- شوہر کی طرف سے بیوی کے ساتھ کسی وجہ سے قطع تعلقی کی قسم کھا لینے کو فقہ کی اصطلاح میں ” ایلاء “ کہا جاتا ہے۔ اس کا حکم سورة البقرۃ میں اس طرح آیا ہے : لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِہِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْہُرٍج فَاِنْ فَآ ئُ وْ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ” جو لوگ اپنی بیویوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں ‘ ان کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے ‘ پس اگر وہ رجوع کرلیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ “ زیر مطالعہ آیات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایلاء فرمانے کے بعد نازل ہوئیں۔ ان آیات کی ہدایات کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواجِ مطہرات (رض) کو واضح طور پر اختیار دے دیا کہ وہ دوراستوں میں سے جو راستہ چاہیں قبول کرلیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :41 یہاں سے نمبر ۳۵ تک کی آیات جنگ احزاب اور بنی قریظہ سے متصل زمانے میں نازل ہوئی تھیں ۔ ان کا پس منظر ہم دیباچہ میں مختصراً بیان کر آئے ہیں ۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبد اللہ اس زمانے کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے گرد بیٹھی ہیں اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) خاموش ہیں ۔ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خطاب کر کے فرمایا : ھُنَّ کَمَا تَرٰی یَسْألْنَنِی النفقۃ ، یہ میرے گرد بیٹھی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو ۔ یہ مجھ سے خرچ کے لیے روپیہ مانگ رہی ہیں ۔ اس پر دونوں صاحبوں نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کرتی ہو اور وہ چیز مانگتی ہو جو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس نہیں ہے ۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس وقت کیسی مالی مشکلات میں مبتلا تھے اور کفر و اسلام کی انتہائی شدید کشمکش کے زمانے میں خرچ کے تقاضے مزاج مبارک پر کیا اثر ڈال رہے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani